دینِ اسلام میں جوان اور جوانی

نذر حافی اسلام آباو اجداد کی اندھی تقلید سے پھیلنے والا جامد نظام حیات نہیں بلکہ تحقیق و تجربے کی بنیاد پر پھیلتی ہوئی ارتقاءِانسانیت کی علمی و فکری،تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و اجتماعی تحریک کا نام ہے ۔اس ہمہ جہتی تحریک کی نشوونما میں جہاں انبیاء اکرام کے علم و فضل ، آئمہ اہلبیت {ع} کے عرفان امامت اور علماء کرام کی جدوجہد کا عمل دخل ہے وہیں پر اسلامی جوانوں کے خون کے نذرانے بھی تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ کار دنیا کو انجام دینے میں جوانی کو سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے ہی لیکن اسلامی شریعت میں بھی جوانی ہی کی عبادت کو بہترین عبادت کہا گیا ہے۔ بقول معروف" در جوانی توبہ کردن شیوہ پیمبران است" اسی طرح احادیث اہل بیت {ع} میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے کہ ایک جوان توبہ کرنے والے کا اجر حضرت یحیٰ بن زکریا کی مانند ہے۔[1] دین اسلام کے رشدو ارتقاءمیں جوانوں کاکردار بنیادی اہمیّت کا حامل ہے۔دعوتِ ذوالعشیر سے لے کر میدان ِ غدیر تک اسلام کا پرچم ایک جوان ہی نے اٹھا رکھا ہے اور ساحلِ فرات سے لے کر میدان ِمحشر تک اسلام کی حیاتِ ابدی کا پرچم بھی ایک جوان کے ہی کٹے ہوئے بازووں کے سہارے سے لہرارہاہے۔تاریخ اسلام شاہد ہے کہ اسلام عزیز کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہر دور کے اسلامی جوانوں نے بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔ چنانچہ اقبال اپنی ملت کے جوان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو ہے جس کا اک ٹوٹا ہواتارا آئیے دیکھتے ہیں کہ لغت و اصطلاح میں نیز قرآن و سنّت اور علماءِ اسلام نےجوان اورجوانی کے بارے میں کیا کہاہے: لغت میں "جوانی" ۱۔عربی زبان میں کلمہ شباب جوانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب کسی چیز کا آغاز ہے اور جوان کو "فتیٰ " کہا جاتا ہے۔[2] ۲۔اردو زبان میں جوان ہونے کے زمانے کو جوانی کہا جاتا ہے۔ اور لڑکپن کے دور سے نکلے ہوئے مرد یا عورت کو جوان کہا جاتا ہے۔اسی طرح بہادر ،دلیر اور شجاع کے لیے بھی کلمہ "جوان" استعما ل کیا جاتا ہے۔ [3] اصطلاح میں "جوانی " ماہرین نفسیات کے مطابق جوانی یوں تو ماہر ین نفسیات جوانی کے بارے میں کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں البتہ مختلف ماہرین کی تعریفوں کو اکھٹا کر کے جوانی کی ایک جامع تعریف اس طرح سے کی جا سکتی ہے۔"جوانی اس زمانے کو کہتے ہیں جب انسان کی جسمانی توانائیاں اور ذہنی صلاحیتیں کمال تک پہنچتی ہیں۔[4] قرآن مجید میں جوان اور جوانی قرآن مجید نے نیک اور صالح جوانوں کو بطورِ نمونہ عمل بنی نوعِ انسان کے سامنے پیش کیاہے۔قرآنی تعلیمات کے مطابق حضرت ابراہیم [ع] ایک بت شکن ،حضرت اسماعیل[ع]ایک صابر ،حضرت موسی [ع] ایک شجاع حضرت عیسی [ع] ایک نڈر اور حضرت یوسف[ع] ایک پاکدامن جوان ہیں۔ قرآن مجید نے اصحاب کھف کی اس طرے سے پہچان کروائی ہے: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْناهُمْ هُدي ہم ان کا حال تم سے بالکل ٹھیک بیان کرتے ہیں ،وہ چند جوان تھے کہ اپنے سچّے پروردگار پر ایمان لائے تھے۔[5] ایک جوان کی جوانی کو جن خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ان کے بارے میں قرآن مجید کی زبانی ہم حضرت لقمان [ع] کی وصیّتوں کو بطورِخلاصہ یہاں نقل کر رہے ہیں: حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیّت کرتے ہوئے کہا: يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ اے بیٹے شرک نہ کرنا بے شک شرک ظلم ِ عظیم ہے۔[6] اسی طرح آپ نے یہ وصیّت بھی کی: وَ اقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ... میانہ روی سے چلو اور اپنی آواز کو دھیما رکھو۔ [7] وَ لا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنّاسِ وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّ اللّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتال فَخُور لوگوں کے سامنے اپنامنہ [غرورسے]نہ پھلانا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا ،بے شک اللہ کسی بھی مغرور کو پسند نہیں کرتا۔[8] آپ نے اپنے بیٹے کو یہ وصیّت بھی کی: يا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلاةَ وَ أْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلي ما أَصابَكَ إِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ اے بیٹے نماز قائم کرنا نیکیوں کا حکم دینا،برائیوں سے روکنا،مصیبتوں پر صبر کرنابے شک یہ بڑی ہمت کاکام ہے۔[9] آپ نے خوف خدا اور ذکرِخدا کے لئے اہنے بیٹے کو وصیّت کی: يا بُنَيَّ إِنَّها إِنْ تَكُ مِثْقالَ حَبَّة مِنْ خَرْدَل فَتَكُنْ فِي۔۔۔ اے بیٹے اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی عمل خواہ رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور پھروہ کسی سخت پتھر کے اندریا آسمانوں میں یا زمین میں [چھپا]ہوتو بھی خدا اسے [قیامت کے دن]حاضر کر دے گا۔ [10] ان وصیّتوں سے پتہ چلتاہے کہ ایک جوان کوسب سے پہلے توحید پرست ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں سے بے نیاز،غرور و تکبّر سے مبرّا،نماز کا قائم کرنے والا،صابر اور امربالمعروف و نہی عن المنکر نیز خوفِ خدا کا حامل ہونا چاہیے۔ حضورِاکرم [ص] کی احادیث میں جوان اور جوانی حضور اکرم{ص}کاارشاد مبارک ہے کہ میری امت میں سے بہترین افراد وہ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی خدا کے راستے میں بسر کی ہے اور اپنے نفس کو دنیا کی لذتوں سے روک کر آخرت کی یاد میں مشغول کیے رکھا ہے۔[11] ایک اور حدیث میں حضور اکرم{ص} نے فرمایا ہے: جو شخص جوانی میں خدا کی عبادت کو خوش اسلوب سے انجام دیتا ہے،خدا اسے بڑھاپے میں حکمت عطا کرتا ہے۔[12] اسی طرح ابن عباس {رضی } سے روایت ہے کہ حضور{ص} نے فرمایا:اے جوانو۔۔۔اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرو،آگاہ ہو جاو کہ جو شخص بھی اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرے گا۔خدا اسے جنت عطا کرے گا۔[13] حضرت امام علی{ع} کی نگاہ میں جوان اور جوانی حضرت امام علی{ع} فرماتے ہیں: جوان کا دل خالی زمین کی مانند ہے۔آپ اس میں جو بات بھی ڈالیں وہ قبول کرے گا۔پس اُسے ادب سکھائیں،اس سے پہلے کہ اس کا دل سخت ہو جائے۔[14] حضرت امام صادق[ع]کی نظر میں جوانی جوان اور جوانی کا جو مفہوم لغت اور اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اہل بیت{ع}نے جوانی کو اوصاف حسنہ، شجاعت، جوانمردی،جانثاری،اطاعت و فرمانبرداری اور حُسنِ خلق سے مز یّن ہونے کو کہا ہے۔ جیسا کہ سیلمان بن جعفر ہذلی نے حضرت امام جعفر صادق{ع} سے روایت کی ہے کہ امام صادق {ع} نے مجھ سے فرما یا: ای سلیمان "فتیٰ ٰ: کیا ہے؟ میں نے کہا ہم جوان کو "فتیٰ" کہتے ہیں۔امام نے فرمایا آیا جانتے ہو کہ تمام اصحابِ کہف عمر رسیدہ تھے لیکن خدا نے ان کی طاقت اور قوت کی وجہ سے انہیں فتیہ یعنی جوان کہا ہے؟ جو کوئی بھی خدا پر ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرے جوانوں میں شامل ہے ۔[15] اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ انسان کی جوانی کا دارومدار بلند ہمّتی اور عروج توانائی پر ہے اور جو چیز انسان کو بلند ہمت اور توانا بناتی ہے وہ ایمان اور تقویٰ ہے۔پس جس کے پاس ایمان اور تقویٰ ہے وہی درحقیقت جوان ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جوانی کے دو معانی ہیں۔ جوانی کے دو معانی ۱ ۔عام معنی ۲۔خاص معنی ۱۔عام معنی: ایک عام معنی ہے جس کی رو سے ہر شخص لڑکپن کے بعد جوانی میں داخل ہو جاتا ہے اور ۴۰ سے۴۵ سال کی عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے میں قدم رکھ دیتا ہے۔ ۲۔خاص معنی جوانی کا خاص معنی یہ ہے کہ انسان اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو قران و سنت اور حکمِ پر وردگار کے مطابق مسلسل کھلنے اور نشونما پانے کا موقع دے۔ جوانی فقہاء کی اصطلاح میں فقہاء کے نزدیک جب قمری حساب سے بچیوں کے ۹ سال، اور بچوں کے ۱۵ یا ۱۶ سال پورے ہو جا ئیں تو اس وقت ان کی جوانی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ دین اسلام کے عظیم رہنماوں نے جوانوں کی تعلیم و تربیّت پر خاص توجہ دی ہے ۔عصرِ حاضر میں اسلامی انقلاب کے بانی حضرتِ امام خمینی {رح} نے جوانوں کو جو نصیحتیں کی ہیں ان میں سے ایک نصیحت کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں: حضرتِ امام خمینی {رح} کی نظر میں جوان اور جوانی "آپ جو جوانی کی نعمت سے بہرہ مند ہیں ابھی سے کوشش کریں کہ ایک مفید شخص ثابت ہوں اور آپ جو یہاں علم حاصل کر رہیں ہیں کوشش کریں کہ اپنے لیے بھی اور اپنی قوم اور ملک کے لیے بھی مفید قرار پائیں۔کوشش کریں کہ اپنی عمر برباد نہ کریں ۔کیو نکہ آپ میرے سن کو پہنچ کر کوئی مثبت کام کرنا بھی چاہیں تو ضعف و نقاہت اجازت نہیں دیں گے۔خدا کی عطا کی ہوئی اس طاقت اور امانت کو خدا کی راہ میں صرف کیجیے اور خدا کی راہ میں صرف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی بہتری۔اسلامی ملک کی بھلائی اور اسلام کی برتری کے لیے کریں۔دشمنان اسلام اور ان افراد کو کہ جو باہر سے آکر مسلمانوں کے خزانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ملک سے نکال باہر کرنے کے لیےکام کریں۔"[16] یعنی امام خمینی نے جوانوں کو حصول علم کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لئے مفید بننے اور استعماری طاقتوں کے خلاف صف بستہ ہونے کا پیغام دیاہے۔ رہبرِ معظّم سید علی خامنہ ای اور جوان شاہی نظام کے دوران ایرانی جاسوسی ادارے "ساواک"کے ریکارڈ میں رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی کی نوجوان نسل میں مقبولیّت اور ہردلعزیزی کی تصدیق کی گئی ہے۔۹/۳۰۰۳ شمارے کی رپورٹ کے مطابق ۸/۱/۱۳۵۳ کویہ درج کیاگیاکہ مرتضی مطہری ساواک کی طرف سے مشہد میں سید علی خامنہ ای کی نماز جماعت بندہونے سے ناراض ہیں اور مطہری[رح]نے کہاہے کہ سید علی خامنہ ای ایک قیمتی شخص ہیں جن سے آئندہ کافی امیدیں وابستہ ہیں انہوں نے اس دوران مشہدمیں کافی مفید کام انجام دیے ہیں جن میں سے ایک یونیورسٹی اور دینی مدارس کے طالبعلموں کو ایک جگہ جمع کرناہے۔[17] جوانی کا عہد بلند حوصلے ،اعلیٰ ہمت اور جنون و عشق کا دور ہوتا ہے۔اس لیے تاریخ عالم کو ہمیشہ جوانوں کے گرم لہو نے ہی انقلابات سے ہمکنارکیاہے۔چونکہ تحریکیں شفاف فکر،جواں ہمت اور بلند حوصلے کی مرہون منت ہوتی ہیں۔اس لیے اگر کسی بھی تحریک سے جوانوں کو علیحدہ کر دیا جائےتو وہ تحریک، تحریک نہیں رہتی بلکہ پیکر جمود بن جاتی ہے۔ علامہ عارف حسین الحسینی {رح} کی جوانوں سے امیدیں "جوان" ہر قوم کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔بابصیرت قائدین کٹھن حالات میں جہاں جوانوں کو امیدیں دلاتے ہیں وہیں پر جوانوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کئے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی [رح]بھی اپنی ملت کے جوانوں کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: پاکستان بنانے میں ہمارے بزرگوں کی فکراور سرمایہ خرچ ہواہے،ہمارے جوانوں کا خون خرچ ہواہے۔۔۔اب بھی اگر پاکستان کے بیرونی دشمن نے کسی قسم کا حملہ کیا تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح یہ جوان محازوں پر اپنے سینے سپر کرکےپاکستان اسلامی کادفاع کریں گے۔[18] اسی طر ح لاہورمیں منعقد ہونے والی قرآن وسنّت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے جونوں کو مخاطب کرکے کہا تھاکہ اے جوان تو قوم کا سرمایہ ہے،اے جوانوقوم کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں،آئندہ اس مملکت کی زمامِ امور آپ کے ہاتھ میں آنے والی ہے،لہذا آپ کو چاہیے کہ اس وقت ہر لحاظ سے اپنے آپ کو آمادہ کریں۔[19] یہ غیر مسلم اقوام کا المیہ ہے کہ ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل مخدوش ہے لیکن ملت اسلامیہ کا مستقبل اس لیے روشن ہے کہ یہ ملت خورشیدکربلا سے نور حیات لیتی ہے۔بھلا جس قوم کے جوانوں کے آئیڈیل قاسم و اکبر {ع}ہوں،اس قوم کو سپاہ یزید کیسے شکست دےسکتی ہے۔انہی خیالات کا اظہار علامہ عارف حسین الحسینی [رح] نے باغ آزاد کشمیر میں اپنے خطاب کے دوران کچھ اس طرح کیا تھا: ہم حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت ہمارے جوانوں کو ان چیزوں سے ڈرائے دہمکائےتو یقیناً ہمارے جوان اس سے ڈرنے والے نہیں ،حق کی بات کریں گے،حق کے مقابلے میں ان کو جو قیمت بھی ادا کرنی پڑی وہ کریں گےلیکن کبھی بھی حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔[20] حق پر کٹ مرنے اور حق کی خاطر زندہ رہنے کایہ درس جوانوں کو صرف اور صرف کربلا سے ہی ملتاہے جیساکہ شب عاشور جب امام حسن{ع}نے اپنے جواں سال بھتیجے قاسم بن حسن{ع}سے پوچھا"کیف الموت عندک" بیٹا موت تمہارے نزدیک کیسی ہے؟ شہزادے نے برجستہ جواب دیا:"احلی من العسل"شہد سے زیادہ میٹھی۔ پس جس قوم کے جوان حق کی حمایت میں موت کو شہد سے زیادہ شیریں سمجھتے ہوں دنیا بھر کی باطل طاقتیں انہیں مرعوب کیسے کر سکتی ہیں۔ چنانچہ قائد شہید نے بھی جوانوں میں جوش ایمان اور جذبہ شہادت کا اصلی محرک کربلا کو قرار دیا ہے ،یوں توآپ نے متعدد خطبات میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے،ہم یہاں نمونے کے طور پر آپ کی ایک تقریر میں سے ایک پیراگراف نقل کررہے ہیں: "یہ عزاداری سیّد الشہدا[ع]ہےکہ ان نوجونوں کے خون کو جوش میں لاتی ہے،یہ عزاداری سیّد الشہدا[ع]ہے کہ ایران اور لبنان کے نوجوانوں کو طاغوتی طاقتوں کے خلاف دیوار بناکرکھڑاکردیتی ہے۔برادران عزیز۔۔۔ سیّد الشہدا[ع]کی عزاداری کا احترام کریں،یہ گوہرِ گراں بہاہے اس کی حفاظت کریں۔جب تک سیّد الشہدا[ع]کاعشق اور محبت ہمارے سینوں میں موجود ہےاورجب تک یہ دل ان سینوں میں موجود ہیں یہ کبھی بھی لشکروں سے مغلوب نہیں ہونگے۔[21] اس کے بعد آئیے اب تاریخِ اسلام کے مثالی اور قابلِ فخر جوانوں میں سے چند ایک کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخِ اسلام کےمثالی جوان۔ یوں تو تاریخ ِ اسلام مثالی جوانوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہم یہاں پر چند جوانوں کا ذکر بطورِ نمونہ کررہے ہیں۔ ۱۔حضرت امام علی{ع} حضرت علی {ع} پورے عالم اسلام میں غیر متنازعہ شخصیت کے حامل ہیں۔ہر کلمہ گو مسلمان حضور اکرم حضرت محمد رسول اللہ کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ کی محبت کا دم بھرتا ہے۔مسلمانوں کی آپ {ع} کے ساتھ اس والہانہ محبّت اور عقیدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے آغاز جوانی سے ہی حضور اکرم {ص} کا ساتھ دیا اور دین اسلام کے راستے میں قربانیاں دیں۔ ۲۔ حضرت مصعب بن عمیر حضرت مصعب بن عمیر کا شمار حضور اکرم {ص} پر پہلے پہل ایمان لانے والوں میں ہوتا ہے۔آپ ایک خوبصورت جوان تھے اور اسلام لانے کے بعد آپ نے دین اسلام کی خاطر بہت زیادہ مشکلات برداشت کیں۔ اہل مدینہ جب حضور اکرم {ص} کے ہاتھوں پہلی بیعت عقبہ کی تو حضور اکرم {ص} نے مصعب بن عمیر کو اہل مدینہ کے ہمراہ مدینے میں جا کر تبلیغ دین کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت مصعب بن عمیر نے مدینے میں جا کر اپنی جدوجہد ،بصیرت، علم و دانش اور حسنِ تدبیر کے باعث بہت جلد حضور اکرم{ص} کی مدینے آمد کا راستہ ہموار کیا۔ حضور اکرم{ص} کی مدینے میں تشریف آوری کے بعد آپ نے جنگِ بدر اور احد میں مردانہ وار شرکت کی۔ جنگ احد کے دلیر علمبرداروں میں سے ایک آپ بھی تھے اور اسی جنگ میں اسلام کے اس بطلِ جلیل نے جام شہادت نوش کیا۔[22] ۳۔عبداللہ ابن مسعود حضرت عبداللہ ابن مسعود دین اسلام قبول کرنے والے چھٹے فرد ہیں۔قبول اسلام کے وقت آپ با لکل نوجوان تھے۔آپ قبول اسلام کے ساتھ ہی حضور اکرم{ص} کی خدمت میں تعلیم قرآن کے سلسلے میں حاضر ہوئے اور ساری زندگی قرآن و حدیث کی نشرو اشاعت میں مصروف رہے۔ آپ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کرنے والوں میں بھی شامل تھے اور آپ نے تمام غزوات میں بھی شرکت کی۔[23] ۴۔عتاب بن اسید ایک بیس سالہ جوان جو مکّی مسلمانوں کا پہلا سربراہ بنا۔فتح مکہ کے فورا بعد غزوہ حنین پیش آیا،ایّام حج نزدیک تھے اور یہ پہلا سال تھا کہ مکّے پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ حضور اکرم{ص} کو بہت سارے حکومتی امور نمٹانے کے لیے اسلامی دارالحکومت مدینے کی طرف پلٹنا پڑا۔ آپ نے اس کھٹن وقت میں مکّے کی سربراہی ایک ۲۰ یا۲۱ سال والا جوان عتاب بن اسید کو سونپی۔ بعض لوگوں نے ایک جوان کو حاکم مقرر کرنے پراعتراض بھی کیا۔لیکن حضور {ص} نے عتاب بن اسید کی حمایت کی اور جوان حضور{ص} کے وصال مبارک تک مکّے کا حاکم رہا۔ ۵۔حضرت اسامہ بن زید حضور اکرم{ص}نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک ۱۸ سالہ جوان حضرت اسامہ بن زید کو اسلامی لشکر کی سربراہی سونپی۔ حضور{ص}نے مہاجرین اور انصار سب کو حضرت اسامہ بن زید کے لشکر میں شامل ہونے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دیا۔ [24] ۶۔حنظلہ غسیل الملائک حضرت حنظلہ کا اصلی نام حنظلہ بن ابی عامرتھا۔آپ غسیل الملائک کے نام سےمشہور ہوئے۔ آپ کا باپ بد نامِ زمانہ کافر تھا اور اسلام دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہتاتھا۔جس روز جنگِ احد قرار پائی اس روز حنظلہ کی شادی تھی۔ حنظلہ کا سُسر منافقین کا سردار عبداللہ ابن ابی تھا۔حنظلہ نے حضور اکرم{ص}سے ایک دن کی اجازت لے کر شادی کی اور پھر جنگِ احد میں اپنے باپ کے خلاف لشکر اسلام کی طرف سے لڑ کر جام شہادت نوش کیا۔ حضور اکرم{ص}نے آپ کی شہادت کے موقع پر فرمایا کہ فرشتوں کو میں نے دیکھا کے وہ حنظلہ کو آب شفاف سے غسل دے رہے تھے۔اس کے بعدحنظلہ غسیل الملائکہ کے نام سے مشہور ہوئے۔[25] کربلا میں جوان یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس جوان نے بھی کربلا کے جوانوں کی فکر پر اپنی جوانی کو استوار کیا اسے حیات جاودانی نصیب ہوئی ،صرف پاکستان میں ہی کربلا کے اس فکری ارتقا کے دوران ہزاروں جوانوں نے اسیر ہو کر سیرت سجّاد کا اعادہ کیا ہے اور سینکڑوں جوانوں نے شہید ہو کر سیرت قاسم وعباس و اکبر کو ادا کیا ہے ،کبھی طاغوت نے بے گناہ محرم علی کو سولی پہ لٹکایااور کبھی ظالموں نے ناصر صفوی کو گولیوں سے بھونالیکن اس کے باوجود شمعِ کربلا کے گردپروانوں کی پرواز میں کمی نہیں آئی۔ اب ہر منصف مزاج انسان اس حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے کہ نیک ،متّقی اور باشعور جوانوں کے قتل کا حضرت ہابیل{ع}کی شہادت سے شروع ہونے والا سلسلہ آج پوری دنیا میں جاری و ساری ہے اور تاابد جاری و ساری رہے گا چونکہ شہید ہونے والا ہرباشعورجوان اپنے پیچھےیہی پیغام چھوڑ جاتا ہے کہ رکنے نہ پائیں یہ قدم ۔حی علی خیرالعمل چودہ سالوں سے نہ ظالموں کے خنجر کند ہوئےہیں اور نہ مظلوموں کی گردنیں کم پڑی ہیں ۔ ۶۱ہجری میں جب اسلام کو ملوکیت کے پھانسی گھاٹ پر موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی گئی تو اسلام کے حقیقی وارث حسین ابن علی{ع} نے بقاء اسلام کے لیے قیام کیا،مدینے سے خروج کے وقت ایک مرتبہ آپ پر چند لمحوں کے لیے غنودگی طاری ہو گئی۔جب آپ بیدار ہوئے تو آپ کے ۱۸ سالہ جوان فرزند علی اکبر نے آگے بڑھ کر آپ سے غنودگی طاری ہونے کا ماجرا پوچھا تو آپ نے فرمایاکہ اس ہلکی سی نیند کے دوران میں نے عالم خواب میں ایک منادی کو ندا دیتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارا یہ قافلہ بخیریت واپس نہیں آئے گا۔تو شہزادہ علی اکبر {ع}نے فورا پوچھا بابا جان:کیا ہم حق پر نہیں ہیں۔جواب ملا ہاں ہم حق پر ہیں۔جب یہ سنا تو شہزادے نے ایک ایمان افروز جملہ کہا"بابا جب ہم حق پر ہیں تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم موت پرجا پڑیں یا موت ہم پر آ پڑے۔ جوان علی اکبر{ع}کے اس ایک جملے نےتحریک کربلاکی رگوں میں وہ حرارت پھونکی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بادشاہوں کے مظالم،مورخین کی خیانتیں اور متعصّبین کا اتحاد تحریک کربلا کو سرد نہیں کر سکا ،آج بھی جب مسلمان جوان سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ہر طرف یہی صدا گونجتی ہے: ہماری یہ جوانیاں ۔۔۔حسین[ع]کی قربانیاں حسین{ع}مدینے سے مکے کی طرف نکلے پھر مکے سے کوفے کے قریب تک پہنچے۔اس سارے سفر میں چھ مہینے کا عرصہ لگا۔ان چھ مہینوں میں امام{ع}نے دنیا کو یزید کی ان گنت کا رستانیوں بدعات اور انحرفات سے آگا کیا اور مشہور یہی ہے کہ پوری کائنات میں سے یزید کے خلاف فقط بہتر [۷۲]آدمیوں نے امام حسین{ع} کی ہمراہی کا شرف حاصل کیا۔ان بہتر میں سے سترہ {۱۷}افراد آل ابی طالب میں سے تھے اور یہ سترہ کے سترہ افراد یا نوجوان تھے یا پھر کڑیل جوان تھے۔دو خود امام {ع}کے فرزند علی اکبر{ع}اور علی اصغر{ع}تھے۔تین امام حسن {ع}کے فرزند قاسم،عبداللہ اور ابوبکر تھے۔پانچ امام حسین{ع} کے بھائی تھے۔ عباس،عبداللہ،جعفر،عثمان،محمد بن علی اور دو بیٹے عبداللہ بن جعفر کے تھے۔عون و محمد اور پانچ افراد اولاد عقیل میں سے تھے۔جعفر بن عقیل،عبدالرحمٰن بن عقیل،مسلم بن عقیل اور مسلم بن عقیل کے دو بیٹے عبداللہ اور محمد اور ایک محدم بن ابی سعید بن ابی عقیل تھے۔ ان سترہ افراد کے نا م زیارت ناحیہ میں ملتے ہیں۔ان کے علاوہ امام{ع}کے دیگر تقریبا پچپن جانثاروں میں سے بھی بیشتر جوان تھے۔جو بچے تھے وہ بھی جوانوں کی طرح اپنا سینہ تان کر امام{ع} کے سامنے چلتے تھےتاکہ وہ جوان نظر آئے اور ان کا بچپنہ ان کے شوق شہادت میں حائل نہ ہواسی طرح عمر رسیدہ افراد تھے انہوں نے بھی اپنی ضعیفی کو اپنے جذبہ شہادت پر غالب نہیں آنے دیا اور وہ میدان عمل میں جوانوں کے شانہ بشانہ رہے۔ یوں تو امام{ع}کے لشکر میں بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے کی نمائندگی موجود تھی۔جون جیسے وفادار غلام بھی تھے۔حر جیسے با حریت مجاہد بھی تھے۔عباس جیسے جری بھی تھے۔علی اصغرجیسے شیرخوار بھی تھے اور سجاد جیسے بیمار بھی تھے۔زینب و کلثوم کی صورت میں خواتین کی نمائندگی بھی تھی ۔فضہ کے روپ میں ملکہ دشت وفا بھی تھی۔اس تحریک میں ہر سطح کا شخص موجود تھا اور ہر اس موجود شخص نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔گویاتحریک کربلا کا ہر فرد سبیل ہدایت اور منارہ نور ہے لیکن کیا کہنا ان جوانوں کاجن کےجوان لہو کے باعث تاریخ کربلا کے چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں نہیں پڑیں۔تاریخ کربلا کےخدو حال پہ ضعیفی نہیں چھائی اور پیغام کربلا میں کہنگی نہیں آئی۔ تاریخ کا ہرورق اور ہر شاہکار وقت کے ساتھ ضعیف بھی ہوتاہے اور زوال پذیر بھی لیکن کربلاوقوعہ کے روز سے ہی مسلسل جوان بھی ہے اور لازوال بھی ۔بنو امیہ اور بنو عباس نے کوشش کی کہ واقعہ کربلا کے پس منظر میں تحریف کر کے اور اس کے واقعات میں ردوبدل کر کے اسے ایک خوبصورت افسانے کا رنگ دے دیا جائے۔لیکن تحریک کربلا کے رگ و پے میں جوانوں کے گرم لہو کی مچلتی ہوئی موجوں نے کربلا کے فکری ارتقا کے سامنے باندھے جانے والے ہر بند ھ کو بہا دیا ، گرم خون کی حرارت نے بنو امیہ کی حکومت کو راکھ کر ڈالا اور بنو عباس کے تخت وتاج پگھلا ڈالے ۔ برچھی مارنے والوں نے برچھی مار تو دی لیکن پھر نوک سناں کو نکال نہیں سکے ۔لاشہ قاسم پر گھوڑے دوڑانے والوں نے گھوڑے دوڑا تو دئے لیکن رن میں بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو تاریخ کی آنکھوں سے چھپا نہیں سکے۔زنجیر پہنانے والوں نے سیّد سجاد کو زنجیر تو پہنا دئے پھر زنجیر کی آہٹ کو پابند سلاسل نہیں کر سکے۔باطل نے علمدار کے بازو تو قلم کر دیے لیکن علم کو سرنگوں نہیں کر سکا ۔ کربلا کے جوانوں نے رہتی دنیا تک کے اسلامی جوانوں کے لیے ایسا اسوہ حسنہ چھوڑا ہے کہ اب ملت اسلامیہ کے جوان باطل قوتوں کے ہاتھوں پاش پاش تو ہو سکتے ہیں لیکن باطل کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہو سکتے ۔کربلا کے جوان ملت اسلامیہ کے جوانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ۔ اگر کوئی نوجوان یتیم ہے لیکن حق کی خاطر قربان ہونا چاہتا ہےتو حسن {ع}کے یتیم کی سیرت کو سامنے رکھے۔اگر کسی جوان کو خدا توفیق دے کر وہ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو نے کے باوجود امام عصر{ع} کی صدا پہ لبیک کہنےکا جذبہ رکھتا ہوتو وہ حسین{ع} کے علی اکبر{ع} کی سیرت سامنے رکھے اور اگر کوئی جوان بہت شجاع ہے اور اپنی شجاعت کو مشیت معصوم{ع}کے تابع رکھنا چاہتا ہے تو عباس جری کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھے۔ اگر کوئی جوان کسی شاہی خاندان کے نازو نعم کا حسین شاہکار ہے اور اس کے آنسووں سے کائنات کی نزاکتیں دم لیتی ہیں تو اسے سید سجاد{ع}کے سفر شام کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اگر کوئی اپنے حسب و نسب میں بہت اعلیٰ ہے تو اس جوان کو عون و محمد کے نقشِ پا کی پیروی کرنی چاہیے۔اگر کسی جوان کو اپنے زور بازو پہ بہت ناز ہے تو مجلس عزا میں آکر فرات کے کنارے کٹنے والے دو بازوں کی داستان ضرور سنا کرے۔ اگر کوئی جوان حق کی خاطر اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجانا چاہتا ہے تو علماء سے علی اکبر{ع} کے سینے میں ٹوٹی ہوئی سناں کا حال ضرور پوچھا کرے۔اگر کوئی جوان امام زمانہ{ع} کے ساتھ وفاداری کا دم بھرتا ہے تو اسے چاہیے کہ شب عاشور بجھے ہوئے چراغ کی کسوٹی پر خود کو پرکھتا رہے۔ نتیجہ آج فرعونیت چہار سو ہے،یزیدیت جا بجا ہے ہر کوچے میں سپا ہ یزید اور ہر شہر میں سپاہ شام کے ڈیرے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے بچوں کی تربیّت قرآن و سنّت کے سائے میں کرے تاکہ یہی بچے جوان ہوکر صدرِ اسلام کے مسلمان جوانوں کی طرح اپنے دین ، ملّت اور عالمِ بشریّت کی بے لوث خدمت کرسکیں ۔ اکابرین ِ ملّت اسلامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امّت مسلمہ کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی سب سے زیادہ توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیّت پر مرکوز کریں ۔ ایک نیک ،صالح ،مہدوی اورقرآنی معاشرے کا قیام پاکیزہ اور دیندار جوانوں کے بغیر ممکن نہیں۔ہمیں چاہیے کہ نکاح سے لے کر ولادت تک اور ولادت سے لے کر بلوغ تک کے مراحل میں لمحہ بہ لمحہ قرآن و سنّت کا دامن تھامے رکھیں ۔ ہمیں جوانوں کی تعلیم و تربیّت کے سلسلے میں کبھی بھی مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہیے چونکہ جس قوم کے جوان عباس نامور کے علم کو تھامے ہوئے ہوں اس قوم کو لشکر فرنگی شکست نہیں دے سکتا ہے اورجس قوم کا ورثہ پیاس بھرا مشکیزہ ہو اس قوم کے جوانوں کو دنیا کی سازشیں گمراہ اور بے دین نہیں بنا سکتیں۔ [1] مجموعہ ورام ج۲ ص ۱۱۹ [2] ۔مجمع البحرین ج۱ ص ۳۲۴ [3] فیروزاللغات [4] روا نشناسی رشد ،ص ۲۰۷ [5] کھف۱۳ [6] لقمان ۱۳ [7] لقمان/۱۹ [8] لقمان/۱۸ [9] لقمان /۱۷ [10] لقمان/۱۶ [11] مجموعۃ و رام،ج۲،ص ۱۲۳ [12] {اعلام الدین ص۲۹۶} [13] {المعجم الاوسط،ج ۷،ص ۶۱} [14] {نہج البلاغہ خط ۳۱} [15] بحارالانوار ج۱۴ ص ۴۲۸ [16] کوثر ج۱ص۱۴۰ [17] سلالۃ الابرار،ص۸۸ ساواک کی اسناد سے نقل شدہ [18] اسلوب سیاست ص۱۸ [19] اسلوب سیاست ص۷۰ [20] اسلوب سیاست ص۵۶ [21] اسلوب سیاست ص۲۴ [22] {سیرہ ابن ھشام ج۲ ص ۲۹۰۔۴} [23] {جوان در جہاد و شہادت از غلام علی پارسا ص ۷۰} [24] {جعفریان، رسول،تاریخ سیاسی اسلام{استفادہ}ج ۱،ص۲۲۶} [25] {سبحان،جعفر،فروغ ابدیت جلد ۲،ص۴۰}