توحید کے درجات

-1توحید ذاتی توحید ذاتی کی تعری سوال : توحید ذاتی کے کیا معنی ہیں؟ جواب : توحید ایسی رسی ہے جس سے تمام مسلمان بلکہ دوسرے ادیان کے ماننے والوں نے بھی تمسک کیا ہے اور سب اس کو قبول کرتے ہیں ۔ توحید ذاتی کے دو معنی ہیں : اول : خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شبیہ او رمثل نہیں ہے ۔ دوم : خدا کی ذات بسیط ہے اور اس میں کثر نہیں پائی جاتی : ”ولم یکن لہ کفوا احد“ (۱) ۔ یہ آیت پہلے معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ”قل ھو اللہ احد“ (۲) یہ آیت دوسرے معنی کی طرف اشارہ کرتی (۳) ۔ --2توحید صفاتی توحیدصفاتی کی تعریف سوال : توحید صفاتی کے کیا معنی ہیں؟ جواب : یقینا خداوند عالم ایسے صفات سے متصف ہے جو اس کی ذات کے کمال کو بیان کرتے ہیں مثلا کہا جاتا ہے کہ وہ عالم، قادر اور زندہ ہے ۔ انسان بھی انہی صفات سے متصف ہیں وہ بھی خداوند عالم کے حکم سے عالم، قادر اور زندہ ہیں ، لیکن خداوندعالم اور ان کے صفات میں دو اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے : اول : ان صفات (علم،قدرت اور حیات) کا مفہوم مختلف ہے ، لیکن وجود کے اعتبار سے خداوند عالم میں یہ تمام صفات ایک ہیں، خداوند عالم کی ذات میں علم کی حیثیت ، قدرت کی حیثیت سے جدانہیںہے اور ان دونوں کی حیثیت ،حیات سے جدا نہیں ہے، خداوند عالم کی ذات میں تمام خصوصیات علم ، قدرت اور حیات پائی جاتی ہے ، انسان کے برخلاف کہ انسان میں ان مفاہیم کے صفات مختلف ہیں، ان کی حقیقت اور وجود میں مختلف ہے ،انسان میں علم و شعور کی حقیقت ،قدرت کی حقیقت سے الگ ہے اور انسان کا علم و قدرت اس کی حیات سے الگ ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند عالم کے تمام صفات آپس میں متحد ہیں، اور اس کے صفات کے درمیان تغایر اور جدائی نہیں پائی جاتی ۔ دوم : جس طرح سے خداوند عالم کے صفات کی حقیقت میں فرق نہیںپایا جاتا اسی طرح سے اس کی ذات اور صفات ایک دوسرے سے جدانہیں ہیں، خدا کے صفات، عین ذات ہیں، نہ اس میں کوئی چیز زیادہ ہے اور نہ کم ہے ،انسان کے برخلاف کہ اس کے صفات اس کی ذات سے زاید ہیں، کیونکہ وہ انسان تھا لیکن عالم اور قادر نہیں تھا بلکہ اس نے علم و قدرت کو بعد میں حاصل کیا ہے (۴) ۔ -3-توحید عبادی توحیدعبادی کی تعریف سوال : توحیدعبادی کے کیا معنی ہیں؟ جواب : توحید عبادی تمام آسمانی ادیان میں مشترک ہے اور تمام انبیاء کی بعثت کا سب سے بلند مقصد و ہدف یہی تھا ، خداوند عالم فرماتا ہے : ” وَ لَقَدْ بَعَثْنا فی کُلِّ اٴُمَّةٍ رَسُولاً اٴَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ“ (۵) ۔ اوریقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ۔ تمام مسلمان روزآنہ نماز پنجگانہ میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اورکہتے ہیں ”ایاک نعبد“ (۶) ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اس بناء پر صرف خداوندعالم کی عبادت کا واجب ہونا مسلم ہے اور اس کے علاوہ کسی کی بھی عبادت جائز نہیں ہے ،اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور کسی کو بھی اس قانون پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ بحث صرف یہ ہے کہ کیا بعض کام اور پروگرام ، غیر خدا کی عبادت کا مصداق ہیں یا نہیں؟ اس بات کوسمجھنے کے لئے سب سے پہلے ”عبادت“ کے مفہوم اور اس کے دائرہ کو واضح اور مشخص کرنا ضروری ہے اور اس کی منطقی تعریف کو بیان کرنا ضروری ہے تا کہ جوکچھ اس عنوان کے تحت بیان ہوا ہے اور اس کو عبادت سمجھتا ہے اس کو اس چیز سے جدا کیا جائے جس کو احترام کے طور پر انجام دیاجاتا ہے (۷) ۔ --4-توحید افعالی توحید خالقیت کی تعریف سوال : توحید خالقیت کے کیا معنی ہیں؟ جواب : توحید خالقیت سے مراد یہ ہے کہ تمام مخلوق کو خدا وندعالم نے خلق کیا ہے ، خداوندعالم فرماتا ہے : ” قُلِ اللَّہُ خالِقُ کُلِّ شَیْء ٍ وَ ہُوَ الْواحِدُ الْقَہَّار“ (۸) ۔ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی ہر شے کا خالق ہے اور وہی یکتا اور سب پر غالب ہے ۔ خداوند عالم میں خالقیت کو منحصر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خالقیت ، مستقل اور اصیل ہے اور وہ مخلوق کو خلق کرنے میں کسی چیز پرتکیہ نہیں کرتا اور خلق کرنے کی یہ صفت صرف خدا وند عالم میں پائی جاتی ہے ۔ البتہ ایسی خلقت جو خدا کے ذریعہ اور اس کی مرضی سے ہو ، اس کو غیر خدا بھی انجام دے سکتا ہے ، اسی وجہ سے خداوندعالم نے اپنے آپ کو بہترین خلق کرنے والے سے متصف کیا ہے :”ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَکَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً ثُمَّ اٴَنْشَاٴْناہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبارَکَ اللَّہُ اٴَحْسَنُ الْخالِقینَ “ (۹) ۔ پھر نطفہ کوعلقہ بنایا ہے اور پھر علقہ سے مضغہ پیدا کیا ہے اور پھر مضغہ سے ہڈیاں پیدا کی ہیں اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ہے پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے تو کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے ۔ اور وضاحت کرتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی دوسرے خلق کرنے والے موجود ہیں ، لیکن وہ ان سب سے بہتر ہے اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ خداوند عالم کی خلقت ذاتی ہے ، اکتسابی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) خلقت کی نسبت اپنی طرف دیتے ہیں اور کہتے ہیں : ” اٴَنِّی اٴَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَہَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاٴَنْفُخُ فیہِ فَیَکُونُ طَیْراً بِإِذْنِ اللَّہِ“ (۱۰) ۔ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکم ِ خدا سے پرندہ بن جائے گا ۔ اور یہیں سے اعتراف کرلینا چاہئے کہ خداوند عالم میں خلقت کے منحصر ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فطری چیزوں میں خلقت کا انکار کیاجائے، کیونکہ مادہ کے اجزاء میں علت و معلول کے نظام کے معنی یہ نہیں ہیں کہ علیت اور ایجاد میں علت مستقل ہے ،بلکہ خداوند عالم نے مادہ میں اس چیز کو وجود عطا کیا ہے اور اس کے پیچھے خود خداوند عالم ہے ۔ زمین سے سبزہ اگانے میںسورج اور ہوا موثر ہیں، سبزہ کی رشد میں پانی موثر ہے لیکن موثر کا وجود اور اس میں تاثیر ڈالنا سب خداوند عالم کے حکم اور اس کی سنت کے مظاہر میں سے ہے ۔ جن لوگوں نے توحید خالقیت کو علت و معلول اور ان کے درمیان روابط کے نہ ہونے سے تفسیر کیا ہے ، ان لوگوں نے غلطی کی ہے اور اسی وجہ سے یہ لوگ دین کے منکر ہوگئے ہیں (۱۱) ۔ توحیدربوبیت کی تعریف سوال :توحیدربوبیت کے کیا معنی ہیں؟ جواب : توحید خالقت کو تمام مشرکین قبول کرتے تھے اور موحدین کے ساتھ ان کا اختلاف توحید ربوبیت میں پایا جاتا تھا ، حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے زمانہ کے مشرکین، خالق عالم کی وحدانیت کے قائل تھے ، صرف ان کا عقیدہ غلط تھا وہ کہتے تھے ستارے اور اجرام آسمانی ان کے ارباب ہیں۔جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ اسی موضوع پر مناظرہ کیا ، یعنی یہ لوگ اجرام آسمانی (چاند، سورج اور ستاروں) کی ربوبیت کے قائل تھے)(۱2) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی یہی سب باتیں موجود تھیں، ان سب کا شرک ، ربوبیت کے مسئلہ میں تھا، ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ خداوند عالم نے اس جہان ہستی کو خلق کرنے کے بعد اس کی تدبیر اور ارادہ کو دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں دیدیا ہے ، اسی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے توحید ربوبیت کی زیادہ تاکید کی ہے ، آپ فرماتے ہیں : ” ِ اٴَ اٴَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ اٴَمِ اللَّہُ الْواحِدُ الْقَہَّارُ “ ۔۱۳ متفرق قسم کے خدا بہتر ہوتے ہیں یا ایک خدائے واحدُ و قہار؟ ۔ توحید ربوبی کی ایک دلیل یہ ہے کہ انسان اور جہان کے سلسلہ میں عالم ہستی کی تدبیر ، خلقت کی تدبیر سے جدا نہیں ہے اور تدبیر وہی خلقت ہے ، جب خلق کرنے والا اور انسان ایک ہیں تو پھر اس کا مدبر بھی ایک ہی ہوگا کیونکہ تدبیر اور دنیا کی خلقت کے درمیان ارتباط واضح ہے ، اسی وجہ سے جب خداوند عالم اپنے آپ کو سب چیز کا خلق کرنے والا بیان کررہا ہے تو اسی وقت اپنے آپ کو اس کا مدبر بھی بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے :۱۴ ”اللَّہُ الَّذی رَفَعَ السَّماواتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہا ثُمَّ اسْتَوی عَلَی الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ کُلٌّ یَجْری لِاٴَجَلٍ مُسَمًّی یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ یُفَصِّلُ الْآیاتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقاء ِ رَبِّکُمْ تُوقِنُونَ “ ۔ اللہ ہی وہ ے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کردیا ہے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اس کے بعد اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا ااور آفتاب و ماہتاب کو مسخر بنا یا کہ سب ایک مدت تک چلتے رہیں گے وہی تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اپنی آیات کو مفصل طور پر بیان کرتا ہے کہ شاید تم لوگ پروردگار کی ملاقات کو یقین پید اکرلو (1۵) ۔ حوالاجات ۱۔ توحید، ۴۔ ۲۔ توحید ۴۔ ۳۔ سیمای عقاید شیعہ ، ص ۵۴۔ ۴۔ سیمائے عقاید شیعہ ، ص ۵۵۔ ۵ . نحل : 36. ۶ . فاتحه : 5. ۷-سیماى عقاید شیعه، ص 62 ۸ . رعد : 16. ۹ . مؤمنون: 14. ۱۰ . آل عمران : 49. ۱۱-سیماى عقاید شیعه، ص56. 1۲ . ر.ک : سوره انعام، آیات 76 ـ 78. ۱۳ . یوسف : 39. ۱۴ . رعد : 2. ۱۵-سیماى عقاید شیعه، ص 58. منبع:shiaarticles.com