قارون ، بنى اسرائيل كا مغرور اور مالدار شخص
قارون ، بنى اسرائيل كا مغرور اور مالدار شخص
0 Vote
76 View
يہاں پر گفتگو بنى اسرائيل كے ايك اور مسئلے اور الجھن كى جاتى ہے مسئلہ يہ ہے كہ ان ميں ايك سركش سرمايہ دار تھا اس كا نام قارون تھا جوغروروسركشى ميں مست كردينے والى دولت كا مظہر تھا ،اصولى طور پر حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى زندگى ميں تين متجاوز طاغوتى طاقتوں كے خلاف جہاد كيا ايك فرعون تھا جو حكومت واقتدار كا مظہر تھا، دوسرا قارودن تھا جو ثروت ودولت كا مظہر تھا اورتيسرا سامرى تھا كہ جو مكرو فريب كا مظہر تھا اگرچہ حضرت موسى كا سب سے بڑا معركہ حكومت كے خلاف تھا ليكن دوسرے معركہ بھى اہم تھے اور وہ بھى عظيم تربيتى نكات كے حامل ہيں _ مشہور ہے كہ قاردن حضرت موسى عليہ السلام كا قريبى رشتہ دار تھا (چچا، يا چچازادبھائي يا خالہ زادبھائي ) اس نے توريت كا خوب مطالعہ كيا تھا پہلے وہ مومنين كى صف ميں تھا ليكن دولت كا گھمنڈ اسے كفر كى آغوش ميں لے گيا اور اسے زمين ميں غرق كرديا اس غرورنے اسے پيغمبر خدا كے خلاف جنگ پر آمادہ كيا اور اس كى موت سب كے لئے باعث عبرت بن گئي_ارشاد ہوتا ہے : ''قاورن موسى كى قوم ميں سے تھا ليكن اس نے ان پر ظلم كيا ''_(1) اس ظلم كا سبب يہ تھا كہ اس نے بہت سى دولت كمالى تھى اور چونكہ وہ كم ظرف تھا اور ايمان مضبوط نہ تھا اس لئے فراواں دولت نے اسے بہكاديا اور اسے انحراف واستكبار كى طرف لے گئي _ قرآن كہتا ہے :'' ہم نے اسے مال ودولت كے اتنے خزانے ديے كہ انہيں اٹھانا ايك طاقتور گروہ كے لئے بھى مشكل تھا ''_(2) قارون كے پاس اس قدر سونا چاندى اور قميتى اموال تھے كہ ان كے صندوقوں كو طاقتور لوگوں كا ايك گروہ بڑى مشكل سے ايك جگہ سے دوسرى جگہ لے كر جاتا تھا _'' چار نصيحتيں آيئےس بحث سے آگے بڑھيں اور ديكھيںكہ بنى اسرائيل نے قارون سے كيا كہا: قرآن كہتا ہے: ''اس وقت كو ياد كرو جب اس كى قوم نے اس سے كہا : تم ميں ايسى خوشى نہيں ہونى چاہئے جس ميں تكبر اور غفلت ہوكيونكہ خدا غرور ميں ڈوبے ہوئے خوشحال افراد كو پند و نصيحت نہيں كرتا ''_(3) اس كے بعد چار اور قيمتي،سر نوشت ساز اور تربيتى نصيحتيں كرتے ہيں اس طرح كل پانچ ہوگئيں _ پہلے كہتے ہيں : ''اللہ نے جو كچھ تجھے ديا ہے اس سے دار آخرت حاصل كر''_ (4) يہ اس طرف اشارہ ہے كہ بعض كج فہم افراد كے خيال كے برخلاف مال ودولت كوئي برى چيز نہيں ہے اہم بات يہ ہے كہ وہ كس راستے پر صرف ہورہا ہے اگر اس كے ذريعے دار آخرت كو تلاش كيا جائے تو پھر اس سے بہتر كيا ہوسكتا ہے ليكن اگر وہ غرور، غفلت ، ظلم وتجاوز اور ہوس پرستى كا ذريعہ بن جائے تو پھر اس سے بدتر بھى كوئي چيز نہيں _ دوسرى نصيحت انہوں نے مزيد كہا: ''دنيا سے اپنے حصے كو نہ بھول جا ''_(5) يہ ايك حقيقت ہے كہ ہر انسان كا اس دنيا ميں ايك محدود حصہ ہے يعنى وہ مال جو اس كے بدن ،لباس اور مكان كے لئے دركار ہوتا ہے اور ان پر صرف ہوتا ہے اس كى مقدار معين ہے اور ايك خاص مقدار سے زيادہ اس كے لئے قابل جذب ہى نہيں ہوتا انسان كو يہ حقيقت فراموش نہيں كرنى چاہئے _ تيسرى نصيحت يہ ہے : ''جيسے خدا نے احسان كيا ہے تو بھى نيكى كر''_ (6) يہ بھى ايك حقيقت ہے كہ انسان ہميشہ اللہ كے احسان پر نظر لگائے ہوئے ہے اور اس كى بارگاہ سے ہر خير كا تقاضاكر رہا ہے اور اسى سے ہر قسم كى توقع باندھے ہوئے ہے تو اس طرح سے وہ كيونكر كسى كے صريح تقاضے كو يازبان حال كے تقاضا كو نظر انداز كرسكتا ہے اور اس سے كيسے بے اعتناى برت سكتا ہے ''_ آخر ميں چوتھى نصيحت يہ ہے: ''كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ مادى وسائل تجھے دھوكہ ديں اور تو انہيں گناہ اور دعوت گناہ ميں صرف كردے،زمين ميں ہرگز گناہ و فساد نہ كر كيونكہ اللہ مفسدين كو پسند نہيں كرتا''_(7) صحيح طور پر معلوم نہيں كہ نصيحت كرنے والے يہ افراد كون تھے_ البتہ يہ بات مسلم ہے كہ وہ اہل علم،پرہيزگار،زيرك بابصيرت اور جرا ت مند افراد تھے_ قارون كا جواب اب ہميں يہ ديكھنا ہے كہ اس سركش و ستمگر بنى اسرائيل نے ان ہمدرد واعظين كو كيا جواب ديا_ قارون تو اپنى اس بے حساب دولت كے نشے ميں چور تھا اس نے اسى غرور سے كہا:''ميں نے يہ سب دولت اپنے علم و دانش كے بل بوتے پر حاصل كى ہے''_(8) تمہيں اس سے كيا كہ ميں اپنى دولت كيسے خرچ كرتا ہوں،جو ميں نے كمايا اسے خود كمايا ہے تو پھر صرف كرنے ميں بھى مجھے تمہارى راہنمائي كى كوئي ضرورت نہيں_ علاوہ ازيں خدا مجھے اس دولت كے لائق سمجھتا تھا تبھى تو اس نے مجھے عطا كى ہے اور اسے صرف كرنے كى راہ بھى اس نے مجھے بتائي ہے ميں دوسروں سے بہتر جانتا ہوں_تمہيں اس ميں دخيل ہونے كى ضرورت نہيں_ ان سب باتوں سے قطع نظر زحمت ميں نے كى ہے،تكليف ميں نے اٹھائي ہے،خون جگر پيا ہے تب كہيں يہ دولت جمع كى ہے،دوسروں كے پاس بھى ايسى لياقت و توانائي ہوتى تو وہ زحمت و كوشش كيوں نہ كرتے_ ميں نے كوئي ان كا راستہ تو نہيں روك ركھا اور اگر ان ميں اس كى لياقت نہيں ہے تو پھر كيا ہى اچھا ہے كہ بھوكے رہيں اور مرجائيں_ يہى وہ بوسيدہ اور گھٹيا منطق ہے كہ جو عام طور پربے ايمان سرمايہ دار نصيحت كرنے والوں كے سامنے پيش كرتے ہےں_ يہ نكتہ بھى قابل توجہ ہے كہ قرآن نے اس باب كو اجمالاً بيان كيا ہے كہ قارون كس علم كے بل پر دولت جمع كرتا تھا_كيا وہ علم كيمياء تھا،جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے يا پھر تجارت،زراعت،اور صنعت كا علم تھا يا پھر كيا وہ انتظامى صلاحيت اور علم كا حامل تھا يا يہ سب امور تھے_ بعيد نہيں كہ قرآن كا مفہوم وسيع ہو اور يہ ان سب امور كى طرف اشارہ كر رہا ہو_(قطع نظر اس كے كہ اس بات ميں كتنى حقيقت ہے كہ علم كيميا كے ذريعے تانبے وغيرہ كو سونے ميں تبديل كيا جاسكتا ہے_) اس موقع پر قرآن قارون اور اس جيسے ديگر افراد كو ايك تيكھا جواب ديتا ہے:''كيا اسے معلوم نہ تھا كہ خدا نے اس سے پہلے كئي قوموں كو ہلاك كرديا جو اس سے زيادہ طاقتور تھيں،علم ميں بڑھ كر تھيں اور سرمايہ بھى ان كے پاس زيادہ تھا''_(9) تو كہتا ہے كہ ميرے پاس جو كچھ ہے وہ ميرے علم كى بدولت ہے ليكن تو بھول گيا ہے كہ تجھ سے زيادہ علم والے اور زيادہ طاقتور افراد بھى تھے_كيا وہ عذاب الہى سے بچ سكے ہيں؟ نمائش ثروت كا جنون عام طور پر ديكھا جاتاہے كہ مغرور دولت مند لوگ طرح طرح كے جنون ميں مبتلا ہو جاتے ہيں_ ان ميں سے ايك نمائشے ثروت كا جنون ہے_ انھيں اس عمل سے خوشى حاصل ہوتى ہے كہ اپنى دولت كا لوگوں پر اظہار كريں_ مثلاًيہ كہ وہ اپنى گراں قيمت سوارى پر سوار ہوكے نكليں اور برہنہ پا لوگوں كے درميان سے گزريں_ان كے منہ پر گرد و غبار ڈالتے جائيںاور ان كى تحقير كرتے جائيں_ انھيں اس عمل سے تسكين ہوتى ہے_ ليكن دولت كى يہى نمائشے ان كے لئے بلائے جان بن جاتى ہے_ كيونكہ لوگوں كے دلوں ميں ان كے خلاف كينہ پرورش پانے لگتا ہے اور جذبات نفرت پيدا ہوجاتے ہيں_ اور اكثر ايسا بھى ہوتا ہے كہ يہى شرمناك اور مكروہ عمل ان كى زندگى كو ختم كرديتا ہے يا ان كى دولت كو برباد كرديتا ہے_ ممكن ہے كہ اس جنون آميز عمل كا نتيجہ كسى قسم كى تحريك ہو_مثلاًلالچى افراد ميں مزيد دولت حاصل كرنے كى ہوس ميں اضافہ ہو_اور سركش لوگوں ميں فرمانبردارى كے جذبات پيدا ہوں_مگر اہل ثروت،نمائشے دولت كے عمل كو اس تصوركے بغير انجام ديتے ہيں_درحقيقت ان كا عمل بھى ايك قسم كى ہوس ہوتاہے_اس ميں كسى سوجھ كا كوئي دخل نہيں ہوتا_ بہر حال قارون بھى اس قانون سے مستثنى نہ تھا_ بلكہ جنون نمائشے ثروت كا ايك واضح نمونہ تھا_ قرآن ميں ايك جملے كے ذريعے قارون كى اس كيفيت كو بيان كيا گيا ہے:''قارون پورى زيب و زينت سے اپنى قوم كے سامنے نكلا''_(10)اس نے اپنى پورى قوت اور توانائي اس كام پر صرف كردى تھى كہ وہ اپنى تمام دولت و آرائشے كى لوگوں كے سامنے نمائشے كرے اور يہ بات محتاج ذكر نہيں كہ اتنى دولت كا مالك شخص جب نمود حشمت كا ارادہ كرے تو وہ كيا كچھ كر سكتا ہے_ كتب تواريخ ميں اس واقعے كے متعلق بہت سے افسانے اور داستانيں ذكر ہوئي ہيں_بعض مو رخين نے لكھا ہے كہ قارون چار ہزار خادموں كى قطار كے ساتھ بنى اسرائيل كے درميان سے گزرا،جبكہ چار ہزار خادم گراں قيمت گھوڑوں پر سرخ پوشاكيں پہنے ہوئے سوار تھے_اس كے ساتھ خوش گل كنيزيں بھى تھيں جو سفيد خچروں پر سوار تھيں جن پر سنہرى زين كسے ہوئے تھے_ ان كى پوشاكيں سرخ اور سب سونے كے زيورات پہنے ہوئي تھيں_بعض لوگوں نے اس كے خادموں كى تعداد ستر ہزار لكھى ہے اور اسى طرح كى اور باتيں بھى لكھى ہيں_ ليكن اگر ہم ان تمام بيانات كو مبالغہ آميز بھى سمجھ ليں پھر بھى ہم اس حقيقت سے انكار نہيں كرسكتے كہ نمائشے دولت كے لئے اس كے پاس بہت ساز و سامان تھا_ كاش ہم بھى قارون جيسے ہوتے جيسا كہ دنيا كا معمول ہے قارون كى جاہ و حشمت كو ديكھ كر لوگوں كے دوگروہ ہوگئے_دنيا پرست كثريت نے جب اس خيرہ كن منظر كو ديكھا تو ان كے دل ميں تمنائيں مچلنے لگيں_ انھوں نے ٹھنڈى آہ بھرى اور كہنے لگے كہ كاش وہ بھى قارون جيسى دولت كے مالك ہوتے_ خود ايك دن،ايك ساعت يا ايك لمحے ہى كے لئے يہ شكوہ نصيب ہوتا_آہاس كى كيسى شيريں،جذاب ،نشاط انگيز اور لذت بخش زندگى ہے چنانچہ قرآن ميں فرمايا گيا ہے:''جو لوگ دنياوى زندگى كے طلب گار تھے_انھوں نے كہا كہ كاش ہمارے پاس بھى اتنى دولت ہوتى جتنى قارون كے پاس ہے''_(11) حقيقت ميں اس كے پاس تو دولت كا فراواں حصہ ہے_ آفرين ہے قارون پر اور اس كى بے پناہ دولت پر،واہ اس كا كيا جاہ و جلال ہے،اور كتنے خادم اور نوكر چاكر ہيں،تاريخ ميں اس جيسا كوئي شخص نہيں ہے_ يہ عظمت اسے خدا نے عنايت كى ہے_ غرض لوگ اسى طرح كى باتيں كرتے تھے_ درحقيقت اس واقعے ميں امتحان كى ايك بہت بڑى بھٹى جل رہى تھي_ اس بھٹى كے بيچ ميں قارون تھا_ تا كہ وہ اپنى سركشى اور غرور كا امتحان دے_ دوسرى طرف بنى اسرائيل كے دنيا پرست لوگ اس بھٹى كے گرد اگرد مقيم تھے_ليكن قارون كے لئے ايك درد ناك عذاب تھا_ ايسا عذاب جو ايسى نمائشے كے بعد ہوتا ہے_ يہ عذاب اوج عظمت سے قصر زمين ميں لے جاتا ہے_ ليكن اس دنيا طلب بڑے گروہ كے مقابلے ميں ايك اقليت اہل علم صاحبان فكر،پرہيزگار اور با ايمان لوگوں كى بھى وہاں موجود تھى جن كا افق فكر ان مسائل سے بر تر اور بالا تر تھا_ يہ وہ لوگ تھے جن كے نزديك احترام شخصيت كا پيمانہ زر اور زور نہ تھا_ ان كے نزديك انسان كى قدر كا معيار اس كے مادى وسائل نہ تھے_ يہ وہ لوگ تھے كہ دولت و ثروت كى عارضى اور مضحكہ انگيز نمود و نمائشے پر تمسخر آميز طور پر مسكرا ديتے تھے،اور اسے ايك بے مغز اور غير حقيقى شئي سمجھتے تھے_ چنانچہ قرآن ميں مذكور ہے كہ:وہ لوگ جنہيںعلم و معرفت عطا ہوئي تھي،انھوں نے كہا : ''تم پر افسوس ہےيہ تم كيا كہہ رہے ہو؟ جولوگ ايمان لائے ہيں اور عمل صالح كرتے ہيں،ان كے لئے خداكى طرف سے ثواب اور جزا بہتر ہے''_(12)ان الفاظ پر انھوں نے يہ اضافہ كيا كہ يہ ثواب الہى صرف ان لوگوں كا نصيب ہے جو صابرين ہيں_ قارون كے سامنے زكوة كا مسئلہ قارون نے سركشى اورخدا كى نافرمانى كر كے اپنے آپ كو بہت بڑا سمجھ ليا تھا_ مگر تواريخ اور روايات ميں اس كے متعلق كچھ اور ہى واقعہ بيان ہوا ہے جو قارون كى انتہائي بے شرمى كى علامت ہے_اور وہ ماجرا يہ ہے كہ ايك روز حضرت موسى عليہ السلام نے قارون سے كہا كہ خدا نے مجھے يہ حكم ديا ہے كہ تيرے مال ميں سے زكوة لوں جو محتاجوں كا حق ہے_ جب قارون زكوة كى ادائيگى كے اصول سے مطلع ہوا اور اس نے حساب لگايا كہ اسے كتنى كثير رقم دينا پڑے گى تو اس نے انكار كرديا اور اپنے آپ كو بچانے كے لئے حضرت موسى عليہ السلام كى مخالفت پر آمادہ ہوگيا_ بنى اسرائيل كے دولت مندوں كى ايك جماعت كے سامنے كھڑا ہوا اوركہا: ''اے لوگوموسى چاہتا ہے كہ وہ تمہارى دولت خود ہضم كرلے_ اس نے تمہيں نماز كا حكم ديا تم نے قبول كيا_اس كے دوسرے احكامات بھى تم نے مان لئے _ كيا تم يہ بات بھى برداشت كر لوگے كہ اپنى دولت اسے دےدو؟'' قارون كى شيطانى فكر اس وقت قارون كے ذہن ميں ايك شيطانى خيال آيا_ اس نے كہا كہ ميں نے ايك بہت اچھى تدبير سوچى ہے_ ميرا خيال ہے كہ اس كے خلاف ايك منافى عصمت سازش كرنى چاہئے_ ہميں چاہيئےہ بنى اسرائيل ميں سے ايك فاحشہ عورت كو تلاش كركے موسى (ع) كے پاس بھيج ديں،وہ اس پر شرمناك تہمت لگادے_ بنى اسرائيل نے اس تجويز كو پسند كيا_ انھوں نے ايك بدكار عورت كو تلاش كيا اور اس سے كہا كہ''تو جو كچھ مانگے گى تجھے ديںگے بشرطيكہ تو يہ گواہى دے كہ موسى (ع) كا تجھ سے نامشروع تعلق تھا_'' اس عورت نے بھى اس تجويز كومنظور كرليا_ ايك طرف تو يہ سازش ہوئي_دوسرى طرف قارون حضرت موسى (ع) كے پاس گيا اور ان سے كہا كہ''بہتر ہے كہ آپ بنى اسرائيل كو جمع كريں اور انھيں الہى احكامات سنائيں_'' حضرت موسى عليہ السلام نے يہ پيش كش منظور كر لى اور بنى اسرائيل كو جمع كيا_ جب لوگ جمع ہوگئے تو انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے كہا كہ:''آپ ہميں خدا كے احكام سنائيں_'' حضرت موسى عليہ السلام نے فرمايا كہ خدا نے مجھے حكم ديا ہے كہ''بجز اس كے كسى كى پرستش نہ كرو''صلہ رحم بجا لائو،ايسا كرو اور ويسا كرو_زنا كار آدمى كے لئے خدا نے حكم ديا ہے كہ اگر وہ زنائے محصنہ كرتا ہے تو اسے سنگسار كيا جائے_ جب حضرت موسى عليہ السلام نے يہ الفاظ كہے تو بنى اسرائيل كے دولت مند سازشى لوگوں نے كہا:''خواہ وہ مجرم تو خود ہى ہو؟'' حضرت موسى عليہ السلام نے جواب ديا_''ہاں ٹھيك ہے خواہ ميں خود ہى ہوں_'' اس مقام پر ان بے شرموں نے،بے ادبى اور گستاخى كى حد كردى اور كہا كہ: ''ہم جانتے ہيں كہ تو خود اس فعل كا مرتكب ہوا ہے_اور فلاں بدكار عورت سے تيرا تعلق رہا ہے_'' پھر انھوں نے اس عورت كو بلايا اور اس سے كہا كہ تو شہادت دے_ حضرت موسى عليہ السلام نے اس عورت كى طرف رخ كيا اور كہا كہ''ميں تجھے خدا كى قسم ديتا ہوں كہ تو اصل حال بيان كر_'' جب اس بدكارہ عورت نے يہ بات سنى تو كانپ گئي ،اس كى حالت بدل گئي اوراس نے كہا: ''جب آپ مجھ سے سچ بات پوچھتے ہيں تو ميں حقيقت حال بيان كرتى ہوں_ وہ يہ ہے كہ ان لوگوں نے مجھے اس بات پر آمادہ كيا تھا كہ ميں آپ كو متہم كروں،اس كے بدلے ميں انھوں نے مجھے ايك كثير رقم دينے كاوعدہ كيا تھا_ مگر ميں گواہى ديتى ہوں كہ آپ با عفت ہيں اور اللہ كے رسول ہيں_'' ايك دوسرى روايت ميں مذكور ہے كہ اس عورت نے يہ بھى كہا كہ لعنت ہو مجھ پر ،ميں نے اپنى زندگى ميں بہت گناہ كئے ہيں مگر كسى پيغمبر پر تہمت نہ لگائي تھي_ اس كے بعد اس نے دولت كے دوتھيلے جو ان سازشيوں نے اسے دئے تھے نكال كر سامنے ركھ دئے اور مذكورہ باتيں كيں_ حضرت موسى عليہ السلام سجدے ميں گر گئے اور رونے لگے_ اس موقع پر بد سيرت،سازشى قارون پر عذاب نازل ہوا_ اسى روايت ميں يہ بھى مذكور ہے كہ خدا نے قارون كے غرق زمين كرنے كا حضرت موسى عليہ السلام كو اختيار ديا تھا_ عذاب الہي اس مقام پر قرآن مجيد كے الفاظ يہ ہيں : ''ہم نے اسے اور اسكے گھر كو زمين ميں غرق كرديا''_(13) يہ درست ہے كہ جب منكرين كا طغيان اور سركشى اور ان كى جانب سے تہى دست مومنين كى تحقير و تذليل،اور پيمبر الہى كے خلاف سازش اپنى انتہا كو پہنچ جاتى ہے تو اس وقت دست قدرت الہى دراز ہوتا ہے_اور ان متكبر گستاخوں كى زندگيوں كو ختم كرديتا ہے_اور انھيں ايسى سزاديتا ہے كہ ان كى افتاد سب لوگوں كے لئے سبب عبرت بن جاتى ہے_ قرآن ميں كلمہ ''خسف'' اس مقام پر زمين ميں گڑجانے اور زمين ميں پوشيدہ ہوجانے كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_ انسان كى پورى تاريخ ميں ايسے واقعات بارہا پيش آئے ہيں كہ سخت زلزلہ آيا اور زمين شگافتہ ہوگئي اور اس نے شہر يا آباديوں كو نگل ليا_ مگر اس مقام پر جس حادثہ ''خسف'' كا ذكر ہے،يہ مختلف نوعيت كا ہے_اس ميں فقط قارون اور اس كے خزانے ہى لقمہ زمين ہوئے_ كيا عجب واقعات ہيں كہ فرعون تو دريائے نيل كى موجوں ميں غرق ہوجاتا ہے اور قارون شكم زمين ميں سما جاتا ہے_اس مقام پر يہ امر ہے كہ پانى جو مايہ حيات ہے،وہ فرعون اور اس كے ہمكاروںكو نابود كرنے پرمامور ہوتا ہے_اورزمين جو انسان كے لئے جائے راحت ہے وہ قارون اور اس كے ساتھيوں كے لئے گورستان بن جاتى ہے_ يہ مسلم ہے كہ قارون اپنے گھر ميں تنہا نہ تھا_وہ اور اس كے اہل خاندان،اس كے ہم خيال،اور اس كے ظالم اور ستمگر دوست سب كے سب شكم زمين ميں سماگئے_ ''ليكن اس وقت اس كى مدد كے لئے كوئي جماعت نہ تھى جو اسے عذاب الہى سے بچا سكتى اور وہ خود بھى اپنى كوئي مدد نہ كرسكتا تھا''_(14) نہ تو اس كے دستر خوان كے مفت خور،نہ اس كے دلى دوست،نہ اس كا مال و دولت،ان ميں سے كوئي شے بھى اسے عذاب الہى سے نہ بچا سكى اور وہ سب كے سب قعر زمين ميں سماگئے_ كيا اچھا ہوا كہ ہم قارون كى جگہ نہ تھے قرآن ميں ان لوگوں كے بدل جانے كا ذكر ہے جو گزشتہ روز قارون كے جاہ و جلال اور كر و فر كو ديكھ كر وجد اور رشك كررہے تھے اور يہ آرزو كررہے تھے كہ كاش ہميشہ كے لئے يا تھوڑى دير كے لئے ہى يہ شان ہميں بھى نصيب ہوتي_ واقعہ عجيب سبق آموز ہے چنانچہ فرمايا گيا:'' جو لوگ گزشتہ روز يہ آرزو كررہے تھے كہ كاش ہم اس كى (قارون كي)جگہ ہوتے جب انھوں نے اسے(قارون)اور اس كى دولت كو زمين ميں دھنستے ہوئے ديكھا تو كہنے لگے كہ ہمارے خيالات پر افسوس ہے(حق يہ ہے كہ)خدا اپنے بندوں ميںسے جس كے لئے چاہتا ہے روزى كو فراخ كرديتا ہے اور جس كے لئے چاہتا ہے تنگ كرديتا ہے''_(1)كليد رزق صرف اسى كے ہاتھ ميں ہے_(انھوں نے كہا)آج يہ بات ہم پر ثابت ہوگئي كہ جس آدمى كے پاس جو كچھ ہے وہ اس كى كوشش كا نتيجہ نہيں ہے بلكہ وہ خدا كى دين ہے_اس كى عطا كا انحصار اس امر پر نہيں كہ وہ كسى سے راضى اور خوش ہے_اور نہ كسى كى محرومى اس وجہ سے ہے كہ وہ شخص اللہ كى جناب ميں بے قدر ہے_اللہ افراد اور اقوام كو دولت دے كر ان كا امتحان ليتا ہے اور ان كى سيرت او رفطرت كو آشكار كرتاہے_ اس كے بعد وہ(رشك كرنے والے)سوچنے لگے كہ اگر گزشتہ روز خدا ان كى دعا كو قبول كرليتا اور انھيں بھى قارون جيسا ہى بنا ديتا تو ان كا كيسا عبرت نا ك انجام ہوتا_لہذا انھوں نے خدا كى اس نعمت كا شكر ادا كيا اور كہا كہ:'' اگر خدا ہم پر احسان نہ كرتا تو وہ ہميں بھى زمين ميں غرق كرديتا_''اور گويا كہ كافر ہر گز نجات نہيں پائيں گے''_(2) اب ہم حقيقت كى نظر سے غرور و غفلت اور كفر و ہوس دنيا كا انجام اپنى آنكھوں سے ديكھ رہے ہيں_ نيز ہم يہ سمجھ گئے ہيں كہ يہ نمائشےى زندگياں جن كا منظر نہايت دل فريب ہوتا ہے ان كى حقيقت كتنى خوفناك ہے_ اس ماجرے كے انجام سے يہ امر بخوبى واضح ہوجاتا ہے كہ آخر كار مغرور كافر اور بے ايمان قارون دنيا سے رخصت ہوا_ ہر چند كہ اس كا شمار بنى اسرائيل كے دانشمندوں اور توريت كے تلاوت كرنے والوں ميں ہوتا تھا،نيز وہ حضرت موسى عليہ السلام كا رشتہ دار بھى تھا_ حوالاجات (1) سورہ قصص آيت76 (2)سورہ قصص آيت76 (3)سورہ قصص آيت76 (4)سورہ قصص آيت 77 (5)سورہ قصص 77 (6)سورہ قصص آيت 87 (7)سورہء قصص آيت 77 (8)سورہ قصص آيت78 (9)سورہ قصص آيت 78 (10)سورہ قصص آيت79 (11)سورہ قصص آيت79 (12)سورہ قصص آيت80 (13)سورہ قصص آيت81 (14)سورہ قصص آيت 81 (16)سورہ قصص آيت82 (15)سورہ قصص آيت82