معاد اوراس کی حقیقت

حقیقت ِمعاد تمام ھی مسلمان قیامت کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں، جن میں بعض جید فلاسفہ بھی اسی عقیدہ کے قائل ھیں، البتہ معاد کی کیفیت میں دو طریقہ پر اختلاف نظر رکھتے ھیں: جسمانی معاد جسمانی معاد سے مراد یہ ھے کہ خداوندعالم روز قیامت انسانوں کو اسی جسم کے ساتھ محشور کرے گا، قیامت کے یھی معنی اصول دین کی ایک عظیم اصل ھے جس پر عقیدہ اور ایمان رکھنا واجب اور ضروری ھے کیونکہ اس کے ارکان ثابت ھیں، اور اس کا انکار کرنے والا تمام مسلمانوں کے نزدیک بالاجماع کافر ھے۔ قیامت کے وجود پردلیل یہ ھے کہ یہ ممکن ھے، اور صادق الوعد نے اس کے ثبوت کی خبر دی ھے، لہٰذا قیامت پر یقین رکھنا واجب ھے جس کی طرف سب کی بازگشت ھے۔ لیکن اس کے ممکن ھونے کی دلیل تو قیامت کا ممکن ھوناھے ، گزشتہ فصل میں ھم اس سلسلے میں بیان کرچکے ھیں، اورقیامت کے ثبوت کے لئے اخبار اور احادیث تمام انبیاء علیھم السلام نے بیان کی ھیں، جیسا کہ ھمارے نبی صادق الامین حضرت محمد مصطفی (ص)کے دین میں قیامت کے بارے میں اخبار اور حدیث بیان ھوئی ھیں، جیسا کہ قرآن کریم نے اس بات کی وضاحت کی ھے، اور مخالفین کو بہت سی صریح آیات میں واضح الفاظ کے ساتھ جواب دیا ھے، جن میں اس بات کی تاکید کی گئی ھے کہ جب لوگوں کوقبروں سے نکالا جائے گا تو وہ تیزی سے حساب و کتاب کے لئے جائیںگے، چاھے وہ افراد نیک ھوں یا برے ،ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ وَتَرَی الْمُجْرِمِینَ یَوْمَئِذٍ مُقَرَّنِینَ فِی الْاٴَصْفَادِ سَرَابِیلُہُمْ مِنْ قَطِرَانٍ وَتَغْشَی وُجُوہَہُمْ النَّارُ لِیَجْزِیَ اللهُ کُلَّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ> [89] ”اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ھوجائے گی اور آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ھوں گے اور تم اس دن مجرمین کو دیکھو گے کہ کس طرح زنجیروں میں جکڑے ھوئے ھیں ان کے لباس قطران کے ھوں گے اور ان کے چہروں کو آگ ہر طرف سے ڈھانکے ھوئے ھوگی تا کہ خدا ہر نفس کو اس کے کئے کا بدلہ دیدے کہ وہ بہت جلد حساب کرنے والا ھے“۔ اسی طرح پیغمبر اکرم (ص)اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے مروی احادیث متواترہ میں جسمانی معاد کے ثبوت پر واضح طور پر بیان کیا گیا ھے۔ آیات قرآن کریم: ۱۔< اٴَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہُ بَلَی قَادِرِینَ عَلَی اٴَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہُ۔> [90] ”کیا انسان یہ خیال کرتا ھے کہ ھم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکےں گے یقینا ھم اس بات پر قادر ھےں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں“۔ < وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ> [91] ”اور ھمارے لئے مثل بیان کرتا ھے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ھے کہتا ھے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتاھے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ھے وھی زندہ بھی کرے گااو روہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ھے“۔ ۳۔وہ آیات جو مردوں کو قبر سے نکالے جانے پر دلالت کرتی ھیں، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَإِذَا ہُمْ مِنْ الْاٴَجْدَاثِ إِلَی رَبِّہِمْ یَنسِلُونَ قَالُوا یَاوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا ہُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ فَالْیَوْمَ لاَتُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَلاَتُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ > [92] ”اور پھر جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ھوںگے۔ کھےں گے کہ آخریہ ھمیں ھماری خواب گاہ سے کس نے اٹھادیا ھے بیشک یھی وہ چیز ھے جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا اور اس کے رسولوں نے سچ کھاتھا۔قیامت تو صرف ایک چنگھاڑ ھے اس کے بعد سب ھماری بارگاہ میں حاضر کردیئے جائیں گے۔پھر آج کے دن کسی نفس پر کسی طرح کا ظلم نھیں کیا جائے گااور تم کو صرف ویسا ھی بدلہ دیا جائے گا جیسے اعمال تم کررھے تھے“۔ نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے: < مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اٴُخْرَی> [93] ”اسی زمین سے ھم نے تمھیں پیدا کیا ھے اور اسی میں پلٹا کر لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے“۔ ۴۔جو آیات اس چیز پر دلالت کرتی ھیں کہ انسان اپنے تمام اعضاء و جوارح کے ساتھ حساب کے لئے حاضر ھوگا اور انسان کے اعضاء و جوارح اس کے اعمال کی گواھی دیں گے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے: <الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اٴَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اٴَیْدِیہِمْ وَتَشْہَدُ اٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ> [94] ”آج ھم ان کے منھ پر مہر لگادیںگے اور ان کے ہاتھ بولےں گے اور ان کے پاؤں گواھی دیںگے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے“۔ نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے: < حَتَّی إِذَا مَا جَاءُ وہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاٴَبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ > [95] ”یہاں تک کہ جب سب جہنم کے پاس آئےں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور جلد سب ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلاف گواھی دیں گے“۔ ۵۔ وہ آیات جن میں جسمانی معاد کی واقعی مثال پیش کی گئی ھے، [96]جیسا کہ جناب عزیر، بنی اسرائیل کے مقتول ، اصحاب کہف اور جناب ابراھیم کے لئے پرندوں کا زندہ ھونا، جیسا کہ ھم نے قیامت کے دلائل میں بیان کیا ھے: ۶۔ وہ آیات شریفہ جو جنت میں لذت نعمت پر دلالت کرتی ھیں کیونکہ جسمانی لذت اعضاء و جوارح کے بغیر حاصل نھیں ھوتی، اسی طرح وہ آیات جو دوزخیوں کے عذاب اور درد و غم پر دلالت کرتی ھیں جو ان کے اعضاء و جوارح سے متعلق ھے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے: <عَلَی سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ مُتَّکِئِینَ عَلَیْہَا مُتَقَابِلِینَ یَطُوفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ بِاٴَکْوَابٍ وَاٴَبَارِیقَ وَکَاٴْسٍ مِنْ مَعِینٍ لاَیُصَدَّعُونَ عَنْہَا وَلاَیُنزِفُونَ وَفَاکِہَةٍ مِمَّا یَتَخَیَّرُونَ وَلَحْمِ طَیْرٍ مِمَّا یَشْتَہُونَ وَحُورٌ عِینٌ کَاٴَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُونِ> [97] ”موتی اور یاقوت سے جوڑے ھوئے تختو ںپر ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ھوںگے ان کے گرد ھمیشہ نوجوان رہنے والے بچے گردش کررھے ھوںگے۔ پیالے اور ٹونٹی دار کنڑ اور شراب کے جام لئے ھوئے جس سے نہ درد سر پیدا ھوگا اورنہ ھوش و ھواس گم ھوںگے۔اور ان کی پسند کے میوے لئے ھوںگے۔‘اور ان پرندوں کا گوشت جس کی انھیں خواہش ھوگی۔ اور کشادہ چشم حوریں ھوںگی جیسے سربستہ موتی“۔ اسی طرح خداوندعالم اہل دوزخ کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے: < إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیہِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُودًا غَیْرَہَا لِیَذُوقُوا الْعَذَابَ> [98] ”پس آپ کے پروردگا رکی قسم کہ یہ ہر گز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کے سامنے سراپا تسلیم ھوجائیں“۔ احادیث معصومین علیھم السلام اسی طرح جسمانی معاد کے سلسلے میں بھی بہت سی احادیث موجود ھیں، ان میں سے حضرت علی علیہ السلام ”غرّہ“ نامی خطبہ میں ارشاد فرماتے ھیں: ”حتی اذا تصرمت الامور ،و تقضت الدھور ،و ازف النشور، اخرجھم من ضرائح القبور، و اوکار الطیور،واوجرة السباع، ومطارح المھالک ،سراعا الی امرہ ،مھطعین الی معادہ، رعیلاً صموتاً،قیاماً صفوفاً“۔ [99] ”یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ھوجائیں گے، اور تمام زمانے بیت جائیں گے اور قیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انھیں قبروں کے گوشوں، پرندوں کے گھونسلوں، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا، اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ھوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ھوئے ،گروہ درگروہ، خاموش، صف بستہ اور ایستادہ۔ اسی طرح علی بن ابراھیم اور شیخ صدوق نے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اذا اراد اللهان یبعث الخلق ،امطر السماء علی الارض اربعین صباحا ،فاجتمعت الاوصال،ونبتت اللحوم“۔ [100] ”جب خداوندعالم مخلوقات کو مبعوث کرنا چاھے گا تو زمین پر چالیس روز تک بارش برسائے گا ، پس تمام چیزیں جمع ھوجائیں گی اور گوشت نمو پیدا کرے گا(یعنی مردوں کے بکھرے ھوئے اعضاء و جوارح اس کے بدن میں جمع ھوجائیں گے)۔ جسمانی معاد کی حقیقت جسمانی معاد کے قائلین حضرات تمام اسلامی فقہاء کرام، علمائے کلام، اہل حدیث اور اہل عرفان ھیں،اور تمام ھی اس بات کے قائل ھیں کہ انسان روز قیامت اپنے اسی بدن کے ساتھ حاضر کیا جائے گا، جیسا کہ خداوندعالم نے بھی قرآن مجید میں بیان کیا ھے، لیکن علماء کے درمیان روح کے سلسلے میں اختلاف ھے بعض علماء کہتے ھیں کہ روح ایک جسمانی شئے ھے جو بدن میں سرایت کئے ھوئے ھے، جیسے پھول میں پانی یا کوئلہ میں آگ، اس بنا پر ان کے نزدیک معاد بدن او رروح کے ساتھ جسمانی ھوگی، ایسا نھیں ھے کہ صرف ان کے مردہ جسم بغیر روح کے حاضر کئے جائیںگے، بلکہ ان کو زندہ کیا جائے گا یہ لوگ روح کو جسم کا ایک حصہ سمجھتے ھیں۔ لیکن بعض علماء روح کو جسم سے مجرد مانتے ھیں، پس ان کے نزدیک معاد روح کے لئے بھی ھوگی اور جسم کے لئے بھی، کیونکہ خداوندعالم روز قیامت ان کی روحوں کو ان کے جسموں میں پلٹادے گا، چنانچہ یہ عقیدہ رکھنے والوں میں سے جید علماء عرفان اور کلام ھیں، جیسے غزالی، کعبی، حلیمی، راغب اصفہانی، اسی طرح شیعہ علماء بھی اسی عقیدہ کے قائل ھیں جیسے شیخ مفیدۺ، ابو جعفر طوسیۺ،سید مرتضیٰۺ، محقق طوسیۺ، علامہ حلّیۺ،ان سب علماء کا عقیدہ ھے کہ روح انسانی مجرد ھے اور روز قیامت انسان کے بدن میں واپس کردی جائے گی۔[101] قارئین کرام! مستفیض احادیث سے پتہ چلتا ھے کہ روح، بدن کے علاوہ ایک لطیف اور نورانی جوہر ھے اور یہ(مومن) انسان کی روح، انسان کے مرنے کے بعد خوشحال باقی رہتی ھے، اور خداکی طرف سے رزق پاتی ھے، یا (غیر مومن) انسان کی روح عذاب اور درد و غم میں گرفتار باقی رہتی ھے [102]جیسا کہ ھم نے پہلی بحث میں بہت سی آیات و احادیث بیان کی ھیں، ھم یہاں پر حضرت امام صادق علیہ السلام کی صرف ایک حدیث کے بیان پر اکتفاء کرتے ھیں، جو حقیقت معاد کی مکمل طور پر وضاحت کرتی ھے: ایک زندیق (ملحد) نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے قیامت کا انکار کرتے ھوئے کہا: کیسے قیامت کا تصور کیا جاسکتا ھے جبکہ انسان کا بدن مٹی ھوجاتاھے اور اس کے اعضاء و جوارح ختم ھوجاتے ھیں، مثلاً ایک عضو کسی ملک میں کسی درندہ نے کھالیا ھے، اور بقیہ اعضاء دیگر حیوانات نے چیر پھاڑ ڈالے ھیں، اور کوئی عضو مٹی بن کر دیوار سے لگادیا گیا ھے؟اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: ”إنّ الروح مقیمة فی مکانہا، روح المحسن فی ضیاء و فُسحة و روح المسیء فی ضیق و ظلمة، والبدن یصیر تراباً کمامنہ خلق، و ما تقذف بہ السباع و الھوام من اٴجوافھامما اٴکلتہ و مزقتہ، کلّ ذلک فی التراب محفوظ عند من لا یعزب عنہ مثقال ذرة فی ظلمات الارض، ویعلم عدد الاٴشیاء و وزنہا۔۔۔ فإذا کان حین البعث مطرت الاٴرض مطر النشور، فتربو الاٴرض، ثمّ تُمخَضوا مخض السقاء، فیصیر تراب البشر کمصیر الذہب من التراب إذا غُسِل بالماء، و الزبد من اللبن إذا مُخِض، فیجتمع تراب کل قالب إلی قالبہ، فینتقل بإذن الله القادر إلی حیث الروح، فتعود الصور بإذن المصوّر کھیئتھاو تلج الروح فیہا، فإذا قد استویٰ لاینکر من نفسہ شیئاً“۔ [103] ”بے شک روح اپنے (مخصوص) مقام پر رہتی ھے، مرد محسن کی روح وسعت اور نور میں رہتی ھے، جبکہ بدکار شخص کی روح تاریکی اور تنگی میں رہتی ھے، اور انسان کا بدن مٹی بن جاتا ھے جیسا کہ اس کی خلقت مٹی سے ھوئی تھی، اور جو اعضاء بدن درندوں اور حیوانوں کے حوالہٴ شکم ھوگئے ھیںیہ تمام مٹی میں اپنے اس پروردگار کے پاس محفوظ رہتے ھیں جس زمین کی تاریکی میں بھی کوئی ذرہ پوشیدہ نھیں ھے، وہ خدا تمام چیزوں کی تعداد حتی کے اس کے وزن کو بھی جانتا ھے۔۔۔۔ جب خداوندعالم معاد کا ارادہ فرمائے گا تو نشور(یعنی دوبارہ زندگی) کی بارش برسائے گا،جس سے زمین پھول جائے گی اور مکھن کی طرح سب چیزوں کو باہر نکال دے گی ، انسان کی مٹی ایسی ھوجائے گی جس سے مٹی سے سونے کو دھوکر صاف کردیا جائے اور جس طرح دودھ بلوکر گھی الگ کردیا جاتا ھے، اس وقت تمام چیزوں کی مٹی ان کے بدن میں پہنچ جائے گی، اس وقت خداوندعالم کے حکم سے وہ روح کی طرف بڑھےں گے، دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور ان میں روح واپس آجائے گی، اور جب حساب و کتاب ھوگا تو کوئی اپنے نفس کا انکار نھیں کرپائے گا۔ دوسرا قول: معادِ روحانی اکثر فلاسفہ کایہ عقیدہ ھے کہ معاد روحانی ھے، کیونکہ انھوں نے اس بات کو ممکن نھیں مانا ھے انسان کا بدن ختم ھونے کے بعد دوبارہ اسی حالت میں پلٹ جائے، چنانچہ کہتے ھیں کہ بے شک بدن اپنی صورت اور اعراض کے ساتھ معدوم (نابود) ھوجاتا ھے اور روح و جسم کا رابطہ ختم ھوجاتا ھے، لہٰذا دوبارہ وھی بدن نھیں لوٹ سکتا، کیونکہ ”المعدوم لایعاد“ (معدوم ھونے والی شئے دوبارہ نھیں لوٹ سکتی)، لیکن روح انسانی غیر قابل فنا جوہر ھے [104] اسی وجہ سے ان لوگوں نے معاد کو صرف روحانی قرار دیا ھے، کیونکہ اس کو فنا نھیں ھوتی۔ لیکن جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی اس سے ھم آہنگ نھیں ھے، کیونکہ قرآن مجید اور سنت نبوی (ص)میں اس بات کی وضاحت ھوئی ھے کہ انسان روز قیامت اپنے اسی بدن کے ساتھ محشور کیا جائے گا، لیکن بعض وہ مسلمان فلاسفہ جو معاد روحانی کے قائل ھیں انھوں نے ثواب و عقاب کو بھی روحانی لذت یاروحانی اور عقلی عذاب مراد لیا ھے، انھوں نے دلائل شرعیہ (قرآن و احادیث) کے ظواہر کی تاویل و توجیہ کی ھے تاکہ ان کے عقلی قاعدہ سے مطابقت کرلے، لہٰذا انھوں نے ان قرآنی آیات کی بہت سی تاویل کرڈالی جو جنت یا دوزخ میں محسوس ثواب و عقاب پر دلالت کرتی ھیں،انھوں نے عذاب و ثواب کو روحانی یا عقلی عذاب و ثواب کے لئے حسّی مثال کے عنوان سے مانا ھے، کیونکہ عوام الناس کا ذہن امور حسی کو درک کرتا ھے عقلی اور فلسفی امور کو سمجھنا مشکل ھوتا ھے، تاکہ عوام الناس محسوس عذاب و ثواب سمجھ کر خداوندعالم کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔ شیخ الرئیس ابن سینا کے سلسلے میں مشھور ھے کہ وہ معاد جسمانی کے منکر تھے اور روحانی معاد کے قائل تھے [105] یہاں تک غزالی نے اپنی کتاب ”تہافت الفلاسفہ“ میں ابن سینااور بعض دوسرے فلسفی علماء کے کفر کا فتویٰ دیا کیونکہ ان لوگوں نے معاد جسمانی کے انکار کیا ھے [106] لیکن حق اور انصاف یہ ھے کہ ابن سینا نے اپنی معروف کتابوں میں معاد جسمانی کا صاف طور پر انکار نھیں کیا ھے، بلکہ ھم دیکھتے ھیں ان کی کتاب ”الشفاء“ جو کہ ان کی سب بڑی کتاب ھے اس میں جسمانی معاد کو قبول کیا ھے اور اسی قول کو حق جانا ھے، جس میں کسی طرح کا کوئی شک نھیں ھے۔ محقق دوانی ”عقائد العضدیہ“ کی شرح میں تحریر کرتے ھیں: شیخ الرئیس ابو علی نے اپنی کتاب ”معاد“ میں جسمانی معاد کا انکار کیا ھے اور اس میں مبالغہ سے کام لیا ھے اور اپنے زعم میں جسمادنی معاد کی نفی پر دلیل قائم کی ھے، چنانچہ وہ کتاب ”النجاة و الشفاء“ میں تحریر کرتے ھیں : معلوم ھونا چاہئے کہ معاد سے وھی مراد ھے جس کو شریعت میں بیان کیا گیا ھے، اور معاد کے اثبات کے لئے سوائے آیات قرآنی کے کوئی دوسرا راستہ نھیں ھے، لیکن روز قیامت ثواب و عذاب کیسے ھوگا اس کا معلوم ھونا ضروری نھیں ھے ، شریعت اسلام میں ھمارے سید و سردار حضرت محمد مصطفی (ص)نے تفصیل بیان کی ھے جو بدن سے مناسب ھے، اور اسی کو عقل اور قیاس برہانی سے درک کیا جاتا ھے، اور اسی کی تصدیق رسول اکرم نے فرمائی ھے، اور یھی سعادت و شقاوت انسانی نفس کے لئے ثابت ھیں، اگرچہ اس وقت ھماری عقلیں اس کے تصور سے قاصر ھیں ۔ [107 استاد فتح اللہ خلیفة نے اپنے درس کے دوران ابن سینا کے لئے ثابت کیا ھے کہ وہ معاد جسمانی کے قائل ھیں اور اس میں کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نھیں ھے۔ [108] جس طرح سے بعض لوگوں کا گمان ھے کہ غزالی بھی معاد جسمانی کے منکر ھیں جب کہ حق انصاف یہ ھے کہ وہ جسمانی معاد کے قائل تھے بہر حال شارح مقاصد کہتے ھیں:امام غزالی نے روحانی معاد کی تحقیق اور روح سے متعلق ثواب و عقاب کی قسموں کے بارے میں ایک حد تک مبالغہ سے کام لیا ھے، جس کی وجہ سے بہت سارے اعتراض و اوہام نے جنم لے لیا ھے یہاں تک کہ بعض عوام الناس کی زبانوں سے امام غزالی کی نسبت یہ بیان سنا گیا کہ آپ جسمانی معاد کے منکر تھے، حالانکہ امام غزالی نے اپنی کتاب”الاحیاء“ اور دیگر کتابوں میں اس بات کی تصریح کردی ھے کہ جسمانی معاد ھے اور اس کا منکر کافر ھے اور بعض کتابوں میں اس بات کی تشریح اس بنا پر نھیں کی ھے کہ وہ جسمانی معاد کو ایک ظاہر و روشن مسئلہ سمجھتے تھے جس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نھیں ھے۔ [109] جسمانی معاد کا انکار تمام انبیاء و مرسلین علیھم السلام کی قوم نے جب عقیدہٴ معاد کاانکار کیا تو سبھی نے اپنے قوم کو سمجھایا ھے، اور قیامت کے سلسلے میں دلائل قائم کئے ھیں، اور اس سلسلے میں بہت سے مصائب اور ناروا تھمتیں برداشت کی ھیں، ارشاد الٰھی ھوتا ھے: <وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلَی رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ اٴَفْتَرَی عَلَی اللهِ کَذِبًااٴَمْ بِہِ جِنَّةٌ۔> [110] ”اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کا کہنا ھے کہ ھم تمھیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو یہ خبر دیتا ھے کہ جب تم مرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ھوجاؤ گے تو تمھیں نئی خلقت کے بھیس میں لایا جائے گا “۔ جبکہ معاد کے سلسلے میں وحی اور عقل کے ذریعہ واضح طور پر دلائل بیان کئے گئے ھیں، یہاں تک کہ خداوندعالم نے معاد کے سلسلہ <لاریب فیہ> کھاھے(یعنی اس میں کوئی شک نھیں ھے) جیسا کہ خداوند عالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کے لئے پرندوں کو زندہ کیا، مقتول بنی اسرائیل کو دوبارہ زندہ کیا، جناب عُزیر اور اصحاب کہف کو زندہ کیا وغیرہ وغیرہ یہ تمام زندہ مثالیں ھیں تاکہ انسان یہ بات ذہن نشین کرلے کہ قدرت خدا اس بات پر قادر ھے کہ وہ انسان کو دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ھے، پس معلوم یہ ھوا جو لوگ معاد کا انکار کرتے ھیں ان کی شدت کے ساتھ مذمت کرتی ھے۔ گزشتہ اقوام معاد کو انکار کیا کرتے تھے لیکن ان کے پاس ایسی کوئی دلیل نھیں تھی جو حقیقت اور برہان کے مطابق ھو، بلکہ ان کا انکار معاد کرنا صرف وھم و گمان کی بنا پر ھوتا تھا، جبکہ وھم و گمان ،انسان کو حق تک نھیں پہنچاسکتا، ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < وَقَالُوا مَا ہِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا إِلاَّ الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلاَّ یَظُنُّونَ> [111] ”اور یہ لوگ کہتے ھیں کہ یہ صرف زندگانی دنیا ھے اسی میں مرتے ھیں اور جیتے ھیں اور زمانہ ھی ھم کو ہلاک کردیتا ھے او رانھیں اس بات کا کوئی علم نھیں ھے کہ یہ صرف ان کے خیالات ھےں اور بس“۔ گزشتہ اقوام صرف وجود معاد کو بعید سمجھتے تھے جس کی کوئی علمی ارزش نھیں ھے، بلکہ یہ توان کی نافھمی پر خود دلیل ھے کہ وہ حق و حقیقت تک پہنچنے کے لئے دلیل اور برہان کو سمجھنے سے قاصر تھے اور خداوندعالم کی موجود نعمتوں اور ملک عظیم کو نھیں سمجھ پاتے تھے۔ گزشتہ اقوام کے نردیک قیامت کے انکار کی اصل وجہ دنیاوی مقاصد اور شھوت پرستی وغیرہ جیسے بُرے مقاصد میں رکاوٹ تھی (کیونکہ قیامت کا عقیدہ دنیاوی مقاصد اور شھوت پرستی میں روکاٹ بنتا تھا)تاکہ ایمان و تقویٰ کے قید سے آزاد رہکر ہر برائی اور شھوت میں غرق رھیں،کیونکہ اگر ایمان قبول کرتے ھیں تو قیامت پر بھی عقیدہ رکھنا لازم تھا لہٰذا ان عقائد کو چھوڑ کر ہر برائی اور ظلم و جور کو اپنے لئے روا جانتے تھے،: < بَلْ یُرِیدُ الْإِنسَانُ لِیَفْجُرَ اٴَمَامَہُ یَسْاٴَلُ اٴَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ> [112] ”بلکہ انسان یہ چاہتا ھے کہ اپنے سامنے برائی کرتا چلا جائے۔وہ یہ پوچھتا ھے کہ یہ قیامت کب آنے والی ھے“۔ اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ وہ ظالم و جابر جنھوں نے دنیا میں ظلم و جور اور برائیاں پھیلائیں وہ لوگ اپنی ھوا و ھوس اور شھوت پرستی میں غرق رھے، لہٰذا انھوں نے روز قیامت کا اقرار نھیں کیا یھی نھیں بلکہ اپنی برتری اور فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قیامت کو بعید از عقل جانا، جیسا کہ جناب ھود علیہ السلام کی قوم کے بارے خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے: < وَقَالَ الْمَلَاٴُمِنْ قَوْمِہِ الَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْاٴَخِرَةِ وَاٴَتْرَفْنَاہُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا مَا ہَذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یَاٴْکُلُ مِمَّا تَاٴْکُلُونَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ وَلَئِنْ اٴَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَکُمْ إِنَّکُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ اٴَیَعِدُکُمْ اٴَنَّکُمْ إِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا اٴَنَّکُمْ مُخْرَجُونَ ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ إِنْ ہِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ إِنْ ہُوَ إِلاَّ رَجُلٌ افْتَرَی عَلَی اللهِ کَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَہُ بِمُؤْمِنِینَ > [113] ”ان کی قوم کے ان رؤساء نے جنھوں نے کفر اختیار کیا تھا اور آخرت کی ملاقات کا انکار کردیا تھا اور ھم نے انھیں زندگانی دنیا میں عیش وعشرت کا سامان دےدیا تھا وہ کہنے لگے کہ یہ تو تمہارا ھی جیسا ایک بشر ھے جو تم کھاتے ھو وھی کھاتا ھے اور جو تم پیتے ھو وھی پیتا بھی ھے۔ اور اگر تم نے اپنے ھی جیسے بشر کی اطاعت کرلی تو یقینا خسارہ اٹھانے والو ںمیں سے ھوجاؤ گے۔ کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ھے کہ جب تم مرجاؤ گے او رخاک اور ہڈی ھوجاؤگے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤ گے حیف صد حیف تم سے کس با ت کا وعدہ کیا جارھاھے۔ یہ تو صرف ایک زندگانی دنیا ھے جہاں ھم مرےں گے او رجئیں گے اور دوبارہ زندہ ھونے والے نھیں ھےں۔ یہ ایک ایسا آدمی ھے جو خدا پر بہتان باندھتا ھے اور ھم اس پر ایمان لانے والے نھیں ھیں“۔ خداوندعالم نے اس بات کی تاکید کی ھے کہ یہ لوگ مستکبرھیں حق کے سامنے اپنا سر تسلیم کرنے والے نھیں ھیں اور نہ ھی دلیل و برہان کو قبول کرتے ھیں: < فَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُہُمْ مُنکِرَةٌ وَہُمْ مُسْتَکْبِرُونَ> [114] ”تو جو لوگ آخرت پر ایمان نھیں رکھتے ان کے دل ھی (اس وضع کے ھیں کہ ہر بات کا) انکار کرتے ھیں اوروہ برے مغرور ھیں “۔ اسی طرح حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفی (ص)کے ھم عصر جاہلوں نے آپ کی نبوت کا انکار کیا کیونکہ وہ بھی قیامت کے وجود کو اپنے وھم و گمان کی بنا پر بعید از عقل جانتے تھے، اور وہ کسی بھی دلیل اور برہان کو نھیں مانتے تھے: < بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْاٴَوَّلُونَ قَالُوا إِِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا اٴَء نَّا لَمَبْعُوثُونَ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا ہَذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ ہَذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ> [115] ”بلکہ جو اگلے لوگ کہتے آئے ویسی ھی باتیں یہ بھی کہنے لگے ‘کہنے لگے کہ جب ھم مر جائیں گے اور (مر کر)مٹی (کا ڈھیر) اور ہڈیاں ھو جائیں گے تو کیا پھر دوبارہ (قبروں سے زندہ کرکے نکالے جائیں گے اس کا وعدہ تو ھم سے اور ھم سے پہلے ھمارے باپ داداوٴںسے بھی کیا جاچکا ھے یہ تو بس اگلے لوگوں کے ڈھکوسلے ھیں “۔ اسی وجہ سے قرآن مجید کی آیات نازل ھوئیں تاکہ سختی کے ساتھ ان کی تردید کرےںاور تین وجوہات سے ان کے شبہات کا جواب دیں: پہلی جہت: عقل و وجدان کے مطابق دلائل و براھین قائم کئے، اور قیامت کے ضروری ھونے اور خداوندعالم کے وعدہ کے محقق ھونے کو ثابت کیا، تاکہ انکار کرنے والے کے ذہن سے قیامت کے بعید ھونے والے شبہہ کو دور کردیں،اور ان کے لئے بہترین دلائل بیان کئے، ان براھین میں برہان مماثلہ، برہان قدرت، برہان حکمت اور برہان عدالت ھے جنھیں ھم ”دلائل معاد“ میں مع مثال بیان کرچکے ھیں۔ دوسری جہت: انسانی حقیقت کو بیان کیاکیونکہ جاہلیت کے مشرکین،معاد جسمانی کا انکار کرتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم نے ان کے انکار کو نقل کیا ھے: <یَقُولُونَ اٴَءِ نَّا لَمَرْدُودُونَ فِی الْحَافِرَةِ اٴَ ءِ ذَا کُنَّا عِظَاماً نَخِرَةً قَالُوا تِلْکَ اِٴذاً کَرَّةٌ خَاسِرَةٌ> [116] ”کفار کہتے ھیں کہ کیا ھم الٹے پاوٴں(زندگی کی طرف)پھر لوٹیں گے ‘کیا جب ھم کھوکھلی ہڈیاں ھو جائیں گے ۔کہتے ھیں کہ یہ لوٹنا تو بڑ ا نقصان دہ ھے “ < وَقَالُوا اٴَءِ ذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَء نَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا> [117] ”اور یہ لو گ کہتے ھیں کہ جب ھم (مر نے کے بعد سڑ گل کر) ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ (ھو جائیں گے)تو کیا از سر نو پیدا کر کے اٹھا ئے جائیں گے“۔ < وَقَالُوا اٴَءِ ذَا ضَلَلْنَا فِی الْاٴَرْضِ اٴَءِ نَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ> [118] ”اور یہ لو گ کہتے ھیں کہ جب ھم زمین میں ناپید ھو جائیں گے تو کیا ھم پھر نیا جنم لیں گے “۔ ان کے جواب میں خداوندعالم نے حقیقت انسان کو بیان کیا اور مثال دی کہ ملک الموت تمہاری روح کو قبض کرلے گا: < قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ > [119] ”(اے رسول ) کہہ دو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ھے وھی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پرور دگار کی طرف لوٹا ئے جاوٴگے“۔ یعنی تم لوگ موت کے ذریعہ معدوم (نابود) نھیں ھووٴگے اور نہ ھی زمین میں مٹی بن کر ختم ھوجاؤگے کیونکہ ملک الموت تمہاری روح کو قبض کرے گا جو اس کے قبضہ میں رھے گی اور ناپید نھیں ھوگی، اور پھر تمھیں خدا کی بارگاہ میں محشور کیا جائے گا تاکہ تمہارا حساب و کتاب ھوسکے تو تمہاری روحوں کو تمہارے بدن میں لوٹایا دیا جائے گااور تم ”تم“ بن جاؤگے [120] تیسری جہت: روز قیامت کے انکار پر منکرین کو شدید عذاب سے ڈرایا گیا ھے، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ اٴَءِ ذَا کُنَّا تُرَابًا اٴَءِ نَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّہِمْ وَاٴُوْلَئِکَ الْاٴَغْلَالُ فِی اٴَعْنَاقِہِمْ وَاٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ> [121] ”اور اگر تمھیں (اس بات پر ) تعجب ھوتا ھے تو ان کفار کا یہ قول تعجب کی بات ھے کہ جب ھم (سڑگل ) کر مٹی ھوجائیں گے تو کیا ھم (پھر دوبارہ) ایک نئے جنم میں آئیں گے ۔یہ وھی لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پرو ر دگار کے ساتھ کفر کیا ۔اور یھی لوگ ھیں جن کی گردنوں میں (قیامت کے دن) طوق پڑے ھوں گے اور یھی لوگ جہنمی ھیں کہ یہ اس میں ھمیشہ رھیں گے“۔ نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے: < وَاٴَنَّ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ اٴَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا> [122] ”اور یہ بھی کہ بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نھیں رکھتے ھیں ان کے لئے ھم نے بہت بڑ ا درد ناک عذاب تیا ر کر رکھا ھے ایضاً: <وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِینَ الَّذِینَ یُکَذِّبُونَ بِیَوْمِ الدِّینَ وَمَا یُکَذِّبُ بِہِ اِٴلاَّکُلُّ مُعْتِدٍ اٴَثِیمٍ> [123] ”اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ھے جو لوگ روز جزا کو جھٹلاتے ھیں، اور اس کا انکار صرف وھی کرتے ھیں جوحد سے گزرجانے والے گناہگار ھیں “۔ جسمانی معاد پر کئے گئے اعتراضات اور ان کے جوابات جسمانی معاد کے سلسلے میں قدماء او رمتاخرین فلاسفہ نے بہت سے اعتراض کئے ھیں، جن کی بازگشت یا صفات خداوندی کی صحیح پہچان نہ ھونا ھے، خصوصاً ان لوگوں نے لامحدود قدرت خدا اور ہر شیٴ پر محیط اس کے علم کو نھیں سمجھا ھے، یا ان اعتراض کی بازگشت عالم آخرت کے صفات اور اس بدن کے خصائص سے جاہل ھونا ھے جو روز قیامت معبوث کیا جائے گا، چونکہ انھوں نے اس عالم (آخرت) اور اس بدن (جو کہ روز قیامت پلٹایا جائے گا)کو اس مادی عالم(دنیا)اور مادی بدن اور یہاں کے قوانین و نظریات سے مقایسہ کیا ھے، لیکن ان کا مقایسہ کرنا صحیح نھیں ھے، کیونکہ عالم آخرت ،عالم دنیا سے اپنی تمام ابعاد و جوانب اور خصائص کے لحاظ سے مختلف ھے، کیونکہ عالم آخرت میں نظام کائنات بدل جائے گا، اور بساط منظومہ شمسی کو لپیٹ دیا جائے گایہ زمین ایک دوسری زمین میں تبدیل ھوجائے گی، لیکن یہ انسان یھی انسان رھے گا اور ایک ایسی زندگی ملے گی کہ اس کے بعد کبھی فنا نھیں ھوگی۔ جیسا کہ آپ حضرا ت نے ملاحظہ کیا کہ قرآن کریم اور سنت نبوی (ص)دلالت کرتی ھیں کہ انسان کا بدن معدوم اور فنا نھیں ھوتا بلکہ ایک دن محشور کیا جائے گا اور اس کی روح اس کے بدن میں لوٹا دی جائے گی، تو وہ انسان بذات خود یھی انسان ھوگا، تاکہ روز جزاء اپنے اعمال کی جزا یا سزا پاسکے، لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر معاد کے سلسلے میں اعتراضات کرنا جہالت کی نشانی ھے، لیکن پھر بھی ھم چند اعتراضات بیان کرکے ان کے جوابات پیش کرتے ھیں: پہلا اعتراض: آکل و ماکول [124] یہ ایک قدیمی اعتراض ھے، جس کو افلاطون او ردوسرے قدماء اور متاخرین نے (مسلم و غیر مسلم) مختلف عبارتوں کے ذریعہ بیان کیا ھے، جن میں اھم عبارت یہ ھے کہ اگر انسان کسی دوسرے انسان کی غذا بن جائے[125] اور اس کے تمام اعضاء کھالے تو پھر ان دونوں میں سے ایک ھی کو محشور کیا جائے گا، کیونکہ پہلے انسان کے اجزاء باقی ھی نھیںر ھے جن سے اس کے اعضاء خلق ھوئے تھے،پس روز قیامت محشور ھونے والا بدن دونوں وجود میں سے کس روح کے ساتھ متعلق ھے؟اگر بدنِ محشور صرف آکل کی روح سے متعلق ھو اور وہ آکل کافر ھو اور ماکول مومن تو اس صورت میں آکل جو کافر ھے اس کو عذاب دینے کے ساتھ مومن کو بھی عذاب دینا لازم آتا ھے اور اگر ماکول کا بدن محشور ھوگا جو مومن ھے تو مومن کو ثواب دینے کی صورت میں کافر کو بھی ثواب دینا لازم آتا ھے کیونکہ مومن کا بدن آکل کا جز بن چکا ھے۔ جواب : اس اعتراض کا جواب چند طریقے سے دیا جاسکتا ھے: ۱۔ خداوندعالم ہر چیز کا عالم ھے، اور اس کا علم ہر ممکن شئے پر محیط ھے، کائنات کے ذرہ ذرہ کو جانتا ھے، انھیں میں آکل و ماکول کے اجزاء بھی ھیں، لہٰذا خداوندعالم اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے ذریعہ انسان کے تمام اعضاء کو جمع کردے گا، اور اس میں روح ڈال دے گا، چاھے انسان کا بدن کتنا ھی بدل جائے، اس میں نقص پیدا ھوجائے یا بالکل ھی فنا ھوجائے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ > [126] ”(اے رسول)تم کہدو کہ اس کو وھی زندہ کردے گا جس نے ان کو (جب یہ کچھ نہ تھے)تو پہلی مرتبہ زندہ کر دکھایا وہ ہر طرح کی پیدائش سے واقف ھے“۔ نیز خداوندعالم نے معاد کا انکار کرنے والوں کے اسی اعتراض کے جواب میں فرمایا: < اٴَءِ ذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا ذَلِکَ رَجْعٌ بَعِیدٌ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاٴَرْضُ مِنْہُمْ وَعِنْدَنَا کِتَابٌ حَفِیظٌ> [127] ”بھلا جب ھم مر جائیں گے اور (سڑ گل کر) مٹی ھو جائیں گے تو پھر یہ دوبارہ زندہ ھونا (عقل سے) بعید (بات) ھے ا ن کے جسموں سے زمین جس چیز کو (کھاکھا کر) کم کرتی ھے وہ ھم کو معلوم ھے اور ھمارے پاس تو تحریری یاد داشت کتاب( لوح) محفوظ (موجود )ھے“۔ نیز ارشاد الٰھی ھوتا ھے: < قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْاٴُولَی قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی فِی کِتَابٍ لاَیَضِلُّ رَبِّی وَلاَیَنسَی> [128] ”فرعون نے پوچھا بھلا اگلے لوگوں کا حال (تو بتاوٴ کہ ) کیا ھواموسیٰ نے کھاان باتوں کا علم میرے پرور دگار کے پاس کتاب (لوح محفوظ )میں (لکھا) ھواھے پرور دگار نہ بہکتا ھے اور نہ بھولتا ھے “۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام حشر کے بارے میں فرماتے ھیں: ”حتی اذا تصرمت الامور ،و تقضت الدھور ،و ازف النشور، اخرجھم من ضرائح القبور،و اوکار الطیور،واوجرة السباع ،ومطارح المھالک ،سراعا الی امرہ ،مھطعین الی معادہ۔۔۔“۔[129] ”یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ھوجائیں گے، اور تمام زمانے بیت جائیں گے اور قیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انھیں قبروں کے گوشوں، پرندوں کے گھونسلوں، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا، اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ھوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ھوئے ،گروہ درگروہ، خاموش، صف بستہ اور ایستادہ۔ لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کا فرمان اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ انسانوں کو روز قیامت محشور کیا جائے گا چاھے ان کو درندوں اور پرندوں ھی نے کھالیا ھو۔ ۲۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث میں بیان ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:جب جناب ابراھیم علیہ السلام نے دریا کے کنارے ایک میت دیکھی جس کو دریائی اور خشکی کے درندہ کھارھے تھے ، اور ایک دوسرے پر حملہ کررھے ھیں تاکہ خود کھائیں اس وقت جناب ابراھیم علیہ السلام کو تعجب ھوا اور عرض کی : < وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِي الْمَوْتَی ،(اے میرے پرور دگار تو مجھے بھی دکھا دے کہ تو مردہ کو کیونکر زندہ کرتا ھے ؟) تو اس وقت آواز قدرت آئی: قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ َ۔۔> [130] (خدا نے فرمایا کیا تمھیں (اس کا) یقین نھیں ،ابراھیم نے عرض کی (کیوں نھیں) مگر آنکھ سے دیکھنا اس لئے چاہتاھوں کہ میرے دل کو اطمینان ھوجائے فرمایا (اچھااگر یہ چاہتے ھو) تو چار پرندے لو،تو جناب ابراھیم علیہ السلام نے مور، مرغ، کبوتر او رکوّے کو پکڑا ، آواز قدرت آتی: فَصُرْہُنَّ إِلَیْک،یعنی ان کو ذبح کرلو اور ان کے گوشت کو آپس میں مخلوط کرلو اور ان کو دس پہاڑوں پر رکھدو، لیکن ان کی چونچوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لو، اور پھر ان کو بلاؤ تو وہ بہت تیز دوڑتے ھوئے تمہارے پاس آئےں گے، چنانچہ جناب ابراھیم علیہ السلام نے ایسا ھی کیا کہ ان پرندوں کے گوشت کو دس پہاڑوں پر رکھ دیا اور ان کوآواز دی، چنانچہ سب کا گوشت اور ہڈی وغیرہ جدا جدا ھوکر جناب ابراھیم علیہ السلام کے پاس آگئے، اس وقت جناب ابراھیم علیہ السلام نے کہا: <<إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ > [131] خدا بیشک غالب و حکمت والا ھے“۔ کھاجاتا ھے کہ یہ حدیث اس بات کے اوپر اشارہ ھے کہ خداوندعالم ماکول کے اجزاء کو آکل (کھانے والے) کے بدن میں محفوظ رکھتا ھے، اور انھیں کو روز حشرماکول کے بدن میں پلٹا دے گا، جیسا کہ چارپرندوں کے مخلوط اور ایک دوسرے میں ملے ھوئے گوشت کو ان کو جسموں تک پہنچادیا۔[132] ۳۔ اس اعتراض کا جواب متکلمین اور فلاسفہ نے بھی دیا ھے، جس کا خلاصہ یوں ھے کہ روز قیامت انسان کو اصلی اعضاء میںزندہ کیا جائے گا، جن کے ذریعہ اس کی شروع میں خلقت کی گئی ھے، اور یہ اعضاء اول عمر سے آخر عمر تک باقی رہتے ھیں، مطلق طور پر تمام اعضاء کے ذریعہ روز قیامت انسان کو زندہ نھیں کیا جائے گا، اور ماکول کے وہ اعضاء کھانے والے کے بعد باہر نکل آتے ھیں، لہٰذا کھانے والے کا اعادہ لازم نھیںرہتا بلکہ خود ماکول کا اعادہ کیا جائے گا، [133] کیونکہ خداوندعالم نے ان اعضاء کو محفوظ کرلیا ھے لہٰذا ان کو کسی دوسرے کے بدن کا حصہ قرار نھیں دیتا۔ اسی جواب سے محقق طوسی رحمة اللہ علیہ نے اتفاق کرتے ھوئے کتاب ”شرح تجرید“ میں فرمایا:”ولا یجب إعادة فواضل المکلف“۔علامہ حلّی رحمة اللہ علیہ اس کی شرح کرتے ھوئے فرماتے ھیں:مکلف کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ھے، چنانچہ بعض کہتے ھیں کہ مکلف نفس مجرد ھے (یعنی انسان کی روح پر تکلیف و فرائض واجب کئے گئے ھیں) اور محققین کی ایک جماعت کہتی ھے کہ مکلف انسان کے وہ اصلی اعضاء ھیں جن میں کوئی کمی و زیادتی نھیں ھوتی، اورکمی و زیادتی ان اعضاء میں ھوتی ھے جو اصلی اعضاء سے ملحق ھوتے ھیں، لہٰذا روز قیامت میں انھیں اصلی اعضاء کو لوٹانا ضروری ھے یا روح کو ان اصلی اعضاء کے ساتھ، لیکن ان اصلی اعضاء کے ساتھ ملے ھوئے اجزاء کو بعینہ لوٹانا ضروری نھیں ھے۔ [134] دوسرا اعتراض: اعادہ معدوم کہتے ھیں: اعادہ معدوم محال ھے [135] کیونکہ اس کا ملازمہ یہ ھے کہ ایک وجود میں عدم حلول کرجائے، یعنی جوخود ایک چیز میں موجود ھے اس میں عدم آجائے، اگر ایسا ھو تو ایک چیز دو چیز بن جائے گی، دوسرے الفاظ میں یہ کھاجائے کہ موت انسان کی فنا ھے، اگر دوبارہ اس کو زندہ کیا جائے تو یہ پہلے والے انسان کے علاوہ دوسرا انسان ھوگا، اور یہ عدم کے بعد دوسری خلقت ھے، اسی کو لوٹا یا نھیں گیاھے، اور مبداء و معاد کے درمیان کوئی رابطہ نھیں ھے جواب: ۱۔ قارئین کرام! فلاسفہ کے لحاظ سے معاد کے معنی یا فنا کے بعد وجود کا نام ھے یا اجزاء منتشر ھونے کے بعد ان کو جمع کرنے کے معنی میں ھے، اور فناء کے بعد کسی چیز کے موجود ھونے کو فلاسفہ محال مانتے ھیں، لیکن ”لافوزی“ (ت ۱۷۹۴ء) نے مادہ کے سلسلے میں جو قانون مادہ معین کیا ھے وہ فلاسفہ کے گزشتہ نظریہ کو باطل کرتا ھے، کیونکہ وہ اس بات کی صراحت کرتا ھے کہ مادہ فنا نھیں ھوتا ھے صرف اس کی صورت میں تبدیلی و تغیر پیدا ھوتا ھے جو اس پر عارض ھوتی ھے،جیسا کہ فلاسفہ کے نزدیک وجود پر عدم طاری نھیں ھوتا اسی طرح مادہ پر عدم طاری نھیں ھوتا، لیکن بعض فلاسفہ اور متکلمین نے اعادہ معدوم کو جائز مانا ھے، چنانچہ بعض فلاسفہ کہتے ھیں: معدوم کا دوبارہ وجود میں آنا محال نھیں ھے، نہ ذات کے لحاظ سے اور نہ اس کے لوازم کے لحاظ سے، ورنہ اگر معدوم کا دوبارہ موجود ھونا محال ھوتا تو اول ھی سے موجود نہ ھوتا، شروع میں کسی چیز کو بنانا مشکل ھوتا ھے لیکن اس کو دوبارہ بنانا پہلے کی نسبت آسان ھوتا ھے، جیسا کہ معتزلی علماء نے ”احوال و ذوات اشیاء“ کا اثبات کیا ھے، چنانچہ کہتے ھیں کہ معدوم بھی ایک چیز ھوتی ھے، جب وہ موجودمعدوم ھوجاتا ھے، تو اس کی مخصوص ذات باقی رہتی ھے، لہٰذا اس کو دوبارہ لوٹانا ممکن ھے، کیونکہ اس کی ذات باقی ھے یہاں تک کہ عدم کی حالت میں بھی، لیکن کبھی اس پر وجود طاری ھوتا ھے اور کبھی عدم۔ اب رھی بات معاد کے دوسرے معنی کی کہ متفرق اعضاء کو دوبارہ ملانے کا نام معاد ھے، بعض مسلم فلاسفہ نے معاد جسمانی کا اقرار کرتے ھوئے کہا: معاد جسمانی اعادہ معدوم نھیں ھے بلکہ متفرق اعضاء کو جمع کرنے کا نام معاد ھے، جسموں کا نابود ھونا معدوم ھونا نھیں ھے بلکہ اعضاء متفرق اور دوسری چیزوں سے مل جاتے ھیں، لہٰذا ان اجزاء کو ایک جگہ جمع کرنا ممکن ھے، کیونکہ خداوندعالم ان اجزاء کو جانتا ھے اور ان کے جمع کرنے پر بھی قادر ھے، کیونکہ اس کا علم ہر ذرہ ذرہ پر محیط ھوتا ھے اور اس کی قدرت تمام ممکنات پر ھے۔ [136] ۲۔جیسا کہ ھم گزشتہ اعتراض کے جواب میں عرض کر چکے ھیں کہ بعض فلاسفہ اور متکلمین نے اس بات کی وضاحت کی ھے کہ انسان کے اصلی اعضاء میں نہ کوئی کمی ھوتی ھے اور نہ کوئی زیادتی، اور نہ ھی وہ فنا ھوتے ھیں، اسی مطلب پر حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی حدیث بھی دلالت کرتی ھے، جیسا کہ کتاب ”کافی“ میں عمار بن موسی نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ امام علیہ السلام سے ایک ایسی میت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا بدن بوسیدہ ھوگیا تھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”نعم حتی لا یبقی لحم ولا عظم الا طینتہ التی خلق منھا ،فانھا لا تبلی ،تبقی فی القبر مستدیرہ حتی یخلق منھا کما خلق اول مرة“۔ [137] ”ہاں انسان کا گوشت اور ہڈی باقی نھیں رہتے، لیکن اس کی طینت باقی رہتی ھے اور وہ بوسیدہ نھیں ھوتی، وہ قبر میں بھی باقی رہتی ھے، یہاں تک کہ اسی طینت کے ذریعہ انسان دوبارہ خلق کیا جائے گا جس طرح سے پہلی مرتبہ خلق کیا گیا ھے۔“ ۳۔اگر ھم اعادہ معدوم کے محال ھونے کو قبول بھی کرلیں ، لیکن خداوندعالم نے انسان کو اس حال میں خلق کیا کہ ”لم یکن شیئاً مذکورا“ (یعنی انسان قابل ذکر بھی نھیں تھا) وھی خدا اس کو دوبارہ بھی لوٹا سکتا ھے اگرچہ وہ قابل ذکر بھی نہ ھو، چنانچہ ھم نے اس ”برہان قدرت“ کو دلائل قیامت میں بیان کیا ھے۔ ۴۔ انسان کی شخصیت صرف روح ھوتی ھے اور وہ خدا کے نزدیک باقی رہتی ھے اور معدوم نھیں ھوتی،اور دوسرا وجود بدن کی خلقت اور روح سے رابطہ ھے، پس اس صورت میں یہ وھی انسان ھوگا نہ کہ اس کے مثل یا اس کے علاوہ، کیونکہ ان دونوں کے درمیان ماھیت (اور حقیقت )مشترک ھے۔ تیسرا اعتراض: تعدد ابدان کہتے ھیں: دنیا میں انسان کے خُلیے تبدیل ھوتے رہتے ھیں، آج کی سائنس کہتی ھے کہ دس سال میں انسان کی تمام مادی ترکیب بدل جاتی ھیں، مثلاً اگر انسان ساٹھ سال کی عمر میں مرتا ھے تو اس کے بدن کی چھ مختلف ترکیبیں تھیں، تو اگر انسان کو انھیں چھ ترکیبوں کے ساتھ محشور کیا جائے گا تو پھر ایک انسان کے چھ بدن محشور کرنے لازم آئےں گے، او راگر ان میں سے ایک بدن محشور کیا جائے گا تو یہ عدل الٰھی کے خلاف ھے، کیونکہ یھی ایک بدن ان تمام اعمال کے لحاظ سے ثواب یا عذاب دیکھے گا جواس نے تمام عمر میں (مختلف بدن کے ساتھ) انجام دئے ھیں۔ جواب: دنیا میں انسان کی زندگی خود ھی اس اعتراض کا جواب دیتی ھے کہ اگرچہ سائنس نے ثابت کیا ھے کہ انسان کا بدن دس سال میں بدل جاتا ھے، لیکن پھر بھی اس کی اپنی ایک شخصیت باقی رہتی ھے مثلاً اگر کسی شخص نے جوانی کے عالم میں کسی شخص کو قتل کرڈالا ھو، (اور وہ فرار ھوگیا ھو) تو اس کوبوڑھاپے میں بھی سزا دیتے ھیں ، کیونکہ قتل اسی نے کیا تھا، اور کوئی اس کو خلاف عدل و انصاف نھیں کہتا، یا کوئی یہ نھیں کہتا کہ وہ قاتل یہ نھیں ھے، لہٰذا اسی طرح قیامت کا حساب و کتاب اور جزا یا سزا ھے، جبکہ انسان کی روح اس کے جسم میں دوبارہ ڈال دی جائے گی تو بدن ، وھی بدن ھے ، چاھے وہ جوان محشور کیا جائے یا بوڑھا۔ فیلسوف بزرگوار ملاصدراۺ کہتے ھیں: حق و انصاف یہ ھے کہ روز قیامت بعینہ انسان کا وھی بدن محشور کیا جائے گا جن اجزاء کے ساتھ اس کو موت آئی ھے، نہ کہ اس کے مثل، چنانچہ اگر کوئی اس کو دیکھے گا تو کھے گا کہ یہ شخص بعینہ وھی شخص ھے جو دنیا میں تھا، پس اگر کوئی شخص جسمانی معاد کا انکار کرے تو گویا اس نے شریعت کا انکار کیا، اور جو شریعت کا انکار کرے وہ عقلی اور شرعی طور پر کافر ھے۔ [138] خلاصہ یہ ھوا کہ ہر انسان پر یہ عقیدہ رکھنا واجب ھے کہ خداوندعالم انسان کوروز قیامت حساب و کتاب کے لئے محشور کرے گا، لیکن خصوصیات اورکیفیت کیا ھوگی، حساب و کتاب کیسے ھوگا، جنت و دوزخ کیسی ھوںگی؟ تو علماء کہتے ھیں ان چیزوں کا تفصیلی طور پر علم حاصل کرنا واجب نھیں ھے، بلکہ اجمالی اور مختصر طور پر عقیدہ رکھنا واجب ھے (کہ انسان کو روز قیامت حساب و کتاب کے لئے دوبارہ زندہ کیا جائے گا)، ھم نے اس کتاب میں مختلف اقوال و مختلف دلائل ذکر کردئے ھیں تاکہ قارئین کرام اس سلسلہ میں غور وفکر کریں چنانچہ جو کچھ ھم نے ذکر کیا ھے وہ صرف بحث و تحقیق کے لئے ھے،(اورقیامت کے سلسلے میں کوئی کسی طرح کا شک و شبہ ھو تو وہ دور ھوجائے اور اعتراض کرنے والوں کا جواب بھی دیا جاسکے۔) ---------------------------------------- حوالاجات [89] سورہٴ ابراھیم آیت۴۸۔۵۱۔ [90] سورہٴ قیامة آیت۳۔۴۔ [91] سورہٴ یس آیت۷۸۔۷۹۔ [92] سورہٴ یٰس آیت ۵۱۔۵۴۔ [93] سورہٴ طہ آیت ۵۵۔ [94] سورہٴ یٰس آیت۶۵۔ [95] سورہٴ فصلت آیت ۲۰۔ [96] درج ذیل آیات کی طرف اشارہ ھے < فَقُلْنَا اضْرِبُوہُ بِبَعْضِہَا کَذَلِکَ یُحْیيِ اللهُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ> (سورہٴ بقرة ۷۳) < اٴَوْ کَالَّذِی مَرَّ عَلَی قَرْیَةٍ وَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلَی عُرُوشِہَا قَالَ اٴَنَّی یُحْیِی ہَذِہِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاٴَمَاتَہُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اٴَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانظُرْ إِلَی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ اٴَعْلَمُ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیيِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْء اً ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاٴْتِینَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیم> (سورہٴ بقرہ ۲۵۹۔۲۶۰) < سَیَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ وَیَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًا بِالْغَیْبِ وَیَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ قُلْ رَبِّی اٴَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَا یَعْلَمُہُمْ إِلاَّ قَلِیلٌ فَلاَتُمَارِ فِیہِمْ إِلاَّ مِرَاءً ظَاہِرًا وَلاَتَسْتَفْتِ فِیہِمْ مِنْہُمْ اٴَحَدًا وَلاَتَقُولَنَّ لِشَیْءٍ إِنِّی فَاعِلٌ ذَلِکَ غَدًا إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیتَ وَقُلْ عَسَی اٴَنْ یَہْدِیَنِی رَبِّی لِاٴَقْرَبَ مِنْ ہَذَا رَشَدًا وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا> (سورہٴ کہف۲۲۔۲۵۔) [97] سورہٴ واقعہ آیت۱۵۔۲۳۔ [98] سورہٴ نساء آیت۶۵۔ [99] نہج البلاغہ/صبحی الصالح:۱۰۸۔خطبہ نمبر (۸۳)۔ترجمہ ص ۱۳۵، علامہ جوادیۺ۔ [100] امالی صدوق :۲۴۳/۲۵۸موٴ سسہ البعثة ۔قم ،حق الیقین / عبداللہ شبر ۲:۵۴،بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ۷:۳۳/۱عن الامالی و ۷:۳۹/۸ عن اتفسیر علی بن ابراھیم ۔ [101] الا سفار / صدر المتالھین ۹:۱۶۵،المبدا و المعاد / صدر المتالھین :۳۷۵۔ [102] حق الیقن/عبد اللہ شبر ۲:۳۸۔۳۹۔ [103] الاحتجاج ۳ الطبرسی :۳۵۰۔ [104] الاسفار / صدر المتالھین ۹:۱۶۵،شرح الموقف ۳ الجرجانی ۸:۲۹۸۔۳۰۰۔ [105] الاضحویہ فی المعاد ی/ ابن سینا :۱۲۶۔ الموٴ سسہ الجامعہ ۔بیروت۔ [106] تھافت الفلاسفہ / الغزالی :۲۳۵۔۲۵۳۔بیروت ۔۱۹۳۷۔ [107] الشفا ء ۔الالھیات / ابن سینا :۴۲۳۔القاہرہ بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ،ج۷ص۵۰۔ [108] ابن سینا و مذھبہ فی النفس / فتح اللہ خلیفة :۱۱۷،بیروت ،۱۹۷۴۔ [109] بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ۷: ۵۲۔ [110] سورہٴ سباء آیت ۷۔۸۔ [111] سورہٴ جاثیة آیت۲۴۔ [112] سورہٴ قیامة آیت۵۔۶۔ [113] سورہٴ مومنون آیت۳۳۔۳۸۔ [114] سورہ نحل آیت۲۲۔ [115] سورہٴ مومنون آیت۸۱۔۸۳۔ [116] سورہٴ نازعات آیت۱۰۔۱۲۔ [117] سورہٴ اسراء آیت۴۹ و۹۸۔ [118] سورہٴ سجدة آیت ۱۰۔ [119] سورہٴ سجدة آیت۱۱۔ [120] تفسیر المیزان / علامہ طباطبائی ،ج۱۱ص۲۹۹۔ [121] سورہٴ رعد آیت۵۔ [122] سورہٴ اسراء آیت ۱۰۔ [123] سورہٴ مطففین آیت ۱۰۔۱۲۔ [124] یعنی کھانے والا اور کھائی جانے والی چیز۔ [125] مثلاً انسان مرنے کے بعد مٹی بن جائے، اور مٹی ،پھلوں یا سبزیوں میں تبدیل ھوجائے اور ان سبزیوں اور پھلوں کو انسان کھالے۔ [126] سورہٴ یس آیت۷۹۔ [127] سورہٴ ق آیت۳۔۴۔ [128] سورہٴ طہ آیت ۵۱۔۵۲۔ [129] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۰۸خطبہ نمبر (۸۳)۔ترجمہ،علامہ جوادی ۺ ص ۱۳۵ ۔ [130] سورہٴ بقرہ آیت۲۶۰۔ [131] تفسیر قمی،ج۱،ص۹۱۔ [132] بحار الانوار / علامہ مجلسیۺ،ج۷،ص۳۷۔ [133] شرح المواقف ۳ الجرجانی ۸:۲۹۶۔مطبعہ السعادہ ۔مصر ،المبداء والمعاد / صدر الدین الشیرازی ۳۷۶۔ [134] کشف المراد /علامہ حلیۺ :۴۳۱۔۴۳۲۔ [135] معدوم (یعنی نابود) ھونے والی چیز کا دوبارہ پہلی والی چیز بننا محال اور ناممکن ھے [136] شرح ا لمواقف / الجر جانی ،ج۸،ص۲۸۹۔۲۹۴۔مطبعہ السعادہ ۔مصر ۔ الادلہ الجلیہ فی شرح الفصول النصیریہ / عبد اللہ نعمة :۲۱۲۔۲۱۳۔ [137] اصول کافی / شیخ کلینی ،ج۳،ص۲۵۱/۷،بحار الانوار،ج ۷،ص۴۳، حدیث ۲۱۔ [138] المبداء والمعاد /ملا صدرا:۳۷۶۔ منبع:shiaarticles.com