مقام اھل بیت (ع)

1.مثال سفینہ نوح حنش کنانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابوذر کو در کعبہ پکڑ کر یہ کھتے ھوئے سناہے۔ کہ جس نے مجھے پھچان لیا وہ تو جانتا ھی ہے اور اگر کسی نے نھیں پھچانا تو پھچان لے میں ابوذر ھوں اور میں نے رسول اکرم(ص) کی زبان سے سناہے کہ میرے اھلبیت (ع) کی مثال سفینہ نوح کی مثال ہے کہ جو اس پر سوارھوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ ھوگیا وہ ڈوب مرا ۔( مستدرک 3 ص 163 / 4720 ، فرائد السمطین 2 ص 246 ۔ 519 ، ینابیع المودة 1 ص 94 /5 شرح الاخبار 2 ص 501 / 887 ، امالی طوسی (ر) 6 ص 88، 733 ، 1532 ، کمال الدین ص 239 / 59 ، احتجاج 1 ص 361 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 937 ، مناقب ابن مغازلی ص 132 ، 134 ، بشارة المصطفیٰ ص 88 رجال کشی 1 ص 115 / 52)۔ رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ ھم سب سفینہ نجات ہیں جو ھم سے وابستہ ہوگیا نجات پاگیا اور جو الگ ھوگیا وہ ھلاگ ھوگیا ۔ جس کو اللہ سے کوئی حاجت طلب کرنا ھو وہ ھم اھلبیت (ع) کے وسیلہ سے طلب کرے۔(فرائد السمطین 1 ص 37 از ابوہریرہ، احقاق الحق 9 ص 203 از ارحج المطالب)۔ امام علی (ع) نے کمیل سے فرمایا کہ کمیل رسول اکرم(ص) نے 15 رمضان کو عصر کے بعد مجھ سے یہ بات اس وقت فرمائی جب انصار و مہاجرین کا ایک گروہ سامنے تھا اور آپ منبر پر کھڑے تھے۔ یاد رکھو کہ علی (ع) اور ان کے دونوں پاکیزہ کردار فرزند مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، یہ سب سفینہٴ نجات ہیں جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ ہوگیا وہ بہک گیا ، نجات پانے والے کی جگہ جنت ہے اور بہکنے والے کاٹھکانا جہنم کے شعلے ہیں۔( بشارة المصطفیٰ ص 30 از بصیر بن زید بن ارطاة)۔ امیر المؤمنین (ع) نے اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا خدا کی قسم میں نے کسی امر کی طرف اقدام نہیں کیا مگر یہ کہ میرے پاس رسول اکرم کی ہدایت موجود تھی خوشا بہ حال ان کا جن کے دلوں میں ہماری محبت راسخ ہوجائے اور اس کے وسیلہ سے ایمان کو احد سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوجائے اور یاد رکھو جس کے دل میں ہماری محبت ثابت نہ ہوگی اس کا ایمان اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتاہے۔ خدا کی قسم ۔ عالمین میں رسول اکرم کے نزدیک میرے ذکر سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں تھی اور نہ کسی نے میری طرح دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے۔ میں نے بلوغ سے پہلے سے نماز ادا کی ہے اور یہ فاطمہ بنت رسول جو پارہ جگر پیغمبر ہے یہ میری شریک حیات ہے اور اپنے دور میں مریم بنت عمران کی مثال ہے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ حسن (ع) و حسین (ع) جو اس امت میں سبط رسول ہیں اور پیغمبر کے لئے دونوں آنکھوں کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح میں آپ کے لئے دونوں ہاتھوں کی جگہ پر تھا اور فاطمہ (ع) آپ کے وجود میں قلب کی حیثیت رکھتی تھیں ، ہماری مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو اس پر سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ رہ گیا وہ ڈوب مرا ۔(کتاب سلیم بن قیس 2 / 830)۔ امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے کہ جس نے ہمارا اتباع کرلیا وہ نیکیوں کی طرف آگے بڑھ گیا اور جو ہمارے علاوہ کسی دوسرے سفینہ پر سوار ہوگیا وہ غرق ہوگیا ۔( غرر الحکم ص 7894 ، 7893)۔ امام زین العابدین (ع) ہم ہیں جو شدتوں کی گہرائیوں میں چلنے والے سفینوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا وہ غرق ہوگیا۔( ینابیع المودة 1 ص 76 / 12)۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) زوال آفتاب کے وقت نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے اور اس طرح صلوات بھیجتے تھے۔ ” خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جو نبوت کے شجر اور رسالت کے مرکز تھے، ان کے گھر ملائکہ کی آمد و رفت تھی اور وہ علم کے خزانہ دار اور وحی کے اہلبیت (ع) تھے، خدایا آل محمد پر رحمت نازل فرما جو شدتوں کے سمندروں میں نجات کے سفینے تھے کہ جو ان سے وابستہ ہوگیا وہ محفوظ ہوگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا وہ غرق ہوگیا، ان سے آگے بڑھ جانے والا دین سے نکل جاتاہے اور ان سے دور رہ جانے والا ہلاک ہوجاتاہے۔ بس ان سے وابستہ ہوجانے والا ہی ان کے ساتھ رہتاہے۔(جمال الاسبوع ص 251۔ 2.مثال باب حِطّہ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ تمھارے درمیان میرے اہلبیت (ع) کی مثال بنياسرائیل میں باب حطہ کی ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا اسے بخش دیا گیا ۔( المعجم الاوسط 6 ص 85 / 5870، المعجم الصغیر 2 ص 22 ، صواعق محرقہ ص 152 ، غیبت نعمانی ص 44)۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ جو میرے دین کو اختیار کرے اور میرے راستہ پر رہے اور میری سنّت کااتباع کرے اس کا فرض ہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کو تمام امت پر مقدم رکھے کہ ان کی مثال اس امت میں بني اسرائیل کے باب حِطّہ جیسی ہے۔( امالی صدوق 69 / 6 تنبیہ الخواطر 2 ص 156)۔ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے نو صلب حسین (ع) سے ہوں گے اور نواں قائم ہوگا ، یاد رکھو ان سب کی مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو الگ رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا اور ان کی مثال بني اسرائیل کے باب حطہ جیسی ہے۔( مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 295 ، کفایة الاثر ص 38 از ابوذر)۔ عباد بن عبد اللہ لا سدی کا بیان ہے کہ میں مقام رحبہ میں امیر المؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آکر اس آیت کے معنی دریافت کرے … کیا وہ شخص جو پروردگار کی طرف سے دلیل رکھتا ہو اور اس کے ساتھ اس کا گواہ بھی ہو… تو آپ نے فرمایا کہ قریش کے کسی شخص پر لمحات عقیقہ کا گذر نہیں ہوا مگر اس کے بارے میں قرآن میں کچھ نہ کچھ نازل ضرور ہوا ہے۔ خدا کی قسم یہ لوگ ہم اہلبیت (ع) کے فضائل اور رسول اکرم کی زبان سے بیان ہونے والے مناقب کو سمجھ لیں تو یہ ہمارے لئے اس وادی رحبہ کے سونے چاندی سے بھر جانے سے زیادہ قیمتی ہے۔ خدا کی قسم اس امت ہماری مثال سفینہ نوح (ع) کی ہے اور نبي اسرائیل کے باب حطہ کی ہے۔(کنز العمال 2 ص 434 / 4429، امالی مفید 145 / 5 شرح الاخبار 2 ص 480 ، 843 تفسیر فرات کوفی ص 190 / 243)۔ ابوسعید خدری ، رسول اکرم نے نماز جماعت پڑھائی اور اس کے بعد قوم کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا ۔ میرے صحابیو ! میرے اہلبیت (ع) کی مثال تمھارے درمیان کشتی نوح (ع) اور باب حطہ کی ہے لہذا میرے بعد ان اہلبیت (ع) اور میری ذریت کے ائمہ راشدین سے متمسک رہنا کہ اس طرح کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتے ہو۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ، آپ کے بعد کتنے امام ہوں گے؟ فرمایا کہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوں گے۔ فرمایاکہ میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت میں بارہ امام ہوں گے۔(کفایة الاثر ص 33 ۔ 34)۔ امام علی (ع) ! ہم باب حطہ اور باب السلام ہیں، جو اس دروازہ میں داخل ہوجائے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ رہ جائے گا وہ گمراہ ہوجائے گا ۔( خصال 626 / 10 از ابوبصیر و محمد بن مسلم از امام صاد ق (ع) تفسیر فرات کوفی 367 / 499 ، غرر الحکم 10002)۔ امام علی (ع) ۔ آگاہ ہوجاؤ کہ جو علم لے کر آدم آئے تھے اور جو فضائل تمام انبیاء و مرسلین کو دیئے گئے ہیں وہ سب خاتم النبیین کی عترت میں موجود ہیں تو تمھیں کہاں گمراہ کیا جارہاہے اور تم کہاں چلے جارہے ہو؟ اے اصحاب سفینہ کی اولاد ، تمھارے درمیان وہ مثال موجود ہے کہ جس طرح اس سفینہ پر سوار ہونے والے نجات پاگئے تھے اسی طرح عترت سے تمسک کرنے والے نجات پا جائیں گے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، ویل ہے ان کے لئے جو ان سے الگ ہوجائیں، ان کی مثال اصحاب کہف اور باب حطہ جیسی ہے۔ یہ سب باب السلام ہیں لہذا سِلم میں داخل ہوجاؤ اور خبردار شیطان کے اقدامات کی پیروی نہ کرنا ۔( تفسیر عیاشی 1 ص 102 / 300 ،از مسعدہ بن صدقہ ، الغیبتہ نعمانی ص 44 ، ینابیع المودة 1 ص 332 / 4 المستر شدہ ص 406)۔ امام محمد باقر (ع) ! ہم تمھارے لئے باب حطہ ہیں۔( تفسیر عیاشی 1 ص 47 از سلیمان جعفری از امام رضا (ع) ، مجمع البیان 1 ص 247)۔ 3. مثال خانہٴ خدا رسول اکرم نے اما م علی (ع) سے فرمایا کہ یا علی (ع) تمھاری مثال بیت اللہ کی مثال ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا وہ عذاب الہی سے محفوظ ہوگیا اور اسی طرح جس نے تم سے محبت کی اور تمہاری ولایت کا اقرار کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ ہوگیا اور جس نے تم سے بغض رکھا وہ جہنم میں ڈال دیا گیا۔ یا علی (ع) لوگوں کا فریضہ ہے کہ خانہٴ خدا کا ارادہ کریں اگر ان میں استطاعت پائی جاتی ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہے تو اس کا عذر اس کے ساتھ ہے یا اگر فقیر ہے تو معذور ہے یا اگر مریض ہے تو معذور ہے لیکن تمھاری محبت اور ولایت میں کوتاہی کرنے والے کو ہرگز معاف نہیں کیا جائیگا چاہے فقیر ہو یا غنی ۔ بیمار ہو یا صحیح، اندھا ہو یا بصارت والا۔ (خصائص الائمہ ص 77 از عیسیٰ بن المنصور)۔ 4.مثال نجوم فلک رسول اکرم ! جس طرح ستارے اہل زمین کے لئے ڈوبنے سے بچنے کا ذریعہ ہیں اسی طرح ہمارے اہلبیت (ع) اختلاف سے بچنے کا وسیلہ ہیں لہذا جب بھی عرب کا کوئی قبیلہ ان سے اختلافات کرے گا وہ شیطان کے گروہ میں شامل ہوجائے گا۔( مستدرک 3 ص 162 / 4715)۔ رسول اکرم نے اما م علی (ع) سے فرمایا ۔ یا علی (ع) ! تمھاری اور تمھاری اولاد کے ائمہ کی مثال سفینہ نوح کی ہے کہ جو اس سفینہ پر سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جو اس سے الگ رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا اور پھر تمھاری مثال آسمان کے ستاروں کی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا طالع ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی قیامت تک جاری رہے گا۔( امالی صدوق (ر) ص 22 / 18 ، کمال الدین ص 241 / 65 ، بشارة المصطفیٰ ص 32 ، جامع الاخبار 52 / 59 ، مائتہ منقبہ ص 65 ، فرائد السمطین ص 243 ، 517 از ابن عباس ۔ رسول اکرم ! اہلبیت (ع) کی مثال میری امت میں آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا نکل آتاہے یہ سبب امام ہادی اور مہدی ہیں ، انھیں نہ کسی کا مکر نقصان پہنچاسکتاہے اور نہ کسی کا انحراف بلکہ یہ کام انحراف کرنے والوں ہی کو نقصان پہنچائے گا ۔ یہ سب زمین پر اللہ کی حجت ہیں اور اس کی مخلوقات پر اس کے گواہ ہیں۔ جوان کی اطاعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی اور جو ان کی نافرمانی کرے گا اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔ یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔نہ یہ اس سے الگ ہوں گے۔ اور نہ وہ ان سے الگ ہوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوجائیں۔ ان ائمہ میں سب سے پہلا میرا بھائی علی (ع) ہے ، اس کے بعد میرا فرزند حسن (ع) ، اس کے بعد میرا فرزند حسین (ع) ، اس کے بعد اولاد حسین (ع) کے نو افراد۔( الغیبتہ النعمانی 84 / 12 ، کتاب سلیم بن قیس 2/686 / 14 ، فضائل ابن شاذان ص 114 ، مشارق انوار الیقین ص 192) ۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ آل محمد کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے کہ جب کوئی ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا طالع ہوجاتاہے۔(نہج البلاغہ خطبہ 100)۔ امام صادق (ع) کوئی عالم ہمارے علاوہ ایسا نہیں ہے جو دنیا سے جائے تو اپنا جیسا خلف چھوڑ جائے۔ البتہ ہم میں سے جب کوئی جاتاہے تو اس کی جگہ دوسرا اس کا جیسا موجود رہتاہے کہ ہماری مثال آسمان کے ستاروں جیسی ہے۔( جامع الاحادیث قمی ص 249 از حصین بن مخارق )۔ 5. مثال دو چشم 127۔ رسول اکرم ! دیکھو میرے اہلبیت (ع) کو اپنے درمیان وہی جگہ دو جو جسم میں سرکی اور سرمیں دونوں آنکھوں کی ہوتی ہے کہ جسم سر کے بغیر اور سر آنکھوں کے بغیر ہدایت نہیں پاسکتاہے۔( امالی طوسی (ر) 482 / 1053 ، کشف الغمہ 2 ص 35 از ابوذر ، کفایة الاثر ص 111 از واثلہ بن الاسقع)۔ منبع:ishraaq.in