روز قیامت کا مشاہدہ

قیامت، یعنی وہ روز جب تمام مخلوق خدا کے حضور میں حاضر ھوں گے، کھاگیا ھے کہ لفظ قیامت نحوی اعتبار سے مصدر ھے ، جیسے کھاجاتا ھے: قام الخلق من قبورھم قیامةً“ ایک قول یہ ھے کہ یہ سریانی زبان کا لفظ ”قِیمثا“ ھے جس کو عربی بنالیا گیا ھے۔[94] حضرت رسول اکرم (ص)سے سوال کیا گیا کہ قیامت کو ”قیامت“ کیوں کہتے ھیں تو آنحضرت (ص)نے فرمایا: ”لان فیھا قیام الخلق للحساب“۔[95] ”کیونکہ اس روز مخلوق ،حساب کے لئے جمع کی جائے گی“۔ قرآن مجید میں بہت سے الفاظ کے ذریعہ قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا ھے جیسا کہ الازفة، والحاقة، والقارعة، والطامة الکبریٰ، والواقعة، والصاخّة، والساعة،و یوم الجمع، ویوم التغابن،ویوم الموعود، ویوم المشھود، ویوم التلاقی، ویوم التنادی، ویوم الحساب، ویوم الفصل،و یوم الحسرة،و یوم الوعید۔ قیامت انسان کے لئے ایک سخت منزل ھے کیونکہ اس دن خوف و ہراس، نالہ و فریاد اور طولانی مدت تک قیام ھوگا، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے: <یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیمٌ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا اٴَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَارَی وَمَا ہُمْ بِسُکَارَی وَلَکِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِیدٌ >[96] ”اے لوگواپنے پروردگار سے ڈرتے رھو (کیونکہ) قیامت کا زلزلہ (کوئی معمولی نھیں) ایک بڑی سخت چیز ھے جس دن تم اسے دیکھ لوگے تو ہر دودھ پلانے والی (ڈر کے مارے)اپنے دودھ پیتے (بچے) کو بھول جائیں گی ا ور ساری حاملہ عورتیں اپنے اپنے حمل (دہشت سے) گرادیں گی اور( گھراہٹ میں )لوگ تجھے متوالے معلوم ھوںگے حالانکہ وہ متوالے نھیں ھیں بلکہ خدا کا عذاب بہت سخت ھے“۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں: ”کل شيء من الدنیا سماعہ اعظم من عیانہ ،وکل شيء من آلاخرة عیانہ اعظم من سماعہ ۔فیکفیکم من العیان السماع ومن الغیب الخبر“۔[97] ”(یارکھو!) دنیا میں ہر شے کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ھوتا ھے او رآخرت میں ہر شے کا دیکھنا اس کے سننے سے بڑھ چڑھ کر ھوتا ھے لہٰذا تمہارے لئے دیکھنے کے بجائے سننا اور غیب کے مشاہدہ کے بجائے خبر ھی کو کافی ھوجانا چاہئے“۔ قیامت کے مواقف (قیام کی جگہ) زیادہ ھوں گی اور دیر دیر تک کھڑا ھونا پڑے گا، جس کے مختلف مقامات ھیں، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: ”حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا علیھا ،فان للقیامة خمسین موقفا،کل موقف مقدارہ الف سنة“، ثم تلا قولہ تعالیٰ:< تَعْرُجُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ إِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ اٴَلْفَ سَنَةٍ>[98] ”اپنے نفس کا حساب کرو قبل اس کے تمہارا حساب کیا جائے، کیونکہ قیامت کے پانچ موقف ھوں گے، اور ہر موقف ایک ہزار سال کا ھوگا، اس کے بعد آنحضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ”جس طرف فرشتے اور روح الامین چڑھتے ھیں (اور یہ) ایک دن میں (اتنی مسافت طے کرتے ھیں ) جس کا اندازہ ہزار برس کا ھوگا“۔ قارئین کرام !ھم ذیل میں قیامت کے مواقف کو بیان کرتے ھیں کہ جب صور پھونکی جائے گی اور اس کو یا جنت میں سعادت اور کامیابی یا جہنم میں بدبختی کا پیغام سنایا جائے گا: ۱۔ صور پھونکا جائے گا: جیسا کہ ارشاد الٰھی ھے: < وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَاءَ اللهُ>[99] ”اور( جب پہلی بار )صور پھونکا جائے گاتو جو لوگ آسمانوں میں ھیں اور جو لوگ زمین میں ھیں (موت سے) بیھوش ھو کر گر پڑیںگے (ہاں) جس کو خدا چاھے(وہ البتہ بچ جائے گا)“۔ نیز ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < مَا یَنظُرُونَ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً تَاٴْخُذُہُمْ وَہُمْ یَخِصِّمُونَ فَلاَیَسْتَطِیعُونَ تَوْصِیَةً وَلاَإِلَی اٴَہْلِہِمْ یَرْجِعُونَ>[100] ”(اے رسول ) یہ لوگ ایک سخت چنگھاڑ (صور) کے منتظر ھیں جو انھیں (اس وقت) لے ڈلے گی جب یہ لوگ باھم جھگڑ رھے ھوں گے پھر نہ تو یہ لوگ وصیت ھی کرنے پائیں گے اور نہ اپنے اہل و عیال ھی کی طرف لوٹ کر جا سکیں گے “۔ تفاسیر میں بیان ھوا ھے کہ” صور “سے مراد وہ قرن(سنکھ)ھے جس سے(صور) پھونکا جائے گا، اور یہ بھی کھاگیا ھے کہ ”صور“صورت کی جمع ھے یعنی خداوندعالم قبر میں انسانوں کی صورت خلق فرمائے گا جس طرح سے شکم مادر میں انسانوں کی صورت خلق کرتا ھے، اور پھر ان میں روح پھونکے گا جیسا کہ صورت بننے کے بعد شکم مادر میں روح پھونکتا ھے۔[101] لیکن قرآن مجید کی آیتوں کے ظھور اور احادیث کی صراحت پہلے معنی پر دلالت کرتے ھیں، جیسا کہ متضافرہ (یعنی تواتر کے حد سے کم اور واحد کے حد سے زیادہ) احادیث میں وارد ھوا ھے کہ خداوندعالم نے اسرافیل کو خلق فرمایا تو اس کے ساتھ ایک صور کو بھی خلق فرمایا جس کے دو گوشے ھیں ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں، اور اسرافیل اس صورکو لئے حکم خدا کے منتظر ھیں، جس وقت خدا وندعالم حکم فرمائے گا تواسرافیل صور پھونک دیں گے۔[102] صورپھونکنے کا نتیجہ یہ ھوگا کہ زمین و آسمان کے درمیان تمام ذی روح کو موت آجائے گی، کوئی زندہ نھیں بچے گا زندگی کے کوئی آثار نھیں بچےں گے، مگر جو خدا وندعالم چاھے: < لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ إِلاَّ وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ >[103] ”اس کے سوا کوئی قابل پرستش نھیں اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ھونے والی ھے، اس کی حکومت ھے اور تم لوگ اسی کی طرف (مرنے کے بعد)لوٹائے جاوٴگے “۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں: ”وانہ سبحانہ یعود بعد فناء الدنیا وحدہ لا شيء معہ کما کان قبل ابتداء ھا ،کذلک یکون بعد فناء ھا بلا وقت ولا مکان ،ولا حین ولا زمان ،عدمت عند ذلک الاجال و الاوقات،وزالت السنون والساعات، فلا شيء الا اللہ الواحد القھار الذی الیہ مصیر جمیع الامور“۔[104] ”وہ خدائے پاک و پاکیزہ ھی ھے جو دنیا کے فنا ھوجانے کے بعد بھی رہنے والا ھے،اس کے ساتھ کو ئی رہنے والا نھیں ھے جیساکہ ابتداء میں بھی ایسا ھی تھا اور انتھامیں بھی ایسا ھی ھونے والا ھے، اس کے لئے نہ وقت ھے نہ مکان، نہ ساعت ھے نہ زمان، اس وقت مدت اور وقت سب فنا ھوجائیں گے، اور ساعت و سال سب کا خاتمہ ھوجائے گا، اس خدائے واحد و قہار کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اسی کی طرف تمام امور کی بازگشت ھے“۔(ص ۳۶۵ترجمہ علامہ جوادی ) ۲۔ نظام کائنات کی تبدیلی: عالم آخرت کی زندگی ایک نئے نظام کے تحت ھوگی جو ھمیشہ کے لئے ھوگی، یا فقط سعادت و نیک بختی ھوگی یا عذاب و بدبختی، اور یہ نظام اس دنیاوی نظام کے خاتمہ پر ھوگا، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: < یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ>[105] ”(مگر کب ) جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین کر دی جائے گی اور( اسی طرح) آسمان (بھی بدل دیئے جائیں گے) اور سب لو گ یکتا قہار خدا کے روبرو (اپنی اپنی جگہ سے) نکل کھڑے ھوں گے“۔ خداوندعالم نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں زمین و آسمان کے تبدیلی کا ذکر فرمایا ھے،جن کا مضمون اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑدیں گے اور بیابان بن جائیں گے یا ریتیلے ٹیلے کی شکل اختیار کرلیں گے اور دھنکی ھوئی روئی کی طرح اڑنے لگےں گے،سمندروں میں طوفان پیدا ھونے لگے گا زمین چٹیل میدان بن جائے گی، کچھ بھی دکھائی نھیں دے گا، زلزلہ آئے گا ، زمین میں لرزش پیدا ھوجائےگی، سورج چاند میں گہن لگ جائے گا ستارے ڈوب جائیں گے، نور چلا جائے گا آسمان سرخ ھوجائے گا، چاروں طرف دھواں ھی دھواں پھیلا ھوگا ، آسمان گرجائے گا، اور ایک طومار کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ حضرت علی علیہ السلام اس دن کے متعلق یوں فرماتے ھیں: ”یوم عبوس قمطریر،ویوم کان شرہ مستطیرا، ان فزع ذلک الیوم لیرھب الملائکة الذین لا ذنب لھم و ترعد منہ السبع الشداد ،والجبال الاوتاد ،والارض المھاد ، وتنشق السماء فھی یومئذ واھیة،و تتغیر فکانھا وردة کالدھان ،و تکون الجبال کثیبا مھیلا بعد ما کانت صما صلاباً۔۔۔“۔[106] ”قیامت کا دن وہ دن ھوگا جب انسان کی شکل بگڑ جائے گی اور ھوائیاں اڑنے لگےں گی، اس کی سختی ہر طرف پھیل جائے گی، اس روز کے خوف و وحشت سے بے گناہ فرشتے بھی ڈرنے لگیں گے، شدید قسم کی بھوک و پیاس ھوگی، پہاڑوں کی کیلیں ہلنے لگے گی، زمین خاک بن جائے گی، آسمان پھٹ جائے گا، آسمان تیل کی طرح سرخ ھوجائے گا، پہاڑریت کے ٹیلوں اور موج کی طرح ھوجائیں گے، جبکہ اس سے پہلے وہ بہت قوی ھوں گے“ ۳۔ زندگی کا صور پھونکاجانا: دوسری مرتبہ جب صور پھونکا جائے گا تو تمام مخلوق عالم آخرت کے لئے زندہ ھوجائے گی، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَإِذَا ہُمْ مِنْ الْاٴَجْدَاثِ إِلَی رَبِّہِمْ یَنسِلُونَ# قَالُوا یَاوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ# إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا ہُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ >[107] ”اورپھر( جب دوبارہ)صور پھونکا جائے گا تو اسی دم یہ سب لوگ (اپنی اپنی) قبروں سے (نکل نکل کے )اپنے پروردگار (کی بارگاہ) کی طرف چل کھڑے ھوں گے اور حیران ھوکر کھیں گے کہ ہائے افسوس ھم تو پہلے سو رھے تھے ھمیں ھماری خوابگاہ سے کس نے اٹھا یا (جواب آئے گا )کہ یہ وھی (قیامت کا)دن ھے جس کا خدا نے (بھی )وعدہ کیا تھااور انبیاء نے بھی سچ کہاتھا(قیامت تو) بس ایک سخت چنگھاڑ ھوگی پھر ایکا ایکی یہ لوگ سب کے سب ھمارے حضور میں حاضر کئے جائیں گے “۔ نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے: < وَنُفِخَ فِی الصُّورِ ذَلِکَ یَوْمُ الْوَعِیدِ وَجَاءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَعَہَا سَائِقٌ وَشَہِیدٌ>[108] ”اورصور پھونکا جائے گا یھی (عذاب کے) وعدہ کا دن ھے اور ہر شخص (ھمارے سامنے اس طرح حاضر ھو گا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ )ہنکانے والا ھوگا اور ایک (اعمال کا) گواہ “۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں: ”لا تنشق الارض عن احد یوم القیامة الا و ملکان آخذان بضبعیہ، یقولان :اجب رب العزة“۔[109] ”روز قیامت زمین پھٹتے ھی فرشتے اس کے بازو پکڑلیں گے اور کھیں گے: چلو اپنے پروردگار کے سامنے حساب و کتاب دو“۔ ” پس اس وقت منادی پکارے گابعد اس کے کہ زمین پھٹنے لگے گی، حساب و کتاب کی طرف جلدی چلو ، حالانکہ ان کی آنکھیں دھنسی ھوں گی رسوائی چھائی ھوگی، ٹڈی دل کی طرح منتشر ھوجائیں گے۔ < یَوْمَ یَخْرُجُونَ مِنْ الْاٴَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاٴَنَّہُمْ إِلَی نُصُبٍ یُوفِضُونَ# خَاشِعَةً اٴَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّةٌ ذَلِکَ الْیَوْمُ الَّذِی کَانُوا یُوعَدُونَ>[110] ”اسی طرح یہ لوگ قبروں سے نکا ل کر اس طرح دوڑیں گے گویا وہ کسی جھنڈے کی طرف دوڑے چلے جا تے ھیں (ندامت سے) ان کی آنکھیں جھکی ھوئی ھو ں گی ان پر رسوائی چھائی ھوئی ھوگی ۔یہ وھی دن ھے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا“۔ ۴۔ حشر: حشر کے معنی جمع کرنے کے ھیں، یہاں پر حشر سے مراد یہ ھے کہ تمام مخلوق بغیر کسی استثناء کے جمع ھوگی کوئی باقی نھیں بچے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے: <وَحَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اٴَحَدًا>[111] ”اور ھم ان سبھو ں کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے“۔ پرندے، حیوانات اور درندے سبھی محشور کئے جائیں گے، چنانچہ خداوندعالم ارشادفرماتا ھے: <وَاِٴذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ>[112] ”اور جس طرح وحشی جانور اکٹھاکئے جائیں گے“۔ نیز خدا وندعالم کا یہ فرمان: < وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَطَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ یُحْشَرُون>[113] ”زمین میں جو چلنے والے پھرنے والا (حیوان ) یا اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ ھے ان کی بھی تمہاری طرح جماعتیں ھیں (اور سب کے سب لوح محفوظ میں موجود ھیں ) ھم نے کتاب (قرآن ) میں کوئی بات فرو گذاشت نھیں کی ھے پھر سب کے سب (چرند ھوں یا پرند ) اپنے پرور دگار کے حضور میں لائے جائیں گے“۔ حشر اس مقام کا نام ھے کہ جہاں پر عقلیں حیران ھوجائیں گی اور انسان کے دل ہل جائیں گے اس طرح کہ انسان ہر طرف بری طرح سے چیخ پکار کرتا ھوگا، ننگے پاؤں بے کسی کے عالم میں تھکا ھوگا اور پسینہ سے شرابور ھوگا۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”وذلک یوم یجمع اللہ فیہ الاولین والاخرین ،لنقاش الحساب و جزاء الاعمال، خضوعا، قیاما، قد الجمھم العرق ،و رجفت بھم الارض، فاحسنھم حالاً من وجد لقدمیہ موضعا ولنفسہ متسعاً “۔[114] ”(روز قیامت) وہ دن ھوگا جب پروردگار اوّلین و آخرین کو دقیق ترین حساب اور اعمال کی جزا کے لئے اس طرح جمع کرے گا کہ سب خضوع و خشوع کے عالم میں کھڑے ھوں گے، پسینہ ان کے دہن تک پھونچا ھوگا اور زمین لرز رھی ھوگی، بہترین حال اس کا ھوگا جو اپنے قدم جمانے کی جگہ حاصل کرلے گا اور جسے سانس لینے کا موقع مل جائے گا“۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے کہ آپ نے فرمایا: ”مثل الناس یوم القیامة اذا قاموالرب العالمین ،مثل السھم فی القرب ،لیس لہ من الارض الا موضع قدمہ کالسھم فی الکنانة ،لا یقدر ان یزول ھاھنا ولا ھا ھنا“۔[115] ”انسان روز قیامت اس طرح اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ھوگا جیسے پہلو میں تیر، کہ صرف کھڑے ھونے کی جگہ ھوگی، جس طرح ترکش میں تیر ھوتا ھے کہ وہ ادھر آسکتا ھے اور نہ اُدھر جاسکتا ھے“۔ تمام لوگ اپنے رب کے فیصلہ کے منتظر ھوں گے وہاں پر نہ مال کام آئے گا اور نہ مقام، اور نہ نھی ان کی کوئی چیز پوشیدہ ھوگی: < یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لاَتَخْفَی مِنْکُمْ خَافِیَة>[116] ”اس دن تم سب کے سب (خدا کے سامنے )پیش کئے جاوٴ گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نھیں رھے گی“۔ مخفی چیزیں ظاہر ھوجائیں گی، اور سب راز کھل جائیں گے: <یَوْمَ تُبْلَی السَّرَائِرُ>[117] ”جس دن دلوں کے بھید جانچے جائیں گے“۔ اس وقت انسان کے تمام اعمال و عقائد بالکل ظاہر ھوجائیں گے جن کا وہ دنیا میں مالک تھا: < یَوْمَ ہُمْ بَارِزُونَ لاَیَخْفَی عَلَی اللهِ مِنْہُمْ شَیْءٌ>[118] ”جس دن وہ لوگ (قبروں سے) نکل پڑیں گے (اور )ان کی کوئی چیز خدا سے پوشیدہ نھیں رھے گی“۔ لیکن روز قیامت کا حال انسان کے اعمال کے لحاظ سے ھوگا، اس روز (مومن و) متقی افراد سواری پر محشور ھوں گے: < یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِینَ إِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا>[119] ”جس دن پرھیزگاروں کو (خدا ئے ) رحمان کے سامنے مھمانوں کی طرح جمع کریں گے “۔ اور ان کے چہروں پر خوشی و مسرت کے آثار ظاہر ھوں گے: <وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ# ضَاحِکَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ>[120] ”بہت سے چہرے تو اس دن خنداں شادماں اور چمکتے ھوں گے (یھی نیکوکار ھیں ) ‘ ‘۔ کیونکہ انھوں نے دنیا میں رہ کر ثواب و عظیم کامیابی کا راستہ اپنایا تھا، ان کے لئے ایک نور ھوگا جس کے سہارے وہ اہل قیامت کے سامنے سے گزر جائیں گے: < یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعَی نُورُہُمْ بَیْنَ اٴَیْدِیہِمْ وَبِاٴَیْمَانِہِمْ>[121] ”جس دن تم مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کانور ان کے آگے آگے اور دا ہنی طرف چل رھاھوگا“۔ لیکن کافر و مشرک مجرمین اپنے شیطان و ستم گر دوستوں کے ساتھ محشور کئے جائیں گے: < فَوَرَبِّکَ لَنَحْشُرَنَّہُمْ وَالشَّیَاطِینَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّہُمْ حَوْلَ جَہَنَّمَ جِثِیًّا>[122] ”(اے رسول ) تمہارے پرور دگار کی (اپنی) قسم ھم ان کو اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے پھر ان سب کو جہنم کے گردا گرد گھٹنو ں کے بل حاضر کریں گے“۔ اور خدا کو چھوڑ کر جس کی وہ عبادت کرتے تھے، ان کے ساتھ محشور کیا جائے گا: < وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ>[123] ”اور جس دن خدا ان لوگوں کو اور جس کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پرستش کیاکرتے ھیں“۔ اہل محشر ان کے سیاہ چہروں اور ظاہری صورت کو دیکھ کر سمجھ جائیں گے (کہ یہ لوگ جہنمی ھیں): <وَوُجُوہٌ یَوْمَئِذٍعَلَیْھَا غَبَرَةٌ# تَرْھَقُھَا قَتَرَةٌ>[124] ”اور بہت چہرے ایسے ھوں گے جن پر گرد پڑی ھوگی ۔ان پر سیاھی چھائی ھوئی ھوگی“۔ ان کے چہروں کو دوزخ کی طرف گھسیٹا جائے گا اور وہ حواس باختہ ھوں گے: < وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَی وَجُوہِہِمْ عُمْیًا وَبُکْمًا وَصُمًّا>[125] ”اور قیامت کے دن ھم ان لوگوںکو منھ کے بل اوندھے اندھے اور گونگے اور بہرے قبروں سے آٹھائیں گے “۔ ۵۔عدالت الٰھیہ: خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: <وَاٴَشْرَقَتْ الْاٴَرْضُ بِنُورِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشُّہَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لاَیُظْلَمُونَ# وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَہُوَ اٴَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُونَ >[126] ”اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (لوگوں کے سامنے) رکھدی جائے گی ،اور پیغمبر اور گواہ لاحاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر (ذرہ برابر ) ظلم نھیںکیا جائے گا ۔اور جس شخص نے جیسا کیا ھو اسے ا س کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ھیں وہ اس سے خوب واقف ھے“۔ یہ عدالت الٰھیہ ھوگی جو دنیاوی عدالتوں کی طرح نھیں ھوگی، کیونکہ روز قیامت کا قاضی خائن آنکھ کو پہچانتا ھے اور دلوں کے راز سے آگاہ ھے، اس کے گواہ انبیاء و مرسلین (علیھم السلام) ھوں گے، اور انسان کے اعضاء و جوارح اس کی گواھی دیں گے نیز اس کے کئے اعمال بھی وہاں اس کے سامنے مجسم ھوں گے، اور اس کا نامہ اعمال اس کے سامنے موجود ھوگا جس میں سب کچھ لکھا ھوگا، کوئی چھوٹی بڑی چیز ایسی نہ ھوگی جو اس میں لکھی نہ گئی ھو، اس وقت انسان (اپنے اعمال کا) انکار کیسے کرے گا؟ جبکہ اس کے اعمال حاضر ھوں گے، نامہ اعمال پیش نظر ھوگا، گواہ، گواھی دے چکے ھوں گے اور اعضاء و جوارح بول چکے ھوں گے؟! قارئین کرام! ذیل میں ھم ان چیزوں کو بیان کرتے ھیں جن کے ذریعہ عدالت الٰھی ھمیں فیصلہ ھوگا، کیا کیا سوال ھوگا، کیسا حساب ھوگا اور کون کون گواھی دےں گے: ۱۔ سوال : تمام ھی مخلوقات سے سوال ھوگا: <فَوَرَبِّکَ لَنَسْاٴَلَنَّہُمْ اٴَجْمَعِینَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون>َ[127] ”تو( اے رسول )تمہارے ھی پرور دگار کی (اپنی ) قسم کہ ھم ان سے جو کچھ یہ کرتے تھے ( اس کے متعلق بہت سختی سے)ضرور باز پرس کریںگے“۔ نیز ارشاد ھوتا ھے: <فَلَنَسْئلَنَّ الَّذِینَ اٴُرْسِلَ إِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِینَ>[128] ”پھر ھم تو ضروران لوگوں سے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے تھے ،سوال کریں گے اور خود پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے“۔ یعنی دین کے بارے میں سوال ھوگا، لیکن گناھوں کے بارے میں سوال نھیں ھوگا مگر جس کا حساب ھوچکا ھو اور جس کا حساب ھوگا اس پر عذاب ضرور ھوگا چاھے طولانی مدت تک کا قیام ھی کیوں نہ ھوں۔[129] اعضاء و جوارح سے سوال ھوگا جیسا کہ درج ذیل آیت : <إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْوٴولاً>[130] ”(کیونکہ ) کان اور آنکھ اور دل ان سب کی( قیامت کے دن )یقینا باز پرس ھوتی ھے “۔ کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”یسال السمع عما سمع ،والبصر عما یطرف ،والفواد عما یعقد علیہ“۔[131] ”آنکھوں سے سوال ھوگا کہ انھوں نے کیا دیکھا، کانوں سے سوال ھوگا کہ انھوں نے کیا سنا اور دل سے سوال ھوگا کہ اس نے کس چیز پر عقیدہ رکھا“۔ یہ سوال انسان کے پورے وجود اور اس کے اعتقاد سے ھوگاجیسا کہ رسول اکرم سے مروی ھے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا: ”لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتی یسال عن اربع :عن عمرہ فیما افناہ ۔وعن جسدہ فیما ابلاہ و عن مالہ مما اکتسبہ وفیم انفقہ ، وعن حبنا اھل البیت“۔[132] ”روز قیامت انسان سے چار چیزوں کے بارے میں سوال ھوگا: (الف) کس چیز میں عمر گزاری،(ب) اعضاء و جوارح سے کیا کام لیا،(ج) مال کو کس طرح جمع کیا اور کہاں خرچ کیا، (د) اور ھم اہل بیت کی محبت کے بارے میں سوال ھوگا“۔ جن اہل بیت علیھم السلام کی محبت کے بارے میں سوال ھوگا، وھی اہل بیت علیھم ا لسلام ھیں جن کی عصمت کے بارے میں خدا وندعالم نے آیہٴ تطھیر میں وضاحت فرمائی ھے: <إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا>[133] ”اے (پیغمبر کے )اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ھے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے“۔ وھی اہل بیت علیھم السلام جن کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) نے نصاری نجران کے مقابلہ میں مباہلہ کیا، ارشاد ھوتا ھے: < فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ>[134] ”تو کھو کہ (اچھا میدان میں )آوٴ ھم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ھم اپنی عورتوں کو (بلائیں ) اور تم اپنی عورتوںکو اور ھم اپنی جانوں کو (بلائیں ) اور تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ھم سب مل کر خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں “۔ اہل بیت رسول خدا ﷺ، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام اور آپ کی ذریت کے نو امام معصوم علیھم السلام ھیں، ان کے علاوہ کوئی اہل بیت میں شامل نھیں ھے۔ انھی اہل بیت علیھم السلام کی محبت کے بارے میں خداوندعالم سوال کرے گا کیونکہ اس نے محبت اہل بیت کو مخلوق پر واجب قرار دیا ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے: <قُلْ لَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِٴلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَیٰ >[135] ”اور (اے رسول )تم کہدو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابتداروں (اہلبیت) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نھیں مانگتا“۔ جس طرح پیغمبر اکرم (ص)نے دل و جان سے اسلام اور ایمان کے قبول کرنے کی دعوت دی ھے اور آنحضرت (ص)نے اہل بیت علیھم السلام سے محبت کرنے پر زور دیا ھے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بیان ھوا ھے، آنحضرت (ص)فرماتے ھیں: ”احبوا اللہ لما یغذوکم من نعمہ ،وا حبونی لحب اللہ ،و احبوا اھل بیتی لحبی“۔[136] ”خدا سے محبت کرو کیونکہ وھی تمہارے لئے رزق کا انتظام کرتا ھے، اور مجھ سے خدا کی محبت کے لئے محبت کرو اور میرے اہل بیت (علیھم السلام) سے میری محبت کی وجہ سے محبت کرو“۔ صرف ان کی محبت کے بارے میں سوال نھیں ھوگا بلکہ رسول اکرم (ص)کے بعد ان کی ولایت و امامت اور وصی برحق ھونے کے اعتقاد کے سلسلے میںسوال ھوگا، جیسا کہ آنحضرت (ص)سے درج ذیل آیت : <وَقِفُوہُمْ إِنَّہُمْ مَسْوٴولُونَ >[137] ”اور (ہاں ذرا)انھیں ٹھہراوٴ توا ن سے کچھ پوچھنا ھے“۔ کے بارے میں سوال کیا کہ روز قیامت کس چیز کے بارے میں سوال ھوگا تو آنحضرت (ص)نے فرمایا: ”یعنی عن ولایة علی بن ابی طالب“۔[138] ”ولایت علی بن ابی طالب کے بارے میں سوال ھوگا“۔ ۲۔ حساب: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: <إِنَّ إِ لَیْنَا إِ یَا بَھُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَاحِسَابَھُمْ>[139] ”بیشک ان کو ھماری طرف لوٹ کر آنا ھے ،پھر ان کا حساب ھمارے ذمہ ھے“۔ حساب کے معنی یہ ھیں کہ انسان کے اعمال اور اس کی جزا کو تولا جائے گا، تاکہ نیک اعمال پر جزا دی جائے اور بُرے اعمال پر سزا دی جائے، جس کے نیک اعمال ھوں اس کی مدح و ثنا ھوگی، اور اس کو نیک جزا کا مستحق قرار دیا جائے گا۔[140] خداوندعالم اولین و آخرین سے اپنے حساب کے لئے ایک آواز دے گا جس کو سب سنیں گے لیکن سوچیں گے کہ میرے علاوہ کسی دوسرے کو کھاجارھاھے، اور خداوندعالم کا خطاب میرے علاوہ کسی دوسرے سے ھے، اور خدا کو کوئی مشغول نھیں کرسکتا، خداوندعالم تمام اولین و آخرین کا حساب دنیا کے ایک گھنٹے میں کرلے گا۔[141] جب معصوم سے < وَاللهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ>[142] (”اور خدا بہت جلد حساب لینے والا ھے “۔) کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اس سے مراد پلک جھپکتے ھی خداوندعالم حساب کرلے گا یا ایک روایت کے مطابق بکری کو دوہنے کے برابر وقت میں حساب کرے گا۔[143] حضرت امام صادق سے درج ذیل آیہ شریفہ کے بارے میں سوال کیا: < فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِینَ اٴَلْفَ سَنَةٍ >[144] ”ایک دن میں ،جس کا اندازہ پچاس ہزار سال کا ھوگا“۔ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا: ”لو ولی الحساب غیر اللہ لمکثوا فیہ خمسین الف سنة من قبل ان یفرغوا ،واللہ سبحانہ یفرغ من ذلک فی ساعة“۔[145] ”اگر اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا حساب کرے تو واقعاً وہ پچاس ہزار سال سے پہلے حساب نھیں کرسکے گا، لیکن خداوندعالم ایک ساعت میں تمام مخلوق کے حساب و کتاب سے فارغ ھوجائے گا“۔ حضرت امیرے المومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ اتنی کثیر مخلوق کا کس طرح حساب کرے گا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”کما یرزقھم علی کثرتھم “ قیل: فکیف یحاسبھم ولایرونہ۔؟ قال: ”کما یرزقھم ولا یرونہ“۔[146] ”جس طرح وہ ان کی کثرت کے باوجود ان کو رزق دیتا ھے“،سوال کیا گیا کہ خدا کس طرح حساب کرے گا حالانکہ وہ ان کو دیکھ بھی نھیں رھاھوگا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”جس طرح ان کو رزق پہنچاتا ھے اور ان کو دیکھنے کی ضرورت نھیں ھوتی“۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ھے: ”ان اول ما یحاسب بہ العبد الصلاة،فان قبلت قبل ما سواھا “۔[147] ”سب سے پہلے (روز قیامت) بندوں سے نماز کے بارے میں سوال ھوگا اگر نماز قبول ھے تو دوسرے اعمال بھی قبول ھیں“۔ روز قیامت کے خوف و ہراس سے کوئی نجات نھیں پائے گا مگر وہ شخص جس نے دنیا میں اپنے اعمال و اقوال کو شریعت کی میزان میں پرکھ لیا ھو، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”عباد اللہ زنوا انفسکم من قبل ان توزنوا ،و حاسبوھا من قبل ان تحاسبوا وتنفسوا قبل ضیق الخناق ،و انقاد وا قبل عنف السیاق“۔[148] ”بندگان خدا! اپنے آپ کو تول لو قبل اس کے کہ تمہارا وزن کیا جائے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے تمہارا حساب کیا جائے،گلے کا پھندا تنگ ھونے سے پہلے سانس لے لو اور زبردستی لے جائے جانے سے پہلے از خود جانے کے لئے تیار ھوجاؤ۔۔۔“۔ ۳۔ شھود اور تطائر کتب: یہ بھی قیامت کی وحشت و خوف و ہراس کی منزل میں ھے، کیونکہ اس وقت انسان بہت سے گواھوں کے مدمقابل ھوگا جن کی دلیل کو ردّ نھیں کرسکتا، اور نہ ھی ان کو جھٹلاسکتا ھے، لہٰذا اسے اپنے گناھوں اور خطاؤں کا اقرار کرنا ھوگا، گواھی کون کون دےں گے: الف: خداوندعالم خود گواہ ھوگا: کیونکہ وہ ہر چیز کاعلم رکھتا ھے، اس کا علم سب چیزوں پر احاطہ کئے ھوئے ھے، انسان کی خلوت کو بھی دیکھتا ھے اور اس کے دل میں پوشیدہ اسرار سے بھی آگاہ ھے، وہ انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ھے، چنانچہ خداوندعالم فرماتا ھے: <ٍ وَلاَتَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُودًا >[149] ”اور (لوگو) تم کوئی سا بھی عمل کر رھے ھو ھم (ھمہ وقت )جب تم اس کام میں مشغول ھوتے ھو تم کو دیکھتے رہتے ھیں “۔ نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے: < مَا یَکُونُ مِنْ نَجْوَی ثَلاَثَةٍ إِلاَّ ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلاَخَمْسَةٍ إِلاَّ ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلاَاٴَدْنَی مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْثَرَ إِلاَّ ہُوَ مَعَہُمْ اٴَیْنَ مَا کَانُوا ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ >[150] ”جب تین (آدمیوں )کا خفیہ مشورہ ھوتا ھے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ھے اور جب پانچ کا (مشورہ) ھوتا ھے تو وہ ان کا چھٹا ھے اور اس سے کم ھوں یا زیادہ اور چاھے جہاں کھیں ھوں وہ ان کے ساتھ ضرور ھوتا ھے پھر جو کچھ وہ (دنیامیں ) کرتے رھے قیامت کے دن ان کو اس سے آگاہ کر دے گا بیشک خدا ہر چیز سے خوب واقف ھے“۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”اتقوا معاصی اللہ فی الخلوات ،فان الشاھد ھو الحاکم“۔[151] ”تنہائی میں بھی خدا کی نافرمانی سے ڈرو کہ جو دیکھنے والا ھے وھی فیصلہ کرنے والاھے“ ۔ ب: انبیاء اور اوصیاء الٰھی: قرآن کریم کی آیات اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ خداوندعالم کے سامنے ہر نبی اپنی امت کے اعمال پر گواھی دے گا،اور ھمارا نبی اکرم محمد مصطفی ﷺاپنی امت کے اعمال کی گواھی دیں گے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتاھے: < فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اٴُمَّةٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاَءِ شَہِیدًا>[152] ”بھلا اس وقت کیا حال ھوگا جب ھم ہر گروہ کے گواہ طلب کریں گے اور (اے محمد) تم کو ان سب پر گواہ کی حیثیت میں طلب کریں گے“۔ نیز خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: < وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِی کُلِّ اٴُمَّةٍ شَہِیدًا عَلَیْہِمْ مِنْ اٴَنفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَہِیدًا عَلَی ہَؤُلاَء>[153] ”اور (وہ دن یاد کرو جس دن ھم ہر ایک گروہ میں سے ا نھیںمیں کا ایک گواہ ان کے مقابل لا کھڑا کریں گے اور (اے رسول)تم کو ان لوگوں پر (ان کے)مقابل میں گواہ بنا کر لاکھڑا کریں گے“۔ قارئین کرام! یہ آیہٴ مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ ہر زمانہ میں ایک ایسی شخصیت کا ھونا ضروری ھے جس کا قول اس زمانہ کے افراد کے لئے حجت ھو اور وہ خدا کے نزدیک عدل (بہت زیادہ عادل) ھو، اسی مطلب کو جبّائی صاحب اور اکثر اہل عدل مانتے ھیں، اور یھی قول علمائے شیعہ کی نظر کے موافق ھے، اگرچہ اختلاف پایا جائے جاتا ھے کہ وہ عدل اور حجت (خدا ) کون ھے؟۔[154] یہ بات واضح ھے کہ تمام امت کا انتخاب نھیں کیا جاسکتا اور نہ تمام امت عادل ھوسکتی ھے جن کو لوگوں کے لئے گواہ بنایا جاسکے، بہت سے ایسے ھیں کہ جن کی حالت لوگوں پر مخفی نھیں ھے، لہٰذا یہ صفات بعض افراد سے مخصوص ھےں ، پس انھیں بعض لوگوں کو انتخاب کیا جائے گا۔ تفسیر عیاشی میں درج ذیل آیت : < وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا>[155] ”(اور جس طرح تمہارے قبلہ کے بارے میں ہدایت کی )اسی طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلہ میں گواہ بنیں “۔ کی تفسیر میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”فان ظننت اٴن الله تعالیٰ عنی بہذہ الآیة جمیع اٴہل القبلة من الموحّدین، اٴفتری اٴن من لاتجوز شہادتہ فی الدنیا علی صاع من تمر، یطلب الله شہادتہ یوم القیامة، و یقبلھامنہ بحضرة جمیع الاٴمم الماضیة؟ کلا لم یعن الله مثل ہذا من خلقہ، یعنی الاٴمة التي وجبت لھادعوة ابراھیم علیہ السلام< کُنْتُمْ خَیْرَ اٴُمَّةٍ اٴُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ>[156] وھم الاٴمة الوسطیٰ، وھم خیر اُمّة اُخرجت للناس“۔[157] ”کیا تم یہ گمان کرتے ھو کہ خداوندعالم کی اس آیت سے تمام اہل قبلہ مراد ھیں، واقعاً یہ بہتان ھے کہ جس کی گواھی دنیا میں ایک صاع خرمہ کے بارے میں قبول نہ ھو خداوندعالم روز قیامت اس کو گواہ قرار دے، اور اس کی تمام گزشتہ امتوں کے بارے میں گواھی قبول کرے، ہرگز خدا نے (تمام اہل قبلہ) کاارادہ نھیں کیا ھے، یعنی وہ امت جس پر ملت ابراھیم علیہ السلام کی پیروی کرنا واجب ھے،(ترجمہ آیت:)”تم اچھے گروہ ھو کہ لوگوں کی ہدایت کے واسطے پیدا کئے گئے ھو“۔ وہ امت وسطیٰ ھے اور یھی لوگوں کی ہدایت کے واسطہ بہترین افراد ھیں“۔ حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ھے : ”نحن الا مة الوسطی ، ونحن شھداء اللہ علی خلقہ،و حججہ فی ارضہ“۔[158] ”ھم امت وسطیٰ ھیں، ھم اللہ کی طرف سے لوگوں پر گواہ ھیں اور زمین پر اس کی حجت ھیں“۔ ج۔ ملائکہ اور فرشتے: خداوندعالم نے ہر انسان کے لئے دو فرشتوں کو مقرر کیا ھے کہ ھمیشہ اس کے ساتھ رھیں اور اس کے تمام اعمال کولکھتے رھیں، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: < إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنْ الْیَمِینِ وَعَنْ الشِّمَالِ قَعِیدٌ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ>[159] ”جب (وہ کوئی کام کرتا ھے تو )دولکھنے والے (کراماً کاتبین)جو(اس کے) داہنے بائیں بیٹھے ھیں لکھ لیتے ھیں کوئی بات اس کی زبان پر نھیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ھے “۔ یھی ملائکہ روز قیامت انسان کے کئے اعمال (چاھے وہ نیک اعمال ھوں یا بُرے اعمال) کی گواھی دیں گے، ارشاد خداوندعالم ھے: < وَنُفِخَ فِی الصُّورِ ذَلِکَ یَوْمُ الْوَعِیدِ وَجَاءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَعَہَا سَائِقٌ وَشَہِیدٌ۔>[160] ”اور صور پھونکا جائے گایھی (عذاب کے )وعدہ کا دن ھے اور ہر شخص (ھمارے سامنے اس طرح )حاضر ھوگا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ )ہنکا نے والا ھوگا اور ایک (اعمال کا)گواہ“۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں: ”سائق یسوقھا الی محشر ھا ،و شھید یشھد علیھا بعملھا“۔[161] ”انسان کے لئے قیامت کی طرف ایک(فرشتہ) ہکانے والا ھے اور ایک گواہ ھے جو روز قیامت اس کے اعمال کی گواھی دے گا“۔ د: اعضاء و جوارح: خداوندعالم قیامت میں بعض مقامات پر انسان کے منہ پر مہر لگادے گا اور خود انسان کے ہاتھ اور تمام اعضاء و جوارح ان سے کئے ھوئے اعمال کی گواھی دیں گے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے: < یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اٴَلْسِنَتُہُمْ وَاٴَیْدِیہِمْ وَاٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ >[162] ”جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاوٴں ان کی کارستانیوں کی گواھی دیںگے“۔ یہاں پر اعضاء و جوارح کی بُرائیوں پر گواھی سے مراد انھیں (اعضاء ) کے لحاظ سے ھوگی پس جو گناہ انسان نے زبان سے کئے ھیں جیسے کسی پر قذف، جھوٹ کی تھمت لگانا یا کسی کی غیبت کرنا وغیرہ تو ان کی گواھی خود زبان دے گی، (یعنی اس زبان کی مہر ہٹالی جائے گی) اور اگر دوسرے اعضاء و جوارح سے گناہ کئے ھیں جیسے چوری، چغل خوری کے لئے جانا یا تھمت وغیرہ کے لئے جانا تو انسان کے دوسرے اعضاء گواھی دیں گے“۔[163] ھ: نامہ اعمال: جیساکہ ھم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ انسان کے تمام اعمال و اقوال فرشتوں کے ذریعہ نامہ اعمال میں لکھے جاتے ھیں، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: <وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِینَ کِرَاماً کَاتِبِینَ یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ>[164] ”حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ھیں بزرگ(فرشتے سب باتوں کے)لکھنے والے (کراماً کاتبین )جو کچھ تم کرتے ھو وہ سب جانتے ھیں “۔ یہ نامہ اعمال قیامت کے روز انسان کے سامنے پیش کردئے جائیں گے، اس وقت خداوندعالم ہر امت کے لئے ایک کتاب نکالے گا جو تمام لوگوں کے اقوال و افعال کی حقیقت کے بارے میںبولے گی جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے: < وَتَرَی کُلَّ اٴُمَّةٍ جَاثِیَةً کُلُّ اٴُمَّةٍ تُدْعَی إِلَی کِتَابِہَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ہَذَا کِتَابُنَا یَنطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ إِنَّا کُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ>[165] ”اور (اے رسول )تم ہر امت کو دیکھو گے کہ (فیصلہ کی منتظر ادب سے)گھٹنوں کے بل بیٹھی ھوگی اور ہر امت اپنے نامہٴ اعمال کی طرف بلائی جائے گی جو کچھ تم لوگ کرتے تھے آج تم کو اس کا بدلہ دیا جائےگا یہ ھماری کتاب (جس میں اعمال لکھے ھیں)تمہارے مقابلہ میں ٹھیک ٹھیک بول رھی ھے جو کچھ بھی تم کرتے تھے ھم لکھتے جاتے تھے “۔ ہر انسان کا نامہ اعمال جس میں تمام چھوٹے بڑے اعمال کو لکھا گیا ھے اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا، خداوندعالم ہر انسان کو اپنے نفس کے حساب کے لئے قاضی اور حاکم قرار دے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے: < وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنشُورًا اقْرَاٴْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا>[166] ”اور ھم نے ہر آدمی کے نامہٴ اعمال کو اس کے گلے کا ہار بنا دیا ھے (کہ اس کی قسمت اس کے ساتھ رھے )اور قیامت کے دن ھم اس کے سامنے نکال رکھ دیں گے کہ وہ اس کو ایک کھلی ھوئی کتاب اپنے روبرو پائے گا (اور ھم اس سے کھیں گے کہ)اپنا نامہٴ اعمال پڑھ لے اور آج اپنا حساب لینے کے لئے آپ ھی کافی ھے“۔ چنانچہ کفار و مشرکین اس دقیق حساب و کتاب کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے: < وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیہِ وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ ہَذَا الْکِتَابِ لاَیُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاہَا>[167] ”اور لوگوں کے اعمال کی کتاب (سامنے) رکھی جائے گی تو تم گنہگاروںکو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ھے (دیکھ کر) سھمے ھوئے ھیں اور کہتے جاتے ھیں ہائے ھماری شامت یہ کیسی کتاب ھے کہ نہ چھوٹے ھی گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ھے نہ بڑے گناہ کو“۔ و: خوداعمال کا ظاہر اور مجسم ھونا: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: <یَوْمَئِذٍ ۔یَصْدُرُ النَّاسُ اٴَشْتَاتاً لِیُرَوْا اٴَعْمَاَلُھْم >[168] ”اس دن لوگ گروہ گروہ (اپنی قبروں سے)نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھیں“۔ نیز ارشادالٰھی ھوتا ھے: < یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ اٴَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُ اٴَمَدًا بَعِیدًا>[169] ”(اور اس دن کو یاد رکھو )جس دن ہر شخص جو کچھ اس نے (دنیا میں) نیکی کی ھے‘ اور جو کچھ برائی کی ھے ‘اس کو موجود پائے گا(اور)آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ دراز(حائل )ھو جاتا “۔ پس معلوم یہ ھوا کہ انسان کے یھی اعمال روز قیامت خود گواھی دیں گے، البتہ مفسرین کے درمیان اختلاف ھے کہ یہ اعمال کس طرح مجسم ھوں گے، چنانچہ بعض افراد نے کھاھے کہ انسان کے اعمال جزا یا سزا کی شکل میں حاضر ھوں گے یا نامہ اعمال حاضر کئے جائےں گے جس میں تمام نیکیاں اور بُرائیاں موجود ھیں، اس چیز پربنا رکھتے ھوئے کہ اعمال ”اعراض“ ھیں جو نابود ھوجاتے ھیں[170] یا خود اعمال ظاہر ھوں گے ، کیونکہ اعمال کا مجسم ھونا اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ خود اعمال موجود اور محفوظ ھیں ،لیکن وہ اس دنیا میں دکھائی نھیں دیتے، جن کو خداوندعالم روز قیامت حاضر کرے گا، اسی وجہ سے کھاگیا ھے کہ نامہ اعمال میں خود اعمال کی حقیقت موجود ھوگی۔[171] پس خود اعمال کا ظاہر ھونا اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ یہ اعمال غائبانہ طور پر ایک عالم خارجی میں محفوظ ھوجاتے ھیں، اسی بات کو ذہن قبول کرتا ھے، اور یھی اعمال روز قیامت انسان کے سامنے پیش ھوں گے جن کو وہ ظاہر بظاہر دیکھے گا اور اس کے لئے کوئی بہانہ باقی نھیں رھے گا۔ ۶۔ میزان: لغت میں میزان ، اس شئے کو کہتے ھیں جس کے ذریعہ مختلف چیزوں کو تولا جاسکے، جس سے مختلف چیزوں کے معیار کاپتہ چلتا ھے، قیامت میں بھی تما م لوگوں کے لئے میزان قرار دے گا جس سے اہل ایمان و اہل اطاعت کو کفار اور گناہگاروں سے جدا کرے گا، ارشاد ھوتا ھے: <وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ فَلاٰ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَ إِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ اٴَتَیْنَا بِھَا وَ کَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ>[172] ”اور ھم قیامت کے روز انصاف کی ترازو قائم کریں گے اور کسی نفس پر ادنیٰ ظلم نھیں کیا جائے گا اور کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ھے تو ھم اسے لے آئیں گے اور ھم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ھیں“۔ اور قیامت میں کفار و مشرکین کے اعمال کا وزن ھی نھیں کیا جائے گابلکہ ان کے اعمال باطل ھوجائیںگے،اور ان کو فوج در فوج جہنم میں بھیج دیاجائےگا،ارشاد الٰھی ھوتا ھے : < اٴُولَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَلِقَائِہِ فَحَبِطَتْ اٴَعْمَالُہُمْ فَلاَنُقِیمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنًا >[173] ”یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پرور دگار کی آیتوں سے اور (قیامت کے دن) اس کے سامنے حاضر ھونے سے انکار کیا تو ان کا سب کیا کرایا اکارت ھو اتو ھم اس کے لئے قیامت کے دن میزان حساب بھی قائم نہ کریں گے “۔ حضرت امام سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ھیں: ”اعلموا عباد اللہ ان اھل الشرک لا تنصب لھم الموازین ،ولا تنشرلھم الدواوین ،وانما یحشرون الی جھنم زمرا ،وانما نصب الموازین و نشر الدواوین لاھل الا سلام ،فاتقوااللہ عباد اللہ“[174] ”اے بندگان خدا! جان لو کہ (کفار و )مشرکین کی میزان نصب نھیں کی جائے گی ، اور نہ ھی ان کے لئے فیصلہ کیا جائے گا بلکہ ان کو فوج در فوج جہنم میں بھیج دیا جائے گا ، میزان اور فیصلہ تو اہل اسلام کے بارے میں ھوگا پس اے بندگان خدا ، خدا سے ڈرو۔() اصل ِمیزان کی حقیقت کے بارے میں امت کے مختلف فرقوں میں کوئی اختلاف نھیں پایا جاتا، کیونکہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام اس کے وجود پر دلالت کرتی ھیں،لیکن اس کے معنی اور مفھوم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ھے، جن میں سے بعض کو احادیث سے مستند کیاجاتا ھے جن میں سے چند اھم یہ ھیں: پہلا قول: قیامت کی میزان بھی دنیا کی میزان کی طرح ھے، ہر میزان میں ایک زبان ھوتی ھے اور دوپلڑے،چنانچہ اسی میزان میں انسان کے اعمال (اچھائیوں اور برائیوں) کو تولا جائے گا، اس قول میں صرف اس لفظ ”میزان“ کے ظاہر کو لیا گیا ھے، لیکن تُلنے والی چیز کے بارے میں اختلاف ھے کہ وہ اعمال ھیں یا نامہ اعمال ھیں یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ھے۔[175] دوسرا قول: میزان ”عدل الٰھی“ کی طرف،کنایہ اور اشارہ ھے یعنی خداوندعالم کسی ایک پر بھی ظلم نھیں کرے گا، میزان یعنی عدل الٰھی ، پلڑا وہ بھاری ھوگا جس میں نیکیاں اور حسنات زیادہ ھوں گے لیکن بُرائیوں کا پلڑا ہلکا ھوگا، یعنی ترجیح عدل کے ساتھ ھوگی، جس کے حسنات کے غلبہ اور زیادتی کی وجہ سے اعمال کو ترجیح ھوگی تو وھی لوگ کامیاب ھوں گے، اور جن لوگوں کے اعمال کو حسنات کی وجہ سے ترجیح نہ ھوگی وھی لوگ خسارہ میں ھوں گے۔[176] اسی دوسرے قول کی تائید امام صادق علیہ السلام سے مروی حدیث سے بھی ھوتی ھے کہ جب ایک زندیق نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا اعمال کا وزن نھیں ھوگا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لا ،ان الاعمال لیست باجسام ،و انما ھی صفة ما عملوا وانما یحتاج الی وزن الشيء من جھل عدد الاشیاء۔ولا یعرف ثقلھا اوخفتھا، وان اللہ لایخفی علیہ شیء،قال فمامعنی المیزان؟، قال:”العدل“،قال فما معناہ فی کتابہ < فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ>[177]؟قال:فمن رجح عملہ“۔[178] ”نھیں، اعمال کا کوئی جسم نھیں ھے، بلکہ اعمال اس صفت کانام ھے جس کو لوگ انجام دیتے ھیں، کسی چیز کا وزن کرنا اور تولنا تو اس شخص کے لئے ضروری ھے جو چیزوں کی حقیقت سے جاہل ھو اور اس کے وزن کو نہ جانتا ھو، بے شک اللہ تعالیٰ پر کسی چیز کا علم مخفی نھیں ھے، زندیق نے سوال کیا تو پھر میزان کے کیا معنی ھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میزان کے معنی ”عدل“ کے ھیں، پھر وہ بولا تو پھر قرآن مجید کی اس آیت کے کیا معنی ھیں:”پھر تو جن کے (نیک اعمال کے)پلے بھاری ھوں گے “،تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جس کے عمل کی ترجیح ھوگی “۔ تیسرا قول: میزان کے معنی حساب کے ھیں، اور میزان کا بھاری اور ہلکا ھونا حساب کے کم یا زیادہ ھونے کا کنایہ و اشارہ ھے، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ھے : ”ومعنی قولہ :< فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ>،< وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ>فھو قلة الحساب و کثرتہ، والناس یومئذ علی طبقات ومنازل ،فمنھم من یحاسب حساباًیسیراو ینقلب الی اھلہ مسروراً، ومنھم الذین یدخلون الجنة بغیر حساب ،لانھم لم یتلبسوا من امرالدنیا بشیء ،وانما الحساب ھناک علی من تلبس ھاھنا،ومنھم من یحاسب علی النقیر والقطمیر،ویصیرالی عذاب السعیر،ومنھم ائمة الکفرو قادةالضلال،فاولئک لایقیم لھم وزناً ولایعبابھم،لانھم لم یعباٴوابامرہ ونھیہ،فھم فی جھنم خا لد و ن ، تلفح وجوھھم النار ،وھم فیھا کالحون“۔[179] ”ان دونوں آیتوں سے مرادحساب کا کم یا زیادہ ھونا ھے، کیونکہ لوگوں کی کئی قسمیں ھیں ایک گروہ وہ ھوگا جن کا حساب بہت آسان ھوگا، اور وہ اپنے اہل و عیال کے پاس خوشحال واپس آئیں گے، ان میں سے ایک گروہ ایسا ھوگا جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ھوجائے گا کیونکہ وہ دنیا کی کسی چیز میں مشغول نھیں ھوئے ھیں، بے شک حساب ان لوگوں کا ھوگا جو دنیاوی کاموں میں مشغول رھے ھیں، ان میں سے ایک گروہ وہ ھوگا جس کا حساب سخت ھوگا اور ان کو جہنم کے درد ناک عذاب میں بہت جلد بھیج دیا جائے گا، یہ گروہ گمراہ اور ضلالت کے سرداروں کا ھوگا، پس یھی لوگ بے اھمیت ھوں گے اور ان پر کوئی توجہ نھیں دی جائے گی کیونکہ انھوں نے خدا وندعالم کے احکام پر کوئی توجہ نھیں کی ھے، یھی لوگ ھمیشہ کے لئے جہنم میں رھیں گے، اور ان کے چہرے جہنم کی آگ میں جلتے رھیں گے اور یھی لوگ جہنم کے دردناک عذاب میں گرفتارر ھیں گے“۔ چوتھا قول: میزان اور موازین( صیغہ جمع) سے مراد انبیاء اور اوصیاء ھیں جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے اس آیت <نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ>کی تفسیر کے بارے میں بیان ھوا ھے: تو امام علیہ السلام نے فرمایا:”الموازین :الا نبیاء والاوصیاء“۔[180] ”موازین (جمع میزان) سے مراد انبیاء اور اوصیاء الٰھی ھیں“۔ پس انبیاء اور اوصیاء علیھم السلام وہ پیمانے ھیں جن کے ذریعہ حق و عدل کی شناخت ھوگی، اور وہ اعمال کے لئے رجحان ھیں اور یہ رجحان ان کے ایمان کے برابر ھوگا اور جتنا انبیاء و اوصیاء علیھم السلام سے محبت اور ان کی اطاعت و پیروی ھوگی اسی لحاظ سے ھوگا۔ قارئین کرام! میزان کے سلسلے میں( چار) اھم قول اور احادیث تھیں کہ بعض مصادیق کو آپ حضرات نے سمجھ لیا ھے، لیکن میزان کی تفصیل کے بارے میں عقیدہ رکھنا ضروری نھیں ھے بلکہ کسی تفصیل اور حقیقت و ماھیت کے بغیرصرف اجمالی طور پر ”میزان“ کے اوپر عقیدہ رکھنا واجب ھے ۔ ۷۔ صراط: صراط کے لغوی معنی راستہ یا واضح راستہ کے ھیں،جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: <اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ>[181] ”تو ھم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ“۔[182] صراط بھی آخرت کی ایک منزل ھے، اور صراط سے مقصود جہنم پر بچھایا جانے والا پُل ھے جس پر سے تمام مخلوق کو گزرنے کا حکم دیا جائے گا، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ھوگا، اہل جنت بغیر کسی خوف و خطر کے وہاں سے گزر جائیں گے ، لیکن کفار خوف و عقاب میں زیادتی کی وجہ سے گزارے جائیں گے، اور جب وہ جہنم میں اپنی جگہ کے سامنے تک پہنچےں گے تو اسی پُل صراط سے گر پڑےں گے۔[183] پُل صراط سے گزرنے کی رفتار، دنیا میں کئے گئے اعمال کی وجہ سے مختلف ھوگی ، اور مومنین بجلی کی طرح بہت تیز اس پُل سے گزرجائیں گے اور اور کفار پہلے ھی قدم سے لڑکھڑا جائیں گے اور جہنم میں گرجائیں گے، حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: ”الناس یمرون علی الصراط طبقات ،والصراط ادق من الشعرة، واحد من السیف ،فمنھم من یمر مثل البراق، ومنھم من یمرّ مثل عدوالفرس ،ومنھم من یمرحبواً،ومنھم من یمر مشیاً،ومنھم من یمر متعلقاً،قد تاخذ النار منہ شیئاً وتترک شیئاً“۔[184] ”پُل صراط سے گزرنے والوں کی قسمیں ھوں گی، پُل صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ھے، پس بعض لوگ اس پر سے بجلی کی طرح گزر جائیں گے، ان میں سے کچھ لوگ گھوڑے کی چال کی طرح اور کچھ لوگ رینگتے ھوئے گزریں گے اور کچھ لوگ آہستہ گزریں گے،اور کچھ لوگ ھوں گے جو صراط کو پکڑے ھوئے چلیں گے جب کہ ان کے پیر ادھر ادھر ڈگمگاتے ھوں گے، جہنم کی آگ ان میں سے کچھ کو اپنے اندر کھینچ لے گی اور کچھ کو چھوڑ دے گی“۔ ایک قول یہ ھے کہ پُل صراط بھی دنیا کے پُلوں کی طرح ھے جو شخص اس دنیا میں صراط مستقیم پر قائم رھااس کے لئے پُل صراط سے گزرنا آسان ھے اور وہ نجات پاجائے گا، لیکن جو شخص دنیا میں صراط مستقیم پر نھیں چلا او راپنے کو گناھوں او رمعصیتوں سے سنگین کرلیا تو ایسا شخص پہلے قدم پر ھی ڈگمگاجائے گا اور (جہنم میں گرپڑے گا)[185] حضرت امام صادق علیہ السلام پُل صراط کے معنی بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”ھو الطریق الی معرفة اللہ عز وجل ،وھما صراطان: صراط فی الدنیا ،و صراط فی آلاخرة، واما الصراط الذی فی الدنیا فھو الامام المفترض الطاعة ،من عرفہ فی الدنیا و اقتدی بھداہ ،مر علی الصراط الذی ھو جسر جھنم فی الاخرة ،ومن لم یعرفہ فی الدنیا زلت قدمہ عن الصراط فی آلاخرة ، فتردی فی نار جھنم“۔[186] ”یہ خدا کی معرفت کا راستہ ھے ، اور وہ دو صراط ھیں ، ایک صراط دنیا میں اور ایک آخرت میں، لیکن وہ صراط جو دنیا میں ھے وہ امام واجب الاطاعة ھے، جس نے دنیا میں اس کو پہچان لیا اور اس کی پیروی کی تو ایسا شخص اس پُل صراط سے گزرجائے گا جو جہنم کے اوپر واقع ھوگا، لیکن جو شخص اس دنیا میں (امام کو )نہ پہچانے تو اس کے قدم پُل صراط پر لڑکھڑا جائیں گے اور وہ جہنم میں گرجائے گا“۔ اسی مطلب پر آنحضرت (ص)کی یہ حدیث (بھی) دلالت کرتی ھے: ”اذ اکان یوم القیامة ،ونصب الصراط علی شفیر جھنم ،لم یجز الا من معہ کتاب علی بن ابی طالب“۔[187] ”جب روز قیامت جہنم کے اوپر پُل بچھایا جائے گا، تو اس سے کوئی نھیں گزر سکتا مگر جس کے پاس (حضرت)علی بن ابی طالب کا خط ھوگا“۔ قارئین کرام! ائمہ معصومین علیھم السلام کا راستہ وہ واضح راستہ ھے جس کو ان کی محبت میں صراط مستقیم اور اعتدال سے تعبیر کیا گیا ھے ، جس میں نہ افراط ھو او رنہ تفریط، نہ غلو ھو اور نہ ھی تقصیر، کیونکہ خداوندعالم نے ان کی محبت کو ھم پر واجب کیا ھے اور ان پر عقیدہ رکھنا ضروری ھے اور اسی حال میں ھم خداوندعالم سے ملاقات کریں۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں: ”الصراط المستقیم ھو صراطان :صراط فی الدنیا،وصراط فی آلاخرة،فاما الصراط المستقیم فی الدنیا ،فھو ما قصر عن الغلو،و ارتفع عن التقصیر،و استقام فلم یعدل الی شیء من الباطل،اما الصراط الآ خرة فھو طریق الموٴمنین الی الجنة ،الذی ھو مستقیم لا یعدلون عن الجنة الی النار،ولا الی غیر النار سوی الجنة“۔[188] ”صراط مستقیم دوصراط ھیں : ایک صراط دنیامیں اور ایک صراط آخرت میں، لیکن وہ صراط جو دنیا میں ھے اس میں نہ غلو ھو اور نہ تقصیر (اور کمی) ، انسان اسی پر قائم رھے اور باطل کی طرف نہ مڑے، لیکن آخرت کی صراط ، سے مراد جنت تک جانے کے لئے مومنین کا راستہ ھے، جو سیدھا ھے جو جنت سے جہنم کی طرف نھیں مڑتا اور نہ ھی جہنم سے کسی دوسری طرف مڑتا ھے“۔ پُل صراط کی گھاٹیاں : پل صراط سے گزرنا بہت سخت اور دشوار منزل ھے،کیونکہ اس میں بہت خطرناک گھاٹیاں ھوں گی جن سے ہر انسان کو گزرنا ھوگا،جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”واعلموا ان مجازکم علی الصراط ،ومزالق دحضہ ،و اھاویل زللہ، وتارات اھوالہ “۔[189] ”یاد رکھوا! تمہاری گذرگاہ صراط اور اس کی ہلاکت خیز لغزشیں ھیں، تمھیں ان لغزشتوں کے ھولناک مراحل اور طرح طرح کی خطرناک منازل سے گذرنا ھے“۔ شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ھیں: ” پُل صراط پر گھاٹیاںھوں گی جو اوامر و نواھی کے نام پر ھوں گی، جیسے نماز، زکوٰة، صلہٴ رحم، امانت اورولایت، لہٰذا جس شخص نے ان چیزوں میںسے کسی میں بھی تقصیر کی ھوگی تو وہ شخص اس گھاٹی میں گِھر جائے گا ، اور وہاں پر حق خداوندی کا مطالبہ کیا جائے گا، اگر وہاں سے ان اعمال صالحہ کے ذریعہ جن کو پہلے سے بھیجا گیا ھے یا رحمت خدا کے ذریعہ وہاں سے گزرکر دوسری گھاٹیتک پہنچ جائے گا، اسی طرح تمام گھاٹیوں سے گذرنا پڑے گا، جب ان تمام سے صحیح و سالم گذرجائے گا تو ”دار بقاء“ (بہشت) تک پہنچ جائے گا اور اس کوھمیشہ کے لئے زندگی مل جائے گی اور ایسی سعادت وخوشبختی نصیب ھوگی جس میں شقاوت کا ذرا بھی شائبہ نہ ھوگا، لیکن اگر وہ ان گھاٹیوں سے نہ گذرپایا تو اس کے قدم لڑکھڑا جائیں گے اور وہ نارِجہنم میں گرپڑے گا“۔[190] اسی طرح شیخ مفید علیہ الرحمہ پل صراط کی گھاٹیوںکے بارے میں فرماتے ھیں:عقبات (یعنی گھاٹیوں) سے مراد واجب اعمال ھیں جن کے بارے میں سوال ھوگا، اور ان کی تائید ضروری ھے، اور ان گھاٹیوںسے مراد پہاڑ نھیں ھیں جن سے گزرنا پڑے گا بلکہ یہ وھی اعمال ھےں جو گھاٹی کی طرح دکھائی دیں گے، لیکن ان کو یہ صفت دی گئی ھے چونکہ اگر انسان نے خدا کی اطاعت میں تقصیر کی ھو تو اس کو وہ گھاٹیوں کی طرح دکھائی دےں گی جن سے نکلنا اور گزرنا مشکل ھوتا ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے: <فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا اٴَدْرَاکَ ماَ الْعَقَبَةُ فَکُّ رَقَبَةٍ>[191] ”پھر وہ گھاٹی پر سے ھو کر(کیوں)نھیں گزرااور تم کو کیا معلوم کہ گھاٹی کیا ھے،کسی کی گردن کا (غلامی یا قرض سے) چھڑانا“۔ خدا وندعالم نے انسان پر واجب کردہ اعمال کو گھاٹی کا نام دیا ھے کیونکہ یہ بھی گھاٹیوں اور پہاڑوں سے شباہت رکھتے ھیں، اور انسان کو ان کے ادا کرنے میں اسی طرح زحمت ھوتی ھے جس طرح گھاٹیوں پر چڑھنے میں زحمت ھوتی ھے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”ان امامکم عقبة کوٴوداً ومنازل مھولة ،لابد لکم من الممربھا، والوقوف علیھا،فاما برحمة من اللہ نجوتم ،واما بھلکة لیس بعد ھا انجبار “۔ ”بندگان خدا! تمہارے سامنے گھاٹیاں ھیں جس طرح سخت وادی کی منزل ھوتی ھے، جن سے تمھیں گذرنا ھوگا، اور وہاں قیام کرنا ھوگا ، لیکن خدا کی رحمت سے وہاں سے نجات پاجاؤگے ، اوراگر انسان ان میں ہلاک ھوگیا (یعنی ان میں گھرگیا) تو اس کے بعد پھر نجات نھیں پاسکتے“۔ قارئین کرام! یہاں پر امام علیہ السلام کی گھاٹیوں سے مراد انسان کی قیامت کے روز سخت مشکلات ھیں۔[192] ----------------------------------------------- حوالاجات [94] لسان العرب /ابن منظور ۔قوم ۔۱۲:۵۰۶۔ [95] علل الشرائع ،شیخ صدوق:۴۷۰۔ [96] سورہٴ حج آیت۱۔۲۔ [97] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۷۰/خطبہ نمبر (۱۱۴)۔ [98] الکافی /الکلینی ۸:۱۴۳/۱۰۸،امالی شیخ طوسی ۺ :۳۶/۳۸،، سورہ معارج ،آیت۴۔ [99] سورہٴ زمر آیت۶۸۔ [100] سورہٴ یس آیت۴۹۔۵۰۔ [101] مجمع البیان / الطبر سی ۶:۷۶۶۔ [102] تفسیر قمی ۲:۲۵۷،بحار الانوار ۶:۳۲۴/۲۔ [103] سورہٴ قصص آیت۸۸۔ [104] نہج البلاغہ /صبحی الصالح :۲۷۶/خطبہ نمبر (۱۸۶) [105] سورہٴ ابراھیم آیت۴۸۔ [106] امالی شیخ طوسی ۺ :۲۸/۳۱۔ [107] سورہٴ یس آیت۵۱۔۵۳۔ [108] سورہٴ ق آیت۲۰۔۲۱۔ [109] الامالی ،شیخ صدوق:۴۹۷/۶۸۱۔ [110] سورہٴ معارج آیت۴۳۔۴۴۔ [111] سورہٴ کہف آیت۴۷۔ [112] سورہٴ تکویر آیت۵۔ [113] سورہٴ انعام آیت۳۸۔ [114] نہج البلاغہ ،ص۱۴۷/خطبہ نمبر (۱۰۲)۔ [115] اصول کافی ۳/الکلینی۸:۱۴۳/۱۱۰۔ [116] سورہٴ حاقة آیت۱۸۔ [117] سورہٴ طارق آیت۹۔ [118] سورہٴ غافر آیت۱۶۔ [119] سورہٴ مریم آیت۸۵۔ [120] سورہٴ عبس آیت۳۸۔۳۹۔ [121] سورہٴ حدید آیت۱۲۔ [122] سورہٴ مریم آیت۶۸۔ [123] سورہٴ فرقان آیت۱۷۔ [124] سورہٴ عبس آیت۴۰۔۴۱۔ [125] سورہٴ اسراء آیت۹۷۔ [126] سورہٴ زمر آیت۶۹ ۔ ۰ ۷ ۔ [127] سورہٴ حجر آیت۹۲۔۹۳۔ [128] سورہٴ اعراف آیت۶۔ [129] الا عتقادات ، شیخ صدوق :۷۴۔ [130] سورہٴ اسراء آیت۳۶۔ [131] تفسیر العیاشی ۲:۲۹۲/۷۵۔ [132] خصال،شیخ صدوق:۲۵۳/۱۲۵،الامالی / شیخ طوسی ۺ :۵۹۳/۱۲۳۷، معجم الکبیر / طبرانی ۱۱:۳ ۸ / ۷ ۷ ۱ ۱ ۱ ۔ داراحیاء التراث العربی ۔بیروت ،مجمع الزوائد /ھیثمی ج۱۰، ص۳۴۶، دار الکتاب العربی ۔بیروت۔ [133] سورہٴ ا حزاب آیت۳۳۔ [134] سورہٴ آل عمران آیت۶۱۔ [135] سورہٴ شوریٰ آیت۲۳۔ [136] سنن الترمذی ۵:۶۶۴/۳۷۸۹۔دار احیاء التراث العربی۔بیروت،حلیة الاولیاء/ابونعیم ۳: ۲۱۱ ۔ دار الکتاب العربی ۔بیروت ،تاریخ بغداد / الخطیب ۴:۱۵۹۔دار الکتب العلمیہ ۔بیروت ،اسد الغابہ / ابن الاثیر ۲:۱۳۔دار احیاء التراث العربی ۔بیروت ،المستدرک / الحاکم ۳:۱۵۰و صححہ ۔دارالمعرفة ۔ بیر وت۔ [137] سورہٴ صافات آیت۲۴۔ [138] عیون اخبار الرضا علیہ السلام ، شیخ صدوق ۱:۳۱۳/۸۶،معانی الا خبار ، شیخ صدوق :۶۷/ ۷ الصواعق المحرقہ / الیتمی :۱۴۹باب ۱۱فصل ۱قال :اخرجہ الیلمی ،الامالی /شیخ طوسی ۺ :۲۹۰/۵۶۴،تفسیر الحبری: ۳۱۲/۶۰موٴ سسہ آل البیت ۔قم ،المنا قب / ابن شہر آشوب ۲:۱۵۲دارالاضواء۔بیروت ،مناقب علی بن ابی طالب / الخوارزمی :۱۹۵،تذکرة الخواص /سبط ابن الجوزی:۱۷۔ [139] سورہٴ غاشیة آیت ۲۶۔ [140] تصحیح الاعتقاد / المفید :۱۱۳۔ [141] الا عتقادات ، شیخ صدوق:۷۵۔ [142] سورہٴ بقرة آیت ۲۰۲۔ [143] مجمع البیان / الطبرسی ۲:۵۳۱۔ [144] سورہٴ معارج آیت ۴۔ [145] مجمع البیان / الطبرسی ۱۰:۵۳۱۔ [146] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۵۲۸/ خطبہ نمبر (۳۰۰)۔ [147] اصول کافی / الکلینی ۳:۲۶۸/۴،التہذیب / شیخ طوسی ۺ ۲:۲۳۹/۹۴۶۔ [148] نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۱۲۳/ خطبہ نمبر (۹۰)۔ [149] سورہٴ یونس آیت۶۱۔ [150] سورہٴ مجادلة آیت ۷۔ [151] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۵۳۲/ الحکمة (۳۴۳)۔ [152] سورہٴ نساء آیت ۴۱۔ [153] سورہٴ نحل آیت ۸۹۔ [154] مجمع البیان ، علامہ طبرسی ۺ، ج ۶،ص۵۸۴۔ [155] سورہٴ بقرة آیت ۱۴۳۔ [156] سورہٴ آل عمران آیت ۱۱۰۔ [157] تفسیر العیاشی ۱:۶۳/۱۱۴۔ [158] اصول کافی / الکلینی ۱:۱۴۶/۲و ۱۴۷/۴،بصائر الدرجات / الصفار :۱۸۳/۱۱و ۱۰۲/۳۔موٴ سسہ الاعلمی۔ تہران ،تفسیر العیاشی ۱:۶۲/۱۱۰۔ [159] سورہٴ ق آیت ۱۷۔۱۸۔ [160] سورہٴ ق آیت ۲۰۔۲۱۔ [161] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۱۶/خطبہ نمبر (۸۵)۔ [162] سورہٴ نور آیت ۲۴۔ [163] تفسیر المیزان / الطباطبائی ۱۵:۹۴۔ [164] سورہٴ انفطار آیت ۱۰۔۱۲۔ [165] سورہٴ جاثیہ آیت ۲۸۔۲۹۔ [166] سورہٴ اسراء آیت ۱۳۔۱۴۔ [167] سورہٴ کہف آیت ۴۹۔ [168] سورہٴ زلزال آیت ۶۔ [169] سورہٴ آل عمران آیت ۳۰۔ [170] مجمع البیان / الطبرسی ۲:۷۳۲،تفسیر الرازی ۸:۱۶۔ [171] المیزان ،علامہ طباطبائی ۳:۱۵۶و ۱۳:۵۵۔ [172] سورہ ٴ انبیاء آیت۴۷۔ [173] سورہٴ کہف آیت ۱۰۵۔ [174] الکافی/ ۸:۲۹،الامالی ،شیخ صدوق:۵۹۵/۸۲۲۔موٴ سسہ البعثة ۔قم [175] رجوع فرمائیں:کشف المراد / العلامہ الحلی:۴۵۳،تفسیر المیزان / الطباطبائی ۸:۱۴،حق الیقین / عبداللہ شبر ۲:۱۰۹۔ [176] راجع:تصحیح الاعتقاد / المفید :۱۱۴، تفسیر المیزان / الطباطبائی ۸:۱۲۔۱۳۔ [177] سورہ اعراف آیت ۸۔ [178] الاحتجاج / الطبرسی:۳۵۱۔ [179] الاحتجاج / الطبرسی :۲۴۴۔ [180] اصول کافی/ الکلینی ۱:۳۴/۳۶،معانی الاخبار / الصدوق:۳۱/۱،الاعتقادات / الصدوق:۷۴۔ [181] سورہ ٴ فاتحہ آیت ۶۔ [182] لسان العرب ۔سرط ۔۷:۳۱۳۔۳۱۴۔ [183] کشف المراد / العلامہ الحلی :۴۵۳۔ [184] الامالی ،شیخ صدوق:۲۴۲/۲۷۵،تفسیر القمی ۱:۲۹۔ [185] احیا ء علوم الدین / الغزالی ۵:۳۶۳۔ [186] معانی الاخبار ی،شیخ صدوق:۳۲/۱۔ [187] الصواعق المحرقہ /ابن حجر :۱۴۹،مناقب علی ابن ابی طالب / ابن المغازلی :۲۴۲/ ۲۸۹،فرائد السمطین/ الجوینی۱:۲۸۹/۲۲۸،الامالی / شیخ طوسی ۺ -۲۸۹/۵۶۴۔ [188] معانی الاخبار ،شیخ صدوق:۳۳/۴۔ [189] نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر (۸۳) ص۱۴۱۔ [190] الا عتقادات ،شیخ صدوق:۷۱۔۷۲۔ [191] سورہٴ بلد آیت ۱۱۔۱۲۔ [192] تصحیح الاعتقاد ،شیخ مفید :۱۱۲۔۱۱۳۔ منبع:shiaarticles.com