حضرت ابراہيم عليہ السلام
حضرت ابراہيم عليہ السلام
0 Vote
91 View
حضرت ابراہيم عليہ السلام كا نام قرآن مجيد ميں 69/مقامات پر آياہے اور 65/سورتوں ميں ان كے متعلق گفتگو ہوئي ہے، قرآن كريم ميں اس عظيم پيغمبر كى بہت مدح و ثناء كى گئي ہے_ اور ان كے بلند صفات كا تذكرہ كيا گيا ہے،ان كى ذات ہر لحاظ سے راہنما اور اسوہ ہے اور وہ ايك كامل انسان كا نمونہ تھے_ خدا كے بارے ميں ان كى معرفت ،بت پرستوں كے بارے ميں ان كى منطق،جابر و قاہر بادشاہوں كے سامنے ان كا انتھك جہاد،حكم خدا كے سامنے ان كا ايثار اور قربانياں،طوفان،حوادث اور سخت آزمائشےوں ميں ان كى بے نظير استقامت،صبر اور حوصلے اور ان جيسے ديگر امور،ان ميں سے ہر ايك مفصل داستان ہے اور ان ميں مسلمانوں كے لئے نمونہ عمل ہے_قرآنى ارشادات كے مطابق وہ ايك نيك اور صالح،(1)فروتنى كرنے والے، ( 2) صديق، (3)بردبار،(4)اور ايفائے عہد كرنے والے تھے_(5)وہ ايك بے مثال شجاع اور بہادر تھے_ نيزبہت زيادہ سخى تھے _ حضرت ابراہيم عليہ السلام كى پر تلاطم زندگي حضرت ابراہيم عليہ السلام كى زندگى كے تين دور ميں بيان كيا جاسكتا ہے: 1_قبل بعثت كا دور_ 2_دور نبوت اور بابل كے بت پرستوں سے مقابلہ_ 3_بابل سے ہجرت اور مصر،فلسطين اور مكہ ميں سعى و كوشش كا دور_ حضرت ابراہيم عليہ السلام كى جائے پيدائشے حضرت ابراہيم عليہ السلام بابل ميں پيدا ہوئے_ يہ دنيا كا حيرت انگيز اور عمدہ خطہ تھا_ اس پر ايك ظالم و جابر اور طاقتور حكومت مسلط تھي_(6) حضرت ابراہيم عليہ السلام نے آنكھ كھولى تو بابل پر نمرود جيسا جابر و ظالم بادشاہ حكمراں تھا_وہ اپنے آپ كو بابل كا بڑاخدا سمجھتا تھا_البتہ بابل كے لوگوں كے لئے يہى ايك بت نہ تھا بلكہ اس كے ساتھ ساتھ ان كے يہاں مختلف مواد كے بنے ہوئے مختلف شكلوں كے كئي ايك بت تھے_ وہ ان كے سامنے جھكتے اور ان كے عبادت كياكرتے تھے_ حكومت وقت سادہ لوح افراد كو بيوقوف بنانے اور انہيں افيون زدہ ركھنے كے لئے بت پرستى كو ايك مو ثرذريعہ سمجھتى تھى لہذا وہ بت پرستى كى سخت حامى تھي_ وہ كسى بھى بت كى اہانت كو بہت بڑا نا قابل معافى جرم قرار ديتى تھي_ حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ولادت كے سلسلے ميں مو رخين نے عجيب و غريب داستان نقل كى ہے جس كا خلاصہ يوںپيش كيا جاتا ہے بابل كے نجوميوں نے پيشن گوئي كى تھى كہ ايك ايسا بچہ پيدا ہوگا جو نمرود كى غير متنازعہ طاقت سے مقابلہ كرے گا_ لہذا اس نے اپنى تمام قوتيں اس بات پر صرف كرديں كہ وہ بچہ پيدا نہ ہو_ اس كى كوشش تھى كہ ايسا بچہ پيدا ہو بھى جائے تو اسے قتل كرديا جائے_ ليكن اس كى كوئي تدبير كار گر نہ ہوئي اور يہ بچہ آخر كار پيدا ہوگيااس بچے كى جائے ولادت كے قريب ہى ايك غار تھى _ اس كى ماں اس كى حفاظت كے لئے اسے اس ميں لے گئي اور اسكى پرورش ہونے لگي_ يہاں تك كہ اس كى عمر كے تيرہ برس وہيں گزر گئے_ اب بچہ نمرود كے جاسوسوں سے بچ بچ كر نوجوانى ميں قدم ركھ چكا تھا_ اس نے ارادہ كيا كہ اس عالم تنہائي كو چھوڑديا جائے اور لوگوں تك وہ درس توحيد پہنچائے جو اس نے باطنى الہام اور فكرى مطالعے سے حاصل كيا تھا_ دور نبوت حضرت ابراہيم عليہ السلام كب مبعوث نبوت ہوئے، اس سلسلے ميں ہمارے پاس كوئي واضح دليل موجود نہيں ہے_ البتہ سورہ مريم سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے كہ جب آپ(ع) نے اپنے چچا آزر سے بحث چھيڑى تو آپ (ع) مقام نبوت پر فائز ہوچكے تھے_ آيت كہتى ہے كہ :''اس كتاب ميں ابراہيم عليہ السلام كو ياد كرو،وہ خداكا بہت ہى سچا نبى تھا_جب اس نے اپنے باپ(چچا) سے كہا:''اے بابا تو ايسى چيز كى كيوں عبادت كرتا ہے كہ جو نہ سنتى ہے اور نہ ہى ديكھتى ہے اور تيرى كوئي مشكل بھى حل نہيں كرتي''_(7) ہم جانتے ہيں كہ يہ واقعہ بت پرستوں كے ساتھ شديد معركہ آرائي اور آپ كو آگ ميں ڈالے جانے سے پہلے كا ہے_ بعض م ورخين نے لكھا ہے كہ آگ ميں ڈالے جانے كے وقت حضرت ابراہيم عليہ السلام كى عمر 16/سال تھي_ ہم اس كے ساتھ يہ اضافہ كرتے ہيں كہ يہ عظيم كار رسالت آغاز نوجوانى ميں آپ(ع) كے دوش پر آن پڑا تھا_ حضرت ابراہيم عليہ السلام كے پانچ برجستہ صفات قرآن مجيد ميں خدا كى شكر گزارى ايك كامل مصداق يعنى مكتب توحيد كے مجاہد اور علمبردار حضرت ابراہيم عليہ السلام كا ذكر ہے ان كا ذكر اس لحاظ سے بھى خصوصيت كاحامل ہے كہ مسلمان با لعموم اور عرب بالخصوص حضرت ابراہيم كو اپنا پہلاپيشوا اور مقتداء سمجھتے ہيں _ اس عظيم اور بہادر انسان كى صفات ميں سے يہاںصرف پانچ صفات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے : پہلے فرمايا گيا ہے :'' ابراہيم اپنى ذات ميں ايك امت تھے''_(8) اس سلسلے ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام كو''امت '' كيوں قرار ديا گيا ، مفسرين نے مختلف نكات بيان كيے ہيں ان ميں سے چارقابل ملاحظہ ہيں : 1_ابراہيم عليہ السلام انسانيت كے عظيم رہبر، مقتداء اور معلم تھے اسى بناء پر انھيں امت كہا گيا ہے كيونكہ '' امت '' اسم مفعول كے معنى ميں اسے كہا جاتاہے جس كى لوگ اقتداء كريں اور جس كى رہبرى لوگ قبول كريں _ 2_ ابراہيم عليہ السلام ايسى شخصيت كے مالك تھے كہ اپنى ذات ميں ايك امت تھے _كيونكہ بعض اوقات كسى انسان كى شخصيت كا نور اتنى وسيع شعاعوں كا حامل ہوتا ہے كہ اس كى حيثيت ايك دويا بہت سے افراد سے زيادہ ہوجاتى ہے اور اس كى شخصيت ايك عظيم امت كے برابر ہوجاتى ہے _ ان دونوں معانى ميں ايك خاص روحانى تعلق ہے كيونكہ جو شخص كسى ملت كاسچا پيشوا ہوتا ہے وہ ان سب كے اعمال ميں شريك اور حصہ دار ہوتا ہے اور گويا وہ خود امت ہوتا ہے _ 3_ وہ ماحول كہ جس ميں كوئي خدا پرست نہ تھا اور جس ميں سب لوگ شرك وبت پرستى كے جوہڑميں غوطہ زن تھے _اس ميں ابراہيم عليہ السلام تن تنہاموحد اور توحيد پرست تھے پس آپ تنہا ايك امت تھے اور اس دور كے مشركين ايك الگ امت تھے _ 4_ ابراہيم عليہ السلام ايك امت كے وجودكا سرچشمہ تھے اسى لئے آپ كو ''امت '' كہا گيا ہے _ اس ميں كوئي اشكال نہيں كہ يہ چھوٹا سالفظ اپنے دامن ميں يہ تمام وسيع معانى لئے ہوئے ہو _ جى ہاں، ابراہيم ايك امت تھے_ __وہ ايك عظيم پيشوا تھے _ __وہ ايك امت سازجوانمرد تھے _ __جس ماحول ميں كوئي توحيد كا دم بھر نے والا نہ تھا وہ توحيدكے عظيم علمبردار تھے_ 2_ ان كى دوسرى صفت يہ تھى كہ'' وہ اللہ كے مطيع بندے تھے ''_(9) 3_ ''وہ ہميشہ اللہ كے سيدھے راستے اور طريق حق پر چلتے تھے''_(10) 4_'' وہ كبھى بھى مشركين ميں سے نہ تھے ''_(11) ان كے فكر كے ہر پہلو ميں ، ان كے دل كے ہر گوشے ميں اور ان كى زندگى كے ہر طرف اللہ ہى كانور جلوہ گرتھا _ 5_ان تمام خصوصيات كے علاوہ ''وہ ايسے جواں مرد تھے كہ اللہ كى سب نعمتوں پر شكر گزار تھے''_(12) ان پانچ صفات كو بيان كرنے كے بعد ان كے اہم نتائج بيان كيے گئے ہيں : 1_'' اللہ نے ابراہيم كو نبوت اور دعوت كى تبلغ كے لئے منتخب كيا ''_(13) 2_'' اللہ نے انھيں راہ است كى ہدايت كي''_(14) اور انھيں ہر قسم كى لغزش اور انحراف سے بچايا _ ہم نے بارہا كہا ہے كہ خدائي ہدايت ہميشہ لياقت واہليت كى بنياد پر ہوتى ہے كہ جس كا مظاہرہ خود انسان كى طرف سے ہوتا ہے اس كى طرف سے كسى كو كوئي چيز استعداد اور كسى حساب كتاب كے بغيرنہيں دى جاتى حضرت ابراہيم كو بھى اسى بنياد پر يہ ہدايت نصيب ہوئي _ 3_ ''ہم نے دنيا ميں انھيں ''حسنہ'' سے نوازا ''_ وسيع معنى كے اعتبار سے ''حسنہ '' ميں ہر قسم كى نيكى اور اچھائي كا مفہوم موجود ہے اس ميں مقام نبوت رسالت سے لے كر اچھى اولادوغيرہ تك كا مفہوم موجود ہے_ 4_ اور آخرت ميں وہ صالحين ميں سے ہوں گے ''_(15) 5_ ان صفات كے ساتھ ساتھ اللہ نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو ايك ايساا متياز عطا فرمايا ہے كہ ان كا مكتب و مذہب صرف ان كے اہل زمانہ كے لئے نہ تھا بلكہ ہميشہ كے لئے تھا خاص طور پر اسلامى امت كے لئے بھى يہ ايك الہام بخش مكتب قرارپايا ہے _جيساكہ قرآن كہتا ہے :''پھر ہم نے تجھے وحى كى دين ابراہيم كى اتباع كركہ جو خالص توحيد كا دين ہے '' _(16) ابراہيم عليہ السلام سب كے لئے نمونہ ہيں قرآن مجيد بہت سے موارد ميں اپنى تعليمات كى تكميل كے لئے ايسے نمونے جو جہان انسانيت ميں موجود ہيں،گواہ كے طور پر پيش كرتا ہے_ اس لئے قرآن ميں بھى دشمنان خدا سے دوستى كرنے سے سختى كے ساتھ منع كرنے كے بعد،ابراہيم عليہ السلام اور ان كے طريقہ كارميں ايك ايسے عظيم پيشوا كے عنوان سے جو تمام اقوام كے لئے اور خاص طور پر قوم عرب كے لئے احترام كى نظروں سے ديكھے جاتے تھے،گفتگو كرتے ہوئے فرماتا ہے:''تمھارے لئے ابراہيم عليہ السلام اور ان كے ساتھيوں كى زندگى ميں بہترين نمونہ ہے_''(17) ابراہيم عليہ السلام پيغمبروں كے بزرگ تھے_ ان كى زندگى سرتا سر خدا كى عبوديت،جہاد فى سبيل اللہ اور اس كى پاك ذات كے عشق كے لئے ايك سبق تھي_وہ ابراہيم عليہ السلام كہ امت اسلامى ان كى بابركت دعا كا نتيجہ ہے اور ان كے ركھے ہوئے نام پر فخر كرتى ہے;وہ تمہارے لئے اس سلسلہ ميں ايك اچھا نمونہ بن سكتے ہيں_ ''والذين معہ''(جو لوگ ابراہيم عليہ السلام كے ساتھ تھے)كى تعبير سے مراد وہ مو منين ہيں جو اس راہ ميں ان كے پيرو اور ساتھى رہے_اگر چہ وہ قليل تعداد ميں تھے_ باقى رہا يہ احتمال كہ اس سے مراد وہ پيغمبر ہيں جو آپ كے ساتھ ہم آواز تھے يا ان كے زمانے كے پيغمبر،جيسا كہ بعض نے احتمال ديا ہے_تا ہم يہ بہت بعيد نظر آتا ہے_خصوصاًجبكہ مناسب يہ ہے كہ قرآن يہاں پيغمبر اسلام(ص) كو ابراہيم عليہ السلام كے ساتھ اور مسلمانوں كو ان كے اصحاب اور انصار سے تشبيہ دے_ يہ تواريخ ميں بھى آيا ہے كہ بابل ميں ايك گروہ ايسا تھا،جو ابراہيم عليہ السلام كے معجزات ديكھنے كے بعدا ن پر ايمان لے آيا تھااور شام كى طرف ہجرت ميں وہ آپ كے ساتھ تھا،اس سے پتہ چلتا ہے كہ ابراہيم عليہ السلام كے كچھ وفادار ياروانصار بھى تھے_ شائستہ اولاد قرآن كريم ميں بعض ان نعمات ميں سے ايك كى طرف اشارہ ہوا ہے كہ جو خدا وند تعالى نے حضرت ابراہيم كو عطا كى تھيں ، اور وہ نعمت ہے صالح اور آبرومند اور لائق نسل جو نعمات الہى ميں سے ايك عظيم ترين نعمت ہے _ پہلے ارشاد ہوتا ہے : ''ہم نے ابراہيم (ع) كو اسحاق اور يعقوب (فرزند اسحاق ) عطاكئے''_(18) اور اگر يہاں ابراہيم كے دوسرے فرزند اسماعيل كى طرف اشارہ نہيں ہوا بلكہ بحث كے دوران كہيں ذكر آيا ہے شايد اس كا سبب يہ ہے كہ اسحاق كا سارہ جيسى بانجھ ماں سے پيدا ہونا ، وہ بھى بڑھا پے كى عمر ميں ، بہت عجيب وغريب امراور ايك نعمت غيرمترقبہ تھى _ اس كے بعد يہ بتانے كے لئے كہ كہيں يہ تصور نہ ہو كہ ابراہيم سے قبل كے دور ميں كوئي علم بردار توحيد نہيں تھا اور يہ كام بس انہى كے زمانے سے شروع ہوا ہے مزيد كہتاہے :''اس سے پہلے ہم نے نوح كى بھى ہدايت ورہبرى كى تھى ''_(19) اور ہم جانتے ہيں كہ نوح پہلے اولوالعزم پيغمبر ہيں جو آئين وشريعت كے حامل تھے اور وہ پيغمبران اولوالعزم كے سلسلے كى پہلى كڑى تھے_ حقيقت ميں حضرت نوح(ع) كى حيثيت اور ان كے مقام كى طرف اشارہ كركے كہ جو حضرت ابراہيم (ع) كے اجدادميں سے ہيں ، اور اسى طرح پيغمبروں كے اس گروہ كے مقام كا تذكرہ كركے كہ جو ابراہيم عليہ السلام كى اولاد اور ذريت ميں سے تھے،حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ممتاز حيثيت كو وراثت، اصل اور ثمرہ كے حوالے سے مشخص كيا گيا ہے _ اوراس كے بعد بہت سے انبياء كے نام گنوائے ہيں جو ذريت ابراہيم (ع) ميں سے تھے پہلے ارشاد ہوتاہے : ''ابراہيم (ع) كى ذريت ميں سے دائود، سليمان ، ايوب ،يوسف ،موسى اور ہارون تھے''_(20) اس كے بعد:''زكر(ع) يا ،يحى (ع) ،عيسى (ع) اور الياس (ع) كانام ليا گيا ہے اور مزيد كہاگيا ہے كہ يہ سب صالحين ميں سے تھے _''(21) آزرسے گفتگو اس كے بعد ان كى اپنے باپ آزر كے ساتھ گفتگو بيان كى گئي ہے _(يہاں باپ سے مراد چچاہے اور لفظ '' ابا '' عربى لغت ميں كبھى باپ كے معنى ميں اور كبھى چچاكے معنى ميں آتا ہے )_ قرآن كہتا ہے :اس وقت جبكہ اس نے اپنے باپ سے كہا : اے بابا : تو ايسى چيز كى عبادت كيوں كرتا ہے جو نہ تو سنتى ہے اور نہ ہى ديكھتى ہے اور نہ ہى تيرى كوئي مشكل حل كرسكتى ہے ''_(22) يہ مختصر اور زور دار بيان شرك اور بت پرستى كى نفى ونقصان كا احتمال ہے اسے علمائے عقائد '' دفع ضرر محتمل '' سے تعبير كرتے ہيں _ابراہيم (ع) كہتے ہيں كہ تو ايسے معبود كى طرف كيوں جاتاہے كہ جو نہ صرف يہ كہ تيرى كسى مشكل كوحل نہيں كرسكتا ،بلكہ وہ تو اصلا ًسننے اور ديكھنے كى قدرت ہى نہيں ركھتا _ دوسرے لفظوں ميں عبادت ايسى ہستى كى كرنى چاہئے كہ جو مشكلات حل كرنے كى قدرت ركھتى ہو، اپنى عبادت كرنے والے كى حاجات وضروريات كو جانتى ،ديكھتى اور سن سكتى ہوں ليكن ان بتوں ميں يہ تمام باتيں مفقود ہيں _ درحقيقت ابراہيم عليہ السلام يہاں اپنى دعوت اپنے چچا سے شروع كرتے ہيں ،كيونكہ قريبى رشتہ داروں ميں اثرو نفوذ پيدا كرنا زيادہ ضرورى ہے پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم بھى اس بات پر مامور ہوئے تھے كہ پہلے اپنے نزديكى رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت ديں _ اس كے بعد ابراہيم (ع) واضح منطق كے ساتھ اسے دعوت ديتے ہيں كہ وہ اس امر ميں ان كى پيروى كرتے نظر آتے ہيں :''اے بابا ''مجھے وہ علم ودانش ملى ہے جو تجھے نصيب نہيں ہوئي اس بنا پر تو ميرى پيروى كراور ميرى بات سن ميرى پيروى كرتا كہ ميں تجھے سيدھى راہ كى طرف ہدايت كروں''_ ميں نے وحى الہى كے ذريعہ سے بہت علم وآگہى حاصل كى ہے اور ميں پورے اطمينان كے ساتھ يہ كہہ سكتا ہوں كہ ميں خطاكے راستے پر نہيں چلوں گا تجھے بھى ہرگز غلط راستے كى دعوت نہيں دوں گا ميں تيرى خوش بختى وسعادت كا خواہاں ہوں تو ميرى بات مان لے تاكہ فلاح ونجات حاصل كرسكے اور اس صراط مستقيم كو طے كركے منزل مقصود تك پہنچ جا_ اس كے بعد اس اثباتى پہلو كو منفى پہلو اور ان آثاركے ساتھ ملاتے ہوئے ، كہ جو اس دعوت پر مترتب ہوتے ہيں ، كہتے ہيں : ''اے بابا : شيطان كى پرستش نہ كركيونكہ شيطان ہميشہ خدائے رحمن كا نافرمان رہاہے''_(23) البتہ ظاہرہے كہ يہاں عبادت سے مراد شيطان كے لئے سجدہ كرنے اور نمازروزہ بجالانے والى عبادت نہيں ہے بلكہ اطاعت اورا س كے علم كى پيروى كرنے كے معنى ميں ہے اور يہ بات خود ايك قسم كى عبادت شمار ہوتى ہے _ ايك مرتبہ پھر اسے شرك اور بت پرستى كے برے نتائج كى طرف متوجہ كرتے ہوئے كہتے ہيں: ''اے بابا : ميں اس بات سے ڈرتاہوں كہ تيرے اختياركردہ شرك وبت پرستى كے سبب خدائے رحمن كى طرف سے تجھ پر عذاب آئے اور تو اوليائے شيطان ميں سے ہوجائے ''_(24) اے ابراہيم تم پر پتھر برسائوںگا حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ان كے چچا كى ہدايت كے سلسلے ميں منطقى باتيں جو خاص لطف ومحبت كى آميزش ركھتى تھيں گزرچكى ہيں اب آزركے جوابات بيان كرنے كى نوبت ہے تاكہ ان دونوں كا آپس ميں موازنہ كرنے سے حقيقت اور واقعيت ظاہر ہوجائے _قرآن كہتاہے كہ نہ صرف ابراہيم كى دل سوزياں اور ان كا مدلل بيان آزر كے دل پر اثرانداز نہ ہوسكا بلكہ وہ ان باتوں كو سنكر سخت برہم ہوا ،اور اس نے كہا : ''اے ابراہيم(ع) كيا تو ميرے خدائوںسے روگردان ہے ،اگر تو اس كام سے باز نہيں آئے گاتو ميں ضرور ضرور تجھے سنگسار كروں گا،اور تو اب مجھ سے دور ہوجاميں پھر تجھے نہ ديكھوں''_ (25) قابل توجہ بات يہ ہے كہ اولاًآزر يہ تك كہنے كے لئے تيار نہيں تھا كہ بتوںكے انكار ،يا مخالفت اور ان كے بارے ميں بدگوئي كا ذكر زبان پر لائے،بلكہ بس اتنا كہا:كيا تو بتوں سے روگردان ہے ؟ تاكہ كہيں ايسانہ ہو بتوں كے حق ميںجسارت ہوجائے ثانياًابراہيم (ع) كو تہديد كرتے وقت اسے سنگسار كرنے كى تہديد كى وہ بھى اس تاكيد كے ساتھ كہ جو ''لام'' اور '' نون '' تاكيد ثقيلہ سے جو ''لارجمنك'' ميں واردہے، اور ہم جانتے ہيں كہ سنگسار كرنا قتل كرنے كى ايك بدترين قسم ہے ثالثاً اس مشروط تہديد اور دھمكى پر ہى قناعت نہيں كى بلكہ اس حالت ميں جناب ابراہيم كو ايك ناقابل برداشت وجود شمار كرتے ہوئے ان سے كہا كہ تو ہميشہ كے لئے ميرى نظروں سے دور ہوجا_ يہ تعبير بہت ہى توہين آميزہے،جسے سخت مزاج افراد اپنے مخالفين كے لئے استعمال كرتے ہيں ،اور فارسى زبان ميں اس كى جگہ ''گورت راگم كن''كہتے ہيں ، يعنى نہ صرف اپنے آپ كو مجھ سے ہميشہ كے لئے چھپالے بلكہ كسى ايسى جگہ چلے جائو كہ ميں تمہارى قبرتك كو بھى نہ ديكھوں ليكن ان تمام باتوں كے باوجود حضرت ابراہيم نے تمام پيغمبروں اور آسمانى رہبروں كى مانند اپنے اعصاب پر كنڑول ركھا، اور تندى اور تيزى اور شديد خشونت وسختى كے مقابلے ميں انتہائي بزرگوارى كے ساتھ كہا:'' سلام ہو تجھ پر''_(26) ممكن ہے كہ يہ ايسا سلام الوداعى اورخدا حافظى كا سلام ہو، كيونكہ اس كے چند جملوں كے كہنے كے بعد حضرات ابرہيم عليہ السلام نے آزركو چھوڑديا يہ بھى ممكن ہے كہ يہ ايسا سلام ہوكہ جودعوى اور بحث كو ترك كرنے كے لئے كہاجاتاہے جيسا كہ سورہ قصص ميں ہے : ''اب جبكہ تم ہمارى بات قبول نہيں كرتے ہو، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہيں اور تمہارے اعمال تمہارے ليے،تم پر سلام ہے ہم جاہلوں كے ہواخواہ نہيں ہيں''_(27) اس كے بعد مزيد كہا :'' ميں عنقريب تيرے لئے اپنے پروردگار سے بخشش كى درخواست كروں گا، كيونكہ وہ ميرے لئے رحيم ولطيف اور مہربان ہے''_(28) حقيقت ميں حضرت ابراہيم(ع) نے آزركى خشونت وسختى اور تہديدودھمكى كے مقابلے ميں اسى جيسا جواب دينے كى بجائے اس كے برخلاف جواب ديا اور اس كے لئے پروردگار سے استغفار كرنے اور اس كے ليئے بخشش كى دعا كرنے كا وعدہ كيا _ اس كے بعد يہ فرمايا كہ :''ميں تم سے (تجھ سے اوراس بت پرست قوم سے )كنارہ كشى كرتاہوں اور اسى طرح ان سے بھى كہ جنہيںتم خدا كے علاوہ پكارتے ہو، يعنى بتوں سے بھى (كنارہ كشى كرتاہوں)''اور ميں تو صرف اپنے پروردگار كو پكارتاہوں اورمجھے اميد ہے كہ ميرى دعا ميرے پروردگاركى بارگاہ ميں قبول ہوئے بغير نہيں رہے گا ''_(29) قرآن ايك طرف حضرت ابراہيم (ع) كے آزر كے مقابلے ميں ادب كى نشاندہى كرتاہے _كہ اس نے كہا كہ مجھ سے دور ہوجا تو ابراہيم(ع) نے بھى اسے قبول كرليا اور دوسرى طرف ان كى اپنے عقيدہ ميں قاطعيت اوريقين كوواضح كرتى ہے يعنى وہ واضح كررہے ہيں كہ ميرى تم سے يہ دورى اس بناء پر نہيں ہے كہ ميں نے اپنے توحيد اعتقاد راسخ سے دستبردارى اختيار كرلى ہے بلكہ اس بناء پر ہے كہ ميں تمہارے نظريہ كو حق تسليم كرنے كے لئے تيار نہيں ہوں، لہذا ميں اپنے عقيد ے پر اسى طرح قائم ہوں_ ضمنى طور پر يہ كہتے ہيں كہ اگر ميں اپنے خداسے دعا كروں تو وہ ميرى دعا كو قبول كرتاہے ليكن تم بيچارے تو اپنے سے زيادہ بيچاروں كو پكارتے ہو اور تمہارى دعا ہرگز قبول نہيں ہوتى يہاں تك كہ وہ تو تمہارى باتوں كو سنتے تك نہيں ابراہيم (ع) نے اپنے قول كى وفا كى اور اپنے عقيدہ پر جتنا زيادہ سے زيادہ استقامت كے ساتھ رہا جاسكتا ہے، باقى رہے ،ہميشہ توحيد كى منادى كرتے رہے اگرچہ اس وقت كے تمام فاسد اور برے معاشرے نے ان كے خلاف قيام كيا ليكن وہ جناب بالآخراكيلے نہ رہے اور تمام قرون واعصارميں بہت سے پيروكار پيدا كرلئے اس طورپر كہ دنيا كے تمام خدا پرست لوگ ان كے وجود پر فخركرتے ہيں _ (30) اسمانوں ميں توحيد كے دلائل اس سر زنش اور ملامت كے بعد جو ابراہيم عليہ السلام بتوں كى كرتے تھے ،اور اس دعوت كے بعد جو اپ نے ازر كو بت پرستى كو ترك كرنے كے لئے كى تھى يہاںخدا ابراہيم عليہ السلام كے بت پرستوں كے مختلف گروہوں كے ساتھ منطقى مقابلوں كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ان كے واضح عقلى استدلالات كے طريق سے اصل توحيد كو ثابت كر نے كى كيفيت بيان كرتا ہے _ قرآن پہلے كہتا ہے :''جس طرح ہم نے ابراہيم عليہ السلام كو بت پرستى كے نقصانات سے اگاہ كيا اسى طرح ہم نے اس كے لئے تمام اسمانوں اور زمين پر پرودگار كى مالكيت مطلقہ اور تسلط كى نشاندہى كي''_(31) اس ميں شك نہيں ہے كہ ابراہيم عليہ السلام خدا كى يگانگيت كا استدلال و فطرى يقين ركھتے تھے،ليكن اسرار آفرينش كے مطالعہ سے يہ يقين درجہ كمال كو پہنچ گيا ،جيسا كہ وہ قيامت اور معاد كا يقين ركھتے تھے ،ليكن سربريدہ پرندوں كے زندہ كرنے كے مشاہدہ سے ان كاايمان''عين اليقين''كے مرحلہ كو پہنچ گيا _ اس كے بعد ميں اس موضوع كو تفصيلى طور پر بيان كيا ہے جو ستاروں اور افتاب كے طلوع و غروب سے ابراہيم عليہ السلام كے استدلال كو ان كے خدا نہ ہونے پر واضح كرتا ہے _ پہلے ارشاد ہوتا ہے:''جب رات كے تاريك پردے نے سارے عالم كو چھپا ليا تو ان كى آنكھوں كے سامنے ايك ستارہ ظاہر ہوا ،ابراہيم عليہ السلام نے پكا ر كر كہا كہ كيا يہ ميرا خدا ہے ؟ليكن جب وہ غروب ہو گيا تو انھوں نے پورے يقين كے ساتھ كہا كہ ميں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں كو پسند نہيں كرتا اور انھيں عبوديت و ربوبيت كے لائق نہيں سمجھتا''_(32) انھوں نے دوبارہ اپنى انكھيں صفحہ اسمان پر گاڑديں ،اس دفعہ چاند كى چاندى جيسى ٹكيہ وسيع اور دل پذير روشنى كے ساتھ صفحہ اسمان پر ظاہر ہوئي،جب چاند كو ديكھا تو ابراہيم عليہ السلام نے پكار كر كہا كہ كيا يہ ہے ميرا پروردگار ؟ليكن اخر كار چاند كا انجام بھى اس ستارے جيسا ہى ہوااور اس نے بھى اپنا چہرہ پر دہ افق ميں چھپا ليا ،تو حقيقت كے متلاشى ابراہيم عليہ السلام نے كہا كہ اگر ميرا پروردگار مجھے اپنى طرف رہنمائي نہ كرے تو ميں گمراہوں كى صف ميں جا كھڑا ہو ں گا_(33) اس وقت رات اخر كو پہنچ چكى تھى اور اپنے تاريك پردوں كو سميٹ كر اسمان كے منظر سے بھاگ رہى تھى ،افتاب نے افق مشرق سے سر نكالا اور اپنى زيبا اور لطيف نور كو زر بفت كے ايك ٹكڑے كى طرح دشت و كوہ و بيابان پر پھيلا ديا،جس وقت ابراہيم عليہ السلام كى حقيقت بين نظر اس كے خيرہ كرنے والے نور پر پڑى تو پكار كر كہا :كيا ميرا خدا يہ ہے ؟جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زيادہ روشن ہے ،ليكن سورج كے غروب ہوجانے اور افتاب كى ٹكيہ كے ہيولائے شب كے منہ ميں چلے جانے سے ابراہيم عليہ السلام نے اپنى اخرى بات ادا كى ،اور كہا:''اے گروہ(قوم)ميں ان تمام بناوٹى معبودوں سے جنھيں تم نے خدا كا شريك قرار دے ليا ہے برى و بيزار ہوں ''_(34) اب جبكہ ميں نے يہ سمجھ ليا ہے كہ اس متغير و محدود اور قوانين طبيعت كے چنگل ميں اسير مخلوقات كے ماوراء ايك ايسا خدا ہے كہ جو اس سارے نظام كائنات پر قادر و حاكم ہے،'' تو ميں تو اپنا رخ ايسى ذات كى طرف كرتا ہوں كہ جس نے آسمانوں اور زمين كو پيدا كيا ہے اور اس عقيدے ميں كم سے كم شرك كو بھى راہ نہيں ديتا،ميں تو موحد خالص ہوں اور مشركين ميں سے نہيں ہوں''_(35)(36) ستارہ سے كون سا ستارہ مراد ہے ؟اس بارے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے ليكن زيادہ تر مفسرين نے زہرہ يا مشترى كا ذكر كيا ہے اور كچھ تواريخ سے معلوم ہوتا ہے كہ قديم زمانوں ميں ان دونوں ستاروں كى پرستش كى جايا كرتى تھى اورخداو ںكے حصہ شمار ہوتے تھے ليكن اس حديث ميں جو امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے عيون الااخبار ميں نقل ہوئي ہے يہ تصريح ہوئي ہے كہ يہ زہرہ ستارہ تھا ،تفسير على بن ابراہيم ميں بھى امام جعفر صادق عليہ السلام سے يہى بات مروى ہے _ توحيد كى دعوت قرآن دعوت حضرت ابراہيم عليہ السلام كو اس طرح بيان كرتاہے :''ہم نے ابراہيم (ع) كو بھيجا;اور جب اس نے اپنى قوم سے كہا كہ :خدائے واحد كى پرستش كرو اوراس كے لئے تقوى اختيار كروكيونكہ اگر تم جان لو تو يہ تمہارے لئے بہترہے ''_(37) اس كے بعد حضرت ابراہيم (ع) دلائل بت پرستى كا باطل ہونا ثابت كرتے ہيں آپ نے اس دعوى كو مختلف دلائل سے ثابت كيا ہے اور ان مشركين كے معتقدات اور روش حيات كو نا درست ثابت كيا ہے _ پہلى بات انھوںں نے يہ فرمائي كہ :''تم خدا سے منحرف ہوكے بتوں كى عبادت كرتے ہو'' _(38) حالانكہ يہ بت بے روح مجسمے ہيں نہ يہ صاحب ارادہ ہيں نہ صاحب عقل اور نہ صاحب شعور وہ ان تمام اوصاف سے محروم ہيں ان كى ہيت ہى بت پرستى كے عقيدے كوباطل ثابت كرنے كے لئے كافى ہے _ اس كے بعد حضرت ابراہيم(ع) اور آگے بڑھتے ہيں اور فرماتے ہيں كہ :'' صرف ان بتوں كى وضع ہى يہ ثابت نہيں كرتى كہ يہ معبود نہيں ہيں''بلكہ تم بھى جانتے ہو كہ ''تم جھوٹى باتيں كرتے ہو اور ان بتوں كو معبود كہتے ہو '' _(39) تمہارے پاس اس جھوٹ كو ثابت كرنے كى بجز چند اوہام وخرافات كے اور كيا دليل ہے _ اس كے بعد حضرت ابراہيم (ع) تيسرى دليل ديتے ہيں: اگر تم ان بتوں كو مادى منفعت كے لئے پوجتے ہو يا دوسرے جہان ميں فائدے كے لئے، دونوں صورتوں ميں تمہارا يہ خيال باطل ہے ''كيونكہ تم خدا كے علاوہ جن كى پرستش كرتے ہو وہ تمہيں رزق اور روزى نہيں دے سكتے ''_(40) تم خود اقرار كرتے ہو كہ يہ بت خالق نہيں ہيں بلكہ خالق حقيقى خدا ہے اس بناء پرروزى دينے والا بھى وہى ہے ''لہذا تم روزى خدا سے طلب كرو''_(41) اور چونكہ روزى دينے والاو ہى ہے '' لہذا اسى كى عبادت كرو اور اس كا شكربجالائو''_(42) اس مفہوم كا ايك پہلو يہ بھى ہے منعم حقيقى كے حضور ميں''حس شگر گزاراى '' سے بھى عبادت كى تحريك ہوتى ہے _ تم جانتے ہو كہ منعم حقيقى خدا ہى ہے پس شكر اورعبادت بھى اسى كى ذات كے لئے مخصوص ہے _ ''نيز اگر تم آخرت كى زندگى كے خواستگار ہو تو سمجھ لو كہ ہم سب كى باز گشت اسى طرف ہے ''نہ كہ بتوںكى طرف ''_(43) اس كے بعد حضرت ابراہيم (ع) تہديد كے طور پر ان مشركين كى سركشى سے بے اعتنائي كا اظہار كرتے ہوئے فرماتے ہيں :'' اگر تم ميرے پيام كى تكذيب كرتے ہو تويہ كوئي نئي بات نہيں ہے،تم سے پہلے جو امتيں گزر چكى ہيں انھوں نے بھى اس طرح اپنے پيغمبروں كى تكذيب كى ہے اور آخركار ان كا انجام بڑا دردناك ہوا''_(44) ''رسول اور فرستادئہ خدا كا فرض واضح ابلاغ كے علاوہ اور كچھ نہيں ''_(45) خواہ لوگ اسے قبول كريں يا نہ كريں _ ہمارے بڑے بھى بتوں كى پوجا كرتے تھے ابراہيم عليہ السلام كے جواب ميں انھوں نے كہا : ''ہم بتوں كى عبادت كرتے ہيں اور سارادن ان پر توجہ ركھتے ہيں اور نہايت ہى ادب اور احترام كے ساتھ ان كى عبادت ميں لگے رہتے ہيں''_(46) اس تعبير سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ نہ فقط اپنے اس عمل پر شرمندہ نہيں تھے بلكہ اس پر فخرو مباہات بھى كيا كرتے تھے كيونكہ (''ہم بتوں كى عبادت وپرستش كرتے ہيں'' )كا جملہ ان كے مقصود اور مدعا كے بيان كے لئے كافى تھا،ساتھ ہى انھوں نے يہ بھى كہا''ہم سارا سارادن ان كے آستان پر جبہ سائي كرتے رہتے ہيں ''_ بہرحال ابراہيم (ع) عليہ السلام نے ان كى يہ باتيں سن كران پر اعتراضات كى بوچھاركردى اور دوزبردست منطقى اور معتدل جملوں كے ذريعہ انھيں ايسى جگہ لاكھڑا كيا جہاں'' نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ''كے مصداق ان سے كوئي جواب نہيں بن پڑتا تھا آپ نے ان سے فرمايا :''جب تم ان كو پكارتے ہوتو كيا وہ تمہارى فرياد سنتے بھى ہيں ؟''،''ياكيا وہ تمہيں كوئي نفع يانقصان پہنچاسكتے ہيں '' (47) ليكن متعصب لوگ بجائے اس كے كہ اس منطقى سوال كا كوئي ٹھوس جواب ديتے وہى پرانا اور بار بار كا دہرايا ہوا جواب پيش كرتے ہيں :''انھوں نے كہا ايسى كوئي بات نہيں سب سے اہم بات يہ ہے كہ ہم نے اپنے بزرگوں كو ايساكرتے ديكھا ہے ''(48) ان كا يہ جواب اپنے جاہل اور نادان بزرگوں كى اندھى تقليد كو بيان كررہا ہے وہ جوجواب ابراہيم(ع) كو دے سكتے تھے يہى تھا اور بس يہ ايسا جواب جس كے بطلان كى دليل خود اسى ميں موجود ہے اور كوئي بھى عقل مند انسان اپنے آپ كو اس بات كى اجازت نہيں دے سكتا كہ وہ آنكھيں بند كركے دوسروںكے پيچھے لگ جائے، خاص كر جبكہ آنے والے لوگوں كے تجربے گزشتہ لوگوں سے كہيں زيادہ ہوتے ہيں اور ان كى اندھى تقليد كا نہ تو كوئي جوازرہتا ہے اور نہ ہى كوئي دليل _ ابراہيم عليہ السلام كى بت شكنى كا زبردست منظر يہاں پر پہلے حضرت ابراہيم (ع) كى بت شكنى كے واقعہ اور ان سے بت پرستوں كى شديد مڈھ بھيڑكے بارے ميں گفتگوكى گئي ہے _(49) حضرت ابراہيم عليہ السلام نے اس بات كو ثابت كرنے كے لئے كہ يہ بات سوفى صد صحيح اور محكم ہے اور وہ اس عقيدہ پر ہر مقام تك قائم ہيں اور اس كے نتائج و لوازم كو جو كچھ بھى ہوں انھيں جان و دل سے قبول كرنے كے لئے تيار ہيں، مزيد كہتے ہيں: مجھے خدا كى قسم جس وقت تم يہاں پر موجود نہيں ہوں گے اور يہاںسے كہيں باہر جائوگے تو ميں تمہارے بتوں كو نابود كرنے كا منصوبہ بنائوں گا''_(50) ان كى مراد يہ تھى كہ انھيں صراحت كے ساتھ سمجھاديں كہ آخر كار ميں اسى موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھيں نابود اور درہم و برہم كردوں گا_ ليكن شايد ان كى نظر ميں بتوں كى عظمت اور رعب اس قدر تھا كہ انھوں نے اس كو كوئي سنجيدہ بات نہ سمجھا او ركوئي ردّ عمل ظاہر نہ كيا شايد انھوں نے يہ سوچا كہ كيا يہ ممكن ہے كہ كوئي شخص كسى قوم و ملّت كے مقدسات كے ساتھ ايسا كھيل كھيلے ، جبكہ ان كى حكومت بھى سو فى صد ان كى حامى ہے وہ كس طاقت كے بل بوتے پر ايسا كام كرے گا_ اس سے يہ بات بھى واضح ہوجاتى ہے كہ يہ جو بعض نے كہا كہ حضرت ابراہيم(ع) نے يہ جملہ اپنے دل ميں كہا تھا يا بعض مخصوص افراد سے كہا تھا كسى لحاظ سے اس كى ضرورت نہيں ہے، خاص طور پر جبكہ يہ بات كامل طور سے قرآن كريم كے خلاف ہے_ اس كے علاوہ قرآن مجيد ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ بت پرستوں كو ابراہيم كى يہ بات ياد آگئي اور انھوں نے كہا كہ ہم نے سنا ہے كہ ايك جوان بتوں كے خلاف ايك سازش كى بات كرتا ہے_ بہر حال حضرت ابراہيم نے ايك دن جبكہ بُت خانہ خالى پڑا تھا، اور بُت پرستوں ميں سے كوئي وہاں موجود نہيں تھا، اپنے منصوبہ كو عملى شكل دےدي_ بابل كے بت پرست ہر سال ايك مخصوص عيد كے دن كچھ رسومات ادا كيا كرتے تھے بت خانہ ميں كھانے تيار كرتے ہيں اور وہيں انھيں دسترخوان پر چن ديتے تھے اس خيال سے كہ يہ كھانے متبرك ہوجائيں گے _اس كے بعد سب كے سب مل كر اكٹھے شہرسے باہر چلے جاتے تھے اور دن كے آخرميں واپس لوٹتے تھے اور عبادت كرنے اور كھانا كھانے كے لئے بت خانہ ميں آجاتے تھے _ ايك روز اسى طرح جب شہر خالى ہوگيا اور بتوں كو توڑنے اور انھيں درہم برہم كرنے كے لئے ايك اچھا موقع حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھ آگيا _يہ ايسا موقع تھا جس كا ابراہيم عرصے سے انتظار كررہے تھے اور وہ نہيںچاہتے تھے كہ موقع ہاتھ سے نكل جائے _ لہذا جب انھوں نے ابراہيم (ع) كو جشن ميں شركت كى دعوت دى تو '' اس نے ستاروں پر ايك نظر ڈالى ''اور كہا ميں تو بيمارہوں'' _(51) اور اس طرح سے اپنى طرف سے عذرخواہى كي_ ''انھوں نے رخ پھيرا اور جلدى سے اس سے دورہوگئے ''_(52) اور اپنے رسم ورواج كى طرف روانہ ہوگئے _(53) تم يہ بہترين اور شيرين غذا كيوں نہيں كھاتے حضرت ابراہيم (ع) اكيلے شہرميں رہ گئے اوربت پرست شہرخالى كركے باہر چلے گئے حضرت ابراہيم نے اپنے ادھر ادھر ديكھا، شوق كى بجلى ان كى آنكھوں ميں چمكى ،وہ لمحات جن كا وہ ايك مدت سے انتظار كررہے تھے آن پہنچے ،انھوں نے اپنے آپ سے كہا، بتوں سے جنگ كے لئے اٹھ كھڑاہو اور ان كے پيكروں پر سخت ضرب لگا ايسى ضرب جو بت پرستوں كے سوئے دماغوں كو ہلاكر ركھ دے اور انھيں بيداركردے _ قرآن كہتاہے :''وہ ان كے خدائوں كے پاس آيا ،ايك نگاہ ان پر اور كھانے كے ان برتنوں پر جوان كے اطراف ميں موجودتھے ، ڈالى اور تمسخر كے طور پر كہا : تم يہ كھانے كھاتے كيوں نہيں'' ؟ (54) يہ كھانے تو تمہارى عبادت كرنے والوں نے فراہم كيے ہيں _مرغن وشيرين ، طرح طرح كى رنگين غذائيں ہيں ، كھاتے كيوں نہيں ہو؟ اس كے بعد مزيد كہتا ہے :'' تمہيں كيا ہوگيا ہے ؟ تم بات كيوں نہيں كرتے ؟ تم گونگے كيوں بن گئے ہو ؟تمہارامنہ كيوں بندہے_'' (55) اس طرح كے تمام بيہودہ اور گمراہ عقائد كامذاق اڑايا بلاشك وہ اچھى طرح جانتے تھے كہ وہ نہ كھانا كھاتے ہيں اور نہ ہى بات كرتے ہيں اور بے جان موجودات سے زيادہ حيثيت نہيں ركھتے ،ليكن حقيقت ميں وہ يہ چاہتے تھے كہ اپنى بت شكنى كے اقدام كى دليل اس عمدہ اور خوبصورت طريقہ سے پيش كريں _ پھر انھوں نے اپنى آستين چڑھالي، كلہاڑا ہاتھ ميں اٹھايا اور پورى طاقت كے ساتھ اسے گھمايا اور بھر پور ''توجہ كے ساتھ ايك زبردست ضرب ان كے پيكر پر لگائي ''_ (56) بہرحال تھوڑى سى دير ميں وہ آباداور خوبصورت بت خانہ ايك وحشت ناك ويرانہ ہوگيا _تمام بت ٹوٹ پھوٹ گئے ہر ايك ہاتھ پائوں تڑوائے ہوئے ايك كونے ميں پڑاتھا اور سچ مچ بت پرستوں كے لئے ايك دلخراش ، افسوسناك اور غم انگيز منظر تھا _ ابراہيم اپنا كام كرچكے اور پورے اطمينان وسكون كے ساتھ بتكدہ سے باہر آئے اور اپنے گھر چلے گئے اب وہ اپنے آپ كو آئندہ كے حوادث كے لئے تيار كررہے تھے _ وہ جانتے تھے كہ انھوں نے شہرميں بلكہ پورے ملك بابل ميں ايك بہت بڑادھماكہ كيا ہے جس كى صدابعد ميں بلند ہوگى _غصہ اور غضب كا ايك ايسا طوفان اٹھے گا اور وہ اس طوفان ميںاكيلے ہوں گے _ليكن ان كا خدا موجود ہے اور وہى ان كے لئے كافى ہے جناب ابراہيم (ع) نمروديوں كى عدالت ميں آخر وہ عيد كا دن ختم ہوگيا اور بت پرست خوشى مناتے ہوئے شہر كى طرف پلٹے اور سب بت خانے كى طرف گئے تاكہ بتوں سے اظہار عقيدت بھى كريں اور وہ كھانا بھى كھائيں كہ جو ان كے گمان كے مطابق بتوں كے پاس ركھے رہنے سے بابركت ہوگيا تھا جو نہى وہ بت خانے كے اندر پہنچے تو ايك ايسا منظر ديكھا كہ ان كہ ہوش اڑگئے آبادبت خانہ كے بجائے بتوں كا ايك ڈھيرتھا ان كے ہاتھ پائوں ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ ايك دوسرے پر گرے ہوئے تھے _'' وہ تو چيخنے چلانے لگے :''يہ بلا اور مصيبت ہمارے خدائوں كے سر پر كون لايا ہے ''؟ ''يقينا جو كوئي بھى تھا ، ظالموں ميں سے تھا ''_(57) اس نے ہمارے خدائوں پر بھى ظلم كيا ہے ، ہمارى قوم اور معاشرے پر بھى ،اور خود اپنے اوپر بھى كيونكہ اس نے اپنے اس عمل سے اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈال ديا ہے _ ليكن وہ لوگ جو بتوں كے بارے ميں ابراہيم كى دھمكيوں سے آگاہ تھے اور ان جعلى خدائوں كے بارے ميںان كى اھانت آميز باتوں كو جانتے تھے ، كہنے لگے :''ہم نے سنا ہے ايك جوان بتوں كے بارے ميں باتيں كرتا تھا اور انہيں برابھلاكہتا تھا ، اس كا نام ابراہيم (ع) ہے_''(58) يہ ٹھيك ہے كہ بعض روايات كے مطابق حضرت ابرہيم (ع) اس وقت مكمل طور پر جوان تھے اور احتمال يہ ہے كہ ان كى عمر16/ سال سے زيادہ نہيں تھى اور يہ بھى درست ہے كہ جوانمردى كى تمام خصوصيات ، شجاعت ، شہامت ، صراحت اور قاطعيت ان كے وجود ميں جمع تھيں ليكن اس طرح سے بات كرنے سے بت پرستوں كى مراد يقينا تحقير كے علاوہ كچھ نہيں تھى ، بجائے اس كے كہ يہ كہتے كہ ابراہيم(ع) نے يہ كام كيا ہے ،كہتے ہيں كہ ايك جوان ہے كہ جسے ابراہيم(ع) كہتے ہيں ، وہ اس طرح كہتا تھا يعنى ايك ايسا شخص كہ جو بالكل گمنام اور ان كى نظر ميں بے حيثيت ہے _ اصولاً معمول يہ ہے كہ جب كسى جگہ كوئي جرم ہوجائے تو اس شخص كو تلاش كرنے كے لئے كہ جس سے وہ جرم سرزد ہوا ہو ان سے دشمنى ركھنے والوں كو تلاش كيا جاتاہے اور اس ماحول ميں ابراہيم (ع) كے سوا مسلماً كوئي شخص بتوں كے ساتھ دست وگريبان نہيں ہوسكتا تھا لہذا تمام افكار انہيںكى طرف متوجہ ہوگئے اور بعض نے كہا : '' اب جب كہ معاملہ اس طرح ہے تو جائو اور اس كو لوگوں كے سامنے پيش كرو تاكہ وہ لوگ كہ جو پہچانتے ہيں اور خبر ركھتے ہيں گواہى ديں ''_(59) منادى كرنے والوں نے شہر ميں ہر طرف يہ منادى كى كہ جو شخص بھى ابراہيم(ع) كى بتوں سے دشمنى اور ان كى بدگوئي كے بارے ميں آگاہ ہے ، حاضر ہوجائے، جلدہى جو آگاہ تھے وہ لوگ بھى اور تمام دوسرے لوگ بھى جمع ہوگئے تاكہ ديكھيں كہ اس ملزم كا انجام كيا ہوتا ہے _ ايك عجيب وغريب شور وغل لوگوں ميں پڑا ہوا تھا ،چونكہ ان كے عقيدے كے مطابق ايك ايسا جرم جو پہلے كبھى نہ ہوا تھا جس نے ان كے دينى ماحول ميں ايك دھماكہ كر ديا تھا _ حضرت ابراہيم عليہ السلام كى دندان شكن دليل آخركار عدالت لگى اور بازپرس ہوئي زعمائے قوم وہاں جمع ہوئے بعض كہتے ہيں كہ خود نمردو اس عمل كى نگرانى كررہاتھا پہلا سوال جو انہوں نے ابراہيم سے كيا وہ يہ تھا :'' اے ابراہيم :كيا تونے ہى ہمارے خدائوںكے ساتھ يہ كام كيا ہے_ ''(60) وہ اس بات تك كے لئے تيار نہيں تھے كہ يہ كہيں كہ تونے ہمارے خدائوں كو توڑا ہے اور ان كے ٹكڑے ٹكڑے كرديئے ہيں ، بلكہ صرف يہ كہا كيا تونے ہمارے خدائوں كے ساتھ يہ كام كيا ہے ؟ ابراہيم(ع) نے ايسا جواب ديا كہ وہ خود گھرگئے اور ايسے گھرے كہ نكلنا ان كے بس ميں نہ تھا '' ابراہيم(ع) نے كہا : يہ كام اس بڑے بت نے كيا ہے ،ان سے پوچھو اگر يہ بات كرتے ہوں _'' (61) جرائم كى تفتيش كے اصول يہ ہيں ، كہ جس كے پاس آثار جرم ملے، وہ ملزم ہے (مشہور روايت كے مطابق حضرت ابراہيم(ع) نے وہ كلہاڑا بڑے بت كى گردن ميں ڈال ديا تھا )_ اصلاً ،تم ميرے پيچھے كيوں پڑگئے ہو؟ تم اپنے بڑے خدا كو ملزم قرار كيوں نہيں ديتے ؟ كيا يہ احتمال نہيں ہے كہ وہ چھوٹے خدائوں پر غضبناك ہوگيا ہو يا اس نے انہيں اپنا آيندہ كا رقيب فرض كرتے ہوئے ان سب كا حساب ايك ہى ساتھ پاك كرديا ہو؟ ابراہيم (ع) نے قطعى طورپر اس عمل كو بڑے بت كى طرف منسوب كيا ، ليكن تمام قرائن اس بات كى گواہى دے رہے تھے كہ وہ اس بات سے كوئي پختہ اور مستقل قصد نہيں ركھتے تھے،بلكہ وہ اس سے يہ چاہتے تھے كہ بت پرستوں كے مسلمہ عقائد كو، جو كہ خرافاتى اور بے بنيادتھے، ان كے منہ پر دے ماريں اور ان كا مذاق اڑائيں اور انہيں يہ سمجھائيں كہ يہ بے جان پتھراور لكڑياں اس قدر حقير ہيں كہ ايك جملہ تك بھى منہ سے نہيں نكال سكتيں، كہ اپنى عبادت كرنے والوں سے مدد طلب كرليں ،چہ جائيكہ وہ يہ چاہيں كہ ان كى مشكلات كوحل كرديں_ اس تعبير كے نظير ہمارے روز مرہ كے محاورات ميں بہت زيادہ ہے كہ مد مقابل كى بات كو باطل كرنے كے لئے اس كے مسلمات كوامر يا خبريا استفہام كى صورت ميں اس كے سامنے ركھتے ہيں تاكہ وہ مغلوب ہوجائے اور يہ بات كسى طرح بھى جھوٹ نہيں ہوتي'' جھوٹ وہ ہوتا ہے كہ جس كے ساتھ كوئي قرينہ نہ ہو ''_ اس روايت ميں كہ جو كتاب كافى ميں امام صادق عليہ ا لسلام سے نقل ہوئي ہے ،يہ بيان ہوا ہے كہ : ''ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات اس لئے كہى كہ وہ ان كے افكار كى اصلاح كرنا چاہتے تھے_اور انہيں سمجھانا چاہتے تھے كہ ايسے كام بتوں سے نہيں ہو سكتے_'' اس كے بعد امام عليہ السلام نے مزيد فرمايا: ''خدا كى قسم يہ كام بتوں نے نہيں كيا تھا اور ابراہيم عليہ السلام نے جھوٹ بھى نہيں بولا_'' حوالاجات (1)سورہ ص آيت44 (2)سورہ نحل آيت122 (3)سورہ نحل آيت120 (4)سورہ مريم آيت41 (5)سورہ توبہ آيت 114 (6)بعض مو رخين نے لكھا ہے كہ آپ(ع) ملك بابل كے شہر آور ميں پيداہوئے (7)سورہ مريم آيت 41/42 (8)سورہ نمل آيت120 (9)سورہ نمل آيت 120 (10)سورہ نمل آيت 120 (11)سورہ نمل آيت120 (12)سورہ نمل آيت 121 (13)سورہ نمل آيت 121 (14) سورہ آيت 121 (15) سورہ نمل آيت122 (16) سورہ نمل آيت 4 (17)سورہ ممتحنہ آيت 4 (18)سورہ انعام آيت 84 (19)سورہ انعام آيت 84 (20) سورہ انعام آيت84 (21)سورہ انعام آيت 85 (22) سورہ مريم آيت42 (23)سورہ مريم آيت 44 (24)سورہ مريم آيت45 (25)سورہ مريم ايت 46 (26) سورہ مريم آيت 47 (27)سورہ قصص ايت 55 (28)سورہ مريم آيت 47 (29) سورہ مريم آيت 48 (30)كيا آزر حضرت ابراہيم(ع) كا باپ تھا؟ لفظ ''اب ''عربى زبان ميںعام طور پر باپ كے لئے بولا جاتا ہے،اور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ بعض اوقات چچا،نانا،مربى و معلم اور اسى طرح وہ افراد كہ جو انسان كى تربيت ميں كچھ نہ كچھ زحمت و مشقت اٹھاتے ہيں ان پر بھى بولا جاتا ہے --> <-- ليكن اس ميں شك نہيں كہ جب يہ لفظ بولا جائے اور كوئي قرينہ موجود نہ ہو تو پھر معنى كے لئے پہلے باپ ہى ذہن ميں آتا ہے_ اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا سچ مچ قرآن كہتا ہے كہ وہ بت پرست شخص(آزر) حضرت ابراہيم عليہ السلام كاباپ تھا، تو كيا ايك بت پرست اور بت ساز شخص ايك اولوالعزم پيغمبر كا باپ ہوسكتا ہے،اس صورت ميں كيا انسان كى نفسيات و صفات كى وراثت اس كے بيٹے ميں غير مطلوب اثرات پيدا نہيں كردے گي_ اہل سنت مفسرين كى ايك جماعت نے پہلے سوال كا مثبت جواب ديا ہے اور آزر كو حضرت ابراہيم عليہ السلام كا حقيقى باپ سمجھا ہے،جب كہ تمام مفسرين و علماء شيعہ كا عقيدہ يہ ہے كہ آزر حضرت ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا،بعض اسے آپ كا نانا اور بہت سے حضرت ابراہيم عليہ السلام كا چچا سمجھتے ہيں_ وہ قرائن جو شيعہ علماء كے نقطہ نظر كى تائيد كرتے ہيں حسب ذيل ہيں: 1_كسى تاريخى منبع و مصدر اور كتاب ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام كے والد كا نام آزر شمار نہيں كيا گيا بلكہ سب نے''تارخ''لكھا ہے_كتب عہدين ميں بھى يہى نام آيا ہے،قابل توجہ بات يہ ہے كہ جو لوگ اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام كا باپ آزر تھا،يہاں انہوں نے ايسى توجيہات كى ہيں جو كسى طرح قابل قبول نہيں ہيں_منجملہ ان كے يہ ہے كہ ابراہيم عليہ السلام كے باپ كا نام تارخ اور اس كا لقب آزر تھا_حالانكہ يہ لقب بھى منابع تاريخ ميں ذكر نہيں ہوا_يا يہ كہ آزر ايك بت تھا كہ جس كى ابراہيم عليہ السلام كا باپ پوجا كرتا تھا،حالانكہ يہ احتمال قرانى آيت كے ظاہر كے ساتھ جو يہ كہتى ہے كہ آزر ان كا باپ تھا كسى طرح بھى مطابقت نہيں ركھتي،مگر يہ كہ كوئي جملہ يا لفظ مقدر مانيں جو كہ خلاف ظاہر ہو_ 2_قرآن مجيد كہتا ہے كہ مسلمان يہ حق نہيں ركھتے كہ مشركين كے لئے استغفار كريں اگر چہ وہ ان كے عزيز و قريب ہى كيوں نہ ہوں_اس كے بعد اس غرض سے كہ كوئي آزر كے بارے ميں ابراہيم عليہ السلام كے استغفار كو دستاويز قرار نہ دے اس طرح كہتا ہے: ''ابراہيم عليہ السلام كى اپنے باپ آزر كے لئے استغفار صرف اس وعدہ كى بنا پر تھى جو انہوں نے اس سے كيا تھا_(سورہ توبہ آيت114) چونكہ آپ نے يہ كہا تھا كہ:''يعنى ميں عنقريب تيرے لئے استغفار كروں گا_'' يہ اس اميد پر تھا كہ شايد وہ اس وعدہ كى وجہ سے خوش ہوجائے اور بت پرستى سے باز آجائے ليكن جب اسے --> <-- بت پرستى كى راہ ميں پختہ اور ہٹ دھرم پايا تو اس كے لئے استغفار كرنے سے دستبردار ہوگئے_ يہاں سے يہ بات اچھى طرح معلوم ہوجاتى ہے كہ ابراہيم عليہ السلام نے آزر سے مايوس ہوجانے كے بعد پھر كبھى اس كے لئے طلب مغفرت نہيں كي_اور ايسا كرنا مناسب بھى نہيں تھا_ تمام قرائن اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ يہ واقعہ حضرت ابراہيم عليہ السلام كى جوانى كے زمانے كا ہے جب كہ آپ شہر بابل ميں رہائشے پذير تھے اور بت پرستوں كے ساتھ مبارزہ اور مقابلہ كررہے تھے_ ليكن قرآن كى دوسرى آيات نشاندہى كرتى ہيں كہ ابراہيم عليہ السلام نے اپنى آخرى عمر ميں خانہ كعبہ كى تعمير كے بعد اپنے باپ كے لئے طلب مغفرت كى ہے(البتہ ان آيات ميں جيسا كہ آئندہ بيان ہوگا،باپ سے''اب''كو تعبير نہيں كيا بلكہ''والد''كے ساتھ تعبير كيا ہے جو صراحت كے ساتھ باپ كے مفہوم كو ادا كرتا ہے)_ جيسا كہ قرآن ميں ہے: ''حمدوثنا اس خدا كے لئے ہے كہ جس نے مجھے بڑھاپے ميں اسماعيل اور اسحاق عطا كيے ،ميرا پروردگار دعائوں كا قبول كرنے والا ہے، اے پروردگار مجھے ،ميرے ماں باپ اور مومنين كو قيامت كے دن بخش دے ''_(سورہ ابراہيم آيت39و41 سورہ ابراہيم كى اس آيت كو سورہ توبہ كى آيت كے ساتھ ملانے سے جو مسلمانوں كو مشركين كےلئے استغفار كرنے سے منع كرتى ہے اور ابراہيم كو بھى ايسے كام سے سوائے ايك مدت محدود كے وہ بھى صرف ايك مقدس مقصدوہدف كے لئے روكتى ہے، اچھى طرح معلوم ہوجاتاہے كہ زيربحث قرآنى آيت ميں ''اب''سے مراد باپ نہيں ہے بلكہ چچايانانا يا كوئي اور اسى قسم كارشتہ ہے دوسرے لفظوں ميں '' والد'' باپ كے معنى ميں صريح ہے جب كہ'' اب'' ميں صراحت نہيں پائي جاتى _ قرآن كى آيات ميں لفظ'' اب'' ايك مقام پرچچا كے لئے بھى استعمال ہوا ہے مثلا سورہ بقرہ آيت133: يعقوب (ع) كے بيٹوں نے اس سے كہا ہم تيرے خدا اور تيرے آباء ابراہيم واسماعيل واسحاق كے خدائے يكتا كى پرستش كرتے ہيں_ ہم يہ بات اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ اسماعيل (ع) يعقوب (ع) كے چچا تھے باپ نہيں تھے _ 3_مختلف اسلامى روايات سے بھى يہ بات معلوم ہوتى ہے ،پيغمبر اكرم (ص) كى ايك مشہور حديث ميں آنحضرت(ص) سے منقول ہے: ''خداوند تعالى مجھے ہميشہ پاك آبائو اجداد كے صلب سے پاك مائوں كے رحم ميں منتقل كرتارہا اور اس نے <-- مجھے كبھى زمانہ جاہليت كى آلود گيوں اور گندگيوں ميں آلودہ نہيں كيا ''_ اس ميں شك نہيں ہے كہ زمانہ جاہليت كى واضح ترين آلودگى شرك وبت پرستى ہے اور جنہوں نے اسے آلودگى كوزنا ميں منحصر سمجھا ہے ان كے پاس اپنے قول پر كوئي دليل موجود نہيں ہے خصوصا جبكہ قرآن كہتا ہے: ''مشركين گندگى ميں آلودہ اور ناپاك ہيں''_(سورہ توبہ ايت 28) طبرى جوعلماے اہل سنت ميںسے ہے اپنى تفسير جامع البيان ميں مشہور مجاہد سے نقل كرتا ہے _وہ صراحت كے ساتھ يہ كہتا ہے كہ ازر ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا_ اہل سنت كا ايك دوسرا مفسر الوسى اپنى تفسير روح المعانى ميں مندرجہ ذيل قرآنى گفتگو ميں كہتا ہے كہ جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ يہ عقيدہ كہ ازر، ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا شيعوں سے مخصوص ہے ان كى كم اطلاعى كى وجہ سے ہے كيونكہ بہت سے علماء (اہل سنت) بھى اسى بات كا عقيدہ ركھتے ہيں كہ ازر ابراہيم عليہ السلام كا چچا تھا_ ''سيوطي''مشہور سنى عالم كتاب ''مسالك الحنفاء'' ميں فخر الدين رازى كى كتاب ''اسرارالتنزيل''سے نقل كرتا ہے كہ پيغمبر اسلام (ص) كے ماں باپ اور اجداد كبھى بھى مشرك نہيں تھے اور اس حديث سے جو ہم اوپر پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كر چكے ہيں استدلال كيا ہے ،اس كے بعد سيوطى خود اضافہ كرتے ہوئے كہتا ہے : ہم اس حقيقت كو دوطرح كى اسلامى روايات سے ثابت كر سكتے ہيں : پہلى قسم كى روايات تو وہ ہيں كہ جو يہ كہتى ہيں كہ پيغمبر كے اباء واجداد حضرت ادم عليہ السلام تك ہر ايك اپنے زمانہ كا بہترين فرد تھا (ان احاديث كو''صحيح بخاري''اور ''دلائل النبوة''سے بيہقى وغيرہ نے نقل كيا ہے)_ اور دوسرى قسم كى روايات وہ ہيں جو يہ كہتى ہيں كہ ہر زمانے ميں موحد و خدا پرست افراد موجود رہے ہيں ،ان دونوں قسم كى روايت كو باہم ملانے سے ثابت ہوجاتا ہے كہ اجداد پيغمبر (ص) كہ جن ميں سے ايك ابراہيم (ع) كے باپ بھى ہيں يقناً موحد تھے. (31)سورہ انعام ايت 76 (32)سورہ انعام ايت 76 (33)سورہ انعام ايت 77 (34)سورہ انعام ايت 78 (35)سورہ انعام آيت79 (36)جناب ابراہيم عليہ السلام جيسے موحد و يكتا پرست نے كس طرح اسمان كے ستارے كى طرف اشارہ كيا اور يہ كہا كہ يہ ميرا خدا ہے مفسرين نے بہت بحث كى ہے ،ان تمام تفاسير ميں سے دو تفسير يں زيادہ قابل ملاحظہ ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك كو بعض بزرگ مفسرين نے اختيا ر كيا ہے ہم ان ميں سے ايك كو بيا ن كرتے ہيں كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات ستارہ پرستوں اور سور ج پرست لوگوںسے گفتگو كرتے ہوئے كى اور احتمال يہ ہے كہ بابل ميں بت پرستوںكے ساتھ سخت قسم كے مقابلے اور مبارزات كرنے اور اس زمين سے شام كى طرف نكلنے كے بعد جب ان اقوام سے ان كا سامنا ہوا تو اس وقت يہ گفتگو كى تھى ،حضرت ابراہيم عليہ السلام بابل ميں نادان قوموں كى ہٹ دھرمى كو ان كى غلط راہ ورسم ميں ازما چكے تھے لہذا اس بنا پر كہ افتاب و ماہتاب كے پجاريوں اور ستارہ پرستوں كو اپنى طرف متوجہ كريں ،پہلے ان كے ہم صدا ہو گئے اور ستارہ پرستوں سے كہنے لگے كہ تم يہ كہتے ہو كہ يہ زہرہ ستارہ ميرا پروردگار ہے ،بہت اچھا چلو اسے ديكھتے ہيں يہاں تك كہ اس عقيدے كا انجام تمہارے سامنے پيش كروں ،تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ اس ستارے كا چمكدار چہرہ افق كے تاريك پردے كے پيچھے چھپ گيا،يہ وہ مقام تھا كہ ابراہيم عليہ السلام كے ہاتھ ميں ايك محكم ہتھيار اگيا اور وہ كہنے لگے ميں تو كبھى ايسے معبود كو قبول نہيں كر سكتا ،اس بنا پر''ھذاربي'' كا مفہوم يہ ہے كہ تمہارے عقيدے كے مطابق يہ ميرا خدا ہے ،يا يہ كہ اپ نے بطور استفہام فرمايا: ''كيا يہ ميرا خدا ہے ''؟ (37)سورہ عنكبوت آيت 16 (38)سورہ عنكبوت آيت 17 (39)سورہ عنكبوت آيت 17 (40) سورہ عنكبوت آيت17 (41) سورہ عنكبوت آيت 17 (42)سورہ عنكبوت آيت17 (43)سورہ عنكبوت آيت17 (44) سورہ عنكبوت آيت17 (45)سورہ عنكبوت آيت 18 (46)سورہ شعراء آيت 71 (47) سورہ شعراء آيات 72073 (48) سورہ شعراء آيت 74 (49)قرآن مجيد ميں واقعہ ابراہيم كو قصہ كے ساتھ اس طرح سے منسلك كيا گيا ہے :'' اور ابراہيم ،نوح كے پيروكاروں ميں سے تھے_''( سورہ صافات ايت 83) وہ اسى راہ توحيد وعدل اورراسى راہ تقوى واخلاص پر گا مزن تھا جو نوح كى سنت تھي،كيونكہ انبياء سارے كے سارے ايك ہى مكتب كے مبلغ اور ايك ہى يونيورسٹى كے استاد ہيں اور ان ميں سے ہر ايك دوسرے كے پروگرام كو دوام بخشتا ، اسے آگے بڑھاتا اور اس كى تكميل كرتاہے ، كيسى عمدہ تعبير ہے كہ ابراہيم، (ع) نوح كے شيعوں ميں سے تھے حالانكہ ان دونوں كے زمانے ميں بہت فاصلہ تھا (بعض مفسرين كے قول كے مطابق تقريباً2600/ سال فاصلہ تھا، ليكن ہم جانتے ہيں كہ مكتبى رشتے ميں زمانے كى كوئي حيثيت نہيں ہے (50) سورہ انبياء آيت 57 (51) سورہ صافات 88_89 (52)سورہ صافات آيت90 (53)يہاں دوسوال پيدا ہوتے ہيں : پہلايہ كہ حضرت ابراہيم (ع) نے ستاروں كى طرف كيوں ديكھا ،اس ديكھنے سے ان كا مقصد كيا تھا ؟ دوسرايہ كہ كيا واقعا وہ بيمار تھے كہ انھوں نے كہا ميں بيمارہوں ؟انھيںكيا بيمارى تھى ؟ پہلے سوال كا جواب بابل كے لوگوںكے اعتقادات اوررسوم وعادات كو ديكھتے ہوئے واضح وروشن ہے وہ علم بخوم ميں بہت ماہر تھے _يہاں تك كہ كہتے ہيں كہ ان كے بت بھى ستاروں كے ہيكلوں اور شكلوں ميں تھے اور اسى بناپر ان كا احترام كرتے تھے كہ وہ ستاروںكے سمبل تھے _ البتہ علم بخوم ميں مہارت كے ساتھ ساتھ بہت سى خرافات بھى ان كے يہاں پائي جاتى تھيں منجملہ يہ كہ وہ ستاروں كو اپنى تقدير ميں موثر جاتے تھے اور ان سے خيروبركت طلب كرتے تھے اور ان كى وضع وكيفيت سے آنے والے واقعات پر استدلال كرتے تھے ، ابراہيم نے اس غرض سے كہ انھيں مطمئن كرديں ، ان كى رسوم كے مطابق آسمان كے ستاروں پر ايك نظر ڈالى تاكہ وہ يہ تصور كريں كہ انھوں نے اپنى بيمارى كى پيشن گوئي ستاروں كے اوضاع كے مطالعے سے كى ہے اور وہ مطمئن ہوجائيں _ بعض بزرگ مفسرين نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ وہ چاہتے تھے كہ ستاروں كى حركت سے اپنى بيمارى كا وقت ٹھيك طورسے معلوم كرليں كيونكہ ايك قسم كى بيمارى انھيں تھى وہ يہ كہ بخار انھيں ايك خاص وقفہ كے ساتھ آتا تھا ليكن بابل كے لوگوں كے افكارونظريات كى طرف توجہ كرتے ہوئے پہلااحتمال زيادہ مناسب ہے _ بعض نے يہ احتمال بھى ذكركيا ہے كہ ان كا آسمان كى طرف ديكھنا درحقيقت اسرار آفرينش ميں مطالعہ كے لئے تھا اگر چہ وہ آپ كى نگاہ كو ايك منجم كى نگاہ سمجھ رہے تھے جو يہ چاہتا ہے كہ ستاروں كے اوضاع سے آئندہ كے واقعات كى پيش بينى كر ے_ دوسرے سوال كے مفسرين نے متعدد جواب ديئے ہيں ، منجملہ ان كے يہ ہے كہ وہ واقعا ًبيمار تھے ،اگرچہ وہ صحيح وسالم بھى ہوتے تب بھى جشن كے پروگرام ميں ہرگز شركت نہ كرتے ، ليكن ان كى بيمارى ان مراسم ميںشركت نہ كرنے اور بتوں كو توڑنے كے لئے ايك سنہرى موقع اور اچھا بہانہ بھى تھا، اور اس بات پر كوئي دليل نہيں ہے كہ ہم يہ كہيں كہ انھوں نے يہاں''توريہ''كيا تھا ، كيونكہ انبياء كے لئے '' توريہ ''كرنا مناسب نہيں ہے . (53)سورہ صافات آيت91 (54)سورہ صافات آيت92 (56) سورہ صافات آيت 93 (57)سورہ انبياء آيت9 5 (58)سورہ انبياء آيت 60 (59)سورہ انبياء آيت 61 (60)سورہ انبيائ(ع) آيت 62 (61) سورہ انبياء آيت 63 منبع:http://www.shiaarticles.com/