حضرت شعيب عليہ السلام
حضرت شعيب عليہ السلام
0 Vote
84 View
حضرت شعيب (ع) كى سر زمين''مدين'' يہاں گفتگو قوم شعيب اور اہل مدين كى ہے يہ وہى لوگ ہيں جنہوں نے توحيد كا راستہ چھوڑ ديا تھا اورشرك وبت پرستى كى سنگلاخ زمين ميں سرگرداں ہوگئے تھے يہ لوگ نہ صرف بتوں كو پوجتے تھے بلكہ درہم ودينار اور اپنے مال وثروت كى بھى پرستش كرتے تھے اور اسى لئے وہ اپنے كاروبار اور بارونق تجارت كو نادرستي،كم فروشى اور غلط طريقوں سے آلودہ كرتے تھے _ ابتداء ميں فرمايا گيا ہے :'' مدين كى طرف ہم نے ان كے بھائي شعيب كو بھيجا'' _(1)(2) مدين (بروزن'' مريم'') حضرت شعيب اور ان كے قبيلے كى آبادى كا نام ہے يہ شہر خليج عقبہ كے مشرق ميں واقع ہے اس كے لوگ اولاد اسماعيل ميں سے تھے مصر، لبنان اور فلسطين سے تجارت كياكرتے تھے_ آج كل شہر مدين كا نام ''معان'' ہے بعض جغرافيہ دانوں نے خليج عقبہ كے درميان سے كوہ سينا تك زندگى بسر كرنے والوں پر مدين كے نام كا اطلاق كيا ہے ،توريت ميں بھى لفظ'' مديان '' آيا ہے ليكن بعض قبائل كے لئے (البتہ ايك ہى لفظ شہراور اہل شہر پر عام طور پر استعمال ہوجاتاہے ) ▲ قوم شعيب كى اقتصادى برائياں اس پيغمبر اور ہمدرو ومہربان بھائي نے جيسا كہ تمام انبياء كا آغاز دعوت ميں طريقہ ہے پہلے انہيں مذہب كے اساسى ترين ركن '' توحيدكى طرف وعوت دى اور كہا : اے قوم : يكتا ويگانہ خدا كى پرستش كرو، كہ جس كے نے علاوہ تمہارا كوئي معبود نہيں ہے (3) اس وقت اہل مدين ميں ايك اقتصادى خرابى شديد طور پر رائج تھى جس كا سر چشمہ شرك اور بت پرستى كى روح ہے اس كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا گيا ہے :''خريد وفروخت كرتے وقت چيزوں كا پيمانہ اور وزن كم نہ كرو :''(4) كم فروشى كے ذريعے فساد اور برائي ، لوگوں كے حقوق غصب كرنے كا فساد اور حقوق پر تجاوز كا فسانہ، معاشرتى ميزان اور اعتدال كو درہم برہم كرنے كا فساد ،اموال اورا شخاص پر عيب لگانے كا فساد _ خلاصہ يہ كہ لوگوں كى حيثيت، آبرو، ناموس اور جان كے حريم پر تجاوز كرنے كا فساد _ '' لاتعشوا'''' فساد نہ كرو'' كے معنى ميں ہے اس بناء پر اس كے بعد ''مفسدين'' كا ذكر زيادہ سے زيادہ تاكيد كى خاطر ہے _ قرآن مجيد ميں موجود آيات سے يہ حقيقت اچھى طرح سے واضح ہوتى ہے كہ توحيد كا اعتقاد اور آئيڈيالوجى كا معاملہ ايك صحيح وسالم اقتصاد كے لئے بہت اہميت ركھتا ہے نيز آيات اس امر كى نشاندہى كرتى ہيں كہ اقتصادى نظام كا درہم برہم ہونا معاشرے كى وسيع تباہى اور فساد كا سرچشمہ ہے _ آخر ميں انھيںيہ گوش گزار كيا گيا ہے كہ ظلم وستم كے ذريعے اور استعمارى ہتھكنڈوں سے بڑھنے والى دولت تمہارى بے نيازى اور استغناء كا سب نہيں بن سكتى بلكہ حلال طريقے سے حاصل كيا ہوا جو سرمايہ تمہارے پاس باقى رہ جائے چاہے وہ تھوڑاہى ہو اگر خدا اور اس كے رسول پر ايمان كے ساتھ ہو تو بہترہے _(5) ▲ہٹ دھرموں كى بے بنياد منطق اب ہم ديكھتے ہيں كہ اس ہٹ دھرقوم نے اس آسمانى مصلح كى دعوت كے جواب ميں كيا رد عمل ظاہر كيا _ وہ جو بتوں كو اپنے بزرگوں كے آثار اور اپنے اصلى تمدن كى نشانى خيال كرتے تھے اور كم فروشى اور دھوكا بازى سے معاملات ميں بڑے بڑے فائدے اور مفادات اٹھاتے تھے حضرت شعيب كے جواب ميں كہنے لگے: اے شعيب : كيا تيرى نماز تجھے حكم ديتى ہے كہ ہم انہيں چھوڑديں كہ جن كى ہمارے آبائو اجداد پرستش كرتے تھے اور يا اپنے اموال كے بارے ميں اپنى آزادى سے ساتھ دھو بيٹھيںتو تو ايك بردبار حوصلہ مند اور سمجھ دار آدمى ہے تجھ سے يہ باتيں بعيد ہيں _ (6)(7) اس ظالم اور ستم گر قوم نے جب خود كوشعيب عليہ السلام كى منطقى باتوں كے مقابلے ميں بے دليل ديكھا تو اپنى برائيوں كو جارى و سارى ركھنے كے لئے ان پر تہمتوں كى بوچھاڑكردى _ سب سے پہلے وہى پراناليبل جو مجرم اور ظالم لوگ ہميشہ سے خدا كے انبياء پرلگاتے رہے ہيں آپ پر بھى لگايا اور كہا : ''توتو بس پاگل ہے''_ (8) تيرى گفتگو ميں كوئي منطقى اور مدلل بات دكھائي نہيں ديتى تيرا خيال ہے كہ ايسى باتيں كركے تو ہميں اپنے مال ميں آزادى عمل سے روك دے ،اس كے علاوہ '' تو بھى تو صرف ہمارى طرح كا ايك انسان ہے '' _(9)كيا تو سمجھتا ہے كہ ہم تيرى اطاعت كريں گے آخر تجھے ہم پر كون سى فضيلت اور برترى حاصل ہے_ ''تيرے بارے ميں ہمارايہى خيال ہے كہ تو ايك جھوٹا شخص ہے ''_(10) ان كى يہ گفتگو كيسى تضادات پر مبنى ہے كبھى تو انھيں ايسا جھوٹا اور مفادپرست انسان كہتے تھے جود عوائے نبوت كى وجہ سے ان پر فوقيت حاصل كرنا چاہتاہے اور كبھى انھيں مجنون كہتے تھے ان كى آخرى بات يہ تھى كہ بہت اچھا '' اگر توسچا ہے تو ہمارے سر پر آسمان سے پتھربرسا اور ہميں اس مصيبت ميں مبتلا كردے جس كى ہميں دھمكى دے رہاہے تاكہ تجھے معلوم ہوجائے كہ ہم ايسى دھمكيوں سے نہيں ڈرتے ''_(11)يہ الفاظ كہہ كرانھوں نے اپنى ڈھٹائي اوربے حيائي كى انتہا كردى اور اپنے كفرو تكذيب كا بدترين مظاہرہ كيا _ ▲جناب شعيب(ع) كا جواب ليكن جنہوں نے ان كى باتوں كو حماقت پرحمل كيا تھا اور ان كى بے عقلى كى دليل قرار دياتھا حضرت شعيب نے ان سے كہا:''اے ميرى قوم :(اے وہ لوگو: كہ تم مجھ سے ہو اور ميں تم سے ہوں اور جو كچھ ميں اپنے لئے پسند كرتا ہوں وہى تمہارے لئے بھى پسند كرتاہوں) اگر خدا نے مجھے واضح دليل وحى اور نبوت دى ہو اوراس كے علاوہ مجھے پاكيزہ روزى اور حسب ضرورت مال ديا ہوتو كيا اس صورت ميں صحيح ہے كہ ميں اس كے فرمان كى مخالفت كروں يا تمہارے بارے ميں كوئي غرض ركھوں اور تمہارا خير خواہ نہ بنوں ''_(12) اس جملے سے حضرت شعيب يہ كہنا چاہتے ہيں كہ اس كام ميں ميراصرف روحانى ، انسانى اور تربيتى مقصدہے ميں ايسے حقائق كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے اور انسان ہميشہ اس چيز كا دشمن ہوتاہے جسے نہيں جانتا ہے _ اس كے بعد يہ عظيم پيغمبر مزيد كہتے ہيں :يہ گمان نہ كرنا كہ ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں اور پھر خود اسى كى جستجو ميں لگ جائوں ''_(13) تمہيں كہوں كم فروشى نہ كرو اور دھوكا بازى اور ملاوٹ نہ كرو ليكن ميں خود يہ اعمال انجام دوں كہ دولت و ثروت اكھٹا كرنے لگوں يا تمہيں تو بتوں كى پرستش سے منع كروں مگر خودان كے سامنے سر تعظيم خم كروں نہيں ايسا ہرگز نہيں ہے اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ حضرت شعيب پر الزام لگاتے تھے كہ خود يہ فائدہ اٹھانے كا ارادہ ركھتا ہے لہذا وہ صراحت سے اس امر كى نفى كرتے ہيں _ آخر ميں ان سے كہتے ہيں : ''ميرا صرف ايك ہدف اور مقصد ہے اور وہ ہے اپنى قدرت واستطاعت كے مطابق تمہارى اور تمہارے معاشرے كى اصلاح ''_(14) يہ وہى ہدف ہے جو تمام پيغمبروں كے پيش نطر رہا ہے ،يعنى عقيدے كى اصلاح، اخلاق كى اصلاح، عمل كى اصلاح ، روابط اور اجتماعى نطاموں كى اصلاح _ ''اور اس ہدف تك پہنچنے كے لئے صرف خدا سے توفيق طلب كرتا ہوں ''15) مشكلات كے حل كے لئے اس كى مدد پر بھروسہ كرتے ہوئے كو شش كرتاہوں اور اس راہ ميں سختياں گوارا كرنے كےلئے اس كى طرف رجوع كرتا ہوں _ اس كے بعد انہيں ايك اخلاقى نكتے كى طرف متوجہ كيا گيا ہے اور وہ يہ كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى سے بغض وعداوت كى بناء پر يا تعصب اور ہٹ دھرمى سے اپنے تمام مصالح نظر انداز كرديتا ہے اور انجام كو فراموش كرديتا ہے ،چنانچہ حضرت شعيب نے ان سے فرمايا : ''اے ميرى قوم ايسا نہ ہوكہ ميرى دشمنى اور عداوت تمہيں گناہ، عصياں اور سركشى پر ابھارے اور كہيں ايسانہ ہو كہ وہى بلائيں ، مصيبتيں، تكليفيں عذاب اور سزائيں جو قوم نوح ، قوم ہود يا قوم صالح كو پہنچيں وہ تمہيں بھى آليں ،يہاں تك كہ قوم لوط كے شہروں كا زير وزبر ہونا اور ان پر سنگبارى كا واقعہ تم سے كوئي دور نہيں ہے''_ نہ ان كا زمانہ تم سے كوئي دور ہے اور نہ ان كے علاقے تم سے دور ہيں اور نہ ہى تمہارے اعمال اور گناہ ان لوگوں سے كچھ كم ہيں_''مدين'' كہ جو قوم شعيب كا مركز تھا وہ قوم لوط كے علاقے سے كوئي زيادہ فاصلے پر نہيں تھا_ كيونكہ دونوں شامات كے علاقوں ميں تھے_زمانے كے لحاظ سے اگر چہ كچھ فاصلہ تھاتا ہم اتنا نہيں كہ ان كى تاريخ فراموش ہوچكى ہوتي_باقى رہا عمل كے لحاظ سے تو اگر چہ قوم لوط كے جنسى انحرافات نماياں تھے اور قوم شعيب كے اقتصادى انحرافات زيادہ تھے_ اور ظاہراًبہت مختلف تھے ليكن دونوں معاشرے ميں فساد پيدا كرنے،اجتماعى نظام خراب كرنے،اخلاقى فضائل كو نابود كرنے اور برائي پھيلانے ميں ايك دوسرے سے مشابہت ركھتے تھے_ ▲ايك دوسرے كو دھمكياں يہ عظيم پيغمبرحضرت شعيب كہ انتہائي جچے تلے،بليغ اور دلنشين كلام كى وجہ سے جن كا لقب،''خطيب الانبياء ''ہے،ان كا كلام ان لوگوں كے لئے روحانى ومادى زند گى كى راہيں كھولنے والاتھا_انہوں نے بڑے صبر،حوصلے،متانت اور دلسوزى كے ساتھ ان سے تمام باتيں كيں ليكن ہم ديكھ رہے ہيں كہ اس گمراہ قوم نے انہيں كس طرح سے جواب ديا_ انہوں نے چار جملوں ميں كہ جو ڈھٹائي،جہالت اور بے خبرى كا مظہر تھے آپ(ع) كو جواب ديا: پہلے وہ كہنے لگے:''اے شعيب(ع) تمہارى زيادہ تر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتيں''_(16) بنيادى طور پر تيرى باتوں كا كوئي سر پير نہيں،ان ميں كوئي خاص بات اور منطق ہى نہيں كہ ہم ان پر كوئي غوروفكر كريں_ لہذا ان ميں كوئي ايسى چيز نہيں جس پر ہم عمل كريں اس ليے تم اپنے آ پ كو زيادہ نہ تھكائو اور دوسرے لوگوں كے پيچھے جائو_ ''دوسرا يہ كہ ہم تجھے اپنے مابين كمزور پاتے ہيں''_(17) لہذا گر تم يہ سوچتے ہو كہ تم اپنى بے منطق باتيں طاقت كے بل پر منوالوگے تو يہ بھى تمہارى غلط فہمى ہے_ يہ گمان نہ كروں كہ اگر ہم تم سے پوچھ گچھ نہيں كرتے تو يہ تمہارى طاقت كے خوف سے ہے_اگر تيرى قوم و قبيلہ كا احترام پيش نظر نہ ہوتا تو ہم تجھے بد ترين طريقے سے قتل كرديتے اور تجھے سنگسار كرتے_(18) آخر ميں انہوں نے كہا: ''تو ہمارے ليے كوئي طاقتور اور ناقابل شكست نہيں ہے''_(19) اگر چہ تو اپنے قبيلے كے بزرگوں ميں شمار ہوتا ہے ليكن جو پروگرام تيرے پيش نظر ہے اس كى وجہ سے ہمارى نگاہ ميں كوئي وقعت اور منزلت نہيں ہے_ حضرت شعيب(ع) ان باتوں كے نشتروں اور توہين آميز رويّے سے(سيخ پا ہوكر)اٹھ كرنہيںگئے بلكہ آپ(ع) نے اس طرح انہيں پر منطق اور بليغ پيرائے ميں جواب ديا:''اے قومميرے قبيلے كے يہ چند افراد تمہارے نزديك خدا سے زيادہ عزيز ہيں_''(20) تم ميرے خاندان كى خاطر كہ جو تمہہارے بقول چند نفر سے زيادہ نہيں ہے ،مجھے آزار نہيں پہنچاتے ہو،توكيوں خدا كے ليے تم ميرى باتوںكو قبول نہيں كرتے ہو_ كيا عظمت خدا كے سامنے چندافرادكى كوئي حيثيت ہے؟ كيا تم خدا كے لئے كسى احترام كے قائل ہو''جبكہ اسے اور اس كے فرمان كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے_''(21) آخر ميں حضرت شعيب(ع) كہتے ہيں:'' يہ خيال نہ كرو كہ خدا تمہارے اعمال كو نہيں ديكھتا اور تمہارى باتيں نہيں سنتا_ يقين جانو كہ ميرا پروردگار ان تمام اعمال پر محيط ہے جو تم انجام ديتے ہو''_(22) بليغ سخن ور وہ ہے كہ جو اپنى باتوںميں مدمقابل كى تمام تنقيدوں كا جواب دے_قوم شعيب(ع) كے مشركين نے چونكہ اپنى باتوںكے آخر ميں ضمناًانہيں سنگسار كرنے كى دھمكى دى تھى اور ان كے سامنے اپنى طاقت كا اظہار كيا تھا لہذا ان كى دھمكى كے جواب ميں حضرت شعيب(ع) نے اپنے موقف كواس طرح سے بيان كيا: اے ميرى قومجو كچھ تمہارے بس ميںہے كر گزرواور اس ميںكوتاہى نہ كرو اور جو كچھ تم سے ہو سكتا ہے اس ميں رورعايت نہ كرو_ميں بھى اپنا كام كروں گا_ليكن تم جلد سمجھ جائو گے كہ كون رسوا كن عذاب ميںگرفتار ہوتا ہے اور كون جھوٹا ہے ميں يا تم اور اب جبكہ معاملہ اس طرح ہے تو تم بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كرتا ہوں،تم اپنى طاقت،تعداد،سرمائے اور اثرورسوخ سے مجھ پر كاميابى كے انتظار ميں رہو اور ميں بھى اس انتظار ميں ہوں كہ عنقريب دردناك عذاب الہى تم جيسى گمراہ قوم كے دامن گير ہو اور تمہيں صفحہ ہستى سے مٹادے_ ▲مدين كے تباہ كاروں كا انجام گزشتہ اقوام كى سرگزشت كے بارے ميں قرآن مجيد ميں ہم نے بارہا پڑھا ہے كہ پہلے مرحلے ميں انبياء انہيں خدا كى طرف دعوت دينے كے ليے قيام كرتے تھے اور ہر طرح سے تعليم و تربيت اور پند ونصيحت ميں كوئي گنجائشے نہيں چھوڑتے تھے_ دوسرے مرحلے ميں جب ايك گروہ پر پند و نصائح كا كوئي اثر نہ ہوتا تو انہيں عذاب الہى سے ڈراتے تاكہ وہ آخرى افراد تسليم حق ہوجائيں جو قبوليت كى اہليت ركھتے ہيں اور راہ خدا كى طرف پلٹ آئيں نيز اتمام حجت ہو جائے_ تيسرے مرحلے ميں جب ان پركوئي چيز مو ثر نہ ہوتى تو روئے زمين كى ستھرائي اور پاك سازى كر ليے سنت الہى كے مطابق عذاب آجاتا اور راستے كے ان كانٹوں كو دور كرديتا _ قوم شعيب(ع) يعنى اہل مدين كا بھى آخر كار مرحلہ انجام آپہنچا_چنانچہ قرآن كہتا ہے: ''جب(اس گمراہ، ظالم اور ہٹ دھرم قوم كو عذاب ديئے جانے كے بارے ميں) ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعيب(ع) اور اس پر ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت كى بركت سے نجات دي_''(23)''پھر آسمانى پكار اور مرگ آفريں عظيم صيحہ نے ظالموں اور ستمگروں كو اپنى گرفت ميں لے ليا_''(24) جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں_''صيحہ'' ہرقسم كى عظيم آواز اور پكار كے معنى ميں ہے، قرآن نے بعض قوموں كى نابودى صيحہ آسمانى كے ذريعے بتائي ہے_ يہ صيحہ احتمالاًصاعقہ كے ذريعے يا اس كى مانند ہوتى ہے اور جيسا كہ ہم نے قوم ثمود كى داستان ميں بيان كيا ہے كہ صوتى امواج بعض اوقات اس قدر قوى ہوسكتى ہيں كہ ايك گروہ كى موت كا سبب بن جائيں_ اس كے بعد فرمايا گيا ہے:''اس آسمانى صيحہ كے اثر سے قوم شعيب كے لوگ اپنے گھروں ميں منہ كے بل جاگرے اور مرگئے اور ان كے بے جان جسم درس عبرت بنے ہو ايك مدت تك وہيں پڑے رہے''_(25) ان كى زندگى كى كتاب اس طرح بندكردى گئي كہ ''گويا كبھى وہ اس سرزمين كے ساكن ہى نہ تھے''_ سات روز تك شدت كى گرمى پڑى اور ہوا بالكل نہ چلي، اس كے بعد اچانك آسمان پر بادل آئے، ہوا چلى ان كو گھروں سے نكال پھينكا، گرمى كى وجہ سے بادل كے سايہ كے نيچے چلے گئے_ اس وقت صاعقہ موت كا پيغام لے كر آئي خطرناك آواز، آگ كى بارش اور زمين ميں زلزلہ آگيا، اس طرح وہ سب نابود ہوگئے_ وہ تمام دولت وثروت كہ جس كى خاطر انہوں نے گناہ اور ظلم و ستم كيے نابود ہوگئي_ انكى زمينيں اور زرق برق زندگى ختم ہوگئي اور ان كا شور وغو غا خاموش ہوگيا اور آخر كار جيسا كہ قوم عادوثمود كى داستان كے آخر ميں بيان ہوا ہے فرمايا گيا ہے:دورہو سرزمين مدين لطف و رحمت پروردگار سے جيسے كہ قوم ثمود دور ہوئي_(26) ''واضح ہے كہ يہاں''مدين''سے مراد اہل مدين ہيں جو رحمت خدا سے دور ہوئے''_ حوالاجات (1)سورہ ہود آيت 84 (2)جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں لفظ''اخاھم'' (ان كا بھائي ) اس بناء پر ہے كہ اپنى قوم سے پيغمبروں كى انتہائي محبت كو بيان كيا جائے نہ صرف اس بناء پر كہ وہ افرادان كے گروہ اور قبيلے سے تھے بلكہ اس لئے كہ وہ ان كے خير خواہ اور ہمدرد بھائي كى طرح تھے_ (3) سورہ ہود آيت 84 (4)سورہ ہود آيت 84 (5)سورہ ہود آيت86 (6)سورہ ہود آيت 87 (7)يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے كہ انہوں مو حضرت شعيب كى نماز كا ذكر كيوں كيا ؟ بعض مفسرين نے كہا ہے كہ يہ اس بناء پر تھا كہ حضرت شعيب زيادہ نماز پڑھتے تھے اور لوگوں سے كہتے تھے كہ نماز انسان كو برے اور قبيح اعمال سے روكتى ہے ليكن وہ لوگ جو نماز اور ترك منكرات كے رابطے كو نہ سمجھ سكے انہوں نے اس بات كا تمسخر اڑايا اور كہا كہ كيا يہ ذكر واذكار اور حركات تجھے حكم ديتى ہيں كہ ہم اپنے بزرگوں كے طور طريقے اور مذہبى ثقافت كو پائوںتلے روندديں يا اپنے اموال كے بارے ميں اپنا اختيار گنوابيٹھيں_ (8)سورہ شعراء آيت 185 (9)سورہ شعراء آيت 185 (10) سورہ شعراء آيت 186 (11)سورہ شعراء آيت187 (12)سورہ ہود آيت 88 (13)سورہ ہود آيت88 (14)سورہ ہود آيت88 (15)سورہ ہود آيت 88 (16)سورہ ہود آيت91 (17)سورہ ھود آيت 91 (18)سورہ شعيب آيت91 (19)سورہ ھود آيت91 (20)سورہ ھودآيت92 (21)سورہء ھود آيت92 (22)سورہ ھودآيت92 (23)سورہ ھودآيت94 (24)سورہ ھود آيت94 (25)سورہ ھود آيت94 (26)سورہ ھود آيت95 مبع:http://www.shiaarticles.com/