بیشک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے،
بیشک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے،
0 Vote
147 View
حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ معتبر روایات کے مطابق آپ 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال بروز جمعہ صبح صادق کے وقت پیدا ہوئیں(1) طبری نے بھی بعثت کا پانچواں سال لکھا ہے(2) ایک روایت کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کو سونگھ کر فرماتے تھے کہ اس خاتونِ جنت سے بہشت کی خوشبو آتی ہے کیونکہ یہ اس میوۂ جنت سے پیدا ہوئی ہے جو جبرائیل نے مجھے شبِ معراج کھلایا تھا۔ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے مشہور القاب میں زھرا اور سیدۃ النساء العالمین (دنیا و جہاں کی عورتوں کی سردار) اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔ آپ کا مشہور ترین لقب سیدۃ النساء العالمین ایک مشہور حدیث کی وجہ سے پڑا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بتایا کہ وہ دنیا اور آخرت میں عورتوں کی سیدہ ( سردار) ہیں(3) اس کے علاوہ خاتونِ جنت، الطاہرہ، الزکیہ، المرضیہ، السیدہ، العذراء وغیرہ بھی آپ کےالقاب میں ملتے ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی رحلت سے قبل حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کواپنے نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر سرگوشی کی تو آپ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔(4) ایک اور روایت میں یحیٰ بن جعدہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ سال میں صرف ایک مرتبہ قرآن مجھے دکھایا جاتا تھا۔ مگر اس دفعہ دو مرتبہ دکھایا گیا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میری موت قریب ہے۔ میرے اہل میں سے تم مجھے سب سے پہلے آ کر ملو گی(5) یہ سن کر آپ غمگین ہوئیں تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم زنان اہلِ جنت کی سردار ہو؟ یہ سن کر آپ مسکرانے لگیں(6) آپ کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ایک عظیم سانحہ تھا۔ اس نے حضرت فاطمہ کی زندگی تبدیل کر دی۔ آپ شب و روز گریہ کیا کرتی تھی۔ خلیفہ وقت نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میراث سے بھی محروم کردیا۔ مسئلہ فدک و خلافت بھی پیش آیا۔ اہلِ مدینہ ان کے رونے سے تنگ آئے تو حضرت علی(علیہ السلام) نے ان کے لیے مدینہ سے کچھ فاصلے پر بندوبست کیا تاکہ وہ وہاں گریہ و زاری کیا کریں۔ اس جگہ کا نام بیت الحزن مشہور ہو گیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے مرثیہ کہا جس کا ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ 'اے بابا جان آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے'(7) حضرت فاطمہ کے بارے میں بعض احادیث : حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔(8) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(9) عبداللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔(10) حضرت ابو حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔(11) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ ہوتیں۔(12) ایک اور مشہور حدیث (جو حدیث کساء کے نام سے معروف ہے) کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک یمنی چادر کے نیچے حضرت فاطمہ، حضرت علی و حسن و حسین کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ اے میرے اہل بیت تجھ سے رجس کو دور رکھے اور ایسے پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے فدک ایک باغ تھا جو جنگ خیبر کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہبہ کیا گیا اور اس کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہیں کی۔(13) صحیح مسلم میں حضرت ابوسعدی الخدری اور حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی آیت 7 نازل ہوئی۔دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت 7 کی ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک حضرت فاطمہ الزھرا کو ہبہ کر دیا۔ شاہ عبدالعزیز نے فتاویٰ عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزھرا کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔(14) صحیح البخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر حضرت فاطمہ الزھراء اور حضرت ابوبکر میں اختلافات پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔ اس پر حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا اور وصیت فرمائی کہ ابو بکر اور عمر کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے اور اسی وجہ سے بی بی دو عالم کو رات میں دفن کیا گیا اور ان کی قبر مبارک کو مخفی رکھا گیا جو آج تک مخفی ہے۔ اس سلسلے میں اہل سنت اور اہل تشیع میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مطابق حضرت ابوبکر نے یہ فیصلہ ایک حدیث کی بنیاد پر دیا جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ انبیاء کے وارث نہیں ہوتے اور جو کچھ وہ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے مطابق یہ حدیث حضرت ابوبکر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اور یہ فیصلہ درست نہیں تھا کیونکہ قرآن کی کچھ آیات میں انبیاء کی وراثت کا ذکر ہے۔ امام بخاری اور ابن ابی قیتبہ کے مطابق حضرت فاطمہ نے تا زندگی حضرت ابوبکر و حضرت عمر سے کلام نہ کیا۔ جبکہ ابن ابی قیتبہ کے مطابق صلح کی کوششوں کے دوران حضرت فاطمہ نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں تازندگی نماز کے بعد تم دونوں پر بددعا کرتی رہوں گی۔ (15) شہادت: تواریخ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کچھ اصحاب نے بشمول حضرت علی کے ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔ حضرت علی گوشہ نشین ہو گئے اس پر حضرت عمر آگ اور لکڑیاں لے آئے اور کہا کہ گھر سے نکلو ورنہ ہم آگ لگا دیں گے۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ اس گھر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حسنین (ع)موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہونے دیں۔(16) حضرت علی کے باہر نہ آنے پر گھر کو آگ لگا دی گئی۔ حضرت فاطمہ دوڑ کر دروازہ کے قریب آئیں اور کہا کہ ابھی تو میرے باپ کا کفن میلا نہ ہوا۔ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر ان پر دروازہ گرا دیا اسی ضرب سے حضرت فاطمہ شہید ہوئیں۔(17) کچھ روایات کے مطابق ان کے بطن میں محسن شہید ہوئے۔ حضرت عمر کی قیادت میں حملہ آور جب حضرت فاطمہ زہرا (س) کےگھر میں گھسے تو حضرت فاطمہ نے کہا کہ خدا کی قسم گھرسے نکل جاؤ ورنہ میں سر کے بال کھول دوں گی اور خدا کی بارگاہ میں سخت فریاد کروں گی۔(18) اس مکمل واقعہ کی روایت بشمول آگ لگانا اور دروازہ گرانے کے ابن قیتبہ، ابوالفداء، ابن عبدربہ وغیرہ نے بھی کی ہے۔(19) علامہ شبلی نعمانی نے ان واقعات کی صحت کی تصدیق کرتے ہوئےلکھا ہے کہ روایت کے مطابق اس واقعہ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں اور حضرت عمر کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔( 20) تین جمادی الثانی سنہ 11ھ کو حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت واقع ہوئی اور صحیحین کے مطابق حضرت فاطمہ کی وصیت کے مطابق انہیں رات کے وقت دفنایا گیا۔(21) جنازے میں حضرت علی، حضرت حسن و حسین،حضرت عقیل ابن ابی طالب، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوذر غفاری، حضرت مقداد ابن اسود، حضرت عمار ابن یاسر اور حضرت بریدہ شریک تھے۔ دیگر روایات میں حضرت حذیفہ یمانی، حضرت عباس، حضرت فضل کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری میں درج ہے کہ حضرت فاطمہ نے وصیت کی تھی کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی جنازے میں نہ آئے جن سے میں ناراض ہوں۔ اکثر اور مشہور روایات کے مطابق آپ کوجنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ چالیس دیگر قبریں بھی بنائی گئیں تاکہ اصل قبر کا پتہ نہ چل سکے۔جبکہ کچھ روایات کے مطابق گھر میں دفن ہوئیں۔ اور جب عمر ابن عبدالعزیز نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو وہ گھر مسجد میں شامل ہو گیا۔ (22) منابع: ۱: مودۃ القربیِ از سید علی ابن شہاب ہمدانی صفحہ ۶۳ ۲: دلائل الامامت از محمد بن جریر الطبری ۳: صحیح البخاری ۴: صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل ۵: تاریخ طبری ۶: تاریخ بلاذری، کشف الغمہ جلد ۲ ۷: نور الابصار، مدارج النبوہ جلد ۲ ۸: ترمذی، مسند احمد بن حنبل، المعجم الکبیر طبرانی، المسترک حاکم ، صحیح بخآری ۹: صحیح بخاری، صحیح مسلم، الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۱۰: ترمذی، مسند احمد بن حنبل حاکم المستدرک ، فتع الباری ۱۱: مسند احمد بن حنبل،السنن الکبری: ۱۲: سنن ابی داؤد، مسند احمد بن حنبل ۱۳: سیرب رسول (ص) از ابن اسحاق ۱۴: فتاویٰ عزیزیہ ۱۵: صحیح بخاری، الامامت و السیاست ۱۶: تاریخ طبری، مروج الذہب ۱۷: مدارج النبوہ ۱۸: تاریخ یعقوبی ۱۹: تاریخ ابو الفدا ۲۰: الفاروق شبلی نعمانی ۲۱: صحیح مسلم ، صحیح بخآری ۲۲: مناقب شہر آشوب، صحیح بخآری جلد ۲، طبقات ابن سعددلائل الامامہ جریر طبری، مدارج النبوہ منبع :taghribnews.com