تفسيربالراٴى کے معنى
تفسيربالراٴى کے معنى
0 Vote
123 View
اس بات کے مسلم ہوجانے کے بعد کہ اسلام ميں تفسيربالرائي کى کوئى جگہ نہيں ہے اور يہ عمل قطعاحرام اورناجائزہے ۔ علماء اسلام کے درميان اس روایت کى تشریح ميں اختلاف شروع ہوگياکہ تفسيربالراى کے معنى کياہيں اورقرآن کى کس طرح کى تفسيرجائزنہيں ہے ۔ علامہ سیوطى نے اتقان ميں حسب ذيل احتمالات کاتذکرہ کيا ہے : ۱۔ قرآن مجيدکو سمجنے کے لئے جن پندرہ علوم کى ضرورت ہے ،جن سے مزاج عربیت ،اسلوب ادبیت اورآہنگ قرآن کااندازہ کياجاسکتاہے ۔ ان سب ميں مہارت پیداکئے بغیرقرآن مجيدکى ايات کے معنى بيان کرنا۔ ۲۔ قرآن مجيدميں متشابہات کے مفاہیم کامقررکرنا۔ ۳۔ فاسد مذاہب اورعقائدکوبنياد بناکران کى روشنى ميں قرآن مجيدکي آيات کے معانى مقررکرنا۔ ۴۔ اس اندازسے تفسيرکرنا کہےقینا يہى مراد پروردگارہے جب کہ اس کاعلم راسخون فى العلم کے علاوہ کسى کونہيں ہے. ۵۔ اپنى ذاتي پسنداورخواہش کوبنياد بناکرآيات قرآن کى تفسيرکرنا۔ ۶۔ مشکلات قرآن کى تفسيرصحابہ اورتابعین کے اقوال سے مددلئے بغیربيان کردینا ۔ ۷۔ کسى آیت کے اےسے معنى بيان کرنا جس کے بارے ميں معلوہوکہ حق ےقےنا اس معنى کے خلاف ہے ۔ ۸۔ ظواہرقرآن پرعمل کرنا ۔ اس عقےدہ کى بنيادپرکہ اس کاظہور ہے ليکن اس کاسمجھنا معصوم کے بغےرممکن نہيں ہے ۔ ان تمام اقول سے صاف واضح ہوجاتاہے کہ ان ميں تفسيربالراي کى واقعےت کى تحليل نہيں کى گئى ہے بلکہ اس کے طرےق کارپربحث کى گئى ہے کہ تفسيربالراى کرنے والا کياکياوسائل اختيارکرتاہے ۔ خصوصےت کے سا تھ صحابہ اورتابعےن کى امدادکے بغےرتفسيرکوتفسيربالراى قراردےنے کامطلب يہ ہے کہ صحابہ اورتابعےن کوہرطرح کى تفسيرکرنے کاحق ہے صرف ان کے بعدوالوں کى تفسيربالراي کرنے کاحق نہيں ہے اورانھےں صحابہ کرام ياتابعےن سے مدد لینا پڑے گى جب کہ روايات ميں اس طرح کاکوئى اشارہ نہيں ہے اورنہ قانونا يہ بات صحيح ہے ۔ مرادالہى کى غلط تفسيرکرنابہرحال حرام ہے چاہے صحابہٴ کرام کریں ياکوئى اوربزرگ ۔ اس لئے کہ ان سب کوخداکى طرف سے کوئى الہامى علم نہيںدياگياہے ۔ ائمہ اہليبيت اس قانون سے اس لئے مستثنى ہيں کہ انھےں پروردگارکى طرف سے علم قرآن دے کر دنياميں بھےجاگياہے جس کے بے شمارشواہد تاريخ اورسےرت کى کتابوں ميں موجودہيں ۔ تفسيربالراى کى حقيقت کوسمجھنے کے لئے اس نکتہ کونظرميں رکھنابے حدضرورى ہے کہ مذکورہ روا يات ميںتفسيربالراى جرم نہيںہے بلکہ راى کى اضافت ضميرکى طرف ہے يعنى اپنى رائے سے تفسيرکرنا ۔ جس کامطلب يہ ہے کہ مقام تفسيرميںرائے اوراجتھاد کااستعمال کرنامضرنہيںہے ۔مضريہ ہے کہ مرادالہى کوطے کرنے ميں اپنى ذاتى رائے کوداخےل بناياجائے اوراسى بنيادپربعض علماء نے وضاحت کى ہے کہ تفسيرکاکام رائے اوراجتہادکے بغےرممکن نہيں ہے ليکن اس رائے کوشخصى نہيںہوناچاہئےے بالکہ قانوني ہوناچاہےٴے ۔اورقانى اورشخصى کافرق يہ ہے کہ جس تفسيرميں دےگرآيات کے مزاج کوپےش نظررکھاجاتاہے اورآيات ميں اجتہادى نظرکے بعدمعنى طے کئے جاتے ہيں وہ تفسيربالراي نہيں ہے اورجس مفسرميں تمام آيات سے قطع نظرکرکے اپنى ذات اوراپنى فکراورخواہش کوحکم بناياجاتاہے وہ تفسيربالراى ہے ۔ دوسرے لفظوںميں يوں کہا جائے کہ دنياکے ہرکلام کى تفسيروتشرےح اسى کلام کے الفاظ وعبارات کى روشنى ميں ہوتى ہے اورقرآن مجيدکى تفسيروتشرےح کے لئے جملہ آ يات کے مزاج پرنگاہ رکھنے کى ضرروت ہوتى ہے اوراس کےبغیرصحيح تفسيرنہيں ہوسکتى ہے۔ اس لئے با ربار تدبرفى القرآن کى دعوت دى گئى ہے کہ انسان پورے قرآن پرنظررکھے اوراسى کى روشنى ميں ہرآےت کامفہوم طے کرے ۔ الرايٴ اورراٴيہ کے فرق کونگاہ ميں رکھنے کے بعد يہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ آيات قرآن کى تفسير ميں استقلالى رائے مضرہے اوراس کااستعمال جرم ہے ليکن وہ رائے جومطالعہٴ قران سے حاصل ہوئى ہے اورجس کے حصول ميںتفکراورتدبرفى القرآن سے کام ليا گياہے اس کے ذرےعہ تفسيرقرآن ميںکوئى مضائقہ نہيں ہے اوروہى تفسيرقرآن کاواحدذرےعہ ہے ، جس کے چنددلائل اس مقام پردرج کئے جارہے ہيں ۔ ۱۔ روايات نے تفسيربالراى ميں دونوں احتمالات کاذکرکياہے ۔ يہ بھى ممکن ہے کہ انسان واقعى مرادکوحاصل کرلے اوريہ بھى ممکن ہے کہ غلطى کرجائے ۔ يہ اوربات ہے کہ واقع کے ادراک ميں بھى ثواب سے محروم رہے گا اوريہ اس بات کي علامت ہے کہ ذاتى رائے کااستعمال مضرہے اگرچہ اس کے منزل تک پہونچانے کاامکان بھى ہے ليکن اس طرےقہء کارکى اجازت نہيں دي جاسکتى ہے ،بلکہ صحيح طریقہٴ کاروہى ہے کہ تمام آيات کے مراجعہ کے بعد آيات کامخفى مفہوم منظرعام پرلاياجائے ۔ ۲۔ تفسيربالراى کى روايات عام طورپرسرکاردوعالم سے نقل ہوئى ہيں اورآپ نے اس کى شدت سے ممانعت کى ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ يہ وہ طرےقہٴ کارہے جس کاامکان سرکارکے زمانے ميں بھى تھا بلکہ کچھ زيادہ ہى تھا اوراسى لئے آپ نے شدت سے منع کياہے اورشاےد اس کارازيہ تھا کہ اس دورميںقرآن مجيد مکمل شکل ميں امت کے ہاتھوں ميںموجودنہ تھا اوراس طرح ہرشخص کے لئے تمام آيات کى طرف مراجعہ کرنااوران کے اسلوب وآہنگ سے استفادہ کرناممکن نہيں تھااوريہ خطرہ شدےدتھا کہ ہرشخص اپنى ذاتي پسندياخواہش سے آيات کامفہوم طے کردے ۔اس لئے آپ نے شدت سے ممانعت فرمادى کہ يہ راستہ نہ کھلنے پائے ورنہ قرآن کے مفاہےم تباہ وبربادہوکررہ جائےں گے ۔ ۳۔ اگرہرمسئلہ ميںروا يات ہى کى طرف رجوع کياجائے گا اورآيات کى کوئى تفسيرروايات کے بغےرممکن نہ ہوگى توتدبرفى القرآن کے کوئى معنى نہ رہ جائےںگے اوران روايات کابھى کوئى مقصدنہ رہ جائے گا جن ميں روايات کى صحت وخطاکامعيارقرآن مجيدکوقراردياگياہے اوريہ کہاگياہے کہ ہمارى طرف سے آنے والى روايات کوکتاب خداپرپےش کرواوردےکھوکہ موافق ہيں يانہيں ۔ اگرموافق ہيں تولے لو ورنہ دےوارپرماردو ۔ ظاہرہے کہ اگرروايات کے بغےرقرآن مجيدپرعمل کرناممکن نہ ہوگا تواس کا کوئى مفہوم ہى متعےن نہ ہوسکے گا ،اورجب مفہوم متعےن نہ ہوگا توکس چےزپرروايات کوپےش کياجائے گا اورکس کى مطابقت اورعدم مطابقت کوحق وباطل کامعياربناياجائے گا ۔ اس کامطلب يہ ہے کہ قرآن مجيدکى آيات کے پوشےدہ معانى کاانکشاف کرنے کے لئے قرآن مجيدہى کے اسلوب ا ورآہنگ کومعياربناياجائے گا اوراس ميںکسى شخص کي ذاتى رائے ياخواہش کادخل نہ ہوگا ۔ تفسيربالراى کى ايک مختصرمثال يہ ہے کہ قرآن مجيدنے بيان کياکہ ”ان من شئي الاعندناخزائنہ الخ“(ہمارے پاس ہرشے کے خزانے ہيں)۔ اس آےت کودےکھنے کے بعدمفسرن اندازہ کياکہ آسمان پرکوئى عظےم خزانہ ہے جہاں کائنات کى ہرشے کاذخيرہ موجودہے ۔اس کے بعد دوسرى آيت پرنظرڈالى ”وماانزل اللہ من السماء من رزق فاحيابہ الارض بعد موتھا“(خدانے آسمان سے رزق نازل کياہے اوراس کے ذرےعہ مردہ زمین کوزندہ بنا ديا ہے ) ۔ اوراس سے اندازہ ہواکہ بارش کوبھى رزق کہاجاتاہے اوراس کابھى خزانہ آسمان پرہے ۔ پھراپنى ذاتى فکرکا اضافہ کياکہ انسان اورحےوان آسمان سے نازل نہيں ہوتے ،لہذا خزانہ سے مرادآسمانى اشياء ہيں ،زمےن کى چيزيں نہيں ہيں ۔ حالانکہ اس تخصےص کااسے حق نہيںتھا اس لئے کہ اسے نہ آسمان کى حقےقت معلوم ہے اورنہ نزول کے طرےقہ کاعلم ہے اورقرآن مجيد سے ان حقائق کاادراک کئے بغيران کے بارے ميں اظہاررائے کاکوئي حق نہيں ہے اوراس کوتفسيربالراى ياقول بلاعلم کانام دياجائے گا ۔ رہ گياسےوطى کايہ بيان کہ صحابہٴ کرام کى تفسيرسے قطع نظرکرکے تفسيرکرنے کوتفسيربالراي کہاجاتاہے اورجس کى دلےل يہ دى گئى ہے کہ وہ عصرپےغمبرميںموجودتھے اورانھےںحقائق قرآن کاعلم تھااوران سے سترہزارروايات نقل ہوئى ہيں لہذا ان سے الگ ہوکرنا خلاف اسلام ہے ۔ تواس کاواضح ساجواب يہ ہے کہ قرآن مجيدکادعوي ہے کہ وہ ہرشے کاتبيان ہے اس کے متشابہات محکمات کے ذريعہ واضح ہوجاتے ہيںلہذا اسے اصحاب کے فکرکي کوئى ضرورت نہيں ہے پھراس کى تحدى کے مخاطب کفارومشرکےن ہيں اوروہ اصحاب کے فہم کے محتاج ہوگئے توتحدى اورچےلنج کے کوئي معنى نہ رہ جائےں گے ۔ دوسرى لفظوں ميں يوں کہاجائے کہ اصحاب کاقول ظاہرکلام کے مطابق ہے توظہور خودہى کافى ہے کسى قول کى ضرورت نہيں ہے اورخلاف ظاہرقرآن ہے توتحدى بےکارہے اوراس کاکوئى مفہوم نہيں ہے اس لئے کہ جس کلام کے معنى معلوم نہ ہوں اوروہ خود غےرواضح ہواس کامقابلہ اورجواب لانے لانے کاسوال ہى نہيںپےداہوتاہے ۔ رہ گئے احکام کے تفصےلات توان کے لئے مرسل اعظم اورمعصومےن کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت ہے اوريہ بھى مطابق حکم قرآن ہے کہ جورسول دےدے اس لے لو،اورجس چےزسے منع کردے اس سے رک جاؤ ۔ گويآےت کامفہوم عربى زبان کے قواعدکے اعتبارسے واضح ہے اوراس پرعمل کرنے کے لئے مرسل اعظم کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت ہے جےساکہ خودمرسل اعظم نے قرآن مجيد سے تمسک کرنے کاحکم دياہے اورکھلى ہوئي بات ہے کہ اس کلام سے تمسک کرناممکن نہيں ہے جس کامفہوم واضح نہ ہو اورجس کے بارے ميں کسى طرح کى تحقيق اورتفتيش تفسيربالراي قرارپاجائے ۔ اس مقام پريہ سوال ضرورپےداہوسکتاہے کہ رسول اکرم نے قرآن اوراہلبيت دونوںسے تمسک کرنے کاحکم دياہے اوريہ فرمادياہے کہ يہ دونوں جدانہيں ہوسکتے ہيں تواس کامطلب يہ ہے کہ قرآن مجيدکے معانى کااخذکرنا عترت واہليبيت کى توضےح کے بغےرممکن نہيں ہے ۔ ليکن اس کاواضح ساجواب يہ ہے کہ قرآن اورعترت دونوںسے تمسک کرنے کاحکم دےنااس بات کى علامت ہے کہ دونوںاپنے اپنے مقام پرحجت ہيں کہ اگرحکم قرآن ميںموجودہے اوراہليبيت کى زندگى سامنے نہيں بھى ہے تووہ بھى واجب العمل ہے ۔ اوراگراہليبيت نے فرماديا ہے اورقرآن مجيدميںنہيں بھى مل رہاہے توبھى واجب العمل ہے فرق صرف يہ ہے کہ قرآن ظاہر الفاظ کے معانى معےن کرتاہے اوراہلےبت مقاصدکى وضاحت کرتے ہيں جس طرح کہ قرآن مجيد نے اجمال سے کام لياہے اورسرکاردوعالم نے اپنے اقوال واعمال سے اس اجمال کى وضاحت کى ہے اوراس کابہترین ثبوت يہ ہے کہ خود اہليبيت نے بھى آيات قرآن سے استدلال کياہے اوراس کے ظہورکاحوالہ دے کرامت کومتوجہ کياہے کہ اس کے الفاظ وآيات سے کس طرح استنباط کياجاتاہے ۔ محاسن ميں امام محمدباقرکايہ واضح ارشادموجودہے کہ ”جس شخص کاخيال يہ ہے کہ قرآن مجيدمبہم ہے وہ خودبھى ہلاک ہوگيااوراس نے دوسروںکوبھى ہلاک کرديا۔-“ خلاصہ کلام يہ ہے کہ قرآن کى تفسيرکاصحيح راستہ تفسيرقرآن بالقرآن ہے ۔ ارشادات معصومےن کا سہارالےنااس لئے ضرورى ہے کہ اس سے آيات قرآن کوجمع کرکے ايک نتےجہ اخذکرنے کاسلےقہ معلوم ہوتاہے اورمعصومےن عليہم السلام نے اسى اندازسے قوم کى تربےت بھى کى ہے ، چنانچہ امےرالمومنے کے دورميں جب دربارخلافت ميں اس عورت کامقدمہ پےش ہواجس کے يہاں چھ مہےنے ميںبچہ پےداہوگياتھا اورحاکم وقت نے حدجارى کرنے کاحکم دےديا توآپ نے فرماياکہ اس عورت پرحدجارى نہيں ہوسکتى ہے اس لئے کہ قرآن مجيدنے اقل مدت حمل چھ ماہ قراردى ہے اورجب قوم نے حےرت واستعجاب کامظاہرہ کيا توآپ نے دومختلف آيات کاحوالہ ديا ۔ ايک آےت ميںانسان کے حمل اوررضاعت کاکل زمانہ تےس ماہ بتاياگياہے اوردوسرى آےت ميںعورتوں کے دوسال دودھ پلانے کاتذکرہ کياگياہے ۔ اوردونوںکوجمع کرکے فرماياکہ دوسال مدت رضاعت نکالنے کے بعد حمل کازمانہ صرف چھ ماہ باقى رہ جاتاہے لہذانہ اس ولادت کوغلط کہاجاسکتاہے اورنہ اس عورت پرحدجارى کى جاسکتى ہے ۔ جس کامقصد يہ ہے کہ قرآن مجيدسے استنباط کرناہے توايک آےت سے ممکن نہيں ہے ،آيات کوباہم جمع کرناہوگا اورسب کے مجموعہ سے ايک نتےجہ اخذکرناہوگااوراسي کانام تفسيرقرآن بالقرآن ہے کہ انسان کوحمل کے بارے ميں قرآني نظريہ معلوم کرناہے توان دوآيات کوجمع کرلے ،قرآنى نظريہ خودبخود سامنے آجائے گا ۔ منبع:http://jsoir.blogfa.com