قوم سبا

قوم سبا ايك ايسى جمعيت اور قوم تھى كہ جو جزيرہ عرب ميں رہتى تھى ،اور ايك اعلى حكومت اور درخشاں تمدن كى مالك تھى _ يمن كا علاقہ وسيع اور زر خيزتھا ليكن زر خيز علاقہ ہونے كے باوجود چونكہ وہاں كوئي اہم دريا نہيں تھا، لہذا اس سے كوئي فائدہ نہيں اٹھا يا جاتا تھا ،سيلاب اور بارشيں پہاڑوں پر برستى تھيں اور ان كا پانى بيابانوں ميں بے كار اور بے فائدہ ضائع ہوجاتاتھا ،اس سر زمين كے سمجھدار لوگ ان پانيوں سے استفادہ كرنے كى فكر ميں لگ گئے اور اہم علاقوں ميں بہت سے بند باندھے ، جن ميں سے زيادہ اہم اور سب سے زيادہ پانى كا ذخيرہ ركھنے والا بند ''مارب''(1)تھا_ ''مارب''(بروزن مغرب ) ايك شہر تھاكہ جو ان دروں ميں سے ايك كے اخر ميں واقع تھا ، اور''صرا ة '' كے كو ہستانوں كے بڑے بڑے سيلاب اس كے قريب سے گزرتے تھے ،اس درہ كے دہانہ پر ''بلق'' نامى دو پہاڑوں كے دامن ميں انھوں نے ايك مضبوط باندھ بناياتھا ،اور اس ميں سے پانى كى كئي نہريں نكالى تھيں ،اس باندھ كے اندر پانى كا اس قدر ذخيرہ جمع ہو گيا تھا كہ جس سے استفادہ كرتے ہوئے وہ اس بات پر قادر ہو گئے تھے كہ اس نہر كے دونوں طرف ،كہ جو باندھ تك جاتى تھى ،بہت ہى خوبصورت و زيبا باغات لگائيں اور پر بركت كھيت تيار كريں _ اس سر زمين كى ابادبستياں ايك دوسرى سے متصل تھيں اور درختوںكے وسيع سائے ايك دوسرے سے ملے ہوئے تھے ،اور ان كى شاخوں پر اتنے پھل لگا كرتے تھے كہ كہتے ہيں كہ جب كوئي ادمى اپنے سر پر ايك ٹوكرى ركھ كر ان كے نيچے سے گزرتا تھا تو يكے بعد ديگرے اتنے پھل اس ميں اكر گرتے تھے كہ تھوڑى ہى دير ميں وہ ٹوكرى بھر جاتى تھى _ امن و امان كے ساتھ نعمت كے وفور نے پاك و صاف زندگى كے لئے بہت ہى عمدہ اور مرفہ ماحول پيدا كر ركھا تھا ،ايك ايسا ماحول جو خدا كى اطاعت اور معنوى پہلوو ں كے ارتقاء و تكامل كے لئے مہيا تھا_ ليكن انھوں نے ان تمام نعمتوں كى قدر كو نہ پہچانا اور خدا كو بھول گئے اور كفران نعمت ميں مشغول ہوگئے،اور فخر و مباہات كرنے لگے اور طبقاتى اختلاف پيدا كر ديئے _ صحرائي چو ہوں نے مغرور و مست لوگوں كى انكھوں سے دور ،مٹى كے اس باندھ كى ديوار كا رخ كيا اور اسے اندر سے كھوكھلا كر ديا ،اچانك ايسى شديد بارشيں بر سيں اور يسا عظيم سيلاب ايا كہ جس سے باندھ كى وہ ديواريں كہ جو سيلاب كے دباو كو بر داشت كر نے كے قابل نہ رہى تھيں دھڑام سے گر پڑيں اور بہت ہى زيادہ پانى كہ جو باندھ كے اندر جمع ہو رہا تھا ،اچانك باہر نكل پڑا اور تمام اباديوں ،باغات ،كھيتوں ،فصلوںاور چوپايوں كو تباہ كر كے ركھ ديا اور خوبصورت سجے سجائے قصور و محلات اور مكانات كو ويران كر ديا اور اس كے بعد اباد سر زمين كو خشك اور بے اب و گياہ صحرا ميں بدل ديا اور ان تمام سر سبز و شاداب باغوں اور پھلدار درختوں ميں سے صرف چند ''اراك''كے كڑوے شجر ،كچھ ،جھاو اور كچھ بيرى كے درخت باقى رہ گئے ،غزل خوانى كرنے والے پرندے وہاں سے كوچ كر گئے اور الوو ں اور كووّں نے ان كى جگہ لے لي_ ہاں جب خدا اپنى قدرت دكھانا چاہتا ہے تو چوہوں كے ذريعہ ايك عظيم تمدن كو برباد كر ديتا ہے، تاكہ بندے اپنے ضعف اور كمزورى سے اگاہ ہو جائيں ،اور قدرت اور اقتدار كے وقت مغرور نہ ہوں _ اس بارے ميں كہ''سبا ''كس كانام ہے؟اور يہ كيا چيز ہے ؟مورخين كے درميان اختلاف ہے، ليكن مشہور يہ ہے كہ ''سباء''، ''يمن''كے اعراب كے باپ كا نام ہے اور اس روايت كے مطابق كہ جو پيغمبر اسلام (ص) سے نقل ہوئي ہے ،وہ ايك ادمى تھا اور ا س كانام ''سباء''تھا اور اس كے دس بيٹے تھے ،اور ان ميں سے ہر ايك سے وہاں كے قبائل ميں سے ايك قبيلہ وجود ميں ايا _(2) ايك درخشاں تمدن جو كفران نعمت كى وجہ سے برباد ہو گيا قران مجيد نے ان كى عبرت انگيز سر گزشت بيان كى ہے ،اور ان كى زندگى كے جزئيات و خصوصيات كے اہم حصہ كى طرف اشارہ كيا ہے _ پہلے كہتاہے :''قوم سبا كے لئے ان كے محل سكونت ميں خدائي قدرت كى ايك نشانى تھي''_(3) جيسا كہ ہم ديكھيں گے ،خدا كى اس بزرگ ايت كا سرچشمہ يہ تھا كہ ،قوم سباء اس علاقے كے اطراف ميں واقع پہاڑوں كے محل وقوع اور ان كے خاص حالات و شرائط ،اور اپنى خدا داد ذہانت اور ہو شمندى سے استفادہ كرتے ہوئے ،ان سيلابوں كو كہ جو سوائے ويرانى و تباہى كے كوئي نتيجہ نہ ديتے تھے ،ايك قوى اور مستحكم باندھ كے پيچھے روك دينے پر قادر ہو گئے تھے اور اس كے ذريعہ انھوں نے بہت ہى اباد ملك تعمير كر ليا تھا ،يہ كتنى عظيم ايت ہے كہ ايك ويران اور برباد كر نے والا عامل ،عمران و آبادى كے اہم ترين عوامل ميں بدل جائے _ اس كے بعد قران اس خدا ئي ايت كى تفسير كى تشريح كر تے ہوئے كہ جو قوم سباء كے ا ختيار ميں قرار پائي تھى ،اس طرح كہتا ہے :''دوبڑے باغ تھے دائيں اور بائيں طرف''(4) يہ دونوں باغ كوئي معمولى اور سادہ قسم كے باغ نہيں تھے ،بلكہ يہ ايك عظيم نہر كے دونوں طرف باغوں كا مسلسل اور ملا ہوا سلسلہ تھا ،جو اس عظيم باندھ كے ذريعہ سيراب ہوتے تھے قوم سبا ء اس عظيم باندھ كے ذريعہ ،جو انھوں نے اس علاقہ كے اہم پہاڑوں كے درميان بنايا تھا ،اس بات پر قادر ہوگئي تھى كہ ان فراواں سيلابوں كو ،جو ويرانى كا سبب بنتے تھے يا كم از كم بيابانوں ميں بے كار و فضول طورسے ضائع اور تلف ہو جاتے تھے ،اس باندھ كے پيچھے ذخيرہ كر ليں، اور اس كے اندر كھڑكياں بنا كر پانى كے اس عظيم مخزن سے استفادہ كر نے كے لئے اپنے كنٹرول ميں كر ليں اور اس طرح سے وسيع و عريض زمينوں كو زير كاشت لائيں _ وہى سيلاب كہ جو خرابى و بر بادى كا باعث بنيں ،وہ اس طرح سے ابادى كا باعث بن جائيں ،كيا يہ عجيب بات نہيں ہے ؟كيا يہ خدا كى عظيم ايت اور نشانى شما ر نہيں ہوتي_؟ يہ بات تو ابادى كے لحاظ سے ہے ،ليكن چونكہ لوگوں كى ابادى كافى نہيں ہے ،بلكہ اہم اور بنياد ى شرط امن و امان ہوتا ہے ،لہذا مزيد كہتا ہے:'' ہم نے ان اباديوں كے درميان مناسب اور نزديك نزديك فاصلے ركھے ''(تاكہ وہ اسانى اور امن وامان كے ساتھ ايك دوسرى جگہ اجاسكيں )_اور ہم نے ان سے كہا: ''تم ان بستيوں كے درميان راتوں ميں اوردنوں ميں پورے امن و امان كے ساتھ سفر كرو،اور ان اباديوں ميں چلو پھرو_''(5) اس طرح يہ ابادياں مناسب اور جچا تلافاصلہ ركھتى تھيں ،اور و حوشى اور بيابانى درندوں ،يا چوروں اور ڈاكوو ں كے حملہ كے لحاظ سے بھى انتہائي امن و امان ميں تھيں ،اس طرح سے كہ لوگ زاد راہ ،سفر خرچ اور سوارى كے بغير ہى ،اس صورت ميں كہ نہ اكٹھے قافلوں ميں چلنے كى ضرورت تھى اور نہ ہى مسلح افراد ساتھ لينے كي كوئي احتياج تھى ،راستے كى بے امنى كى جہت سے ،يا پانى اور غذا كى كمى كى وجہ سے كسى ڈر اور خوف كے بغير اپنا سفر جارى ركھ سكتے تھے_ اس كے بعد مزيد كہتا ہے :''ہم نے ان سے كہا كہ اپنے پروردگار كى اس فراواں روزى ميں سے كھاو اور اس كا شكر اداكرو_ ايك پاك وپاكيزہ شہر ہے اور پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے_''(6) اس چھوٹے سے جملے نے تمام مادى و معنوى نعمتوں كے مجموعے كو زيبا ترين شكل ميں منعكس كر ديا ہے ،مادى نعمتوں كے لحاظ سے تو وہ پاك و پاكيزہ زمين ركھتے تھے كہ جو چوروں،ظالموں ،افات و بليات، خشك سالى و قحط اور بد امنى و وحشت جيسے طرح طرح كے مصائب سے پا ك تھى ،يہاں تك كہ كہا جاتا ہے كہ وہ زمين موذى حشرات سے بھى پاك و پاكيزہ تھى ،پاك وپاكيزہ ہوائيں چلتى تھيں اور فرحت بخش نسيم رواں دواں تھى ،زمين زر خيز تھى اور درخت پُر بار تھے _ اور معنوى نعمت كے لحاظ سے خدا كى بخشش و غفران ان كے شامل حال تھى ،وہ ان كى تقصير و كوتاہى پر صرف نظر كرتا تھا اور انھيں مشمول عذاب اور ان كى سر زمين كو بلا و مصيبت ميں گرفتار نہيں كرتا تھا _ ليكن ان ناشكر ے لوگوں نے ان تمام نعمتوں كى قدردانى نہيں كى اور ازمائشے كى بھٹى سے صحيح و سالم باہر نہ اسكے ،انھوں نے كفران نعمت اور روگردانى كى راہ اختيار كر لى لہذا خدا نے بھى ان كى سختى كے ساتھ گوشمالى كى _ اسى لئے خداوند عالم فرماتا ہے :''وہ خدا سے رو گرداں ہوگئے _''(7) يہ وہ موقع تھا كہ عذاب كا كوڑا ان كے پيكر پر اكر پڑا ،جيسا كہ قران كہتا ہے :''ہم نے بنيادوں كو اكھاڑ كر پھينك دينے والا وحشتناك سيلاب ان كے پاس بھيجا ''(8)اور ان كى آباد سر زمين ايك ويرانے ميں بدل گئي _ اس كے بعد قران اس سرزمين كى باقى ماندہ حالت و كيفيت كى اس طرح سے توصيف كرتا ہے: ''ہم نے ان كے دو وسيع اور پر نعمت باغوں كو ، بے قدر و قيمت كڑوے پھلوں والے ،اور جھاو كے بے مصرف درختوں اور تھوڑے سے بيرى كے درختوں ميں بدل ديا _''(9) اور اس طرح سے ان تمام سر سبز و شاداب درختوں كے بجائے ،بہت ہى كم قدر و قيمت والے بيابانى اور جنگلى قسم كے چند ايك درخت ،كہ شايد ان ميں سے سب زيادہ اہم درخت وہى بيرى كے درخت تھے ،كہ وہ بھى تھوڑى سى ہى مقدار ميں ،باقى رہ گئے تھے ،(اب تم اس كى اس مجمل داستان كو پڑھنے كے بعد خود ہى ان كى مفصل داستان كا انداز ہ لگا لو،كہ خود ان كے اوپر او ر ان كى اباد سر زمين پر كيا گزرى ؟) ممكن ہے كہ ان تين قسم كے درختوں كا بيان ہے كہ جو اس سر زمين ميں باقى رہ گئے تھے ،(درختوں كے )تين مختلف گروہوں كى طرف اشارہ ہو، كہ ان درختوںميں سے ايك حصہ نقصان دہ تھا ،بعض بے مصرف تھے _اور بعض بہت ہى كم نفع دينے والے تھے _ ہم نے انھيں اس طرح منتشر كيا كہ ضر ب المثل بن گئے كس قدر عمدہ تعبير ہے ،قران اس جملہ كے بعد ،كہ جو ان كے درد ناك انجام كے بارے ميں بيان كيا ہے ،كہتا ہے :''ہم نے انھيں ايسى سزا دى اور ان كى زندگى لپيٹ كو ركھ ديا كہ:''انھيں ہم نے دوسروں كے لئے داستان اور افسانہ بنا ديا _''(10) ہاں ان كى تمام تر با رونق زندگى اور درخشاں و وسيع تمدن ميں سے زبانى قصوں،دلوںكى يادوں اور تاريخوں كے صفحات پر چند سطروں كے سوا اور كچھ باقى نہ رہا:''اور ہم نے انھيں برى طرح سے حيران و پريشان كر ديا _''(11) ان كى سر زمين ايسى ويران ہوئي كہ ان ميں وہاں قيام كرنے كى طاقت نہ رہى ،اور زندگى كو باقي ركھنے كے لئے وہ اس بات پر مجبور ہو گئے كہ ان ميں سے ہر گروہ كسى طرف رخ كرے اور خزاں كے پتوںكى طرح ،كہ جو تند و تيز ہواو ں كے اندر ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہيں ،ہر ايك كسى گوشہ ميں جا گرے ،اس طرح سے كہ ان كى پريشانى ضرب المثل بن گئي ،كہ جب كبھى لو گ يہ كہنا چاہتے كہ فلاں جمعيت سخت پر اگندہ اور تتر بتر ہوگئي تو وہ يہ كہا كرتے تھے كہ:(وہ قوم سبا ء اور ان كى نعمتوں كى طرح پراگندہ ہوگئے ہيں )_ بعض مفسرين كے قول كے مطابق قبيلہ ''غسان ''شام كى طرف گيا اور ''اسد ''عمان كى طرف، ''خزاعہ''تہامہ كى طرف ،اور قبيلہ ''انمار''يثرب كى طرف _ اور اخرميں فرماتا ہے:''يقينا اس سر گزشت ميں ،صبر اور شكر كرنے والوں كے لئے عبرت كى ايات اور نشانياں ہيں _''(12) حوالاجات (1)مغرب كے وزن پر (2)بعض''سباء ''كو سر زمين يمن كا اس كے كسى علاقے كا نام سمجھتے ہيں ،سورہ نمل ميں سليمان و ہد ہد كے قصہ ميں قران مجيد كا ظا ہر بھى يہى نشاندہى كرتا ہے ''سبا ''كسى جگہ ،علاقے يامقام كا نام ہے ،جہاں پر وہ كہتا ہے كہ ''ميں سر زمين سبا سے تيرے پاس ايك يقينى خبر لے كر ايا ہوں _'' جب كہ زير بحث ايت كا ظاہر يہ ہے كہ سبا ايك قوم تھى كہ جو اس علاقے ميں رہتى تھى ،كيونكہ ضمير جمع مذكر (ھم) ان كى طرف لوٹ رہى ہے _ ليكن ان دونوں تفسيروں ميں كوئي منافات نہيں ہے ،كيونكہ ممكن ہے كہ ابتداء ميں سبا كسى شخص كا نام ہو ، پھر اس كے تما م بيٹے اور قوم اس نام سے موسوم ہوں اور اس كے بعد يہ نام اس سرزمين كى طرف بھى منتقل ہو گيا ہو (3)سورہ سباء ايت 15 (4)سورہ سباء ايت 15 (5)سورہ سباء ايت 18 (6)سورہ سباء ايت 15 (7)سورہ سباء ايت 16 (8)سورہ سباء ايت 16 (9)سورہ سباء ايت 16 (10)سورہ سباء ايت 9 (11)سورہ سباء ايت 9 (12)سورہ سباء ايت 19 منبع:http://www.shiaarticles.com/