کیا جناب ابوطالب مومن تھے؟
کیا جناب ابوطالب مومن تھے؟
0 Vote
64 View
تمام علمائے شیعہ اور اہل سنت کے بعض بزرگ علمامثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ اور”قسطلانی“ نے ارشاد الساری اور ”زینی دحلان“ نے سیرہٴ حلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اور اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے،اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیں اس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد ہم گہرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تہمتیں کیوں لگائی گئیں ؟!
جس نے اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا اور بار ہا خوداپنے فرزند کو پیغمبراسلام کے مقدس وجود کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا !!یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے؟!۔
یہی سبب ہے کہ تحقیق کرنے والوں نے دقت نظر کے ساتھ یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ہے جو ”شَجَرةُ خَبِیثَةٌ بَنِي اٴُمیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداہوئی ہے۔
کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ہی نہیں تھی جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی ہو ،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ہے ایسے ناجو اں مردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ ہونے کے علاوہ حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نہیں تھا ! ہم یہاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواہی دیتے ہیں کچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بیان کرتے ہیں تفصیلات کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم (ص)کی بعثت سے پہلے اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا، مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتیجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے، اس سفر میں انہوں نے آپ کی بہت سی کرامات کا مشاہدہ کیا ۔
ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جو نہی قافلہ ”بحیرا“نامی راہب کے قریب سے گزرا جو قدیم زمانہ سے ایک گرجا گھر میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین (توریت و انجیل) کا عالم تھا اور تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراہب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد (ص)پر جم کررہ گئیں، اس وقت آپ کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔
بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہا، پھر گہری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔” بحیرا“ نے کہا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ہے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں۔(1)
ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔
اہل سنت کے عالم شہرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماکی نقل کے مطابق: ”ایک سال آسمان مکہ نے اہل مکہ سے اپنی برکت روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو ابوطالب نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد کو جو ابھی شیر خوارہی تھے لایاجائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا انہیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہٴ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع وزاری کے ساتھ اس طفلِ شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ہر مرتبہ کہتے تھے: پروردگارا! اس بچہ کے حق کا واسطہ ہم پر بابرکت بارش نازل فرما ۔زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا جس سے خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ہی ویران نہ ہوجائے “۔
اس کے بعد شہرستانی کا کہنا ہے کہ یہی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور ابوطالب نے بعد میں درج ذیل اشعار اسی واقعہ کی مناسبت سے کہے تھے :
وَ ابیض یستسقي الغَمَامَ بوجہِہِ
ثَمَالَ الیتامٰی عُصمة للاٴرَاملِ
” وہ ایسا روشن چہرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “
یَلُوذُ بہ الہَلاک مِن آلِ ہَاشِمِ
فَہُمْ عِنْدَہ فِی نِعمَةٍ وَ فَوَاضلِ
” بنی ہاشم میں سے جوچل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقہ میں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ مند ہوتے ہیں ،،
َومِیزانُ عَدلِہ یخیس شَعِیرة
وَوِزانّ صدقٍ وَزنہ غیرُ ہائلِ
” وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے “ ۔
قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شہرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے ، مرحوم علامہ امینی نے اسے اپنی کتاب ”الغدیر“ میں” شرح بخاری“ ،”المواہب اللدنیہ“، ”الخصائص الکبریٰ“، ” شرح بہجتہ المحافل“ ،”سیرہ حلبی“، ” سیرہ نبوی“ اور ” طلبتہ الطالب“ سے نقل کیا ہے(2)
۲۔اس کے علاوہ مشہور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں جس کے مجموعہ کا نام ”دیوان ابو طالب“ رکھا گیا ہے، ہم ان میں سے کچھ اشعار ذیل میں نقل کررہے ہیں :
وَالله لَن یَصِلُوا إلَیکَ بِجَمعِھم
حَتّٰی اٴوسدَ فِی التُّرَابِ دَفِیْناً
”اے میرے بھتیجے! خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میں نہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے“ ۔
فَاصدّعْ بِاٴمرِکَ مَاعلیکَ غَضَاضَة
وَابْشِر بِذَاکَ وَ قرمنک عیوناً
”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کردو، بشارت دو اور آنکھوں کو ٹھنڈا کردو“۔
وَدَعوتني وَعلِمتُ اٴنَّکَ نَاصِحِي
وَلَقَد دَعوتَ وَ کُنتَ ثُمَّ اٴمِیناً
”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ہے، تو اپنی دعوت میں امین ہے“۔
وَ لَقَد عَلِمْتَ اٴنْ دِینُ مُحَمَّد(ص)
مِنْ خَیرِ اٴدیَانِ البَریَّة دِیناً (3)
” میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین تمام ادیان میں سب سے بہتردین ہے“۔
اور یہ اشعار بھی انہوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں :
اٴلَمْ تَعْلَمُوْا إنَّا وَجَدنَا مُحَمَّد اً
رَسُولاً کَمُوسیٰ خَط فِی اٴوّلِ الکُتُبِ
” اے قریش ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ محمد( (ص))موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ہیں جن کے آنے کی پیشین گوئی گزشتہ آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور ہم نے اسے پالیاہے“۔
وَ إنَّ عَلَیہ فِی العِبَادِ مَحبة
وَلاحَیفَ فِی مَن خَصّہُ اللّٰہُ فِی الحُبِّ(4)
” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤبے جا نہیں ہے۔“ ابن ابی الحدید ،جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (جن کے مجموعہ کو ابن شہر آشوب نے ” متشابہات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کہا ہے) کہتا ہے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ہمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔
۳۔ پیغمبر اکرم (ص)سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت (ص)کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواہی دیتی ہیں منجملہ ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہوگئی تو پیغمبر اکرم (ص)نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررہے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے: ”ہائے میرے بابا! ہائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں میں کس طرح آپ کی مصیبت کو بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کہی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔(5)
نیز آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے :” مَا نَالت مِنِّي قُرِیش شیئًا اٴکرھُہ حَتّٰی ماتَ اٴبُوطَالِب “(6)
”اہل قریش اس وقت تک میرے خلاف کوئی ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ ہوگئی“۔
۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پہلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مہرو محبت کا اظہار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک محبت رکھیں۔
۵۔ اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کے ذریعہ سے ہم تک پہنچنے والی احادیث میں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ہیں، جن کو یہاں نقل کرنے سے بحث طولانی ہو جائے گی ،یہ احادیث منطقی استدلال کی حامل ہیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:
”إنَّ ھُنَا قَوماً یَزْعَمُونَ اٴنَّہُ کَافِرٌ“ اس کے بعد فرمایا:” تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ ابوطالب کافرتھے،کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ہے (اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم
ہے کہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رہیں۔“(7)
۶۔ان تمام باتوں کے علاوہ اگرانسان ہر چیز میں شک کرے تو کم از کم اس حقیقت میں تو شک نہیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم (ص)کے صف اول کے حامی ومددگار تھے ، انھوں نے اسلام اور رسول کی جو حمایت کی ہے اسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نہیں کیا جاسکتا ۔
اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ہے،تمام مورخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم (ص)اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کیا اور ان سے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت (ص)کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درہ میں لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشہور تھا وہاں پر سکونت اختیار کر لی۔
ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم (ص) کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور ان کے آرام کے لئے دوسری جگہ مہیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل ہوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ہاتھ سے نہ چھوڑو، ہر زندہ شخص موت کی طرف رواںدواں ہے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نہیں تھا کہ میں محمد کے لئے قتل ہونے سے ڈرتاہوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کی اطاعت اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ ہوں۔(8)
قارئین کرام ! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنہری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہم آواز ہوکر کہے گا :
وَلَولَا اٴبُوطَالب وَ إبنَہُ لِما مثَّل الدِّین شَخْصاً وَقَامَا
فَذَاکَ بِمَکَّةِ آویٰ وَحَامٰی وَھَذا بِیثْربَ حَسّ الحِمَامَا
” اگر ابوطالب اور ان کے فرزند نہ ہوتے تو ہرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدموں پر کھڑا نہ ہوتا، ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“۔
اگر جناب ابو طالب اور ان کے فرزند ارجمند نہ ہوتے تو دین اسلام بھی نہ ہوتا، اگر یہ نہ ہوتے تو اسلام کے لئے کوئی سہارا نہ تھا، جناب ابو طالب نے مکہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی مدد کی اور حضرت علی علیہ السلام نے مدینہ میں، اور اسلام کی حمایت میں عظیم قربانیاں پیش کیں۔(9)
(1)تلخیص از سیرہ ابن ہشا م ، جلد۱صفحہ ۱۹۱، سیرہ حلبی ، جلد ا، صفحہ۱۳۱/وغیرہ
(2) خزانة الادب،تاریخ ابن کثیر ،شرح ابن ابی الحدید ،فتح الباری،بلوغ الارب، تاریخ ابی الفدا، سیرہٴ نبوی وغیرہ، الغدیر ، جلد ۸ کی نقل کے مطابق
(3) خزانة الادب۔ تاریخ ابن کثیر ۔شرح ابن ابی الحدید ۔فتح الباری۔بلوغ الارب۔ تاریخ ابی الفدا، سیرہٴ نبوی وغیرہ، الغدیر ، جلد ۸ کی نقل کے مطابق
(4) شیخ الاباطح ، ابو طالب موٴمن قریش سے نقل کے مطابق
(5)طبری ، ابو طالب مومن قریش کی نقل کے مطابق
(6) کتاب الحجہ ، درجات الرفیعہ ، الغدیر ، جلد ۸ کی نقل کے مطابق
(7) الغدیر ، جلد ۸
(8)الغدیر ، جلد ۸
(9) تفسیر نمونہ ، جلد ۵ صفحہ ۱۹۲
منبع: islaminurdu.com