حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی عظمت
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی عظمت
1 Vote
112 View
قائدانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں بہت سے خطبات ارشاد فرمائے ہیں، ان میں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
چودہ سو سال سے بھی پہلے پیغمبر اسلام ص نے ایک ایسی بیٹی کی تربیت کی کہ یہ دختر نیک اختر لیاقت و شائستگی کی اس منزل پر پہنچ گئی کہ خدا کا رسول اس کے ہاتھوں کے بوسے لیتا ہے! حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہاتھوں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بوسے کو جذباتی مسئلے پر ہرگز محمول نہ کیجئے۔ یہ سوچنا کہ چونکہ وہ آپ کی بیٹی تھیں اور آپ کو ان سے بڑی محبت و انسیت تھی، لہذا آپ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے، بالکل غلط اور سطحی فکر ہے۔
اس بے مثال اور گراں قدر شخصیت کا مالک اور زیور عدل و حکمت سے آراستہ پیغمبر کہ جس کے افعال و اقوال کا دار و مدار وحی و الہام پر ہے، بھلا کیسے ممکن ہے کہ جھکے اور اپنی بیٹی کے ہاتھ چومے؟ یہ نہیں ہو سکتا، یہاں مسئلہ کچھ اور ہے، یہ ماجرا ہی کچھ اور ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ دختر نیک اختر، یہ خاتون جس کی دنیا سے رخصت کے وقت عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان تھی، درحقیقت انسانیت کی ملکوتی بلندیوں پر فائز تھی اور ایک غیر معمولی ہستی کی مالک تھی۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای ایک اور مقام پر فرماتے ہیں
صدیقہ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تاریخ بشر کی سب سے عظیم خاتون، افتخار اسلام، اس دین اور اس قوم کے لئے مایہ ناز ہستی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مقام و مرتبہ، ایسا عظیم مقام و مرتبہ ہے کہ ہم جیسے معمولی انسانوں کے لئے اس کا تصور ناممکن یا پھر بے حد دشوار ہے، کیونکہ وہ معصوم ہیں۔ فرائض اور منصب کے اعتبار سے نہ تو آپ پیغمبر ہیں اور نہ ہی منصب کے اعتبار سے امام یا جانشین پیغبمر، لیکن آپ کا رتبہ پیغمبر و امام کی مانند ہے۔ آئمہ معصومین علیھم السلام بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام بڑے احترام اور عقیدت سے لیتے تھے۔ صحیفہ فاطمیہ کے معارف و تعلیمات کو بیان کرتے تھے۔ یہ بہت باعظمت باتیں ہیں۔ یہ ہے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مرتبہ۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای ایک اور خطبے میں فرماتے ہیں کہ اس باعظمت ہستی کی پوری زندگی میں ایک طرف علم و حکمت اور عرفان و معرفت موجزن ہے اور نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے معروف خطبہ فدکیہ میں جسے تمام شیعہ علماء نے نقل کیا ہے اور ساتھ ہی بعض سنی علمائے کرام نے بھی اس کے چند فقرے اور بعض نے پورا خطبہ نقل کیا ہے۔ جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو خطبے میں حمد و ثنائے پروردگار والے تمہیدی حصے میں، آپ کی زبان سے علم و معرفت لامتناہی سلسلہ جاری و ساری نظر آتا ہے، جو آج ہمارے پاس بحمد اللہ محفوظ ہے، حالانکہ آپ مقام تعلیم میں نہیں تھیں، علم و دانش کے موضوع پر خطبہ نہیں دے رہی تھیں، یہ تو ایک سیاسی بحث تھی۔
ہماری قوت ادراک جس بلندی تک جا سکتی ہے اتنے باعظمت معارف اور الہی تعلیمات ہمیں اس خطبے میں ملتے ہیں۔ اس خطبہ مبارکہ میں الہی معرفتوں اور تعلیمات کا ذکر ہے۔ دوسری جانب آپ کی زندگی مجاہدت و جانفشانی سے پر نظر آتی ہے۔ ایک جانباز اور فداکار سپاہی کی مانند آپ مختلف شعبوں میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ بچپنے سے ہی مکے میں، شعب ابوطالب میں، اپنے والد گرامی کی معاونت و مدد سے لیکر مدینہ میں زندگی کے دشوار مراحل میں حضرت امیر المومنین ع کی ہمراہی و معیت تک، جنگوں میں، غربت میں، خطرات میں، مادی زندگی کی سختیوں اور گوناگوں مشکلات میں، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد حضرت علی ع کو پیش آنے والے پرمحن دور میں، خواہ وہ مسجد النبی ہو یا علالت کا زمانہ ہر لمحہ آپ مجاہدت و سعی و کوشش میں مصروف رہیں، ایک مجاہد حکیم کی مانند، ایک مجاہد عارف کی طرح۔
نسوانی فرائض کے نقطہ نگاہ سے بھی آپ نے زوجہ اور ماں کا کردار ادا کرنے، بچوں کی تربیت اور شوہر کی خدمت کا ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔ اس باعظمت ہستی کا امیرالمومنین علیہ السلام سے جو خطاب نقل کیا گیا ہے، وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے تئیں آپ کی فرماں برداری و اطاعت شعاری اور خضوع و خشوع کی علامت ہے، اس کے علاوہ بچوں کی تربیت، امام حسن ع اور امام حسین ع جیسے بچوں کی تربیت اور حضرت زینب س جیسی ہستی کی تربیت، یہ ساری چیزیں نسوانی فرائض کی ادائیگی، تربیت اولاد اور نسوانی مہر و محبت کے اعتبار سے ایک نمونہ خاتون کی علامتیں اور نشانیاں ہیں اور یہ ساری کی ساری خصوصیات و صفات اٹھارہ سال کی عمر میں! ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی جس میں یہ روحانی و اخلاقی خوبیاں ہوں، جس کا یہ طرز سلوک ہو، وہ کسی بھی معاشرے، کسی بھی تاریخ اور کسی بھی قوم کے لئے قابل فخر اور مایہ ناز ہستی ہے۔
قائدانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے بقول اس عظیم ہستی کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ ان معارف اور حقائق سے آگاہی پا کر انسان آپ کے اخلاق و کردار سے آشنا ہوتا ہے لیکن اگر جذباتی لگاؤ نہ ہو، محبت نہ ہو، وہ اشتیاق و عقیدت نہ ہو، جس کے باعث آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، خواہ مصیبتیں سن کر یا منقبت بیان کئے جانے کے وقت، تو انسان کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گا۔ یہ ایک الگ بات ہے۔ یہی روحانی و دینی رابطہ اور رشتہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔
منبع:jafariapress.com