بعثت سے پہلے عرب معاشرے کی حالت
بعثت سے پہلے عرب معاشرے کی حالت
0 Vote
68 View
(١)۔بدترین دین وعقیدہ : امیرالمومنیین ع پیغمبر اکرم ص کی بعثت سے پہلے عرب معاشرہ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان اللہ بعث محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نذیرا للعالمین وامینا علی التنزیل وانتم معاشرالعرب علی شردین ۔۔ (نھج البلاغہ خطبہ نمبر ٢٦) ترجمہ:یقینا اللہ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کیلیے عذاب الھی سے ڈرانے والا اور تنزیل کا امانت دار بناکر اس وقت بھیجا جب تم گروہ عرب بدترین دین کے مالک تھے ۔ رسول اکرم ص کی جب بعثت ہوئی توعرب بدترین عقیدہ کے مالک تھے کیونکہ وہ شرک جیسے عظیم گناہ سے آلودہ تھے عقیدے کا سب سے بڑا انحراف شرک ہے۔ قرآن کریم نے بھی اس کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا ہے ،ان الشرک لظلم عظیم (القرآن،سورہ لقمان آیہ نمبر ١٣) اس زمانے کے لوگوں کی تمام مشکلات کا اصلی سبب شرک اور دوسرے عقائدی انحرافات تھے ۔ علامہ تقی جعفری فرماتے ہیں :عربوں کے برے اخلاق کی وجہ توحید حقیقی سے دوری تھی کیونکہ توحید حقیقی انسان کونرم دل اور مکارم اخلاق کا مالک بناتی ہے (پیامبر از زبان علی ،ص،٦٣ ) اس دور کی مشکلات کا بنیا دی سبب بھی توحید حقیقی سے دوری او ر عقیدہ توحید کا دلوں میں را سخ نہ ہونا ہے ۔ ایک اور خطبہ میں امیر المومنین زمانہ جاہلیت کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ،ابتعثہ و الناس یضربون فی غمرة ویموجون فی حیرة قد قادتھم ازمة الحین واستغلقت علی افئد تھم اقفال الرین۔ ( نھج البلاغہ،خطبہ ١٩١) ترجمہ: اور میں گواہی دیتا ہوں محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، انہیں اس وقت بھیجا گیا جب جب لوگ گمراہیوں میں چکر کاٹ رہے تھے اور حیرا نیوں میںغلطاں و پیچاں تھے،ہلاکت کی مہاریں انہیں کھینچ رہی تھیں اور قدورت و زنگ کے تالے ان کے دلوں پر پڑے ہوئے تھے۔ (٢ ) بدترین علاقہ اوررہن سہن اس وقت حجاز کی سرزمین بدترین زمین تھی کہیں ریگستان ،کہیں خشک اورکم بلندی والی پہاڑیاں ،خشک اور گرم ترین نقطہ جہاں ایسی گرم ہوائیں چلتی تھیں جو وہاں کبھی کبھیار ہونے والی بارش کے اثرات کو ختم کردیتی تھیں وہاں کے حیوانات بھی دوسرے علاقوں کے حیوانات سے مختلف اوروحشی تر تھے ، امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام اسی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں (ان اللہ بعث محمد ا ص ۔۔۔وانتم ۔۔۔۔فی شر دار ،منیخون بین حجارة خشن ،وحیات صم ۔۔۔۔) (نھج البلاغہ خطبہ نمبر ٢٦) ترجمہ :خدانے اس وقت رسالت مآب ص کو مبعوث کیاجب تم بدترین علاقہ کے مالک تھے ،ناھموار پتھروں اور زھریلے سانپوں کے درمیان بودوباش رکھتے تھے ۔ (٣) بدترین خوراک وغذا بعثت سے پہلے لوگوں کی غذا بدترین غذاتھی ،نعمات خداکوصحیح استعمال کرنے کیلیے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ان کو غلط طریقے سے استعمال کرتے تھے ۔ امیرالمومنین ع اس مطلب کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وانتم معاشرالعرب تشربون الکدر ۔۔۔۔ (نھج البلاغہ خطبہ نمبر ٢٦) یعنی جب پیغمبر اکرم ص کو مبعوث کیاگیا توتم عرب گندلا پانی پیتے تھے ، معمولا جوپانی وہ لوگ پیتے تھے اس قدر گندلااور آلودہ ہوتاتھا کہ فقط اشد ضرورت کے وقت اس پانی کو پیتے تھے اس کیوجہ یہ تھی کہ وہ لوگ کسی ایک جگہ پرٹھہرتے نہیں تھے بلکہ ہمیشہ سفر میں رہتے تھے،پانی کیلئے کنویں نہیں کھودتے تھے بلکہ گڑھوں میں جمع ہونے والے پانی سے استفادہ کرتے تھے۔ (ابن میثم بحرانی شرح نھج البلا غہ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٢٤) امیر المومنین اس کی مزید وضا حت کرتے ہوئے فرما تے ہیں: وتاکلون الجشب (نھج البلاغہ خطبہ نمبر٢٦) ترجمہ :اورتم غلیظ غذااستعمال کرتے تھے ۔ صاحب لسان العرب نے جشب ،کو سخت وغلیظ کے معنی میں لکھا ہے ۔(لسان العرب ،مادہ جشب) شارح بحرانی لکھتے ہیں : عربی سے پوچھا گیا کہ تم بیابان میں خوراک کے لیے کیا استعمال کرتے ہو ؟ اس نے جواب میں کہا :ناکل کل مادب ودرج الاام جیین (زمین پر حرکت کرنے والی ہر چیز کوکھاتے ہیں سوائے ام جیین ) (ابن میثم بحرانی شرح نھج البلا غہ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٢٤) ام جیین کا معنی ہے زہریلی چھپکلی ۔(سیماے پیامبر در نھج البلاغہ،ص،٦٩) (٤) قتل وغارت اورفسادات خاتم النبین ص کی بعثت سے پہلے لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل کی بناء پر قتل وغارت شروع کردیتے تھے ،ہمیشہ ان کی تلواریں نیام سے باہر رہتی تھیں ۔امیرالمومنین علی ابن ابیطالب فرماتے ہیں: وتسفکوں دمائکم وتقطعون ارحامکم ۔(نھج البلاغہ خطبہ نمبر٢٦) اورھمیشہ تم ایک دوسرے کا خون بھاتے تھے اور قرابت داروں سے بے تعلقی رکھتے تھے ۔ تاریخ عرب میں سترہ سوجنگوں کو درج کیاگیاہے ،ان میں سے بعض جنگیں سوسال سے بھی زیادہ طولانی تھیں۔(سیماے پیامبر ،صفحہ نمبر ٧٦) قتل وغارت اور خون ریزی ،اس قوم کی عادت ثانوی بن چکی تھی ۔کہتے ہیں ایک عرب نے بھشت کی نعمات اور فوائد ،پیامبر ص کی زبان سے سننے کے بعد پوچھا ،کیا بھشت میں جنگ بھی ہے ؟جوں ہی حضرت نے فرمایا :نہیں ،کہنے لگا پھر بھشت کا کیا فائدہ ۔(فروغ ابدیت، ص،٥٢) پیامبر اعظم نے دوران جاہلیت لوگوں کو امن ،محبت اور برادری کا درس دیا اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ۔ قرآن کریم خدا وند کریم اس مطلب کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:فالف بین قلوبکم اس دور میں بھی کچھ لوگو ں نے قتل وغارت اور فسادات کا بازار گرم کر رکھا ہے در حالیکہ قرآن مجید نے قاتل کو مستحق جھنم قرار دیا ہے:من قتل متعمدا فجزائہ جھنم (٥ ) بیٹیوں کا زندہ درگور کرنا خطبہ نمبر ٢٦میں ذکر کیا گیا ہے کہ عرب اپنے قرابت داروں سے لاتعلق رہتے تھے ایک اور خطبہ میں ایک دوسرے بڑے ظلم کو بیان کیا گیا ہے ۔ فالاحواں مضطربة ،والایدی مختلفة ۔والکثرة متفرقة ،فی بلاء ازل ،واطباق جھل ،ابن بنات موودة ،واصنام معبودة ،وارحام مقطوعة ،وغارات مشنونة (نھج البلاغہ خطبہ نمبر١٩٢) ترجمہ :حالات مضطرب ،طاقتیں منتشر ،کثرت میں انتشار ،بلائیں سخت ،جھالت تہ بہ تہ ،زندہ درگور بیٹیاں ،پتھر معبود ،رشتہ داروں سے لاتعلقی ،ہرطرف سے حملوں کی یلغار ۔ قرآن کریم میں عربوں کی اس سفاکی کے متعلق ارشاد ہواہے : واذا بشر احد کم بالانثی ظل وجھہ مسوداوھوکظیم تیوری من القوم من سوء مابشربہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب الاساء مایحکمون ۔ (قرآن کریم سورہ نحل،آیت نمبر٥٨،٥٩ ترجمہ مولانا فرمان علی ) ترجمہ :اورجب ان میں سے کسی ایک کولڑکی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جائے تورنج کے مارے اس کا منہ کالاہوجاتاہے اور وہ زہر کا سا گھونٹ پی کررہ جاتاہے (بیٹی کی )عار سے جس کی اس کوخوشخبری دی گئی ہے ،اپنی قوم کے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتاہے (اور سوچتارہتاہے )کہ آیا اس کو ذلت اٹھاکے زندہ رہنے دے یا (زندہ ہی )اس کو زمین میں گاڑدے دیکھوتو یہ لوگ کس قدربرا حکم لگاتے ہیں ۔٤