خدا کے نزدیک جناب ابو طالب کی منزلت
خدا کے نزدیک جناب ابو طالب کی منزلت
0 Vote
66 View
خدا کے نزدیک جناب ابو طالب کی منزلت
اب ہم مزید وضاحت کے لئے جناب ابوطالب کے ایمان پر چند واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں:
۱۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے․
تمام مشہورمسلمان مورخین نے جناب ابوطالب کی پیغمبراسلام کے سلسلے میں
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔متشابہات القرآن ، (ابن شہر آشوب) سورہ حج کی اس آیت (ولینصرن اللہ من ینصرہ)کی تفسیر سے ماخوذ․
فداکاریوں کو نقل کیا ہے اور یہ چیز جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کہ جناب ابوطالب نے اسلام کی حمایت اور پیغمبر خدا کی حفاظت کے لئے آنحضرت کے ساتھ تین سال تک اپنا گھر چھوڑ کر ”شعب ابی طالب“ میں زندگی گزاری تھی اور انہوں نے اپنی اس زندگی کو قبیلہ قریش کی سرداری پر ترجیح دی تھی اور مسلمانوں کی اقتصادی پابندی کے خاتمے تک انتہائی سخت حالات ہونے کے باوجود آنحضرت کے ہمراہ رہ کر تمام مشکلات کو برداشت کیاتھا․۱#
اس سے بڑھ کر یہ کہ جناب ابوطالب نے اپنے عزیز ترین فرزند حضرت علی - کو بھی حضوراکرم کی نصرت کرنے اور صدر اسلام کی مشکلات میں آنحضرت کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا ․
ابن ابی الحدید معتزلی نے نہج البلاغہ کی شرح میں جناب ابوطالب کے ان جملوں کو نقل کیا ہے جو انھوں نے حضرت علی - سے کہے تھے ملاحظہ ہو:
”پیغمبرخدا تمھیں صرف نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں لہٰذا کبھی ان کا ساتھ نہ چھوڑنا“۲#
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں: ۱۔ سیرہ حلبی جلد ۱ ص ۱۳۴ (طبع دوم مصر) ۲۔تاریخ الخمیس جلد ۱ ص ۲۵۳ اور ۲۵۴ (طبع ۳ بیروت) ۳۔سیرہ ابن ہشام جلد۱ ص ۱۸۹ طبع بیروت․۴۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۵۲ طبع دوم) ۵۔ (تاریخ یعقوبی اول جلد۲ طبع نجف) ۶۔(الاصابہ جلد۴ ص ۱۱۵ طبع مصر) ۷۔طبقات کبریٰ جلد۱ ص۱۱۹طبع بیروت ۱۳۸۰ئھ․
۲۔شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص ۵۳طبع دوم․
اس اعتبار سے جناب ابوطالب کی وہ خدمات جو آپ نے پیغمبرخدا کے سلسلے میں انجام دی ہیں اور آپ کی اسلام کے دفاع میں بے لوث فداکاریاں آپ کے ایمان کی واضح گواہ ہیں․
اسی بنیاد پر عالم اسلام کے بزرگ دانشور (ابن ابی الحدید) نے پیغمبرخدا کی حفاظت اور دین اسلام کی خدمت کے سلسلے میں جناب ابوطالب کے زندہ کردار سے متعلق یہ اشعار کہے ہیں:
ولولا اٴبوطالب و ابنہ
لما مثّل الدین شخصًا فقاما
فذاک بمکة آویٰ و حامي
وھذا بیثرب جسّ الحماما
وما ضرّمجد اٴبي طالب
جھول لغي اٴو بصیر تعامیٰ۱#
اگر ابوطالب اور ان کے بیٹے( حضرت علی ﷼ )نہ ہوتے تو ہرگز دین اسلام کو استحکام حاصل نہ ہوتا اابوطالب نے مکہ میں پیغمبراکرم کو پناہ دی تھی اور ان کی حمایت کی تھی اور ان کے بیٹے نے یثرب میں (پیغمبراسلام کی نصرت کے لئے)اپنی جان کی بازیاں لگائی تھیں․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)جلد۱۴ ص ۸۴ طبع ۳․
۲۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے
عالم اسلام کے مشہور مورخین جیسے ”حلبی شافعی“نے اپنی کتاب سیرہٴ حلبی میں اور ”محمد دیار بکری“نے اپنی کتاب تاریخ الخمیس میں لکھا ہے کہ جناب ابوطالب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے قبیلے سے پیغمبراسلام کی نصرت کے سلسلے میں یہ وصیت کی تھی:
یا معشر قریش کونوا لہ ولاة، ولحزبہ حماة ، واللّہ لایسلک اٴحد منکم سبیلہ اِلاّ رشد،ولا یاٴخذ اٴحد بھدیہ اِلاّ سعد، ولوکان لنفسي مدة ولاٴجلي تاٴخر لکففتعنہ الھزائز، ولدفعت عنہ الدواھي، ثم ھلک۔ ۱#
اے قبیلہ قریش!تم سب مصطفی کے محب اور ان کے ماننے والوں کے حامی و ناصر بن جاوٴ خدا کی قسم تم میں سے جو شخص بھی ان کے نقش قدم پر چلے گا وہ ضرور ہدایت پائے گا اور جو کوئی ان سے ہدایت حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوجائے گا اگر میری زندگی باقی رہتی اور موت نے مجھے مہلت دی ہوتی تو میں یقینا فتنوں اور سختیوں سے آنحضرت کی محافظت کرتا اور پھر یہ آخری کلمات کہتے کہتے جناب ابوطالب نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۳۰۰ اور ۳۰۱، طبع بیروت اور سیرہ حلبی جلد۱ص ۳۹۱(طبع مصر)
۳۔پیغمبرخدا کی ابوطالب سے محبت ان کے ایمان کی دلیل ہے
پیغمبرخدانے مختلف موقعوں پر اپنے چچا ابوطالب کا احترام و اکرام کیا ہے اور ان سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا ہے یہاں ہم ان میں سے صرف دو کا تذکرہ کرتے ہیں :
الف:بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں پیغمبراسلام کی درج ذیل روایت نقل کی ہے جس میں آپ نے جناب عقیل بن ابی طالب سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا ہے:
”إني احبک حبّین حبًّا لقرابتک منيّ و حبًّا لما کنت اٴعلم من حبّ عمي اِیّاک“ ۱#
میں تم سے دوہری محبت کرتا ہوںایک تمہاری مجھ سے قریبی رشتے داری کی وجہ سے ہے اور دوسری محبت اس وجہ سے ہے کہ میں جانتا ہوں ابوطالب تم سے بہت محبت کرتے تھے ․
ب:حلبی نے اپنی کتاب سیرت میں پیغمبرخدا کی یہ روایت نقل کی ہے جس میں آپ نے جناب ابوطالب کی تعریف فرمائی ہے :
”مانالت قریش منيّ شیئًا اٴکرہہ (اٴي اٴشد الکراہة)حتی مات اٴبوطالب․“۲#
جب تک ابوطالب زندہ رہے مجھے قریش کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچا سکے۔
رسول خدا کا ابوطالب سے محبت کرنا اور ان کی خدمات کو سراہنا جناب ابوطالب
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔تاریخ الخمیس جلد۱ ص ۱۶۳(طبع بیروت) الاستیعاب جلد۲ ص۵۰۹
۲۔سیرہ حلبی جلد۱ ص ۳۹۱(طبع مصر)․
کے محکم ایمان کی واضح دلیل ہے کیونکہ پیغمبرخدا صرف مومنین ہی سے محبت رکھتے تھے اور مشرکین و کفار سے سخت گیری کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:
<مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہُ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ․․․>۱#
محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ہیںاور آپس میں انتہائی مہربان ہیں․
ایک اورجگہ فرماتا ہے :
<لاَتَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللهَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَائَہُمْ اٴَوْ اٴَبْنَائَہُمْ اٴَوْ إِخْوَانَہُمْ اٴَوْ عَشِیرَتَہُمْ اٴُوْلٰئِککَتَبَ فِي قُلُوبِہِمْ الْإِیمَانَ․․․ >۲#
آپ کو کبھی ایسے افراد نہیں ملیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہوں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوںسے محبت رکھتے ہوں چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔سورہ فتح /۲۹․
۲۔سورہ مجادلہ / ۲۲․
ان آیات کا جب پیغمبراکرم کی ابوطالب سے محبت اور مختلف موقعوں پران کی ستائش سے موازنہ کیا جائے تو اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ جناب ابوطالب ایمان کے اعلی ترین درجہ پر فائز تھے ․
۴۔حضرت علی - اور اصحاب رسول کی گواہی
حضرت امیرالمومنین - اوراصحاب پیغمبر نے جناب ابوطالب کے محکم ایمان کی گواہی دی ہے ملاحظہ ہو:
الف:جس وقت حضرت امیرالمومنین علی - کی خدمت میں ایک شخص نے جناب ابوطالب پر ایک ناروا تہمت لگائی تو حضرت علی - کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں ہوگئے اور آپ نے فرمایا:
”مَہ ، فضّ اللّہ فاک والذي بعث محمّدًا بالحقّ نبیًّا لو شفع اٴبي في کل مذنب علیٰ وجہ الاٴرض لشفعہ اللّہ․“۱#
چپ رہ! اللہ تیرے منہ کو توڑ دے مجھے قسم ہے اس خدا کی جس نے محمد کو برحق نبی قرار دیا ہے اگر میرے والد (ابوطالب)روئے زمین کے سارے گناہ گاروں کی شفاعت کرنا چاہیں تو بھی پروردگار ان کی شفاعت کو قبول کرے گا ․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔الحجة، ص/ ۲۴․
ایک اورجگہ فرماتے ہیں :
کان واللہ ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب موٴمنًا مسلمًا یکتم اِیمانہ مخافة علیٰ بني ہاشم اٴن تنابذھا قریش․۱#
خدا کی قسم ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب مومن اور مسلمان تھے اور اپنے ایمان کوقریش کے کفار سے مخفی رکھتے تھے تاکہ وہ بنی ہاشم کو ستا نہ سکیں․
حضرت علی -کے یہ ارشادات نہ صرف جناب ابوطالب کے ایمان کی تائید کرتے ہیں بلکہ ان کو ایسے اولیائے خدا کی صف میں کھڑا کردیتے ہیں جو پروردگار عالم کے اذن سے شفاعت کا حق رکھتے ہیں ․
ب: جناب ابوذر غفاری ۺ نے جناب ابوطالب کے بارے میںکہا ہے:
واللّہ الذي لااِلہ اِلا ھو ما مات ابوطالبٍ حتیٰ اٴسلم․۲#
قسم ہے اس خد اکی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ابوطالبۻ اسلام لانے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔الحجة، ص/ ۲۴․
۲۔شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد۱۴ ص۷۱(طبع دوم)․
ج:عباس بن عبدالمطلب اور ابوبکر بن ابی قحافہ سے بھی بہت سی سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے :
اِنّ اٴباطالب مامات حتیٰ قال: لاالہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ․۱#
بے شک ابوطالب ”لاالہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ“کہنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں․
۵۔ابوطالب اہل بیت کی نظر میں
ائمہ معصومین ٪ نے جناب ابوطالب کے ایمان کو صاف لفظوں میں بیان فرمایا ہے اور مختلف موقعوںپر پیغمبراسلام کے اس فداکار کا دفاع کیا ہے یہاں پر ہم ان میں سے صرف دو نمونوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
الف:امام محمد باقر - فرماتے ہیں:
لووضع اِیمان اٴبي طالبٍ في کفة میزان و اِیمان ھذا الخلق في الکفة الاٴخری لرجح اِیمانہ․۲#
اگر ابوطالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور تمام مخلوقات کے ایمان کو اس کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔الغدیر ، جلد ۷ ص۳۹۸ تفسیر وکیع سے نقل کرتے ہوئے (طبع۳ بیروت ۱۳۷۸ئھ)․
۲۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۶۸ (طبع دوم ) الحجة ص۱۸․
تو ایمان ابوطالب ان کے ایمان سے بھاری ہوگا․
ب:امام جعفرصادق - رسول اکرمسے نقل فرماتے ہیں :
اِنّ اٴصحاب الکہف اٴسرّوا الایمان و اٴظہروا الکفر فآتاھم اللّہ اٴجرھم مرّتین و اِنّ اٴباطالب اٴسرّ الایمان و اٴظہر الشرک فآتاہ اللّہ اٴجرہ مرتین․ ۱#
اصحاب کہف (چند مصلحتوں کی وجہ سے) اپنے ایمان کو چھپا کر کفر کا اظہار کرتے تھے تو پروردگار عالم نے انھیں دہرا اجر عطا فرمایا تھا․ ابوطالب نے بھی اپنے ایمان کو چھپا کر (کسی مصلحت کی وجہ سے) شرک کا اظہار کیا تو انھیں بھی پروردگارعالم نے دوہرا اجر دیا ہے ․
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
۱۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ص ۷۰ (طبع دوم )الحجة ص۱۱۵․
گزشتہ دلیلوں کی روشنی میں آفتاب کی طرح واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ
جناب ابوطالب درج ذیل بلند مقامات پر فائز تھے:
۱۔خدا و رسول پر محکم ایمان․
۲۔پیغمبرخدا کے بے لوث حامی و ناصر اور راہ اسلام کے فداکار․
۳۔پیغمبراکرم کے بے نظیر محبوب․
۴۔خداوند عالم کے نزدیک عہدہٴ شفاعت کے مالک․
اس اعتبار سے ثابت ہوجاتا ہے کہ جناب ابوطالب پر لگائی گئی نسبتیںباطل اور بے بنیاد ہیں․جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں:
۱۔پیغمبراکرم، جناب امیرالمومنین ، ائمہ معصومین٪ اور اصحاب پیغمبر کی نگاہ میں جناب ابوطالب ایک باایمان شخص تھے․
۲۔جناب ابوطالب پر کفر کا الزام باطل اور بے بنیاد ہے اور ان پر یہ تہمت بنی امیہ اور بنی عباس (جو ہمیشہ سے اہل بیت٪ اور جناب ابوطالب کی اولاد سے جنگ کرتے آئے ہیں) کے اشاروں پر بعض دنیا پرست علماء و مورخ سیاسی مفادات کے تحت لگائی گئی تھی ․
منقبت بحضور حضرت ابو طالب ۻ
از عالی جناب پیر سید محمود شاہ صاحب کاظمی محدث ہزاروی
بو علی عم نبی عظمت تمھاری واہ واہ
کفر کے نرغے میں حق کی پاسداری واہ واہ
پردہ دار دین و ایماں سابق و فائق ہے تو
بارہویں کے چاند کی وہ غمگساری واہ واہ
نور بے سایہ کے اعدا کے لئے سینہ سپر
کالی راتوں میں تری روشن نگاری واہ واہ
تیرے دین ایمان کی عظمت سے غافل بد گہر
مصطفی سے دل لگا کر عمر ساری واہ واہ
جس کی دم بھر کی زیارت پر صحابیت ملے
چہل و دو سالہ تری صحبت شعاری واہ واہ
معرکہ میں پھسل کر سنبھلے تو اچھوں کے قدم
استقامت پر تری آئینہ داری واہ واہ
حق سے بیگانے ہی تجھ کو حق سے بیگانہ کہیں
حق کے پروانے تری پروانہ واری واہ واہ
آل فرعوں سے بھی پردہ دار مومن ہی رہا
خواجہ ابو طالب تری ایمان داری واہ واہ
بے شبہ ان گنت احساں آپ کے ملت پر ہیں
اس فدا کاری پہ تنقید بخاری واہ واہ
سید کل اولیا ، بیٹا علی شیر خدا
اور کفالت میں تری محبوب باری واہ واہ
نعت و نعمت شعاری مرحبا صد مرحبا
عمر بھر محمود #وہ خدمت گزاری واہ واہ
(عیون المطالب فی اثبات ایمان ابو طالب، ج /۱ ص/۴۴۳)
http://www.islamshia-w.com