اہل بیت سے مراد کون حضرات ہیں؟
اہل بیت سے مراد کون حضرات ہیں؟
0 Vote
86 View
سورہ ٴمبارکہٴ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے:
< إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>(1)
”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ( اے اہل بیت پیغمبر!) تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔
آیہٴ شریفہ کے پیش نظر ،یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ یہ آیہٴ شریفہ ازواج پیغمبر کی شان میں نازل ہو نے والی آیات کے درمیان واقع ہے، لیکن اس آیت کا انداز بدلا ہوا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس آیت کا ایک دوسرا مقصد ہے، کیونکہ اس سے پہلی اور بعد والی آیات میں ”جمع موٴنث“ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں لیکن اس آیت میں ”جمع مذکر“ کا صیغہ استعمال ہوا ہے!
آیت کے شروع میں ازواج پیغمبر (ص) کو خطاب کیا گیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں ،اور عرب کی جاہلیت کے رسم و رواج کی طرح لوگوں کے سامنے نہ نکلیں، عفت کی رعایت کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں نیز خدا اور رسول کی اطاعت کریں،
<وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلاَتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْاٴُولَی وَاٴَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّکَاةَ وَاٴَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَہُ>
آیت کے اس حصہ میں تمام چھ ضمیریں ”جمع موٴنث“ کی استعمال ہوئی ہیں۔ (غور کیجئے )
اس کے بعد لہجہ بدل جاتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ کا ”صرف“ ارادہ یہ ہے کہ تم اہل بیت سے رجس کو دور رکھے اور تمہیں مکمل طور پر پاک رکھے“،< إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>(2)
آیت کے اس حصہ میں دونوں ضمیریں جمع مذکر کے لئے استعمال ہوئی ہیں۔
یہ بات صحیح ہے کہ عام طور پر آیت کا سیاق و سباق ایک مطلب کو بیان کرتا ہے لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کے برخلاف کوئی قرینہ اور شاہد نہ ہو، لہٰذا جو لوگ آیت کے اس حصہ کو بھی ازواج پیغمبر (ص) کی شان میں سمجھتے ہیں ان کا نظریہ ظاہر آیت اور اس میں موجود قرینہ کے برخلاف ہے، یعنی ان دونوں حصوں میں ضمیریں مختلف ہیں لہٰذا دو جدا جدا مطلب ہیں۔
اس کے علاوہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں بڑے بڑے سنی اور شیعہ علمانے خود پیغمبر اکرم (ص) سے متعدداحادیث نقل کی ہیں، اور فریقین کے معتبر منابع و مآخذ میں اس کو قبول کیا گیا ہے، اور ان روایات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
یہ تمام روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ مذکورہ آیہٴ شریفہ پیغمبر اکرم (ص)، حضرت علی،حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، (نہ کہ ازواج پیغمبر کی شان میں) جیسا کہ بعد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
آیت میں لفظ ”انّما“ استعمال کیا گیا جو حصر کے معنی میں ہے جس کے معنی ”صرف“ ہوتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیہٴ شریفہ میں آل ِنبی (ص)کے لئے جو خاص عظمت قرار دی گئی ہے وہ کسی دوسرے کے لئے نہیں ہے۔
بعض مفسرین اہل سنت نے اہل بیت میں ازواج نبی کو بھی شامل کیا ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کا سیاق اور آیت کے پہلے اور بعد والے حصے میں استعمال ہونے والی ”جمع مونث“ کی ضمیروں کی جگہ اس حصہ میں ”جمع مذکر“ کی ضمیروں کا استعمال کیا گیا ہے جوایک واضح دلیل ہے کہ اس حصہ کا ایک الگ مطلب ہے، اور اس سے مراد ایک دوسری چیز ہے، کیا خداوندعالم ”حکیم“ نہیں ہے، اور کیا قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت بلند وبالا نہیںہے اور اس کے تمام الفاظ کوئی حساب و کتاب نہیں رکھتے؟
لیکن مفسرین کی ایک جماعت نے آیہ تطہیر کو پیغمبر اکرم، علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) سے مخصوص کیا ہے، اس سلسلہ میں ہم شیعہ سنی منابع میں وارد ہونے والی روایات میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں جواس تفسیرپر گواہ ہیں۔
اور شاید انھیں روایات کی وجہ سے بعض لوگوں نے آیہٴ شریفہ کو اہل بیت سے مخصوص نہیں مانا، لیکن انھوں نے مذکورہ آیت کے ایک وسیع معنی بیان کئے ہیں جس میں اہل بیت بھی شامل ہوں اور ازواج رسول بھی، یہ آیت کی ایک تیسری تفسیر ہے۔
جو روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیت پیغمبر اکرم (ص) ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہے، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، صرف تفسیر ”الدر المنثور“ میں ۱۸/ حدیث نقل ہوئی ہیں، جن میں سے پانچ روایت امّ سلمہ سے ، تین ابو سعید خدری سے، ایک عائشہ سے، ایک انس سے، دو روایت ابن عباس سے، دو روایت ابی الحمراء سے، ایک روایت وائلہ بن اسقع سے، ایک روایت سعد سے ، ایک روایت ضحاک بن مزاحم سے اور ایک روایت زید بن ارقم سے نقل کی گئی ہے۔(3)
جناب علامہ طباطبائی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر ”المیزان“ میں اس سلسلہ میں بیان ہونے والی روایات کی تعداد ۷۰ / تک بیان کی ہے، موصوف فرماتے ہیں: اہل سنت کے ذریعہ اس سلسلہ میں نقل ہونے والی روایات شیعہ طریقہ سے بیان ہونے والی روایات سے بھی زیادہ ہیں! اس کے بعد موصوف نے مذکورہ ناموں کے علاوہ بہت سے نام شمار کرائے ہیں، یعنی تفسیر الدر المنثور کے علاوہ دوسری کتابوں میں بیان ہونے والے راویوں کے نام بیان کئے ہیں۔
بعض حضرات نے ان روایات اور جن کتابوں میں یہ روایات نقل ہوئی ان کی تعداد سیکڑوں تک بتا ئی ہے اور ایسا ہونا بعید بھی نہیں ہے۔
ہم یہاں پر ان روایات کے چند نمونے مع منابع و مآخذ نقل کرتے ہیں تاکہ”اسباب النزول “ میں ”واحدی“ کی بات روشن ہوجائے، جو واقعاً ایک حقیقت ہے، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
<إنَّ الٓا یةَ نَزَلَتْ فِي النَّبيِّ(ص) ،وعَلیّ و فَاطِمَةَ والحَسنین (ع) خاصة لایشارکھُم فیھا غیرَھُم>
”یہ آیہٴ شریفہ پیغمبر اکرم (ص) ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہے اور کوئی دوسرا اس میں شامل نہیں ہے“۔(4)
چنا نچہ ان احادیث کا خلاصہ چار حصوں میں کیا جاسکتا ہے:
۱۔ جن احادیث کو پیغمبر اکرم (ص) کی بعض ازواج نے نقل کیا ہے جو واضح طور پر کہتی ہیں
کہ جس وقت آنحضرت (ص) نے اس آیہٴ شریفہ کی گفتگو فرمائی تو آپ سے سوال کیا کہ کیا ہم لوگ بھی اس آیت میں شامل ہیں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم خیر پر ہو لیکن اس آیت میں شامل نہیں ہو!
جیسا کہ ثعلبی اپنی تفسیر میں ”ام سلمیٰ ( زوجہ پیغمبر)سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنے حجرے میں تشریف فرما تھے کہ جناب فاطمہ (س) آنحضرت (ص) کی خدمت میں کھا نالائیں تو آپ نے فرمایا: اپنے شوہر نامدار اور دونوں بیٹوں حسن و حسین (علیہم السلام) کو بھی بلالاؤ، اور جب یہ سب حضرات جمع ہوگئے سب نے ساتھ میں کھانا تناول کیا اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے ان پر اپنی عبا ڈالی اور فرمایا:
”اَللَّھُمَ! إِنَّ ھولاء اٴہلَ بَیتِی وَ عِتْرتِی فَاَذْھِب عَنھُم الرَّجس وطھّرھُم تَطْھِیْراً“
”خداوندا! یہ میرے اہل بیت اور میری عترت ہیں، ان سے رجس اور برائی کو دور فرما، اور ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ قرار دے“۔
اسی موقع پر آیہ ٴ < إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ> نازل ہوئی ، میں (امّ سلمیٰ) نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے ساتھ ہوں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: انکِ إلی خَیرٍ ”تم خیر پر ہو“ (لیکن ان میں شامل نہیں ہو) (5)
نیز اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین”ثعلبی“ (6) جناب عائشہ سے اس طرح نقل
کرتے ہیں : جب لوگوں نے جنگ جمل اور اس جنگ میں آپ کی دخالت کے بارے میں سوال کیا تو (بہت افسوس کے ساتھ) جواب دیا: یہ ایک تقدیر الٰہی تھی! اور جب حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا تو کہا:
” تساٴلیني عن اٴحبِ النَّاسِ کان إلیٰ رسولِ الله وَ زوجٌ اٴحب النَّاسِ کانَ إلیٰ رسولِ الله، لقد راٴیْت علیاً و فَاطمَة و حسناً وحسیناً و جمع رسول الله بثوبٍ علیھم ثم قال:اللّٰھم ھولاء اٴہل بیتي و حامتي فاذّھب عنھم الرِّجس و طھّرھم تطھیراً، قالت : فقلتُ یا رسولَ الله ! اٴنا من اٴھلک قال تنحّی فَإنَّکِ إلیٰ خَیر“(7)
”کیا مجھ سے اس شخص کے بارے میں سوال کرتے ہو جو پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھا ،اور اس کے بارے میں سوال کرتے ہو جو رسول اللہ (ص) کی چہیتی بیٹی کا شوہر ہے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے علی، فاطمہ ،حسن وحسین (علیہم السلام ) کو ایک چادر کے نیچے جمع کیا اور فرمایا: پالنے والے! یہ میرے اہل بیت اور میرے حامی ہیں ان سے رجس اور برائی کو دور فرما، اوران کو پاک و پاکیزہ قرار دے، اس وقت میں نے کہا: یا رسول اللہ (ص) کیا میں بھی ان (اہل بیت) میں شا مل ہوں تو آنحضرت نے فرمایا: تم یہاں سے چلی جاؤ تم خیر پر ہو (لیکن ان میں شامل نہیں ہو، اس طرح کی حدیثیں صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کہ ازواج پیغمبر اہل بیت میں شامل نہیں تھیں)“۔
۲۔ حدیث کسا بہت ،سی کتابوں میں مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے، جن کا مشترک بیان یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمہ زہرا، اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہم السلام کو ایک جگہ جمع کیا (یا یہ حضرات خود آپ کی خدمت میں آئے) پیغمبر اکرم (ص) نے ان
پر اپنی عبا (یا چادر) اڑھائی اور دعا کی: خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر قسم کے رجس اوربرائی کو دور فرما، چنانچہ اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: < إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث کو صحیح مسلم ، مستدرک حاکم ، سنن بیہقی، تفسیر ابن جریر اور تفسیرسیوطی الد ر المنثور میں نقل کیا گیا ہے۔(8)
حاکم حسکانی نے بھی ”شواہد التنزیل“ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے(9) ”صحیح ترمذی“ میں بھی یہ حدیث بارہا بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک جگہ ”عمر بن ابی سلمہ“ اور دوسری جگہ ”ام سلمہ“ سے نقل کیا گیا ہے۔(10)
ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ”فخر رازی“ نے آیہ مباہلہ (سورہ آل عمران ، آیت ۶۱) کے ذیل میں اس حدیث (حدیث کساء) کو نقل کرنے کے بعد اضافہ کیا ہے:
”وَاعلمْ إنَّ ھٰذِہِ الرِّوایةُ کالمُتَّفقِ عَلیٰ صحتِھا بَین اٴہلَ التَفْسِیرِ وَالْحَدِیثِ“(11)
”معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اس روایت کی طرح ہے جوتمام مفسرین اور محد ثین کے نزدیک متفق علیہ ہو“۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امام ”احمد بن حنبل“ نے اپنی مسند میں اس حدیث کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے۔(12)
۳۔ بہت سی روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس آیہ ٴ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد چندمہینے تک (بعض روایات میں ۶ مہینے، بعض میں ۸ مہینے اور بعض میں ۹ مہینے ذکر ہوئے ہیں) نماز صبح کے وقت پیغمبر اکرم (ص) جب در ِفاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے گزرتے تھے تو فرمایا کرتے تھے:
”الصلاة! یا اٴہلَ البیتِ! < إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>
”اے اہل بیت نماز کا وقت ہے، خداوندعالم کا ارادہ ہے کہ تم سے ہر قسم کے رجس اور برائی کو دور رکھے اور ایسا پاکیزہ قرار دے جیسا پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“!
اس حدیث کو مشہور و معروف مفسر حاکم حسکانی نے اپنی تفسیر ”شواہد التنزیل“ میں ”انس بن مالک“ سے نقل کیا ہے۔(13)
اسی مذکورہ کتاب میں ایک دوسری حدیث کے ضمن میں ”سات مہینے“ کی روایت ”ابی الحمراء“ سے نقل کی ہے،(یعنی پیغمبر اکرم (ص) سات مہینے تک درِ فاطمہ پر آکر مذکورہ جملے فرمایا کرتے تھے)
نیز اسی کتاب میں آٹھ مہینے کی روایت ”ابو سعید خدری“ سے نقل کی گئی ہے۔(14)
قار ئین کرام! مدت میں فرق ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ انس نے چھ ماہ، ابوسعید خدری نے آٹھ ماہ اور ابن عباس نے نو ماہ تک اس چیز کا مشا ہد ہ کیا ہو(15)
جس نے جتنی مدت دیکھا ہے اسی اعتبار سے نقل کیا ہے حالانکہ ان کی روایت میں کوئی
دوسرا اختلاف نہیں ہے۔
بہر حال اتنی مدت تک پیغمبر اکرم (ص) کا ہر روز اسی عمل کی تکرار کرنا ایک طے شدہ مسئلہ تھا، کیونکہ آنحضرت (ص) اپنے اس عمل سے یہ بات بالکل واضح کرناچاہتے تھے کہ ”اہل بیت“ سے مراد صرف اس گھر کے رہنے والے ہیں، تاکہ آنے والے زمانہ میں کسی کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے، اور یہ باتسب کو معلوم ہوجائے کہ یہ آیت صرف اور صرف ان حضرات کی شان میں نازل ہوئی ہے، لیکن واقعاً تعجب کی بات ہے کہ اس قدر تاکید کے باوجود بھی بعض لوگوں کے نزدیک یہ مسئلہ واضح نہ ہوسکا، کیا واقعاً یہ تعجب کا مقام نہیں ہے!!
خصوصاً جب مسجد النبی (ص) کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کرادئے گئے ،صرف پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام کے دروازے کھلے رہے (کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمان جاری کیا تھا کہ ان دو دروازوں کے علاوہ تمام دروازے بند کردئے جائیں)
یہ بات واضح ہے متعدد افراد پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے یہ کلمات سنتے ہوں گے، لیکن پھر بھی بعض مفسرین یہ کوشش کرتے ہیں کہ آیت کے معنی میں وسعت کے قائل ہوجائیں تاکہ ازواج پیغمبر کو بھی شامل کرلیا جائے، کیا یہ تعجب کا مقام نہیں ہے، اور جیسا کہ ہم نے عرض بھی کیا کہ تاریخی شواہد کے مطابق خود حضرت عائشہ پیغمبر اکرم (ص) سے متعلق اپنے تمام فضائل کو بیان کرنے سے نہیں کتراتی تھیں بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی بیان کردیا ہے، وہ خود کو اس آیت میں شامل نہیں جانتی، بلکہ وہ خود کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس آیت میں شامل نہیں ہو“!
۴۔ وہ متعدد روایات جو پیغمبر اکرم (ص) کے مشہور و معروف صحابی ابوسعید خدری کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور آیہٴ تطہیر کی طرف اشارہ ہیں، ان میں واضح طور پر بیان ہوا :
”نَزلَتْ فِی خَمسةٍ فِی رَسولِ اللهِ وَ عَليّ وفاطمة والحَسنِ وَالحُسَینِ علَیھُمَ السّلام“(16)
”یہ آیہٴ شریفہ رسول خدا،مولائے کائنات،فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حسنین علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے“
المختصر: آیہٴ تطہیرکی شان ِنزول کے سلسلہ میں بیان ہونے والی وہ احادیث جو پیغمبر اکرم ، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام سے مخصوص ہیں، اور یہ احادیث اسلامی معتبر کتابوں میں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو متواتر حدیثوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور اس لحاظ سے ان میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی، یہاں تک کہ کتاب شرح احقاق الحق میں (شیعہ منابع کے علاوہ) خوداہل سنت کی مشہور و معروف ۷۰/ معتبر کتابوں سے اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے، اس کے بعد صاحب کتاب فرماتے ہیں: ”اگر ان تمام منابع و مدارک کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد ہزار سے بھی زیادہ ہوجائے گی“۔(17)(18)
(1)سورہ احزاب ، آیت ۳۳
(2)سورہ احزاب ، آیت ۳۳
(3)الدرالمنثور ، جلد ۵، صفحہ ۱۹۶و ۱۹۹
(4) المیزان ، جلد ۱۶، صفحہ ۳۱۱
(5) علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں مذکورہ آیت کے ذیل میں،اورحاکم حسکانی نے شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۵۶ میں مذ کورہ حدیث کو ذکر کیا ہے
(6) یہ چوتھی صدی کے آخر اور پانچوی صدی کے شروع میں زندگی بسر کرتے تھے ، جن کی تفسیر ”تفسیر کبیر“ کے نام سے مشہور ہے
7) مجمع البیان ، سورہٴ احزاب آیت ۳۳کے ذیل میں
(8) صحیح مسلم ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۸۳، حدیث۲۴۲۴، (باب فضائل اہل بیت النبی (ص))
(9) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۳۳، حدیث ۳۷۶
(10) صحیح ترمذی ، جلد ۵، صفحہ ۶۹۹، حدیث ۳۸۷۱، (باب فضل فاطمہ)مطبو عہ احیاء التراث
(11) تفسیر فخر رازی ، جلد ۸، صفحہ ۸۰
(12) مسند احمد ، جلد اول، صفحہ ۳۳۰، جلد ۴، صفحہ ۱۰۷ ، اور جلد ۶، صفحہ ۲۹۲ ( نقل از فضائل الخمسة ، جلد اول، صفحہ ۲۷۶)
(13) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵ ،۹۲ ،(توجہ کریں کہ شواہد التنزیل نے اس روایت کو متعدد طریقہ سے نقل کیا ہے)
(14) شواہد التنزیل ، جلد ۲، صفحہ ۲۸ واحقا ق الحق، جلد ۲، صفحہ ۵۰۳ سے ۵۴۸ تک
(15) الدر المنثور ، جلد ۵، صفحہ ۱۹۹
(16) شواہد التنزیل میں اس سلسلے میں چار حدیثیں موجود ہیں ،جلد ۲، صفحہ ۲۴ سے ۲۷ تک (حدیث ۶۹۵ و۶۶۰ و۶۶۱ و۶۶۴)
(17) اقتبا س از جلد دوم احقاق الحق ، صفحہ ۵۰۲ تا ۵۶۳
(18) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۹ ،صفحہ ۱۳۷
منبع:islaminurdu.com