مراتب توحید
مراتب توحید
0 Vote
137 View
مراتب توحید توحید کے کچھ مراتب ودرجات پائے جاتے ھیں اس کے بالمقابل شرک کے بھی مراتب و درجات ھیں۔ یہ مراتب مندرجہ ذیل ھیں: (۱) توحید ذاتی توحید ذاتی یعنی یہ اعتقاد کہ مبداٴ عالم ِھستی یعنی خداکی ذات اور اسکا موجود فقط ایک ھے۔ صرف وھی ایسا موجود ھے کہ دوسرے تمام موجودات کی خلقت بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی کی ذات سے وابستہ ھے جب کہ وہ ایسی ذات ھے کہ کسی نے اس کو خلق نھیں کیاھے۔ اس حقےقت کو فلسفہ میں ”علیت اولیہ “کے عنوان سے جانا جاتا ھے۔ دوسرے الفاظ میں توحید ذاتی یعنی یہ اعتقاد کہ تمام موجودات فقط ایک خالق کی مخلوقات ھیں اور یہ کہ جھاں ھستی وکائنات اپنی تمام وسعت ،عظمت، کثرت و تعدّد کے باوجود فقط و فقط ایک ھی خالق اور مبداٴ رکھتی ھے۔ (قل اللہ خالق کل شیٴ) کھہ دیجئے کہ الله ھر چیز کا خلق کرنے والا ھے۔ (۱۱) البتہ اس سے مراد یہ نھیں ھے کہ اس مبداٴ ھستی نے ھر شئے کو براہ راست اور بغیر کسی واسطے کے خلق کیا ھے بلکہ ممکن ھے کہ ایک موجود ، ایک یا چند واسطوں کے ذریعہ مخلوق خدا ھو مثلاً خدا ایک موجود "A" کو خلق کرے اور پھر "A" کے ذریعہ ، "B"کو خلق کرے ، پھر"B" کے ذریعہ ، "C" کو۔ اس فرضیے میںموجود "A" خدا کی براہ راست مخلوق ھے جب کہ "B" ایک واسطے اور "C" دو واسطوں کے ساتھ مخلوق خدا ھے۔ اس طرح کے فرض کو قبول کرنا توحید ذاتی سے کسی بھی طرح منافی نھیں ھے۔ (۲) توحید صفاتی توحید صفاتی یعنی یہ اعتقاد و ایمان کہ صفات ذاتی خدا مثلاً علم، قدرت، حیات وغیرہ عین ذات خدا هیں۔ مفھوم کے اعتبار سے خدا کی صفات ذاتی متعدد اورمتکثر ھیں لیکن مصداق کے لحاظ سے عین یک دیگر،یہ تمام صفات عین ذات خدا اور ایک سے بیشتر یک شئے نھیں ھیں۔ حقیقت یہ ھے کہ توحید صفاتی مندرجہ ذیل دو اعتقاد وںکا نام ھے: ۱) علم و قدرت جیسی صفات ذات خدا پر زائد وعارض نھیں ھیں۔ ۲) یہ صفات، ذات خدا میں ترکیب وکثرت کی موجب نھیں ھوتی ھیں۔ ذات وصفات کی عینیت مذکورہ دونوں نکات کوبیان کرتی ھے۔ شھید مرتضی مطھری ۺ کے مطابق توحید صفاتی ،ذات خداسے ھرطرح کی ترکیب کی نفی کے اعتقاد کوبھی اپنے اندر شامل کرتی ھے ۔ ( ۱۲) لیکن استاد مصباح یزدی معتقد ھیں کہ متکلمین کی اصطلاح میں توحید صفاتی فقط نفی صفات زائد بر ذات کو بیان کرتی ھے۔( معارف قرآن ص/۶۹) آپ کے بقول اصطلاح فلاسفہ اور متکلمین میں توحید صفاتی سے مراد یہ ھے کہ ھم جن صفات کو ذات خدا سے منسوب کرتے ھیں وہ ذات خدا کے علاوہ اور کچه نھیں ھیں۔(۱۳) استاد جعفر سبحانی توحید ذاتی کے لئے دو معنی بیان فرماتے ھیں: الف) یہ کہ خدا کا کوئی ثانی نھیں ھے۔ ب) یہ کہ خدا، جزء نھیں رکھتا نیزفرماتے ھیں: متکلمین نے ان دونوں معانی کی ایک دوسرے سے تفکیک کی خاطر پھلے والے معنی کو توحید ذاتی واحدی اور دوسرے معنی کو توحید ذاتی احدی کھاھے۔ (۱۴) ذات خدا بسیط ھے اور اس میں کسی بھی طرح کی ترکیب کاداخلہ ممکن نھیں نیزاس کی ذات کے لیے کوئی جز بھی فرض نھیں کیاجا سکتا۔ بعض مفسرین کا نظریہ وعقیدہ ھے کہ عنوان ”واحد“ توحید ذاتی کو بیان کرنے یعنی ذات خدا سے کسی ثانی کی نفی کرنے والا اور عنوان ”احد“ توحید صفاتی کو بیان کرنے او رذات مقدس خدا سے ھر ممکنہ ترکیب کی نفی کرنے والا ھے۔ توحید افعالی توحید افعالی یعنی یہ اعتقاد کہ تمام موجودات کا ئنات ،خدا سے وابستہ ھیں اور استقلال ذاتی نھیں رکھتے ھیں۔ اسی طرح ان موجودات کے افعال وامور اور ان افعال وامور کا اثر بھی ذات وقدرت خدا سے وابستہ ھے یعنی یھموجودات اپنے فعل کے صادر کرنے میں بھی اپنی ذات کی طرح خود مختار نھیں ھیں۔ دوسرے الفاظ میں، توحید ذاتی یعنی خدا اپنی ذات میں کوئی شریک نھیں رکھتا ھے اور توحید افعالی یعنی فاعلیت وتاثیر فعل میں وہ تنھا اور واحد ھے۔ یھاں بھی اس کا کوئی شریک نھیں ھے۔ البتہ اس سے مراد یہ نھیں ھے کہ خدا کی کوئی بھی مخلوق فعل و اثر فعل کی حامل نھیں ھے بلکہ مراد یہ ھے کہ ان مخلوقات کے افعال اوراثر افعال خداکی قدرت کے زیر سایہ صادر ھوتے ھیں۔ شعار دینی ”لا حول ولاقوة الا بالله العلی العظیم“ مکمل اور دقیق طور پر توحید افعالی کا غماز ھے۔ توحید افعالی کے عملی آثار توحید افعالی اور یہ اعتقاد کہ تنھا خدا ، خودمختارانہ طور پر امور عالم ھستی کو انجام دیتا ھے اور دیگر موجودات یا مخلوقات سے صادر ھونے والا ھر فعل ذات خدا سے استمداد اور وابستگی کے ذریعے صادر ھوتاھے، مندرجہ ذیل نتائج کاموجب ھوتا ھے: اولاً: انسان کسی بھی شخص یا شئی کو خدا کے مقابل قابل پرستش اور قابل عبادت وستائش نہ گردانے اور خدا کے علاوہ کسی کے آستانے پر سجدہ ریزی نہ کرے: (ان الحکم الا لله امر الا تعبدوا الا ایاہ ذلک الدین القیم) حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ھے اور اسی نے حکم دیا ھے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے کہ یھی مستحکم اور سیدھادین ھے۔ (۱۵) ثانیاً: انسان فقط خدا پر اعتماد واعتبار کرے اور تمام امور میں اسی پر توکل کرے، فقط اسی کی ذات سے طلب امداد کرے، اس کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور اس کے علاوہ کسی سے کوئی امید نہ رکھے حتی جب عام حالات واسباب اس کی خواھش وتمنا کے برخلاف ھوں، مایوس نہ ھوکیونکہ اگرخدا ارادہ کرلے تو اچانک تمام حالات یکبارگی تبدیل ھوسکتے ھیں اور بندے کے لئے خدا کی طرف سے ساری راھیں کھل سکتی ھیں۔ (ومن یتق الله یجعل لہ مخرجاً ویرزقہ من حیث لا یحتسب ومن یتوکل علی الله فھو حسبھ ان الله بالغ امرہ قد جعل الله لکل شیٴ قدراً) اور جو بھی الله سے ڈرتا ھے الله اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ھے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ھے جس کا اسے خیال بھی نھیں ھوتا ھے اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ھے بیشک خداپنے امرکو پھونچانے والا ھے۔ اس نے ھر شئی کے لئے ایک مقدار معین کردی ھے۔ (۱۶) حوالہ جات ۱۔صافات:۳۵ ۲۔بقرہ:۱۶۳ ۳۔انبیاء: ۸۷ ۴۔نحل:۲ ۵۔آل عمران: ۶۲ ۶۔مومنون:۹ ۷۔صافات/۴ ۸۔اخلاص: ۱ ۹۔آل عمران :۱۸ ۱۰۔انبیاء: ۲۵ ۱۱۔رعد:۱۶ ۱۲۔مجموعہ آثار:ج،۲ص۱۰۱ ۱۳۔معارف قرآن:ص۷۹ ۱۴۔الا لھیات علی ھدیٰ الکتاب والسنة والعقل، ج/۱،ص/۳۵۵ ۱۵۔یوسف:۴۰ ۱۶۔طلاق/۳،۲ منبع:shiaarticles.com