ابو طالب مظلوم تاریخ

ابو طالب مظلوم تاریخ

ابو طالب مظلوم تاریخ

Publication year :

2003

Publish location :

کراچی

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

ابو طالب مظلوم تاریخ

زیر نظر کتاب: ’’ابوطالب مظلوم تاریخ‘‘ ایک گرانبہا کتاب ’’الغدیر‘‘ کی جلد سات اور آٹھ  کے ان حصوں کا ترجمہ ہے جو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے والد بزرگوار حضرت ابوطالب علیہ السلام  کے حالات زندگی مشتمل ہیں اور اور بلاشبہ ’’الغدیر‘‘ کے فاضل مؤلف نے دیگر موضوعات کی طرح اس موضوع میں بھی تحقیق و تالیف کا حق ادا کر دیا ہے۔

اردوزبان میں ابوطالب بن عبدالمطلب کی شخصیت پر بہت ہی کم لکھا گیا ہے اور جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں بھی اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم امر تو یہ دیکھنا ہے کہ حضرت ابوطالب جیسے بزرگوار نے اپنی زندگی میں کونسے کام کس طرح انجام دیئے، تاریخ کی شہادتوں کے مطابق کہ جن میں سے کچھ اس کتاب میں شامل ہیں، حضرت ابوطالب علیہ السلام  نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اسلام کی صحیح تعلیم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے دفاع میں گزارا، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے قبیلے یعنی قریش کا غصہ مول لیا، طعنے برداشت کیے اور شعب ابوطالب کی سختیاں اور تکلیفیں اٹھائیں، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی وہ نئی اور انقلابی تحریک جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی میں چل رہی تھی؛ شعب ابوطالب کا واقعہ اس کے خلاف قریش کی جانب سے بیک وقت سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی دباؤ کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان مشکل حالات میں حضرت ابوطالب علیہ السلام نے مختلف مواقع پر نظم و نثر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی حمایت کا اعلان کیا اوراپنے بیٹوں (علىؑ وجعفرؑ) کو آنحضرت کے ہمراہ رہنے کی ترغیب دی۔ المختصر انہوں نے اپنی زندگی کا تمام سرمایه اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ پر اس لیے نچھاور کردیا کہ وہ اسلام کی حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنے فرزندوں اور اہل خاندان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی حفاظت اور حمایت کرنے کی وصیت کی۔ پھر انکی وفات پر (جو امّ المومنین خدیه کی وفات سے تقریباً متصل تھی) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو اتنا دکھ ہوا کہ انھوں نے اس سال کوعام الحزن (غم کا سال) قرار دیدیا تھا۔

ان تمام روشن تر امور کے باوجود حضرت ابوطالب کو مشرک کہا جاتا ہے! اس تمت کی تائید تاریخ کی ایک حیرت انگیز سازش سے ہوتی ہے! پھراس تہمت کو ثابت کرنے کے لیے بطور دلائل آیات قرآن اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ بھی پیش کی جاتی ہیں!

اگر ہم تاریخی تجزیہ پیش کرنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ تہمت لگانیوالوں اور روایتیں گڑھنے والوں کی نگاہ میں حضرت ابوطالب علیہ السلام  کی حیثیت ایک غیر معمولی انسان کی نہیں کہ ان کا کفر و ایمان یا شرکت و توحید قابل توجہ ہو، بلکہ انہیں کافر کہا جاتا ہے تو اس لیے کہ وہ علی مرتضیٰؑ کے والد بزرگوار ہیں۔ کیونکہ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ اگر باپ پر ضرب لگائی جائے تو اس کی تکلیف بیٹے کو بھی ہوتی ہے۔ پس اس تمام تہمت اورافترار کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام  کے ایمان کو مشکوک قرار دے کر یا ایک اور قدم آگے بڑھا کر اور انھیں کافر قرار دیکر علی مرتضیٰؑ کو اس حملے کا ہدف بنا لیاجائے!

جو کچھ اوپر کہا گیا ہے اس کی صحت اس وقت واضح ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہی تاریخ، یہی مؤرخین اور یہی روایتیں لانے والے کہ جو حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بارے میں یہ فیصلہ دیتے ہیں وہ ان لوگوں کے باپوں کے بارے میں خاموش ہیں جو امام علی علیہ کی زندگی میں ہمیشہ ان کے مقابل آتے رہے ہیں۔ حقیقت اور حق طلب انسانوں کی شهات کے مطابق وہ امام علی علیہ السلام  کے وجود کے سورج کی تابناک شعاعوں کے سامنے ہمیشہ موم کی طرح پگھلتے رہے ہیں۔

علامہ امینی کی خاص خوبی اوران کا بڑا کمال یہی ہے کہ انھوں نے مکمل غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے تاریخی واقعات کی تحلیل کا عظیم الشان کام انجام دیا اور شرکِ ابو طالب علیہ السلام جیسی تمام تہمتوں کا حقیقت پسندانہ جواب دیا ہے۔

بہرحال ایک کتاب کو اپنا تعارف خود کرانا چاہیے لہٰذا ہم اس گفتگو کو مختصر کرتے ہوئے اپنے اس بیان کے اختتام پر محض چند نکات کا تذکرہ کرتے ہیں:

۱. اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ کتاب کا ترجمہ آسان اور اردوخواں حضرات کے لیے قابل فہم ہو۔

۲. بعض ایسے اشعار حذف کر دیے گئے ہیں جن کا متن اور اصلی بحث سے تعلق نہ تھا۔ جو محققین اور شائقین وہ تمام اشعار پڑھنا چاہتے ہوں انہیں چاہیئے کہ اس کتاب کے اصل عربی متن سے رجوع کریں۔