توحید

1. الله كا وجود ہمارا عقیدہ یہ ہے كہ الله اس پوری كائنات كا خالق ہے اور اس دنیا میں موجود ہر شئی كی پیشانی پر اس كی عظمت ،قدرت اور علم كی نشانیاں جلوہ نما ہے۔ اب چاہے وہ ہماراجودہویاجمادات و نباتات، آسمان كے ستارے ہوں یا عالم بالا ۔ ہمارا عقیدہ ہے كہ ہم اس دنیا كے رازوں كے بارے میں جتنا زیادہ غورو فكر كریں گے اس پاك ذات كی عظمت ، قدرت اور علم كے بارے میں ہم كو اتنی ہی زیادہ جانكاری حاصل ہوگی ۔ جیسے جیسے انسان كاعلم بڑھ رہا ہے ویسے ویسے اس كے علم و حكمت ہم پر ظاہر ہوتے جارہے ہیں اور سے ہماری فكر میں اضافہ ہورہاہے۔ یہ فكر ہی اس ذات سے عشق كو زیادہ بڑائے گی اور ہر لمحہ ہم كو اس مقدس ذات سے قریب تر كرتی رہے گی اور اس كے نور جلال و جمال میں غرق كردے گی۔ قرآن كریم فرماتا ہے كہ وفی الارض آیات للموقنین وفی انفسكم افلا تبصرون یعنی یقین حاصل كرنے والوں كے لئے زمین میں نشانیاں موجود ہیں اور كیا تم نہیں دیكھتے كہ خودتمہارے وجود میں بھی نشانیاں پائی جاتی ہیں؟ ان فی خلق السمٰوات والارض واختلاف اللیل والنہار لآیات لاولی الالباب الذین یذكرون الله قیاماً وقعوداً وعلی جنوب هم ویتفكرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت هذا باطلاً یعنی بیشك زمین و آسمان كی خلقت میں اور رات كے آنے جانے میں صاحبان عقل كے لئے نشانیاں ہیں۔ ان صاحبان عقل كے لئے جو كھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے اور كروٹ سے لیٹے ہوئے الله كا ذكر كرتے ہیں اور زمین و آسمان كی خلقت كے رازوں كے بارے میں فكر كرتے ہیں( اور كہتے ہیں) اے پالنے والے تونے انھیں بیكار خلق نہیں كیا ہے۔ 2. صفات جمال و كمال ہمارا عقیدہ ہے كہ الله كی ذات ہر عیب و نقص سے پاك و منزہ اور تمام كمالات سے آراستہ ہے۔ بلكہ كمال مطلق و مطلق كمال ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ كہا جا سكتا ہے كہ اس دنیا میں جتنے بھی كمال اور اچھائیاں پائی جاتی ہیں ان سب كا سرچشمہ وہی پاك ذات ہے۔ هو الله لا اله الا هو الملك القدوس السلام المومن المهیمن العزیز الجبار المتكبر سبحان الله عما یشركون هوالله الخالق البارئ المصور له الاسماء الحسنی ٰ یسبح له ما فی السموات والارض هو العزیز الحكیم یعنی الله وہ ہے جس كے علاوہ كوئی معبود نہیں ہے وہی اصلی حاكم و مالك ہے، وہ ہر عیب سے پاك ومنزہ ہے، وہ كسی پر ظلم نہیں كرتا، وہ امن دینے والا اور ہر چیز كی مراقبت كرنے والا ہے، وہ ایسا قدرت مند ہے كہ جس كے لئے شكست نہیں ہے، وہ اپنے نافذ ارادہ سے ہر كام كی اصلاح كرتا ہے ، وہ شائستہ عظمت ہے، وہ اپنے شریك سے منزہ ہے۔ وہ الله بے سابقہ خالق و بے نظیر مصور ہے، اس كے لئے نیك كام( ہر طرح كے صفات كمال) ہیں، جو بھی زمین وآسمانوں میں پایا جاتا ہے اس كی تسبیح كرتا ہے وہ عزیزو حكیم ہے۔ اس كے كچھ صفات جلال و كمال یہ ہیں۔ 3. اس كی پاك ذات لامتناہی ہے ہمارا عقیدہ ہے كہ اس كا وجود لامتناہی ہے از نظر علم و قدرت ، و از لحاظ حیات ابدیت و ازلیت ، اسی وجہ سے وہ زمان و مكان میں نہیں پایا جاتا كیونكہ جو بھی زمان و مكان میں پایا جاتا ہے وہ محدود ہوتا ہے۔ لیكن اس كے باوجود وہ ہر وقت اورہر جگہ موجود رہتاہے كیونكہ وہ فوق زمان و مكان ہے و هو الذی فی السماء ا له وفی الارض ا له و هو الحكیم العلیم یعنی (الله )وہ ہے جو زمین میں بھی موجود ہے اور آسمان مین بھی اور وہ علیم وحكیم ہے و هو معكم اینما كنتم والله بما تعملون بصیر یعنی تم جہاں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے اور جو تم انجام دیتے ہو وہ اس كو دیكھتا ہے۔ ہاں وہ ہم سے خودہماری ذات سے زیادہ نزدیكتر ہے، وہ ہماری روحو و جان میں ہے، وہ ہر جگہ موجود ہے لیكن پھر بھی اس كے لئے كوئی مكان نہیں ہے ونحن اقرب الیه من حبل الورید یعنی ہم اس سے اس كی شہ رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ هو الاول ولآخر و الظاهر والباطن و هو بكل شی ٴ علیم یعنی وہ (الله) اول و آخر وظاہر و باطن ہے اور ہر چیز كا جاننے والا ہے۔ ہم جو قرآن میں پڑھتے ہیں ذوالعرش المجید وہ صاحب عرش و عظمت ہے۔ یہاں پر عرش سے مراد كوئ اونچا شاہی تخت نہیں ہے۔ اور ہم قرآن كی ایك دوسری آیت میں جو یہ پڑھتے ہیں الرحمن علی العرش استوی ٰ یعنی رحمن (الله) عرش پر ہے، اس كا مطلب یہ نہیں ہے كہ الله ایك خاص مكان میں رہتا ہے بلكہ اس كا مطلب یہ ہے كہ پورے جہان مادی اورجہان ماوراء طبیعت پر اس كی حاكمیت ہے۔ كیونكہ اگر ہم اس كے لئے كسی خاص مكان كے قائل ہو جائیں گے تو اس كا مطلب یہ ہوگا كہ ہم نے اس كو محدود كردیا ہے، اس كے لئے مخلوقات كے صفات ثابت كر دئے ہیں اور اس كو دوسری تمام چیزوں كی طرح مان لیا جب كہ قرآن خود فرماتا ہے كہ لیس كمثله شی ٴ یعنی كوئی چیز اس كے مثل نہیں ہے۔ ولم یكن له كفواً احد یعنی اس كے مانند و مشابہ كسی چیز كا وجودنہیں ہے۔ 4. نہ وہ جسم ہے اور نہ ہی دكھائی دیتا ہے ہمار عقیدہ ہے كہ الله آنكھوں سے ہر گز دكھائی نہیں دیتا، كیونكہ آنكھوں سے دكھائی دینے كا مطلب یہ ہے كہ وہ ایك جسم ہے جس كو مكان، رنگ، شكل اور سمت كی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تمام صفتیں مخلوقات میں پائی جاتی ہیں اور الله اس سے برتر و بالا ہے كہ اس میں مخلوقات كی صفتیں پائی جائیں۔ اس بنا پر الله كو دیكھنے كا عقیدہ ایك طرح كا شرك ہے۔ كیونكہ قرآن فرماتا ہے كہ لاتدركه الابصار و هو یدرك الابصار و هو اللطیف الخبیر یعنی آنكھیں اسے نہیں دیكھتیں مگر وہ سب آنكھوں كو دیكھتا ہے اور وہ بخشنے والا اور جاننے والاہے۔ اسی وجہ سے جب بنی اسرائیل كے بہانے باز لوگوں نے جناب موسی علیہ السلام سے الله كو دیكھنے كا مطالبہ كیا اور كہا كہ لن نؤمن لك حتی ٰ نری الله جهرةً یعنی ہم آپ پر اس وقت تك ایمان نہیں لائیں گے جب تك كھلے عام الله كو نہ دیكھ لیں۔ حضرت موسی علیہ السلام ان كو كوہ طور پر لے گئے اور جب الله كی بارگاہ میں ان كے مطالبہ كو دہرایا تو ان كو یہ جواب ملا كہ لن ترانی ولكن انظر الی ٰ الجبل فان استقر مكانه فسوف ترانی فلما تجلی ٰ ربه للجبل جعله دكاً وخرموسی ٰ صعقا فلما افاق قال سبحانك تبت الیك وانا اول المومنین یعنی تم مجھے ہر گز نہیں دیكھ سكو گے لیكن پہاڑ كی طرف نگاہ كرو اگر تم اپنی حالت پر باقی رہے تو مجھے دیكھ پاؤ گے اور جب ان كے رب نے پہاڑ پر جلوہ كیا تو انھیں راكھ بنادیا اور موسیٰ بیہوش ہوكر زمین پر گر پڑے، جب ہوش آیا تو عرض كیا كہ پالنے والے تو اس بات سے منزہ ہے كہ تجھے آنكھوں سے دیكھا جا سكے میں تیری طرف واپس پلٹتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سے پہلا مومن ہوں۔ اس واقعہ سے ثابت ہوجاتا ہے كہ خداوند متعال كو ہر گز نہیں دیكھا جاسكتا۔ ہمارا عقیدہ ہے كہ جن قرانی آیات و اسلامی روایات میں الله كو دیكھنے كا تذكرہ ہواہے وہاں پر دل كی آنكھوں سے دیكھنا مردا ہے نہ كہ چشم ظاہری سے كیونكہ قرآن كی آیتیں ہمیشہ ایك دوسرے كی تفسیر كرتی ہیں القرآن یفسر بعضه بعضاً اس كے علاوہ حضرت علی علیہ السلام سے ایك شخص نے سوال كیا كہ” یا امیر المومنین هل را ٴ یت ربك یعنی اے امیر المومنین كیا آپ نے اپنے رب كو دیكھا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” اَاَعبد مالا اری “ یعنی كیا میں اس كی عبادت كرتا ہوں جس كو نہیں دیكھا؟ اس كے بعد فرمایا: ” لا تدركہ العیون بمشاہدة العیان، ولكن تدركہ القلوب بحقایق الایمان “ اس كو یہ آنكھیں تو ظاہری طور پر نہیں دیكھ سكتی مگر دل ایمان كی طاقت سے اس كو درك كرتا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے كہ الله كے لئے مخلوق كی صفات كا قائل ہونا جیسے الله كے لئے مكان، جہت، مشاہدے اور جسمانیت كا عقیدہ ركھنا الله كی معرفت سے دوری اور شرك میں آلودہ ہونے كی وجہ سے ہے۔ وہ تمام ممكنات اور ان كے صفات سے برتر ہے ،كوئی بھی چیز اس كے مثل نہیں ہوسكتی ۔ 5. توحید ، تمام اسلامی تعلیمات كی روح ہے ہمارا عقیدہ ہے كہ الله كی معرفت كے مسائل میں مہم ترین مسئلہ معرفت توحید ہے۔ توحید درواقع اصول دین كی ایك اصل ہی نہیں بلكہ تمام سلامی عقائد كی روح ہے ۔اور یہ بات صراحت كے ساتھ كہی جاسكتی ہے كہ اسلام كے تمام اصول وفروع توحید سے ہی وجود میں آتے ہیں۔ ہر منزل پر توحید كی باتیں ہیں، وحدت ذات پاك، توحید صفات و افعال خدا اور دوسری تفسیر یہ كہ و حدت دعوت انبیاء، وحدت دین وآئیین الٰہی ، وحدت قبلہ اور كتاب آسمانی،تمام انسانوں كے لئے احكام و قانون الٰہی كی وحدت، وحدت صفوف مسلمین اور وحدت یوم المعاد۔ اسی وجہ سے قرآن كریم نے توحید الٰہی كے سلسلہ میں ہرطرح كے انحراف اورشرك كو نہ بخشاجانے والا گناہ كہا ہے۔ ان الله لایغفر ان یشرك به ویغفر مادون ذلك لمن یشاء ومن یشرك بالله فقد افتری اثما عظیماً یعنی الله شرك كو ہرگز نہیں بخشے گا، (لیكن اگر) شرك كے علاوہ (دوسرے گناہ ہیں) توجس كے گناہ چاہے گا بخش دے گا، اور جس نے كسی كو الله كا شریك قرارادیا گویااس نے اس پر تہمت لگائ اور ایك بہت بڑا گناہ انجام دیا ولقد اوحی الیك والی ٰ الذین من قبلك لئن اشركت لیحبطن عملك ولتكونن من الخاسرین یعنی بتحقیق تم پراور تم سے پہلے پیغمبروں پر وحی كی گئی كہ اگر تم نے شرك كیا تو تمھارے تمام اعمال حبط كردیئے جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ 6. توحید كی قسمیں ہمارا عقیدہ ہے كہ توحید كی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سے چار اقسام بہت اہم ہیں: 1۔ توحید در ذات یعنی اس كی ذات یكتا و تنہا ہے اور كوئی اس كے مثل نہیں ہے۔ 2۔ توحید درصفات یعنی اس كے صفات علم ،قدرت ،ازلیت، ابدیت و ۔۔۔۔۔ تمام اس كی ذات میں جمع ہیں اوراس كی عین ذات ہیں۔اس كے صفات مخلوقات كے صفات جیسے نہیں ہیں كیونكہ مخلوق كے تمام صفات ایك دوسرسے جدا اور ان كی ذات بھی صفات سے جدا ہوتی ہے البتہ عینیت ذات خدا وند باصفات كو سمجھنے كے لئے دقت نظر اور ظرافت فكر ی كی ضرورت ہے۔ 3۔ توحید در افعال ہمارا عقید ہے كہ اس عالم ہستی میں جو افعال،حركات واثرات پائے جاتے ہیں، ان سب كا سرچشمہ ارادہٴ الٰہی اور اس كی مشیت ہے الله خالق كل شی ٴ و ہوعلی ٰ كل شی ٴ وكیل یعنی ہر چیز كا خالق الله ہے اور وہی ہر چیز كا حافظ و ناظر ہے له مقالید السموات والارض زمین و آسمان كی تمام كنجیاں اس كے دست قدرت میں ہے ” لامؤثرفی الوجود الا الله ” اس جہان ہستی میں الله كی ذات كے علاوہ كوئی اثر انداز نہیں ہے۔ لیكن اس بات كا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے كہ ہم اپنے اعمال میں مجبور ہیں، بلكہ اس كے برعكس ہم اپنے ارادوں وفیصلوں میں آزاد ہیں ان هدیناه السبیل واما شاكرا واما كفور اً ہم نے انسان كی ہدایت كردی ہے (اس كو راستہ دكھادیاہے ) اب چاہے وہ شكریہ ادا كرے (یعنی اس كو قبول كرے )یا كفران نعمت كرے (یعنی اس كو قبول نہ كرے۔ وان لیس للانسان الا ما سعی ٰ یعنی انسان كے لئے كچھ نہیں ہے مگر وہ جس كے لئے اس نے كوشش كی ہے ۔قرآن كی آیت اس بات كی طرف صریحاًاشارہ كررہی ہے كہ انسان اپنے ارادہ میں آزاد ہے۔ لیكن چونكہ الله نے ارادہ كی آزادی اور ہركام كو انجام دینے كی قدرت ہم كو عطا كی ہے،اس لئے ہمارے كام اس كے بغیر كہ اپنے كاموں كے بارے میں ہماری ذمہ داری كم ہو ،اس كی طرف اسنادپیدا كرتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہئے۔ ہاں اس نے ارادہ كیا ہے كہ ہم اپنے اعمال كو آزادی كے ساتھ انجام دین تاكہ وہ اس طریقہ سے ہماری آزمائش كرسكے اور ہمیں راہ تكامل میں آگے بڑھا سكے۔ انسان كا تكامل تنہا آزادئی ارادے اور اختیار كے ساتھ الله كی اطاعت پر منحصر ہے،كیوں كہ بے اختیاری و جبری اعمال نہ كسی كے نیك ہونے كی دلیل ہے اور نہ بد ی كی۔ اصولاً اگر ہم اپنے اعمال میں مجبور ہوتے تو آسمانی كتابوں كا نزول،انبیاء كی بعثت، دینی تكالیف، تعلیم و تربیت اور اسی طرح سے الله كی طرف سے ملنے والی سزا خالی از مفہوم رہ جاتی۔ یہ وہ چیز ہے كہ جس كو ہم نے مكتب ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے سیكھا ہے انھوں نے ہم سے فرمایا ہے كہ ” نہ جبر مطلق صحیح ہے اور نہ تفویض مطلق بلكہ ایك چیز ہے، لاجبر ولا وتفویض ولكن امراً بین الامرین “ 4۔ توحید در عبادت یعنی عبادت صرف الله سے مخصوص ہے اور اس كی پاك ذات كے علاوہ كسی معبود كا وجو د نہیں ہے۔توحید كی یہ قسم سب سے اہم قسم ہے اور اس كی اہمیت اس بات سے آشكار ہو جاتی ہے كہ الله كی طرف سے آنے والے تمام انبیاء نے اس پر ہی زیادہ زور دیا ہے < وما امروا لا لیعبدوا الله مخلصین له الدین حنفاء ۔۔۔ وذلك دین القیمة یعنی پیغمبروں كو اس كے علاوہ كوئی حكم نہیں دیا گیا كہ تنہا الله كی عبادت كریں، اور اپنے دین كو اس كے لئے خالص بنائیں اور توحید میں كسی كو شریك قرار دینے سے دور رہیں۔۔۔۔۔۔اور یہی الله كا محكم ایمان ہے۔ اخلاق و عرفان كے تكامل كے مراحل طے كرنے سے توحید اور عمیق تر ہو جاتی ہے اور انسان اس منزل پر پہونچ جاتا ہے كہ فقط الله سے ہی لو لگائے ركھتا ہے۔ہرجگہ اس كو چاہتا ہے اور اس كے علاوہ كسی غیر كے بارے میں نہیں سوچتا۔ اور كوئی چیز اسے الله سے ہٹا كر اپنے میں مشغول نہیں كرتی كلما شغلك عن الله فهو صنمك یعنی جوچیز تمہیں الله سے دور كركے اپنے میں الجھا دے وہی تمہارا بت ہے۔ 5۔ توحید درمالكیت یعنی ہر چیز الله كی ملكیت ہے لله ما فی السمو ٰات وما فی الارض 6۔ توحید در حاكمیت یعنی قانون فقط الله كا قانون ہے ومن لم یحكم بما انزل الله فاولئك هم الكافرون یعنی جو الله كے نازل كئے ہوئے (قانون كے مطابق) فیصلہ نہیں كرتے وہ سب كافر ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے كہ توحید افعالی اس حقیقت كی تاكید كرتی ہے كہ الله كے پیغمبروں نے جو معجزات دكھائے ہیں وہ الله كے حكم سے تھے۔ كیونكہ قرآن كریم حضرت عیسی علیہ السلام كے بارے میں فرماتا ہے كہ وتبری ٴ الاكمه والابرص باذنی واذ تخرج الموتی ٰ باذنی یعنی تم نے مادر آزاد اندھوں اور لاعلاج كوڑھیوں كو میرے حكم سے صحت دی اور مردوں كو میرے حكم سے زندہ كیا ۔ اور جناب سلیمان علیہ السلام كے ایك وزیر كے بارے میں فرمایا قال الذی عنده علم من الكتاب انا آتیك به قبل ان یرتد الیك طرفك فلما ره مستقراً عنده قال هذا من فضل ربی یعنی جس كے پاس آسمانی كتاب كا تھوڑا سا علم تھا اس نے كہا كہ اس سے پہلے كہ آپ كی پلك جھپكے میں اسے (تخت بلقیس) آپ كی خدمت میں لے آؤں گا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس كو اپنے پاس كھڑا پایا تو كہا یہ میرے پروردگار كے فضل سے ہے۔ اس بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام كی طرف الله كے حكم سے لاعلاج مریضوں كو شفا دینے اور مردوں كو زندہ كرنے كی نسبت دینا جس كو قرآن كریم نے صراحت كے ساتھ بیان كیا ہے، عین توحید ہے۔ 7. فرشتگان خدا فرشتوں كے وجود پر ہمارا یقین ہے او رہمارا عقیدہ ہے كہ ان میں سے ہر ایك كی ایك خاص ذمہ داری ہے: ایك گروہ پیغمبر وں پر وحی لانے پر معمور ہے۔ ایك گروہ انسانوں كے اعمال كو حفظ كرنے پر ۔ ایك گروہ روحوں كو قبض كرنے پر۔ ایك گروہ استقامت كے لئے مومنین كی مدد كرنے پر ۔ ایك گروہ جنگ میں مومنوں كی مدد كرنے پر ۔ ایك گروہ باغی قوموں كو سزا دینے پر ۔ اور ان كی ایك سب سے اہم ذمہ داری اس جہان كے نظام سے متعلق ہے ۔كیونكہ یہ سب ذمہ داریاں الله كے حكم اور اس كی طاقت سے ہیں، لہٰذا اصل توحید افعالی اور توحید ربوبیت كے متنافی نہیں ہے بلكہ اس پر تاكید ہیں۔ ضمناً یہاں سے مسئلہ شفاعت پیغمبران ،معصومین علی ہم السلام وفرشتگان بھی روشن ہو جاتا ہے۔ كیونكہ یہ الله كے حكم سے ہے لہٰذا یہ عین توحید ہے < مامن شفیع الامن بعد اذنه یعنی كوئی شفاعت كرنے والانہیں ہے مگر الله كے حكم سے ۔مسئلہ شفاعت اور توسل كے بارے میں زیادہ شرح نبوت كی بحث میں بیان كی جائے گی ۔ 8. عبادت صرف الله سے مخصوص ہے ہمارا عقیدہ ہے كہ عبادت صرف الله كی ذات سے مخصوص ہے۔ (جیسا كہ اس بارے میں توحیدعبادت كی بحث میں اشارہ كیا گیا ہے) اس بنا پر جو بھی اس كے علاوہ كسی دوسرے كی عبادت كرتا ہے وہ مشرك انجامدیتا ہے۔تمام انبیاء كی تبلیغ بھی اسی نكتہ پر مركوز تھی اعبدوا الله مالكم من اله غیرہ یعنی الله كی عبادت كرو اس كے علاوہ تمھارا اور كوئی معبود نہیں ہے ۔یہ بات قرآن كریم میں پیغمبروں سے متعدد مرتبہ نقل ہوئی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے كہ ہم تمام مسلمان ہمیشہ اپنی نمازوں میں سورہٴ حمد كی تلاوت كرتے ہوئے اس اسلامی نعرہ كو دہراتے رہتے ہیں ایاك نعبد وایاك نستعین یعنی ہم تیری ہی عبادت كرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے كہ الله كے اذن سے پیغمبروں و فرشتوں كی شفاعت كا عقیدہ جو قرآن كریم كی آیات میں بیان ہوا ہے عبادت كے معنی میں ہے۔ پیغمبروں سے اس طر ح كا توسل جس میں یہ خواہش كی جائے كہ پروردگار كی بارگاہ میں توسل كرنے والے كی مشكل كاحل طلب كریں ،نہ تو عبادت شمار ہوتا ہے او رنہ ہی توحید افعالی یا توحید عبادی كے منافی ہے ۔اس مسئلہ كی شرح نبوت كی بحث میں بیان كی جائے گی۔ 9. ذات خدا كی حقیقت سب سے پوشیدہ ہے ہماراعقیدہ ہے كہ اس كے باوجود كہ یہ دنیا الله كے وجود كی نشانیوں سے پر ہے، پھر بھی اس كی ذات كی حقیقت كسی پر روشن نہیں ہے اور نہ ہی كوئی اس كی ذات كی حقیقت كوسمجھ سكتا ہے۔ كیونكہ اس كی ذات ہر لحاظ سے لا محدود اور ہماری ذات ہر لحاظ سے محدودہ، لہٰذا ہم اس كی ذات كا احاطہ نہیں كرسكتے الا انه بكل شی ٴ محیط یعنی جان لو كہ اس كا ہر چیز پر احاطہ ہے ۔یا یہ آیت كہ والله من ورائهم محیط یعنی الله ان سب پر احاطہ ركھتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم كی ایك مشہور ومعروف حدیث ہے كہ: ” ماعبدناك حق عبادتك واما عرفناك حق معرفتك “ یعنی نہ ہم نے تیرا حق عبادت ادا كیا اور نہ حق معرفت۔ لیكن اس كا مطلب یہ نہیں ہے كہ جس طرح ہم اس كی ذات پاك كے علم تفصیلی سے محروم ہیں اسی طرح علم اجمالی ومعرفت سے بھی محروم ہیں اور معرفة الله كے باب میں صرف ان الفاظ پر قناعت كرتے ہیں جن كا ہمارے لئے كوئی مفہوم نہیں ہے۔ معرفة الله كایہ باب ہمارے نزدیك قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس كے معتقد ہیں ،كیونكہ قرآن كریم اور دوسری آسمانی كتابیں الله كی معرفت كے لئے ہی نازل ہوئی ہیں۔ اس موضوع كے لئے بہت سی مثالیں بیان كی جاسكتی ہیں جیسے ہم روح كی حقیقت سے واقف نہیں ہیں لیكن روح كے وجودكے بارے میں ہمیں اجمالی علم ہے اور ہم اس كے آثاركا مشاہدہ كرتے ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا كہ: ” كلما میزتموه باوهامكم فی ادق معانیة مخلوق مصنوع مثلكم و مردود الیكم “ یعنی تم اپنی فكر و فہم میں جس چیز كو بھی اس كے دقیق معنی میں تصو ركروگے وہ مخلوق اور تمھاری پیدا كی ہوئی چیزہے، جو تمھاری ہی مثل ہے اور وہ تمھاری ہی طرف پلٹا دی جائے گی ۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے معرفة الله كے دقیق و نازك مسئلے كو بہت سادہ وزیبا تعبیر كے ذریعہ بیان فرمایا ہے: ” لم یطلع الله سبحانہ العقول علی ٰ تحدید صفته ولم یحجبها امواج معرفته “یعنی الله نے عقلوں كو اپنی ذات كی حقیقت سے آگاہ نہیں كیا لیكن اس كے باوجود ضروری معرفت سے محروم بھی نہیں ركھا۔ 10. نہ تعطیل نہ تشبیہ ہمارا عقیدہ ہے كہ جس طرح سے الله كی پہچان اور اس كے صفات كی معرفت كو ترك كرنا صحیح نہیں ہے اسی طرح اس كی ذات كو دوسری چیزوں سے تشبیہ دینا بھی غلط اور موجب شرك ہے۔ یعنی جس طرح اس كی ذات كو دوسری مخلوق سے مشابہ نہیں مانا جاسكتا اسی طرح یہ بھی نہیں كہا جاسكتا كہ ہمارے پاس اس كے پہچاننے كا كوئی ذریعہ نہیں ہے اور اس كی ذات اصلاً قابل معرفت نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پر غور كرنا چاہئے كیونكہ ایك راہ افراط اور دوسری راہ تفریط ہے۔ منبع:shiaarticles.com