حضرت عيسى عليہ السلام اور حضرت مريم عليہا السلام

''حنہ'' اور ''اشياع'' دوبہنيں تھيں_ پہلى حضرت عمران كے نكاح ميں آئيں_ حضرت عمران بنى اسرائيل كى بہت اہم شخصيت تھے_ دوسرى كو اللہ كے ايك نبى زكريا(ع) نے اپنى زوجيت كے لئے منتخب فرمايا_ كئي سال گزر گئے_حنہ كے يہاں كوئي بچہ پيدا نہ ہوا_ايك روزوہ ايك درخت كے نيچے بيٹھى تھيں _ ديكھا كہ ايك پرندہ اپنے بچوں كو غذا دے رہا ہے_يہ منظر ديكھا تو اولاد كى خواہش ان كے دل ميں آگ كى طرح بھڑك اٹھي_ انہوں نے خلوص دل سے بارگاہ خداوندى ميں بيٹے كى درخواست كي،تھوڑا ہى عرصہ گزرا تھا يہ مخلصانہ دعا ہدف اجابت كو پہنچى اور وہ حاملہ ہوگئيں_ بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ اللہ تعالى نے حنہ كے شوہر حضرت عمران كى طرف وحى كى تھى كہ انہيں ايك بابركت لڑكا عطا كيا جائے گا،جو لاعلاج مريضوں كو شفا دے گا_ حكم خدا سے مردوں كو زندہ كرے گا اور بنى اسرائيل كے لئے پيغمبرى كے فرائض بھى انجام دے گا_انہوں نے يہ واقعہ اپنى بيوى سے بيان كيا_وہ حاملہ ہوئيں تو ان كا خيال تھا كہ يہى وہ لڑكا ہے جو اس وقت ان كے رحم ميں ہے_وہ بے خبر تھيں كہ ان كے رحم ميں تو اس لڑكے كى والدہ جناب مريم(ع) ہيں_اسى لئے انہوں نے نذر كى تھى كہ بيٹے كو خانہ خدا بيت المقدس كا خدمت گزار بنائيں گي_ قرآن ميں زوجہ عمران كى نذر كا تذكرہ ہے_ وہ حاملہ ہوئيں تو انہوں نے نذر كى كہ اپنے بچے كو بيت المقدس كا خدمت گزار بنائيں گى كيونكہ اللہ نے ان كے شوہر عمران كو جو اطلاع دى تھى اس سے وہ يہ سمجھے بيٹھى تھيں كہ ان كے يہاں لڑكا ہوگا_ ''محرراً''استعمال كيا ہے اور ''محررة''نہيں كہا،انھوں نے خدا سے درخواست كى وہ ان كى نذر قبول كرے،''محرر'' ''تحرير''كے مادے سے ليا گيا ہے جس كا معنى ہے''آزاد كرنا''اس زمانے ميں يہ لفظ ايسى اولاد كے لئے بولا جاتا تھا جو عبادت خانے كى خدمت كے لئے معين كئے جائے تا كہ وہ عبادت خانے كى صفائي اور دوسرى خدمات انجام ديں اور فراغت كے وقت پروردگار كى عبادت ميں مشغول رہيں_''محرر''ان خدمت گزاروں كو اس لئے كہتے تھے كہ وہ ماں باپ كى ہر قسم كى خدمت سے آزاد ہوتے تھے اور عبادت خانے كى خدمت كو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے تھے_ بعض كہتے ہيں جب بچے خدمت كے كچھ قابل ہو جاتے،بالغ ہونے تك ماں باپ كى نگرانى ميں خدمت انجام ديتے تھے اور بعد ازاں خود سے كام كرنے لگتے تھے چاہتے تو عبادت خانے ميں اپنا كام ختم كركے باہر چلے جاتے اور چاہتے تو كام جارى ركھتے_ پالنے والے يہ تو لڑكى ہے جب پيدائش ہوئي تو مادر مريم(ع) نے ديكھا كہ وہ لڑكى تھي_اب وہ پريشان ہوئيں_سوچنے لگيں كہ كيا كروں كيونكہ بيت المقدس كى خدمت تو لڑكے كيا كرتے ہيں_قبل ازيں كبھى كسى لڑكى كو بيت المقدس كى خدمت گزارى كے لئے منتخب نہيں كيا گيا تھا _ قرآن ميں بچى كى ولادت كے بعد مادر مريم(ع) كى كيفيت كو بيان كيا گيا ہے_ انہوں نے پريشان ہوكر كہا:خداوندميں نے بچى كو جنم ديا ہے اور تو جانتا ہے كہ جو نذرميں نے كى ہے اس كے لئے لڑكى لڑكے كى طرح نہيں ہوسكتى اور لڑكى لڑكے كى طرح ان فرائض كو انجام نہيں دے سكتي_(1) ليكن قرآن كہتا ہے كہ'' خدا تعالى نے مريم(ع) كو حسن قبول سے نوازا اور ان كى پرورش اچھے پودے كى طرح كي''_(2) در حقيقت جيسا كہ ہم نے اشارہ كيا ہے كہ جناب مريم(ع) كى والدہ كو يقين نہيں آتا تھا كہ كسى لڑكى كوخانہ خدا بيت المقدس كى خدمت كے لئے قبول كرليا جائےگا لہذا وہ چاہتى تھيں كہ ان كے شكم ميں جو بچہ ہے وہ لڑكا ہو كيونكہ قبل ازيں كبھى كسى لڑكى كو اس مقصد كے لئے منتخب نہيں كيا گيا تھا_ ليكن كہ خدا تعالى نے اس پاكيزہ لڑكى كو پہلى مرتبہ اس روحانى اور معنوى خدمت كے لئے قبول كرليا_ بعض مفسرين كہتے ہيں:قبوليت كى نشانى يہ تھى كہ حضرت مريم(ع) بيت المقدس كى خدمت كے دوران ميں ماہوارى ميں كبھى مبتلا نہيں ہوئيں كہ انہيں اس روحانى مركز سے دور ہونا پڑتا_ ممكن ہے اس نذر كى قبوليت اور جناب مريم(ع) كا قبول بارگاہ ہونا،اس كے بارے ميں ان كى والدہ كو الہام كے ذريعے مطلع كيا گيا ہو_ قرآن كہتا ہے:خدا نے زكريا كو مريم(ع) كى كفالت كے لئے منتخب كيا تھا'' كيونكہ جيسا كہ تاريخ ميں آيا ہے،مريم(ع) كے والد ان كى پيدائشے سے پہلے وفات پاچكے تھے''_ حضرت مريم(ع) كا يہ نام ان كى والدہ كے ذريعے سے وضع حمل كے وقت ہى ركھ ديا گيا تھا_ ےاد رہے كہ''مريم(ع) '' ان كى لغت ميں''عبادت گزار خاتون''كو كہتے تھے_ يہ نام حضرت مريم(ع) كى پاكباز والدہ كے اس انتہائي عشق اور لگائو كا مظہر ہے جو انہيں اپنے بچے كو عبادت الہى كے لئے وقف كرنے كے لئے تھا لہذا انہوں نے نام ركھنے كے ساتھ ہى خدا سے درخواست كى كہ وہ اس نومولود بچى اور اس كى آئندہ اولاد كو شيطانى وسوسوں سے بچائے ركھے اور انہيں اپنے لطف و كرم كى پناہ ميں ركھے_ مريم عليہا السلام كى پرورش كے لئے قرعہ كشي جناب مريم(ع) كى والدہ پيدائشے كے بعد اپنى نوزائيدہ بچى كو ايك كپڑے ميں لپيٹ كر عبادت خانے ميں لے آئيں_وہاں بنى اسرائيل كے علماء اور بزرگوں سے كہنے لگيں:يہ نو مولود بچى خانہ خدا كى خدمت كے لئے نذر كى گئي ہے اس كى سرپرستى اپنے ذمے لے ليں_ جناب مريم(ع) چونكہ حضرت عمران عليہ السلام كے خاندان سے تھيں اور يہ ايك بزرگ خاندان تھا اس لئے بنى اسرائيل كے علماء اور عباد ان كى سرپرستى كا منصب حاصل كرنے كے لے ايك دوسرے پر سبقت لے جانے كے كوشش كرتے تھے_ قرعہ ڈال كر فيصلہ كرنے پر ان كا اتفاق ہوگيا_وہ ايك نہر كے كنارے گئے وہاں انہوں نے اپنى قرعہ ڈالنے كى لكڑياں پيش كيں_ان ميں سے ہر ايك لكڑى يا قلم پر ان ميں سے ايك ايك كانام لكھا گيا _جو قلم پانى ميں ڈوب جاتى اس كا قرعہ نكلتا صرف جس كى قلم سطح آب پر رہتى اس كے نام قرعہ شمار ہوتا _جس قلم پر حضرت زكريا(ع) كا نام تھا پہلے پانى كى گہرائي ميں چلى گئي اور پھر پانى پر ابھر آئي_ يوں حضرت مريم(ع) كى سر پرستى كا منصب حضرت زكريا(ع) كے حصے آيا اور حقيقت ميں بھى وہى اس كام كے لئے اہل تر تھے كيونكہ ايك تو وہ پيغمبر خدا تھے اور دوسرے ان كى بيوى حضرت مريم(ع) كى خالہ تھيں_ پھر ا س واقعے كے ايك حصے كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا ہے:مريم(ع) كى سرپرستى كے تعين كے لئے جب وہ اپنى قلميں پانى ميں ڈال رہے تھے تم موجود نہ تھے_ ''يونہى جب وہ كفالت مريم(ع) پر جھگڑرہے تھے تم پا س نہ تھے اوريہ سب كچھ تم پر صرف وحى كے ذريعے نازل ہوا ہے''_(3) جناب مريم كے سرپرست حضرت زكريا(ع) جناب مريم(ع) حضرت زكريا(ع) كى سرپرستى ميں پروان چڑھيں اور خدا كى عبادت و بندگى ميں اس طرح مستغرق ہوئيں كہ ابن عباس كے بقول جب وہ نو سال كى ہوئيں تو دن كو روزہ ركھتيں اور رات كو عبادت كرتيں_ پرہيزگارى اور معرفت الہى ميں انہوں نے اتنى ترقى كى كہ اس دور كے احبار اور پارسا علماء سے بھى سبقت لے گئيں_ حضرت زكرياعليہ السلام ان كے محراب كے پاس آكر ديكھتے تو خاص غذائيں ركھى رہتى تھيں_انہيں بہت حيرانى ہوتي_ايك دن پوچھنے لگے: ''يہ كھانے كہاں سے لائي ہو؟''_ مريم(ع) بوليں: ''يہ خدا كى طرف سے ہے اور وہ تو جسے چاہتا ہے بے حساب رزق ديتا ہے''_(4) يہ غذا كيسى تھي؟اور جناب مريم(ع) كے لئے كہاں سے آتى تھي؟اس بارے ميں قران ميں كچھ بيان نہيں كيا گيا ليكن بہت سى شيعہ و سنى كتب كى روايات سے جو تفسير عياشى وغيرہ ميں مذكورہ ہيں،معلوم ہوتا ہے كہ جنت كے پھلوں كى ايك قسم تھى جو بے موسم حكم پروردگار سے جناب مريم(ع) كے محراب كے پاس پہنچ جاتے اور يہ بات كوئي باعث تعجب نہيں ہے كہ خدامتعال اپنے كسى پرہيزگار بندے كى يوں پذيرائي كرے_ ايك روايت امام باقر عليہ السلام سے منقول ہے:ايك روز پيغمبر اكرم (ص) جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كے گھر تشريف لائے_حالت يہ تھى كہ كئي روز سے ان كے يہاں ٹھيك سے كھانا بھى ميسر نہ تھا اچانك آپ(ص) نے ان كے پاس مخصوص غذا ديكھي_آپ(ص) نے پوچھا:''يہ كھانا كہاں سے آيا ہے؟'' حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے عرض كيا: ''خد اكے يہاں سے،كيونكہ وہ جسے چاہتا ہے بے حساب رز ق ديتا ہے''_ اس پر پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: 'يہ واقعہ حضرت زكريا(ع) كے واقعے كى طرح ہے،وہ جناب مريم (ع) كے محراب كے پاس آئے تھے،وہاں كھانے كى كوئي خاص چيز ديكھى تو پوچھنے لگے :يہ كھانا كہاں سے آيا ہے تو انہوں نے جواب ميں كہا كہ خدا كے يہاں سے آيا ہے_ فرشتے جناب مريم سے باتيں كرتے ہيں جناب مريم(ع) كى ايك بلند فضيلت يہ تھى كہ فرشتے ان سے باتيں كيا كرتے تھے جس سے آپ(ع) كى عظمت واضح ہوجاتى ہے_ ''فرشتے حضرت مريم(ع) كو بشارت ديتے ہيں كہ خدا نے انہيں برگزيدہ كيا اور چن ليا ہے اور انہيں پاك قرار ديا''_(5) يعنى تقوى ،پرہيزگاري،ايمان اور عبادت كے نتيجے ميں وہ خدا كے برگزيدہ اور پاك لوگوں ميں سے ہوگئي ہيں اور انہيں حضرت عيسى عليہ السلام جيسے پيغمبر كى پيدائش كے لئے چن ليا گيا ہے_ پہلا حصہ جناب مريم(ع) كى اعلى انسانى صفات كى طرف اشارہ كرتا ہے اور برگزيدہ انسان كے طور پراپ كانام ليتا ہے اور دوسرے حصے ميں''اصطفك'' ان كے اپنے زمانے كى تمام عورتوں پر برترى كى طرف اشارہ ہے_ يہ قرآنى گفتگو اس بات پر گواہ ہے كہ حضرت مريم(ع) اپنے زمانے ميں عظيم ترين منزلت كى مالك خاتون تھيں_(6) قرآن ميں حضرت مريم(ع) سے فرشتوں كى گفتگو كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ انہو ںنے حضرت مريم(ع) كو خدا كى طرف سے برگزيدہ ہونے كى بشارت دينے كے بعد كہا:''اب پروردگار كے حضور خضوع كرو اور سجدہ و قيام بجالائو''_(7) يہ درحقيقت اس عظيم نعمت پر شكرانہ تھا_ حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سراغاز قرآن حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ہے: ''آسمانى كتاب قرآن ميں مريم(ع) كى بات كرو كہ جس وقت اس نے اپنے گھروالوں سے جدا ہوكر مشرقى حصہ ميں قيام كيا''_(8) درحقيقت وہ ايك ايسى خالى اور فارغ جگہ چاہتى تھى جہاں پر كسى قسم كا كوئي شور و غل نہ ہوتا كہ وہ اپنے خدا سے راز و نياز ميں مشغول رہ سكے،اور كوئي چيز اسے ياد محبوب سے غافل نہ كرے،اسى مقصد كے لئے ا س نے عظيم عبادت گاہ بيت المقدس كى مشرقى سمت كو جو شايد زيادہ آرام و سكون كى جگہ تھى يا سورج كى روشنى كے لحاظ سے زيادہ پاك و صاف اور زيادہ مناسب تھي،انتخاب كيا_ اس وقت مريم(ع) نے''اپنے اور دوسروں كے درميان ايك پردہ ڈال ليا''_(9) تاكہ اس كى خلوت گاہ ہر لحاظ سے كامل ہوجائے_ <-- ''العالمين'' كا لفظ بھى اس بات كے منافى نہيں ہے كيونكہ يہ لفظ قرآن حكيم ميں اور ديگر عبارات ميں ايسے لوگوں كے معنى ميں استعمال ہوا ہے جو ايك وقت اور ايك زمانے ميں زندگى بسر كرتے تھے_ جيسا كہ بنى اسرائيل كے بارے ميں ہے: ''اور ميں نے تمہيں عالمين پر فضيلت دي_ واضح ہے يہاں مراد يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے مو منين كو اپنے زمانے كے لوگوں پر فضيلت حاصل تھي_ بہر حال اس وقت ہم نے اپني''روح''(جو بزرگ فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ ہے)اس كى طرف بھيجى اور وہ بے عيب خوبصورت اور كامل انسان كى شكل ميں مريم(ع) كے سامنے ظاہر ہوئي_(10)(11) ظاہر ہے ايسے موقع پر مريم(ع) كى كيا حالت ہوگي_وہ مريم (ع) كہ جس نے ہميشہ پاكدامنى كى زندگى گزاري،پاكيزہ افراد كے دامن ميں پرورش پائي اور تمام لوگوں كے درميان عفت و تقوى كى ضرب المثل تھي،اس پر اس قسم كے منظر كو ديكھ كر كيا گزرى ہوگي_ ايك خوبصورت اجنبى آدمى اس كى خلوت گاہ ميں پہنچ گيا تھا_اس پر برى وحشت طارى ہوئي_فوراًپكاريں كہ'' ميں خدائے رحمن كى پناہ چاہتى ہوں كہ مجھے تجھ سے بچائے_ اگر تو پرہيزگار ہے''_(12) اور يہ خوف ايسا تھا كہ جس نے مريم عليہا السلام كے سارے وجود كو ہلا كر ركھ ديا_ خدائے رحمان كا نام لينا اور اس كى رحمت عامہ كے ساتھ توصيف كرنا ايك طرف اور اسے تقوى اور پرہيزگارى كى تشويق كرنا دوسرى طرف،يہ سب كچھ اس لئے تھا كہ اگر وہ اجنبى آدمى كوئي برا ارادہ ركھتا ہو تو اس پر كنڑول كرے اور سب سے بڑھ كر خدا كى طرف پناہ لينا،وہ خدا كہ جو انسان كے لئے سخت ترين حالات ميں سہارا اور جائے پناہ ہے اور كوئي قدرت اس كى قدرت كے سامنے كچھ حيثيت نہيں ركھتي_ حضرت مريم عليہا السلام يہ بات كہنے كے ساتھ اس اجنبى آدمى كے ردّ عمل كى منتظر تھيں_ ايسا انتظار جس ميں بہت پريشانى اور وحشت كا رنگ تھا_ليكن يہ حالت زيادہ دير تك باقى نہ رہي،اس اجنبى نے گفتگو كے لئے زبان كھولى اور اپنى عظيم ذمہ دارى اور ماموريت كواس طرح سے بيان كيا''اس نے كہاكہ ميں تيرے پروردگار كا بھيجا ہوا ہوں''_(13) اس جملہ نے اس پانى كى طرح جو آگ پر چھڑكا جائے حضرت مريم عليہا السلام كے پاكيزہ دل كو سكون بخشا ليكن يہ سكون زيادہ دير تك قائم نہ رہ سكا_ كيونكہ اس نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے مزيد كہا:''ميں اس لئے آيا ہوں كہ تمہيں ايك ايسا لڑكا بخشوں جو جسم و روح اور اخلاق و عادات كے لحاظ سے پاك و پاكيزہ ہو''_(14) يہ بات سنتے ہى مريم عليہا السلام كانپ اٹھيں وہ پھر ايك گہرى پريشانى ميں ڈوب گئيں اور''كہا كہ يہ بات كيسے ممكن ہے كہ ميرے كوئي لڑكا ہو حالانكہ كسى انسان نے اب تك مجھے چھواتك نہيں اور ميں ہرگز كوئي بدكار عورت بھى نہيں ہوں''_(15) وہ اس حالت ميں صرف معمول كے اسباب كے مطابق سوچ رہى تھيں كيونكہ كوئي عورت صاحب اولاد ہو،اس كے لئے صرف دو ہى راستے ہيں يا تو وہ شادى كرے يا بدكارى اور انحراف كا راستہ اختيار كرے، ميں تو خود كو كسى بھى دوسرے شخص سے بہتر طور پر جانتى ہوں،نہ تو ابھى تك ميرا كوئي شوہر ہے اور نہ ہى ميں كبھى منحرف عورت رہى ہوں_اب تك تو يہ بات ہرگز سننے ميں نہيں آئي كہ كوئي عورت ان دونوں صورتوں كے سوا صاحب اولاد ہوئي ہو_ ليكن جلدى ہى اس نئي پريشانى كا طوفا ن بھى پروردگار عالم كے قاصد كى ايك دوسرى بات سننے سے تھم گيا اس نے مريم عليہاالسلام سے صراحت كے ساتھ كہا:''مطلب تو يہى ہے كيونكہ تيرے پروردگار نے فرمايا ہے كہ يہ كام ميرے لئے سہل اور آسان ہے''_(16) تو تو اچھى طرح ميرى قدرت سے آگا ہ ہے،تو نے تو بہشت كے وہ پھل جو دنيا ميں اس فصل ميں ہوتے ہى نہيں اپنے محراب عبادت كے پاس ديكھے ہيں،تو نے تو فرشتو ںكى وہ آوازيں سنى ہيں جو تيرى پاكيزگى كى شہادت كے لئے تھيں_ تجھے تو يہ حقيقت اچھى طرح معلوم ہے كہ تيرے جد امجد آدم(ع) مٹى سے پيدا ہوئے_ پھر يہ كيسا تعجب ہے كہ جو تجھے اس خبر سے ہورہا ہے_ اس كے بعد اس نے مزيد كہا:''ہم چاہتے ہيں كہ اسے لوگوں كے لئے آيت اور ايك معجزہ قرارديں''_اور ہم چاہتے ہيں كہ اسے اپنے بندوں كے لئے اپنى طرف سے رحمت قرار ديں_''بہر حال ''يہ فيصلہ شدہ امر ہے(17) اور اس ميں گفتگوںكى گنجائشے نہيں ہے_ ''روح خدا'' سے كيا مراد ہے؟ تقريباًتمام مشہور مفسرين نے يہاں پر روح كى خداوند متعال كے بزرگ فرشتے جبرئيل(ع) سے تفسير كى ہے اور اسے روح سے تعبير كرنے كى وجہ يہ ہے كہ وہ روحانى ہے_ وہ ايك ايسا وجود ہے جو حيات بخش ہے_ چونكہ وہ انبياء و مرسلين كے پاس خداوند متعال كى رسالت كا پہنچانے والا ہے لہذا تمام لائق انسانوں كے لئے حيات بخش ہے اور يہاں پر روح كى خدا كى طرف اضافت اس روح كى عظمت و شرافت كى دليل ہے_كيونكہ اضافت كى ايك قسم اضافت تشريفيہ ہے_ مريم عليہا السلام سخت طوفانوں كے تھپيڑوں ميں ''سر انجام مريم عليہا السلام حاملہ ہوگئي(18) اور اس موعود بچے نے اس كے رحم ميں جگہ پائي_ اس بارے ميں كہ يہ بچہ كس طرح وجود ميں آيا،كيا جبرئيل(ع) نے مريم عليہا السلام كے پيراہن ميں پھونكا يا ان كے منہ ميں،قرآن مجيد ميں اس كے متعلق كوئي بات نہيں ہے كيونكہ اس كى ضرورت نہيں تھي_اگر چہ مفسرين كے اس بارے ميں مختلف اقوال ہيں_ بہر حال'' اس امر كے سبب وہ بيت المقدس سے كسى دور دراز مقام پر چلى گئي''_(19) وہ اس حالت ميں ايك اميد وبيم كے درميان پريشانى و خوشى كى ملى جلى كيفيت كے ساتھ وقت گزار رہى تھي،كبھى وہ ےہ خيال كرتى كہ آخر كار يہ حمل ظاہر ہوئے گا،مانا كہ چند يا چند مہينے ان لوگوں سے دور رہ لوں گى اور اس مقام پر ايك اجنبى كى طرح زندگى بسر كرلوں گى مگر آخر كار كيا ہوگا،كون ميرى بات قبول كرے گا كہ ايك عورت بغير شوہر كے حاملہ ہوگئي_سوائے اس كے كہ اس كا دامن آلودہ ہو،ميں اس اتہام كے مقابلہ ميں كيا كروں گي_واقعاًوہ لڑكى جو سالہا سال سے پاكيزگى و عفت اور تقوى و پرہيزگارى كى علامت تھى _ اور خدا كى عبادت و بندگى ميں نمونہ تھي،جس كے بچپنے ميں كفالت كرنے پر بنى اسرائيل كے زاہد و عابد فخر كرتے تھے_ اور جس نے ايك عظيم پيغمبر كے زير نظر پرورش پائي تھي،خلاصہ يہ ہے كہ جس كے اخلاق كى دھوم اور پاكيزگى كى شہرت ہر جگہ پہنچى ہوئي تھى اس كے لئے يہ بات بہت ہى درد ناك تھى كہ ايك دن وہ يہ محسوس كرے كہ اس كا يہ سب معنوى سرمايہ خطرے ميں پڑگيا ہے،اور وہ ايك ايسى تہمت كے گرداب ميں پھنس گئي ہے كہ جو بدترين تہمت شمار ہوتى ہے_ اور يہ تيسرا لرزہ تھا كہ جو اس كے جسم پر طارى ہوا_ ليكن دوسرى طرف وہ يہ محسوس كرتى تھى كہ يہ فرزند خداوند تعالى كا موعود پيغمبر ہے_ يہ ايك عظيم آسمانى تحفہ ہوگا،وہ خدا كہ جس نے مجھے ايسے فرزند كى بشارت دى ہے اور ايسے معجزانہ طريقے سے اسے پيدا كيا ہے مجھے اكيلا كيسے چھوڑے گا؟كيا يہ ہوسكتا ہے كہ وہ اس قسم كے اتہام كے مقابلہ ميں ميرا دفاع نہ كرے؟ميں نے تو اس كے لطف وكرم كو ہميشہ آزمايا ہے اور اس كا دست رحمت ہميشہ اپنے سر پر ديكھا ہے_ اس بات پر كہ مريم عليہا السلام كى مدت حمل كس قدر تھي،مفسرين كے درميان اختلاف ہے،اگرچہ قرآن ميں سربستہ طور پر بيان ہوا ہے(پھر بھي)بعض نے اسے ايك گھنٹہ،بعض نے نو گھنٹے بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ بعض نے آٹھ ماہ اور بعض نے دوسرى عورتوں كى طرح نو مہينے كہا ہے،ليكن يہ موضوع اس وقعے كے مقصد پر اثر نہيں ركھتا_ روايات بھى اس سلسلہ ميں مختلف ہيں_ اس بارے ميں كہ يہ جگہ''اقصي''(دور دراز)كہاں تھي،بہت سے لوگوں كا نظريہ يہ ہے كہ يہ شہر''ناصرہ''تھا اور شايد اس شہر ميں بھى وہ مسلسل گھر ہى ميں رہتى تھيں اور بہت كم باہر نكلتى تھيں_ جو كچھ بھى تھا مدت حمل ختم ہوگئي اور مريم عليہا السلام كى زندگى كے طوفانى لمحات شروع ہوگئے انہيں سخت درد زہ كا آغاز ہوگيا_ ايسا درد جو انہيں آبادى سے بيابان كى طرف لے گيا_ ايسا بيابان جو انسانوں سے خالي،خشك اور بے آب تھا_جہاں كوئي جائے پناہ نہ تھي_ اگر چہ اس حالت ميں عورتيں اپنے قريبى اعزاء كى پناہ ليتى ہيں تا كہ وہ بچے كى پيدائشے كے سلسلے ميںان كى مدد كريں،ليكن مريم عليہا السلام كى حالت چونكہ ايك استثنائي كيفيت تھي،وہ ہرگز نہيں چاہتى تھيں كہ كوئي ان كے وضع حمل كو ديكھے، لہذا درد زہ كے شروع ہوتے ہى انہوں نے بيابان كى راہ لي_ قرآن اس سلسلے ميں كہتا ہے:'' وضع حمل كا وہ درد اسے كھجور كے درخت كے پاس كھينچ لے گيا''_(20)قرآن ميں ''جذع النخلة'' كا لفظ استعمال ہوا ہے ،اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ ''جذع'' درخت كے تنا كے معنى ميں ہے،يہ نشاندہى كرتا ہے كہ:اس درخت كا صرف تنا باقى رہ گيا تھا يعنى وہ خشك شدہ درخت تھا_ اے كاش اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتي! اس حالت ميں غم و اندوہ كا ايك طوفان تھا جو مريم عليہا السلام كے پورے وجود پر طارى تھا،انہوں نے محسوس كيا كہ جس لمحے كاخوف تھا وہ آن پہنچا ہے ايسا لحظہ كہ جس ميں وہ سب كچھ آشكار ہوجائے گا جو اب تك چھپا ہوا ہے اور بے ايمان لوگوں كى طرف سے ان پر تہمت كے تيروں كے بارش شروع ہو جائے گي_ يہ طوفان اس قدر سخت تھا اور يہ باران كے دوش پر اتنا سنگين تھا كہ بے اختيار ہوكر بوليں:''اے كاش ميں اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتى اور بالكل بھلادى جاتي''(21) يہ بات صاف طور پر ظاہر ہے كہ حضرت مريم عليہا السلام كو صرف آئندہ كى تہمتو ںكا خوف ہى نہيں تھا كہ جو ان كے دل كو بے چين كيے ہوئے تھا،بلكہ انہيں سب سے زيادہ فكر اس بات كى تھى كہ دوسرى مشكلات بھى تھيں_ كسى دايہ اور ہمدم و مددگار كے بغير وضع حمل، سنسان بيابان ميں بالكل تنہائي، آرام كے لئے كوئي جگہ نہ ہونا، پينے كے لئے پانى اور كھانے كے لئے غذا كا فقدان اور نومولود كے لئے نگہداشت كے كسى وسيلے كا نہ ہونا يہ ايسے امور تھے كہ جنہوں نے انہيں سخت پريشان كر ركھا تھا_ اور وہ لوگ جو يہ كہتے ہيں كہ حضرت مريم عليہا السلام نے ايمان اور توحيد كى ايسى معرفت كے ہوتے ہوئے اور خداوند متعال كے اتنے لطف و كرم اور احسانات ديكھنے كے باوجود ايسا جملہ زبان پر كيسے جارى كيا كہ''اے كاش ميں مرگئي ہوتى اور فراموش ہوچكى ہوتي' انہوں نے اس وقت ميں جناب مريم عليہا السلام كى حالت كا تصور ہى نہيں كيا_اور وہ خود ان مشكلات ميں سے كسى چھوٹى سى مشكل ميں بھى گرفتار ہوجائيں تو ان كے ايسے ہاتھ پائوں پھول جائيں گے كہ انہيں خود اپنى بھى خبر نہ رہے گى اور وہ خود كو بھى بھول جائيں گے_ ليكن يہ حالت زيادہ دير تك باقى نہ رہى اور اميد كا وہى روشن نقطہ جو ہميشہ ان كے دل كى گہرائيوں ميں رہتا تھا چمكنے لگا ''يكا يك ايك اواز ان كے كانوں ميں ائي جو ان كے پاو ں كے نيچے سے بلند ہو رہى تھى كہ غمگين نہ ہو،ذرا غور سے ديكھ تيرے پروردگار نے تيرے پاو ں كے نيچے ايك خوشگوار پانى كا چشمہ جارى كر ديا ہے''_(22) ايك نظر اپنے سر كے اوپر ڈالو اور غور سے ديكھو كہ كس طرح خشك تنہ بار اور كھجور كے درخت ميں تبديل ہو گيا ہے ،كہ پھلوں نے اس كى شاخوں كو زينت بخشى ہے'' اور اس كھجور كو ہلاو تاكہ تازہ كھجور يں تم پر گرنے لگيں _اس لذيذ اور قوت بخش غذا ميں سے كھاو اور اس كے خوشگوار پانى ميں سے پيو_اور اپنى انكھوں كو اس نو مولود سے روشن ركھو_اور اگر ائندہ كے حالات سے پريشانى ہے تو مطمئن رہو ،جب تم كسى بشر كوديكھو اور وہ تم سے اس بارے ميں وضاحت چاہے تو اشارہ كے ساتھ اس سے كہہ دينا كہ ميں نے خدا ئے رحمن كے لئے روزہ ركھا ہوا ہے ،خاموشى كا روزہ اور اس سبب سے ميں اج كسى سے بات نہيں كروں گي''_(23) خلاصہ يہ ہے كہ تمہيں اس بات كى كوئي ضرورت نہيں ہے كہ تم اپ اپنا دفاع كرو،وہ ذات كہ جس نے يہ مولود تمہيں عطا كيا ہے ،اس نے تيرے دفاع كى ذمہ دارى بھى اپنے ذمہ لى ہے اس لئے تم ہر طرح سے مطمئن رہو اور غم و اندوہ كو اپنے دل ميں جگہ نہ دو_ان پے در پے واقات نے جو ايك انتہائي تاريك فضا ميں روشن شعلوں كى طرح چمكنے لگے تھے ،ا ن كے دل كو پورى طرح روشن كر ديا تھا اور انھيں ايك سكون بخش ديا تھا_ حضرت مسيح عليہ السلام كى گہورے ميں باتيں ''اخر كار حضرت مريم (ع) اپنے بچے كو گود ميں لئے ہوئے بيابان سے ابادى كى طرف لوٹيں اور اپنى قوم اور رشتہ داروں كے پاس ائيں ''_(24) جو نہى انھوں نے ايك نو مولود بچہ ان كى گود ميں ديكھا تعجب كے مارے ان كا منہ كھلا كا كھلا رہ گيا ،وہ لوگ كہ جو مريم (ع) كى پاكدامنى سے اچھى طرح واقف تھے اور ان كے تقوى و كرامت كى شہرت كو سن چكے تھے ،سخت پريشان ہوئے ،يہاں تك كہ ان ميں سے كچھ تو شك وشبہ ميں پڑ گئے اور بعض ايسے لوگ كہ جو فيصلہ كرنے ميں جلد باز تھے انھوں نے اسے بُر ابھلا كہنا شروع كرديا اور كہنے لگلے اس بد كارى كے ساتھ تمہارے روشن ماضى پر بہت افسوس اور صد افسوس اس پاك خاندان پر كہ جو اس طرح بدنام ہوا''كہنے لگے :اے مريم (ع) تونے يقينا بہت ہى عجيب اور بُرا كام انجا م ديا ہے ''_(25) بعض نے ان كى طرف رخ كيا اور كہا :''اے ہارون كى بہن تيرا باپ تو كوئي بُرا ادمى نہيں تھا اور تيرى ماں بھى بدكار نہيں تھي''_(26) ايسے پاك و پاكيزہ ماں باپ كے ہوتے ہوئے ہم يہ تيرى كيا حالت ديكھ رہے ہيں ،تونے اپنے باپ كے طريقہ اور ماں كے چلن ميں كون سى بُرائي ديكھى تھى كہ تونے اس سے رو گردانى كر لى (27) اس وقت جناب مريم (ع) نے خدا وند متعال كے حكم سے خاموشى اختيار كى ،صرف ايك كام جو انھوں نے انجام ديا يہ تھاكہ اپنے نو مولود بچے عيسى عليہ السلام كى طرف اشارہ كيا _ ليكن اس كام نے ان كے تعجب كو اور بھى بر انگيختہ كر ديا اور شايد ان ميں سے بعض نے اس بات كو ان كے ساتھ ٹھٹھہ كرنے پر محمول كيا اور وہ غصے ميں اكر بولے :اے مريم (ع) ايسا كا م كركے تو اپنى قوم كا مذاق اڑا رہى ہے _ بہر حال انھوں نے اس سے كہا :''ہم ايسے بچے كے ساتھ جو كہ ابھى گہورے ميں ہے كيسے باتيں كريں ''_(28) بہر حال وہ لوگ اس كى بات سن كر پريشان ہو گئے ،بلكہ شايد غضب ناك ہوگئے ،جيسا كہ بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ انھوں نے ايك دوسرے سے يہ كہا كہ اس تمسخر اورا ستہزاء كرنا،جادہ عفت و پاكدامنى سے اس كے انحراف كى نسبت ہمارے لئے زيادہ سخت اور سنگين تر ہے _ليكن يہ حالت زيادہ دير تك قائم نہ رہى ،كيونكہ اس نومولود بچے نے بات كرنے كے لئے زبان كھولى اور كہا : ''ميں اللہ كا بندہ ہوں ،اس نے مجھے اسمانى كتاب مرحمت فرمائي ہے ،اور مجھے پيغمبر قرا ر ديا ہے''_ 'اور خدا نے ايك بابركت وجود قرار ديا ہے ،خواہ ميں كہيں بھى ہوں ،ميرا وجود بندوں كے لئے ہر لحاظ سے مفيد ہے ''_ ''اور اس نے مجھے تاحيات نماز پڑھتے رہنے اور زكوة دينے كى وصيت كى ہے ''_ ''اور اس كے علاوہ مجھے اپنى والدہ كے بارے ميں نيكو كار ،قدردانى كرنے والا اور خيرخواہ قرار ديا ہے'' _ ''اور اس نے مجھے جبار و شقى قرار نہيں ديا ہے ''_(29) اخر ميں يہ نومولودكہتا ہے :''خدا كا مجھ پر سلام و درود ہو اس دن كہ جب ميں پيدا ہوا اور اس دن جب ميں مروں گا اور اس دن كہ جب ميں زندہ كر كے اٹھا يا جاو ں گا'' _(30) يہ تين دن انسان كى زندگى ميں __زندگى ساز اور خطرناك دن ہيں كہ ،جن ميں سوائے لطف خدا كے سلامتى ميسر نہيں ہوتى ،اسى لئے حضرت يحى عليہ السلام كے بارے ميں بھى يہ جملہ ايا ہے اور حضرت عيسى مسيح عليہ السلام كے بارے ميں بھى ،ليكن اس فرق كے ساتھ كہ پہلے موقع پر خدا وند متعال نے يہ بات كہى ہے اور دوسرے موقع پر حضرت مسيح عليہ السلام نے يہ تقاضا كيا ہے _(31) حوالاجات (1)سورہ آل عمران 26 (2)سورہ آل عمران آيت 37 (3)آل عمران آيت44 (4)سورہ عمران37 (5)سورہ آل عمران42 (6)يہ امربانوئے اسلام حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ عليہا كے بارے ميں منقول ان روايات كى نفى نہيں كرتا جن ميں ان كے لئے فرمايا گياہے كہ آپ(ع) تمام جہانوں كى عورتوں سے برتر اور افضل ہيں كيونكہ متعدد روايات ميں پيغمبر اسلام (ص) اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے: ''جناب مريم(ع) تو اپنے زمانے كى عورتوں كى سردار تھي،ليكن جناب فاطمہ زہراسلام اللہ عليہا اولين و آخرين تمام زمانوں كى عورتوں كى سردار ہيں''_ --> (7)سورہ آل عمران آيت 43 (8)سورہ مريم 16 (9)سورہ مريم(ع) آيت17 (10)سورہ مريم(ع) آيت17 (11)اس ميں شك نہيں ہے،كہ اس گفتگو كا يہ معنى نہيں ہے كہ جبرئيل صورت اور سيرت كے اعتبار سے بھى ايك انسان ميں بدل گيا تھا كيونكہ اس قسم كاانقلاب اور تبديلى ممكن نہيں ہے،بلكہ مراد يہ ہے كہ وہ(بظاہر)انسان كى شكل ميں نمودار ہوا،اگرچہ اس كى سيرت وہى فرشتے جيسى تھي،ليكن حضرت مريم(ع) كو ابتدائي امر ميں چونكہ يہ خبر نہيں تھى لہذا انہوں نے يہى خيال كيا تھا كہ ان كے سامنے ايك ايساانسان ہے جو باعتبار صورت بھى انسان ہے اور باعتبار سيرت بھى انسان ہے_ (12)سورہ مريم ايت18 (13)سورہ مريم آيت19 (14)سورہ مريم آيت 19 (15)سورہ مريم آيت20 (16)سورہ مريم آيت 21 (17)سورہ مريم آيت 21 (18)سورہ مريم آيت22 (19)سورہ مريم آيت22 (20)سورہ مريم آيت23 (21)سورہ مريم آيت 23 (22)سورہ مريم ايت 24 (23)سورہ مريم ايت 25تا 26 (24)سورہ مريم ايت27 (25)سورہ مريم ايت27 (26)سورہ مريم ايت28 (27)يہ بات كہ جو انھوں نے مريم (ع) سے كہى كہ ''اے ہارون كى بہن ''مفسرين كے درميان مختلف تفاسير كا موجب نبى ہے ،ليكن جو بات سب سے زيادہ صحيح نظر اتى ہے وہ يہ ہے كہ ہارون ايك ايسا پاك و صالح ادمى تھا كہ وہ بنى اسرائيل كے درميان ضرب المثل ہوگيا تھا_ وہ جس شخص كا پاكيزگى كے ساتھ تعارف كروانا چاہتے تھے تو اس كے بارے ميں كہتے تھے كہ وہ ہارون كا بھائي ہے يا ہارون كى بہن ہے ،مرحوم طبرسى نے مجمع البيان ميں اس معنى كو ايك مختصر حديث ميں پيغمبر اسلام (ص) سے نقل كيا ہے (28)سورہ مريم ايت29 (29)سورہ مريم ايت30تا32''جبار اس شخص كو بھى كہتے ہيں كہ جو غيظ و غضب كے عالم ميں لوگوں كو مارتا اور نابود كرتا ہو ،اور فرمان عقل كى پيروى كرتا ہو_ (30)سورہ مريم ايت33 (31)باكرہ سے بچہ پيدا ہونا: يہاں پر ايك سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا علمى لحاظ سے يہ بات ممكن ہے كہ باپ كے بغير بچہ پيدا ہو ،كيا حضرت عيسى عليہ السلام كا صرف اكيلى ماں سے پيدا ہونے كا مسئلہ ،اس بارے ميں سائنس دانوں كى تحقيقات كے مخالف نہيں ہے ؟ اس ميں شك نہيں كہ يہ كام معجزانہ طورپر پذير ہواتھا ،ليكن موجودہ زمانے كا علم اور تحقيق اس قسم كے امر كے امكان كى نفى نہيں كرتا،بلكہ اس كے ممكن ہونے كى تصريح كرتا ہے _ خاص طورپر نر كے بغير بچہ پيدا ہونا بہت سے جانوروں ميں ديكھا گيا ہے ،اس بات كى طرف توجہ كرتے ہوئے كہ نطفے كے انعقاد كا مسئلہ صرف انسانو ں كے ساتھ ہى مخصوص نہيں ہے ،اس امر كے امكان كو عمومى حيثيت سے ثابت كرتا ہے _ منبع:http://www.shiaarticles.com