شہادت امام حسین (ع) کے بعد زینب کبری(س) کی تین ذمہ داریاں(3)
شہادت امام حسین (ع) کے بعد زینب کبری(س) کی تین ذمہ داریاں(3)
0 Vote
95 View
۳۔ انقلاب حسینی کی پیغام رسانی جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ انقلاب حسینی کے دو باب ہیں :ایک جنگ وجہاد اور شہادت ۔ دوسرا ان شہادتوں کا پیغام لوگوں تک پہنچانا۔ اب قیام امام حسین (ع) کے پیغامات طبیعی طورپر مختلف ملکوں تک پہچانے کیلئے کئی سا ل لگ جاتا؛ جس کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ والوں کو اہلبیت F کے وارد ہونے سے پہلے واقعہ کربلا کا پتہ تک نہ تھا ۔ اس طرح بنی امیہ کہ تمام وسائل و ذرایع اپنی اختیار میں تھیں ۔سارے ممالک اور سارے عوام کو اپنے غلط پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی حقانیت اور امام حسین (ع) کو باغی ثابت کرسکتا تھا۔اگرچہ انہوں نے اپنی پوری طاقت استعمال کی کہ اپنی جنایت اور ظلم وبربریت کو چھپائے اور اپنے مخالفین کو بے دین ، دنیا پرست ، قدرت طلب، فسادی کے طور پر پہچنوایا جائے۔ چنانچہ زیاد نے حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کے خلاف جھوٹےگواہ تیار کرکے ان پر کفر کا فتوی جاری کیا ۔ اسی طرح ابن زیاد اور یزید نے امام حسین(ع) اور انکے ساتھیوں کے خلاف سوء تبلیغات شروع کرکے امام (ع) کو دین اسلام سے خارج ، حکومت اسلا می سے بغاوت اور معاشرے میں فساد پیدا کرنے والے معرفی کرنا چاہا اور قیام حسینی(ع) کو بے رنگ اور کم اہمیت بنانا چاہا ۔ لیکن اہلبیت کی اسیری اور زینب کبری (س) کے ایک خطبے نے ان کے سارے مکروہ عزائم کو خاک میں ملا دیا ؛اور پوری دنیا پرواضح کردیا؛کہ یزید اور اس کے حمایت کرنے والے راہ ضلالت اور گمراہی پر ہیں ۔ اور جو کچھ ادعی کر رہے ہیں وہ سب جھوٹ پر مبنی ہے ۔ اور بالکل مختصر دنوں میں ان کے سالہا سال کی کوششوں کو نابود کردیا ۔ اور مام حسین (ع) کی مظلومیت، عدالت خواہی ، حق طلبی، دین اسلام کی پاسداری اور ظلم ستیزی کو چند ہی دنوں میں بہت سارے شہروں اور ملکوں پر واضح کردیا۔ یزید اس عمل کے ذریعے لوگوں کو خوف اور وحشت میں ڈالنا چاہتا تھا تاکہ حکومت کے خلاف کوئی سر اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔ لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد انقلاب حسینی نے مسلمانوں میں ظالم حکومتوں کے خلاف قیام کرنے کی جرات پیدا کی ۔ چنانچہ اسیران اہلبیت (ع) شام سے واپسی سے پہلے ہی شامیوں نے یزید اور آل یزید پر لعن طعن کرنا شروع کیا ۔ اور خود یزید بھی مجبور ہوا کہ ان کیلئے اپنے شہیدوں پر ماتم اور گریہ کرنے کیلئے گھر خالی کرنا پڑا۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے فاتح کون تھا اور مغلوب کون؟ کیونکہ جیتے اور ہارنے کا فیصلہ جنگ وجدال کے بعد نتیجہ اور ہدف کو دیکھنا ہوتا ہے ۔ظاہرہے کہ امام حسین (ع) کا ہدف اسلام کو بچانا تھا اور بچ گیا ۔ اور فاتح وہ ہے جس کی بات منوائی جائے وہ غالب اور جس پر بات کو تحمیل کیا جائے اور اپنے کئے ہوئے اعمال کو کسی دوسرے کے اوپر ڈالے جیسا کہ یزید نے کہا کہ امام حسین (ع) کو میں نےنہیں بلکہ عبید اللہ ابن زیاد نے شہید کیا ہے، وہ مغلوب ہے ۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع: قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ وَ قَدْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ اسْتَقْبَلَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَ قَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ مَنْ غَلَبَ وَ هُوَ يُغَطِّي رَأْسَهُ وَ هُوَ فِي الْمَحْمِلِ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ مَنْ غَلَبَ وَ دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَأَذِّنْ ثُمَّ أَقِمْ۔ امام صادق(ع) روایت کرتے ہیں کہ امام زین العابدین (ع) نے فرمایا : جب شام سے مدینہ کی طرف روانہ ہورہے تھے تو ابراہیم بن طلحہ بن عبید اللہ میرے نزدیک آیا اور مذاق کرتے ہوئے کہا : کون جیت گیا؟ امام سجاد (ع) نے فرمایا : اگر جاننا چاہتے ہو کہ کون جیتے ہیں؛ تو نماز کا وقت آنے دو اور اذان و اقامت کہنے دو ، معلوم ہوجائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ -1- یزید کا ہدف اسلام کو مٹانا تھا ۔اور امام حسین (ع) کا ہدف اسلام کا بچانا تھا ۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب پر دین مبین اسلام غالب اور معزز اور ہر دل عزیز نظر آرہا ہے ۔ خصوصا انقلاب اسلامی کے بعد اسلام حقیقی سے لوگ آشنا اوراس کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔اور یہ سب زینب کبری (س)کی مرہون منت ہے : شبیر کا پیغام نہ بڑھتا کبھی آگے کی ہوتی نہ عابد نے اگر راہ نمائی زینب کے کھلے بالوں نے سایہ کیا حق پر عابد کے بندھے ہاتھوں نے کی عقد گشائی -2- مجلس ابن زیاد میں اگرچہ ایسی شرائط میں کوئی بھی انسان تقریر کرنے پر قادر نہیں ہوتا لیکن یہ زینب بنت علی (س)تھیں جو بدترین شرائط اور موقعیت میں بہترین اورنافذ ترین خطبہ دیا۔درحقیقت قلم اور بیان اس کی توصیف اور تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔اپنے عزیز ترین افراد کے سوگ میں بیٹھی ہیں ۔کئی رات اور دن گزرگئے تھے کہ استراحت اور آرام نہ کرپائی تھیں، کئی دنوں سے بھوکی وپیاسی تھیں، ان کے علاوہ اہلبیت رسول (ص) کی نگہبانی اور حفاظت جیسی سنگین مسئولیت بھی آپ ہی کے کاندں پر تھی ۔پھر بھی اتنے مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے باوجود معمولی سی جسمی یا روحی طور پر تبدیلی کے بغیر اس قدر فصیح وبلیغ خطبہ دیا کہ کوفہ والوں کو علی ابن ابی طالب(ع) کا خطبہ یاد آنےلگا ۔ ازنظر مخاطبین بہت سارے لوگ بنی امیہ کے غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے اہلبیت کو ایک باغی ، فسادی اور نا امنیت پھیلانے والاگروہ تصور کرتے تھے اور کوئی بھی ایک اسیر خاتون کی تقریر اور بیان کو سننے کیلئے آمادہ نہ تھے۔اور محیط بھی کسی بھی صورت میں خطاب کیلئے مناسب نہیں تھا۔ ایک طرف سے شور وغل اور ہلہلہ اور خوشی اور ڈول باجے کی آوازبلند ہو رہی تھی تو دوسری طرف سے آہ وزاری اور گریہ اور اونٹوں کی گردنوں میں لٹکائی ہوئی گنٹیوں کی آواز بلند ہورہی تھی۔اور ادھر سے سپاہیوں کی آوازیں بلند ہورہی تھی۔ ایسی صورت میں ان سب کو خاموش کرکے اپنی بات منوانامعجزے سے کم نہیں تھا۔ اور یہ معجزہ ثانی زہرا (س) نے کر کے دکھایا ۔ قَالَ بَشِيرُ بْنُ خُزَيْمٍ الْأَسَدِيُّ نَظَرْتُ إِلَى زَيْنَبَ بِنْتِ عَلِيٍّ ع يَوْمَئِذٍ وَ لَمْ أَرَ وَ اللَّهِ خَفِرَةً قَطُّ أَنْطَقَ مِنْهَا كَأَنَّمَا تُفَرِّعُ عَنْ لِسَانِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع وَ قَدْ أَوْمَأَتْ إِلَى النَّاسِ أَنِ اسْكُتُوا فَارْتَدَّتِ الْأَنْفَاسُ وَ سَكَنَتِ اْلْأَجْرَاسُ ۔راوی کہتا ہے کہ میں نے زینب بنت علی کو امیر المؤمنین(ع) کی زبان میں ایسا فصیح و بلیغ خطبہ دیتے ہوئےکبھی نہیں سنا تھا، آپ نےہاتھ کے ایک اشارے سے سب کو خاموش کیا ہر ایک کی سانسیں سینوں میں رہ گئیں ، اونٹوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی گھنٹیاں بھی خاموش ہوگئی۔پھر خدا کی حمد وثناء اور اس کے پیامبر (ص) پر سلام و درود پڑھنے کے بعد فرمایا: يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَ الْغَدْرِ أَ تَبْكُونَ فَلَا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لَا هَدَأَتِ الرَّنَّةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَلَا وَ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلِفُ وَ النَّطِفُ وَ مَلْقُ الْإِمَاءِ وَ غَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَ فِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أَ تَبْكُونَ وَ تَنْتَحِبُونَ إِي وَ اللَّهِ فَابْكُوا كَثِيراً وَ اضْحَكُوا قَلِيلًا فَلَقَدْ ذَهَبْتُمْ بِعَارِهَا وَ شَنَآنِهَا وَ لَنْ تَرْحَضُوهَا بِغَسْلٍ بَعْدَهَا أَبَداً وَ أَنَّى تَرْحَضُونَ قَتْلَ سَلِيلِ خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مَلَاذِ خِيَرَتِكُمْ وَ مَفْزَعِ نَازِلَتِكُمْ وَ مَنَارِ حُجَّتِكُمْ وَ مَدَرَةِ سُنَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا تَزِرُونَ وَ بُعْداً لَكُمْ وَ سُحْقاً فَلَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَ تَبَّتِ الْأَيْدِي وَ خَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَ بُؤْتُمْ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَيْلَكُمْ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ أَيَّ كَبِدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ فَرَيْتُمْ وَ أَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَ أَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ وَ أَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ انْتَهَكْتُمْ لَقَدْ جِئْتُمْ بِهِمْ صَلْعَاءَ عَنْقَاءَ سَوَّاءَ فَقْمَاءَ وَ فِي بَعْضِهَا خَرْقَاءَ شَوْهَاءَ كَطِلَاعِ الْأَرْضِ وَ مُلَاءِ السَّمَاءِ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ قَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ لَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَ أَنْتُمْ لَا تُنْصَرُونَ فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ لَا تَحْفِزُهُ الْبِدَارُ وَ لَا يُخَافُ فَوْتُ الثَّأْرِ وَ إِنَّ رَبَّكُمْ لَبِالْمِرْصَادِ -3- اے کوفہ والو!اے دغل بازو، اے مکار اور خیانت کار لوگو! کیا تم روتے ہو؟کبھی تمھاری آنکھیں خشک نہ ہوں اور غم و اندوہ تم سے دور نہ ہوں حقیقت میں تمھاری مثال اس عورت کی مثال ہے جو اون یا کاٹن سے دھاگہ کاتنے کے بعد پھر اس دھاگے کو کھول دیتی ہے۔ تم بھی اسی طرح عہد و پیمان باندھنے کے بعد پھر عہد شکنی کرتے ہو۔ تمھارے پاس سوائے فریب دینے ،جھوٹ بولنے اور دشمنی کرنے ،کنیزوں کی طرح چاپلوسی کرنے اور دشمنوں کے لئے سخن چینی کرنے کے سوا ہے ہی کیا؟! بالآخر زینب کبری (س) کوفہ والوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوئیں ، کیونکہ یہاں بات اب سمجھانے کی نہیں تھی ۔ یہ سب جانتے تھے کہ حسین اور اصحاب حسین(ع) ناحق مارے گئے ہیں ۔ اہلبیت (ع) کی عظمت کو بھی جانتے تھے ،زینب کبری (س)کی عظمت کو بھی جانتے تھے ۔ کیونکہ چار سال تک کوفے کی خواتین کو درس تفسیر دیتی رہی تھی۔ لہذا تند لہجے میں فرمایا: تم لوگوں نے اپنے لئے بدترین زاد راہ تیار کئے ہیں ؛ خدا کا غضب اور ہمیشہ رہنے والا عذاب اپنے لئے تیار کئے ہیں ۔کی تم لوگ میرے بھائی کیلئے روتے ہو؟واقعاً تم لوگ رونے کے قابل ہیں ؛ خوب رو لیں اور کم ہنسا کریں ۔ننگ و عار ہو تم پر ، جسے تم کبھی دھو نہیں سکتے ؛ کہ تم نے خاتم الانبیا (ص) ، معدن رسالت کے بیٹے اور جوانان بہشت کے سردار کو شہید کئے ہیں ۔ جو میدان جنگ میں تمھارے ساتھ تھے اور صلح کے موقع پر تمھارے لئے باعث آرام و سکون ،تمھارے زخموں کیلئے مرہم ، اور سختیوں کے موقع پر ملجاء و ماوا اور مرجع تھے،جو تم نے اپنے لئے آگے بھیجے ہیں وہ آخرت کیلئے بہت برا توشہ ہے ۔ نابود ہو تم ، سرنگون ہو تم ! جس چیز کیلئےتم نے تلاش کی تھی وہ تمھارے ہاتھ نہیں آئے گی ، تمھارے ہاتھ کٹ گئے اور معاملے میں نقصان اٹھائے اور غضب الہی کو اپنے لئے خرید لئے ، اور ذلت و خواری تمھاری تقدیر میں حتمی ہوگئی۔ کیا تم جانتےہو کہ رسول خدا (ص) کے کس جگر گوشے کو شکافتہ کیا ؟ اور کس پردے کو چاک کیا ؟ اور کس کی بے حرمتی کی؟! اور کس کا خون بہائے ہو؟! تم نے ایسا کام کئے ہیں کہ قریب تھا آسمان ٹوٹ پڑے اور زمین شکافتہ ہوجائے اور پہاڑیں ریزہ ریزہ ہوجائیں ؟! مصیبت اتنی شدید ہے کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اور زمین اور آسمان ومافیہا سے بھی بڑھ کر ہے ۔خدا کا عذاب جہنم کیلئے آمادہ ہو جاؤ ، کوئی تمہیں اس عذاب سے چھڑانے والا موجود نہیں ۔ ۔۔اس کے بعد یہ اشعار پڑھیں : کیا جواب دو گے جب پیامبر اکرم (ص) تم سے قیامت کے دن سوال کرے کہ یا تم نے کیا کئے ہیں ؟!تم تو میری آخری امت تھی!میری اولادوں میں سے بعض اسیر ہیں اور بعض خون میں لت پت! کیا تمھارے لئے میری دلسوزی کا یہی صلہ تھا کہ جو تم نے میرے بعد میری اولادوں کے ساتھ روا رکھے ؟ میں ڈرتا ہوں اس عذاب سے جو تم پر نازل ہونے والا ہے ، جس طرح قوم ارم پر نازل ہوا ؟ اس کے بعد ان سے منہ موڑ لیں ۔ حزیم کہتا ہے : قَالَ فَوَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّاسَ يَوْمَئِذٍ حَيَارَى يَبْكُونَ وَ قَدْ وَضَعُوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ کہ زینب کبری (س) کے خطبے نے سب کوفہ والوں کو رلایا ۔ وہ لوگ ندامت اور پشیمانی کے عالم میں انگشت بہ دندان ہوگئے تھے ، وَ رَأَيْتُ شَيْخاً وَاقِفاً إِلَى جَنْبِي يَبْكِي حَتَّى اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ بِأَبِي أَنْتُمْ وَ أُمِّي كُهُولُكُمْ خَيْرُ الْكُهُولِ وَ شَبَابُكُمْ خَيْرُ الشَّبَابِ وَ نِسَاؤُكُمْ خَيْرُ النِّسَاءِ وَ نَسْلُكُمْ خَيْرُ نَسْلٍ لَا يُخْزَى وَ لَا يُبْزَى۔ -4- اس وقت میرے قریب ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا ، شدیدگریہ کرتےہوئے آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ کے بزرگان افضل ترین ہستیاں ہیں،آپ کے جوانان بہترین جوانان عالم اور آپ کی خواتین بہترین خواتین عالم ہیں،آپ کی اولاد بہترین اولاد ہیں،آپ لوگ کبھی رسوا اور خوار اور مغلوب نہیں ہونگے۔ اس کے بعد امام زین العابدین (ع) نے فرمایا : پھوپھی جان !اب آپ خاموش ہوجائیں ، جوزندہ ہیں وہ گذشتگان سے عبرت حاصل کریں گے ۔ اور آپ بحمد اللہ عالمہ غیر معلمہ اور عاقلہ بنی ہاشم ہیں ؛ رونے سے شہداء واپس نہیں آئیں گے ، اس کے بعد آپ خاموش ہوگئیں پھر سواری سے نیچے اتر آئیں اور خیمے میں تشریف لے گئیں-5- ۔ ہر سانس سے شبیر کا پیغام ہے جاری ہرگام پہ اسلام کی ہے جلوہ نمائی خون شہ مظلوم کی ہر وقت حفاظت بازاروں سے جاتے ہوئے وہ خطبہ سرائی مجلس یزید میں جب اہلبیت (ع) دربار یزید میں وارد ہوئے تو یزید اپنے کو فاتح اور مظلوم کربلا (ع) کو مغلوب تصور کر رہا تھا ۔ اس کی نظر میں امام حسین (ع) کو شکست ہوگئی تھی۔اسی لئے اپنی حکومت کے کارندوں اورغیر ملکی سفیروں کے سامنے جشن منانے کیلئے حکم دیا کہ اہلبیت (ع) کو دربار میں بلایا جائے ۔ اہلبیت (ع) میں سے جو بھی امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب باوفا کے سراقدس کو دیکھتے تھے تو آہ وفریاد کرتے تھے اور جب زینب کبری(س) نے اپنے بھائی کا سر دیکھا تو حزین اور غم انگیز آواز میں اپنے بھائی سے یوں مخاطب ہوا :اے حسین! اے محبوب رسول خدا ! اے فرزند مکہ و منی ! اے فرزند فاطمہ زہراسید ۃ النساء العالمین !اے بنت رسول کے پیارے! فَأَبْكَتْ كُلَّ مَنْ سَمِعَهَا ثُمَّ دَعَا يَزِيدُ عَلَيْهِ اللَّعْنَةُ بِقَضِيبِ خَيْزُرَانٍ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِ ثَنَايَا الْحُسَيْنِ ع زینب کبری کی نوحہ سرائی نے پورے اہل مجلس کو رلایا ۔ یزید اب تک خاموش تھا ۔ اور جب احساس حقارت اور بد نامی کی تو لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے چوب خیزران سے سید الشہداء(ع) کے لب اور دندان مبارک کی بےحرمتی کرنا اور یہ اشعار پڑھنا شروع کیا : لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوا جَزِعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الْأَسَلِ لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ قَدْ قَتَلْنَا الْقَوْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ لَعِبَتْ هَاشِمٌ بِالْمُلْكِ فَلَا خَبَرٌ جَاءَ وَ لَا وَحْيٌ نَزَلَ لَسْتُ مِنْ خِنْدِفَ إِنْ لَمْ أَنْتَقِمْ مِنْ بَنِي أَحْمَدَ مَا كَانَ فَعَلَ لعبت بنوہاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی ّ نزل-6- اے کاش ! جنگ بدر میں مارے جانے والے میرے آباء واجداد ،زندہ ہوتے اور خزرج کے نالہ و فریا د اور نیزے کے درد کےگواہ ہوتے پس اٹھو اور رقص کرنے لگو اورکہو: اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہو ۔ ان کے سرداروں اور ارباب کو ہم نے شہید کئے ہیں اور بدر والوں کا انتقام لے لئے ہیں ۔بنی ہاشم نے حکومت کرنے کیلئے ایک کھیل کھیلا ہے ورنہ نہ کوئی خبر آئی ہے نہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ کوئی رسول آیا ہے اور نہ کوئی قرآن نازل ہوا ہے ۔میں خندف کا بیٹا نہ ہونگا اگر اولاد احمد سے انتقام نہ لوں-7-۔ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ أَبُو بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيُّ وَ قَالَ وَيْحَكَ يَا يَزِيدُ أَ تَنْكُتُ بِقَضِيبِكَ ثَغْرَ الْحُسَيْنِ ع ابْنِ فَاطِمَةَ ص أَشْهَدُ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ص يَرْشُفُ ثَنَايَاهُ وَ ثَنَايَا أَخِيهِ الْحَسَنِ ع وَ يَقُولُ أَنْتُمَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَقَتَلَ اللَّهُ قَاتِلَكُمَا وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ جَهَنَّمَ وَ ساءَتْ مَصِيراً-8-۔ یزید کی اس بے ادبی کو دیکھ کر ابوبرزۃ الاسلمی اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا : افسوس ہو تجھ پر اے یزید! کیا تو فرزند زہرا حسین (ع) کے لبوں اور دندان مبارک کی بے حرمتی کرتے ہو؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اپنے پیارے رسول (ص) کو جوحسن اور حسین (ع) کے لبوں اور دانتوں کا بوسہ دیتے ہوئے فرمارہے تھے : تم دونوں جوانان بہشت کے سردار ہو۔ خدا تمہارے قاتلوں کو ہلاک کرے اور خدا کی لعنت ہو اور ان کیلئے عذاب جہنم تیار کیا ہوا ہے اور وہ کتنا برا ٹھکانا ہے ۔ یزید جب یہ بکواس کرچکا تو اس نے شمر سے کہا کہ ان قیدیون کا تعارف کراؤ ۔ شمر نے کہا یہ جوان علی ابن الحسین (ع)ہے ۔ چونکہ کربلا میں بیمار تھا ، اس لئے یہ قتل ہونے سے بچ گیا ،یہ بی بی جو کنیزوں کے حلقہ میں ہے ، رسول خدا (ص)کی نواسی اور علی وفاطمہ(س) کی بڑی بیٹی زینب ہے ۔ اس کے ساتھ اس کی بہن ام کلثوم (س)ہے ، اس طرح تمام بیبیوں کا تعارف کرایا گیا ۔ یزید نے امام زین العابدین (ع) کی طرف متوجہ ہوکر کہا: تمہارےباپ نے مجھ سے بغاوت کی ، میری اطاعت سے منہ موڑا ۔ دیکھا خدا نے تم لوگوں کو کیسا ذلیل و خوار کیا ؟ اس کے بعد اس نے یہ آیت پڑھی: قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتىِ الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَ تَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَ تُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَ تُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيرُْ إِنَّكَ عَلىَ كلُِّ شىَْءٍ قَدِيرٌ -9- پیغمبر آپ کہئے کہ خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے- جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے- سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے ۔ یعنی اسی کو دیتا ہے جس کو اس کا اہل سمجھتا ہے ۔ تم کو اہل نہ سمجھا ، لہذا اس لئے تمہاری چند روزہ حکومت کو ختم کردیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم لوگوں کو اس بغاوت کی سزادی ۔ امام (ع) نے فرمایا: اے یزید ! آگاہ ہوکہ خدا کے خاص بندے کبھی ذلیل نہیں ہوتے ۔ اپنی اس چند روزہ حکومت پر مغرور نہ ہو، بہت جلد وقت آنے والاہے کہ تیرا معاملہ خدا کے سامنے پیش ہوگا ۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ جس نبی کا تو کلمہ پڑھتا ہے ، اسی کی اولاد کو قتل کرواتا اور اسی کی ناموس کو بازاروں میں تشہیر کرواتا اور درباروں میں ذلت کے ساتھ بلاتا ہے؟ میرے مظلوم بابا نے جو کچھ کیا ، حق بجانب تھا ۔ وہ یقینا ً حق پر تھے اور تو یقینا ً باطل پر ہے ۔ تجھ جیسا فاسق و فاجر ہرگز اس قابل نہیں ہوسکتا کہ خدا تجھے ملک و دولت کا وارث بنائے ، توغاصب حقوق آل محمد (ص) ہے ۔بھرے دربار میں جب امام زین العابدین (ع)نے اس طرح تقریر کی تو یزید کو غصہ آیا اور حکم دیا کہ اس کو قتل کردو ۔ جب تلوار لے کر جلاد آگے بڑھا تو جناب زینب (س) روتی ہوئی بھتیجے سے لپٹ گئیں اور فرمانے لگیں : او ظالم! کیا تجھے ہمارا تمام گھر برباد کرکے ، ہمارے جوانوں ، بوڑھوں اور بچوں تک کو قتل کروا کے بھی چین نہیں آیا؟ اب اس بیمار کے سوا ہما را والی اور وارث نہیں۔ تو اب اس کو بھی قتل کروادے گا۔ یزید نے حکم دیا کہ اس بی بی کو بھی قتل کردو ۔ یہ سنتے ہی دربار میں ہلچل مچ گئی اور ہر طرف سے آواز آئی : اگر عورت کو قتل کیا گیا تو دربار میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی ۔ عورت کا قتل کرنا کسی مذہب میں بھی جائز نہیں ۔ یزید یہ حال دیکھ کر خائف ہوا اور اپنے حکم کو واپس لے لیا۔ اب اس نے کہا : میں زینب بنت علی (ع) سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ ان سب کنیزوں کو ان کے سامنے سے ہٹا دو ۔ شمر تازیانہ لیکر بڑھا اور ایک ایک کو ہٹا نے لگا ۔ باقی سب تو ہٹ گئیں مگر جناب فضہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں ۔ شمر نے تازیانہ اٹھایا کہ اس سےجناب فضہ کو مارے ۔ یزید کی پشت پر جو حبشی غلام برہنہ تلواریں لئے کھڑے تھے ، جناب فضہ ان سے مخاطب ہوکر فرمانے لگیں : اے میری قوم کے جوانو! تمہاری غیرت کہاں گئی ، قومی حمیت کو کیا ہوا کہ شمر تمہاری قوم کی ایک بیکس عورت کو مارنا چاہتا ہے؟ یہ بات سنتے ہی وہ سب حبشی پس پشت سے ہٹ کر یزید کے سامنے آگئے اور کہنے لگے: شمر سے کہہ دے کہ اس ضعیفہ کو ہاتھ نہ لگائے ، یہ ہماری قوم کی عورت ہے ورنہ ابھی دربار میں خون کی ندیاں بہنے لگیں گی ۔ یزید نے شمر کو روکا ۔ اس وقت جناب زینب (س) سےبرداشت نہ ہوسکا ۔ کربلا کی طرف رخ کرکے فرمایا: اے میرے بھیا ! فضہ کو بچانے کیلئے کتنے جوان تلواریں لے کر یزید کے سامنے آگئے ، مگر آہ! تمہاری دکھیا بہن کی حمایت کرنے والا کوئی اس دربار میں نہیں ہے ۔ جناب زینب (س) کی اس فریاد سے اہل دربار کے دل دکھنے لگے ۔ بہت سے تو منہ پر رومال رکھ کر رونے لگے۔ -10- حاضرین مجلس معاویہ کی ۲۳سالہ سوء تبلیغ کی وجہ سے حقایق سے بالکل بے خبر تھے ۔ ان اسراکو باغی اور فسادی تصور کرتے تھے۔ ان کو اس خواب غفلت سے بیدار کرنا ضروری تھا۔اوریہ شریکۃ الحسین (س) کی ذمہ داری تھی۔کیونکہ بیدارگری کی ذمہ داری امام حسین(ع) نے آپ کے کندوں پر ڈالا تھا ۔کیونکہ اگر حضرت سجاد (ع) یزید سے اس طرح مخاطب ہوتے تو ممکن تھا کہ وہ نشے میں آکر امام چھارم کو شہید کرتا۔ اور زینب (س) کی یہ گفتگو باعث بنی جس مقصد کیلئے اس مجلس کو یزید نے تشکیل دی تھی بالکل اس کے برعکس اختتام پذیر ہوا۔ یزید اور یزیدی سب رسوا اور ذلیل ہوگئے-11-۔ مجلس يزيد میں زينب كبرى (س) کا خطبہ قَالَ الرَّاوِي: فَقَامَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَتْ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَ آلِهِ أَجْمَعِينَ صَدَقَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ كَذَلِكَ يَقُولُ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّهِ وَ كانُوا بِها يَسْتَهْزِؤُنَ أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا هَوَاناً عَلَيْهِ وَ بِكَ عَلَيْهِ كَرَامَةً وَ أَنَّ ذَلِكَلِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَةً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَةً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَهْلًا مَهْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ أَ مِنَ الْعَدْلِ يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ص سَبَايَا قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ تَحْدُو بِهِنَّ الْأَعْدَاءُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَنَاهِلِ وَ الْمَنَاقِلِ وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجَالِهِنَّ وَلِيٌّ وَ لَا مِنْ حُمَاتِهِنَّ حَمِيٌّ وَ كَيْفَ يُرْتَجَى مُرَاقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبَادَ الْأَزْكِيَاءِ وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِن دِمَاءِ الشُّهَدَاءِ وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِئُ فِي بُغْضِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنَا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَئَانِ وَ الْإِحَنِ وَ الْأَضْغَانِ ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ وَ لَا مُسْتَعْظِمٍ- لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ مُنْتَحِياً عَلَى ثَنَايَا أَبِي عَبْدِ اللَّهِ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ تَنْكُتُهَا بِمِخْصَرَتِكَ وَ كَيْفَ لَا تَقُولُ ذَلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّافَةَ بِإِرَاقَتِكَ دِمَاءَ ذُرِّيَّةِ مُحَمَّدٍ ص وَ نُجُومِ الْأَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ تَهْتِفُ بِأَشْيَاخِكَ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنَادِيهِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ اللَّهُمَّ خُذْ لَنَا بِحَقِّنَا وَ انْتَقِمْ مِنْ ظَالِمِنَا وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِمَاءَنَا وَ قَتَلَ حُمَاتَنَا فَوَ اللَّهِ مَا فَرَيْتَ إِلَّا جِلْدَكَ وَ لَا حَزَزْتَ إِلَّا لَحْمَكَ وَ لَتَرِدَنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص بِمَا تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِمَاءِ ذُرِّيَّتِهِ وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عِتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ حَيْثُ يَجْمَعُ اللَّهُ شَمْلَهُمْ وَ يَلُمُّ شَعَثَهُمْ وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ وَ حَسْبُكَ بِاللَّهِ حَاكِماً وَ بِمُحَمَّدٍ ص خَصِيماً وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقَابِ الْمُسْلِمِينَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً وَ أَضْعَفُ جُنْداً وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّوَاهِي مُخَاطَبَتَكَ إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ لَكِنَّ الْعُيُونَ عَبْرَى وَ الصُّدُورَ حَرَّى أَلَا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللَّهِ النُّجَبَاءِ بِحِزْبِ الشَّيْطَانِ الطُّلَقَاءِ فَهَذِهِ الْأَيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمَائِنَا وَ الْأَفْوَاهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنَا- وَ تِلْكَ الْجُثَثُ الطَّوَاهِرُ الزَّوَاكِي تَنْتَابُهَا الْعَوَاسِلُ وَ تُعَفِّرُهَا أُمَّهَاتُ الْفَرَاعِلِ وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنَا مَغْنَماً لَتَجِدَنَّا وَشِيكاً مَغْرَماً حِينَ لَا تَجِدُ إِلَّا مَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ فَإِلَى اللَّهِ الْمُشْتَكَى وَ عَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُهْدَكَ فَوَ اللَّهِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَهَا وَ هَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ فَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ- -12- راوی کہتا ہے کہ علی کی بیٹی اپنی جگہ سے اٹھیں اور یوں خطبہ شروع کیا : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ، و صلّى اللَّه على محمّد و آله أجمعين، صدق اللَّه كذلك يقول: ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّهِ وَ كانُوا بِها يَسْتَهْزِؤُنَ-13-۔ خدا کی حمد وثناء اور محمد اور اس کے آل پر سلام و درود بھیجنے کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی : اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انہوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلادیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے ۔ اے یزید کیا تم یہ گمان کرتےہو کہ زمین اور آسمان میں ہم پر راستہ بند اور تنگ کیا ؟ اور ہمیں کنیزوں کی طرح نکال دینا ہماری ذلت وخواری اور تمھاری کرامت اور عزت اور سربلندی کا باعث ہے ؟! یہ تمھاری بھول ہے ۔ اور دنیا کو اپنے لئے مرتب اور امور کو منظم دیکھتے ہو، اور ہماری حکومت اور سلطنت کو اپنے لئے باعث آرام و سکون تصور کرتےہو ؟ کیا تو نے خدا کے کلام کو بلادیا ؟ جس میں فرمایا: وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ-14- اور خبردار! یہ کفاّر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے- ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے ۔ اے آزاد شدہ عورت کے بیٹے ! کیا یہ انصاف ہے کہ تیری عورتیں اور کنیزیں پردہ نشین ہوں اور رسول خدا (ص) کی بیٹیاں اسیر ؟!! کہ جن کی چادروں کو سروں سے چھین لئے اور چہروں کو عیاں کردئے اور ان کو دشمنوں کی طرح شہر شہر پھرائے گئے ۔ اور ناموس رسول (ص) کے چہروں کو شریف اور ذلیل لوگوں کو دکھائے گئے ، جبکہ ان کے مردوں میں سے کوئی ان کا حامی اور سرپرست نہ موجود نہ رہے ؟! اور کیسے اس جگر خوار عورت کے بیٹوں سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں جس نے نیک اور صالح افراد کے جگر چبائی ہو اور شہدا ء کے خون سے اس کا گوشت و پوست پرورش پایا ہو؟! اور جو اہل بیت (ع) کی دشمنی پر تلے ہوئے ہو اور ہمیں دشمنی اور حسد اور کینہ کی نگاہوں سے دیکھتے ہو ؟ پھر بھی ذرہ برابر احساس گناہ کئے بغیر کہتے ہو: اے کاش میرے اجداد زندہ ہوتے اور خوشیاں مناتے اور مجھ سے کہتے : اے یزید تیرا شکریہ ؛ جبکہ تو ابی عبداللہ (ع) کے دندان مبارک کی بے حرمتی کررہا ہے ؟! ایسا کیوں کہتےہو،جبکہ تو نے محمد (ص) کے ذریہ پاک جو عبد المطلب کے آل اور روی زمین کے ستارے تھے ؛ کا خون بہا کر ہمارے زخم دل کو تازہ کیا ہے ۔ اور تم اپنے اجداد کو آواز دے رہے ہو اور یہ گمان کرتے ہو کہ تیری آواز ان تک پہنچ رہی ہے ، لیکن بہت جلد تو ان سے ملحق ہوگا ، اس وقت تم یہ تمنا کریگا اے کاش تیرا ہاتھ شل ہوتا اورزبان لال ۔ اور ایسی بات اورایسا کام نہ کرتا! خدا یا تو ہی ہمارا حق دلادے اور ان لوگوں سے جنہوں نے ہم پر ظلم کئے ہیں ان سے انتقام لے لے ۔ اور جنہوں نے ہمارے عزیزوں کا خون بہائے ہیں اور انہیں شہید کئے ہیں ،ان پر اپنا غضب نازل کر ۔ اے یزید! خدا کی قسم تو نے خاندان رسول خدا (ص) کا خون بہا کر اور عترت رسول (ص) کی ہتک حرمت کرکے خود اپنا کھال اتارا ہے اور اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔اس حالت میں جب قیامت کے دن سب لوگوں کو اکھٹے کئے جائیں گے ، اور ان کا حق خدا وند واپس لے گا ۔ جیسا کہ خدا وند ارشاد فرما رہا ہے : وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ۔ -15- تمھارے لئے یہی کافی ہے کہ خدا وند فیصلہ اور عدالت کرنے والا اور محمد مصطفے (ص) مدعی اور جبرئیل امین (ع) ان کا نگہبان ہے ، اور بہت جلد جن لوگوں نے تمہیں فریب دیا ہے اور تجھے لوگوں پر سوار کیا ہے ؛ یعنی معاویہ ، سمجھ لیں گے کہ ظالم اور ستمکاروں کا صلہ بہت برا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ تم میں سے کس کا ٹھکانا بدترین اور کس کا لشکر ضعیف ترین لشکر ہے ۔ اگرچہ زندگی کے نا خوشگوار حالات نے مجھے تجھ جیسوں کے ساتھ گفتگو کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جبکہ میرے نزدیک تیری کوئی حیثیت اور ارزش نہیں اور تیری ملامت اور مذمت بہت زیادہ ہے ۔لیکن کیا کروں ؛آنکھیں پر نم ہیں اور دل جل رہا ہے کہ حزب اللہ کے نجیب اور باشرافت انسانوں کا حزب شیطان کہ جو آزاد شدہ غلام تھے ؛ کے ہاتھوں شہید ہوئے ، اور ہمارا خون تمھارے پنجوں سے ٹپکنے لگے، اور ہمارے گوشت تمھارے منہ سے گرنے لگے، اور یہ پاکیزہ اور مبارک اجساد تمھارے درندہ صفت بھیڑئیوں کا خوراک بنے ، اور نادان بچوں کے ہاتھوں خاک آلود ہوگئے؟!! اگر آج ہمیں اپنے لئے غنیمت جانتے ہوتو بہت جلد دیکھ لوگے کہ کس قدر مایہ ننگ و عار اور باعث ضرر تھا ۔میں خدا کے سامنے یہ شکایت لے کر جاؤں گی اور اسی پر توکل کروں گی ۔ جو بھی مکر وفریب دینا ہے تو دے اور جو بھی اقدام اٹھا سکتے ہو اور جو بھی تلاش اور کوشش کرسکتے ہو تو کرلے ؛ خدا کی قسم نہ تم ہمارا نام مٹا سکو گے اور نہ ہماری وحی کے چراغ کو بجھا سکو گے ، کبھی تمھاری یہ آرزو پوری نہیں ہوگی۔ اور ہم پر کئے جانے والے ظلم و ستم کے دبّے کو اپنے سے پاک نہیں کرسکو گے ۔ تمھاری فکر پست اور تیری حکومت کے ایام بہت کم رہ گئے ہو ، تمھاری یہ جمعیت جلد ہی پراکندہ ہوجائے گی ۔اس دن منادی ندا کریگا : اے لوگو! آگاہ رہو خدا کی لعنت ظالموں پر ہو 16- اس خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ جس نے ہماری ابتدا سعادت اور مغفرت سے کی اور ہماری انتہا کو شہادت اور رحمت قرار دیا ۔خدا سے یہی میری دعا ہے کہ ان شہیدوں پر خدا کی رحمتیں کامل ہواور ہمیں ان کے نیک پسماندگان میں شمار فرما ۔ ہمارے لئے مہربان اور محبوب خدا کافی ہے جو نیک سرپرست اور وکیل ہے ۔ یزید نے زینب کبری ٰ (س) کے اس خطبے کے جواب میں یہ شعر پڑھنا شروع کیا : يا صيحة تحمد من صوائح ما اهون الموت على النّوائح یعنی یہ نوحہ کنان عورت کے لئے شائستہ ہے اور کس قدر موت ان دلسوختہ اور نوحہ گر عورتوں کے لئے آسان ہے ؟ اس کے بعد یزید نے شامیوں سے اسرای آل محمد (ص) کے بارے میں مشورہ کیا ، کی ان کےساتھ کیا کیا جائے ؟ تو انہوں نے ان کو قتل کرنے کا مشورہ دیا ۔لیکن نعمان بن بشیر جو وہاں موجود تھا ، کہنے لگا:رسول خدا (ص) نےجس طرح ان سے رفتار کیا ہے ویسے رفتار تم بھی ان کے ساتھ کیا کرو ۔ خطبہ کا نتیجہ یہ خطبہ اتنا جامع تھا کہ دوست دشمن سب پر حقیقت کو واضح کردیا ۔ اور مجلس جشن اور سرور ، یزید کیلئےمجلس ننگ وعار اور غم میں بدل گیا ۔ • سب سے پہلے زینب کبریٰ (س) نے خدا کی حمد وثنا اور اپنے نانا محمد مصطفی (ص) پر سلام ودرود پڑھ کر اپنا حسب ونسب بیان کیا کہ میں کون ہوں ۔ • سورہ روم کی آیت ۱۰ کی تلاوت کرکے یزید کے کافر ہونے اور آیات الہی کے منکر ہونے کو ثابت کیا ۔ اور اس شعر کی طرف اشارہ فرمایا جس میں یزید ارسال رسل وانزال کتب کا منکر ہوگیا تھا ۔ • بعض نادان لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ جنگ میں فتح حاصل ہونا حقانیت اور قرب الہی کی دلیل ہے ، آپ نے اس خام خیال کو رد کرتے ہوئے یزیدسے مخاطب ہوا : اے یزید ! کیا تمھارا گمان ہے کہ تو ۔۔۔ • امن العدل یابن الطلقاء؟ کہہ کر یزید کا حسب و نسب اور اس کی خاندانی حیثیت بیان فرمایا کہ تو ہمارے اجداد کےفتح مکہ کے موقع پر آزاد کردہ لوگوں کی اولاد ہو ۔ • ابن من لفظ فوہ اکباد الشہداء کہہ کر یزید کی بدکارماں ہند کی حیثیت کو واضح کیا ۔ • نصب الحرب لسید الانبیاء کہہ کر ابوسفیان کی رسول اللہ (ص) کے ساتھ سخت دشمنی کو واضح کیا ۔ • الا انھا نتیجۃ خلا ل الکفر کہہ کر یزید کی آخرت کے دن ندامت اور پشیمانی کو بیان فرمایا۔ • سورہ آلعمران کی آیت نمبر ۱۶۹ ، ۱۷۰ سے استدلال کیا کہ شہدائے کربلا زندہ اور خدا کے ہاں رزق پارہے ہیں ۔ • وسیعلم من بوّاک و مکّنک کہہ کر گذشتہ خلفاء کی خلافت کے غاصب ہونے کو ثابت کیا ، کہ جس کا نتیجہ ہی تھا کہ یزید جیسے فاسق و فاجر رسول اللہ (ص) کے مسند خلافت پر بیٹھنے لگا ۔ • ۔ ۔ ۔ فاتح شام کی واپسی حضرت زینب اور امام سجاد کی تقریروں نے شام کے اوضاع و احوال کو برعلیہ یزید متحول کیا ۔ جس کے بعد یزید نے اپنا روش تبدیل کر کے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ یزید کو معلوم ہوا کہ اب اہلبیت (ع) کو مزید شام میں ٹھہرانا اس کی مفاد میں نہیں، لہذااس نے اہلبیت اطہار(ع)کو مدینہ واپس بھیجنے کا انتظام کیا ۔ فارسی شاعر نے اس فاتحانہ واپسی کو یوں اپنے اشعار میں بیان کیا ہے : زینب آمد شام را یکبار ویران کرد و رفت اہل عالم را زکار خویش ، ویران کرد ورفت از زمین کربلا تا کوفہ و شام بلا ہر کجا بنھاد پا فتح نمایان کرد و رفت بالسان مرتضی از ماجرای نینوا خطبہ جان سوز اندر کوفہ عنوان کرد و رفت فاش می گویم کہ آن بانوی عظمای دلیر از بیان خویش دشمن را ہراسان کرد وفرت خطبہ غرّا فرمود در کاخ یزید کاخ استبداد را از ریشہ ویران کرد ورفت شام غرق عیش وعشرت بود، در وقت ورود وقت رفتن شام را شام غریبان کرد وفت -17- اس شعر کا م مفہوم یہ ہے :کہ زینب کبری (س) نے شام اور شام والوں (یزیدیوں )کوتباہ کرکے نکلیں ۔زمین کربلا سے لےکر کوفہ اور شام تک جہاں جہاں آپ نے قدم رکھا ؛ فتح کرکے نکلیں۔علی(ع) کے لب ولہجے اور دردناک فریاد میں کربلا کا الم ناک واقعہ کوفہ والوں کے سامنے تفصیل سے بیان فرما کرچلیں ۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ اس دلیر اور عظیم خاتون نے اپنے بیان اور خطاب کے ذریعے اپنے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیں ۔ شعلہ بیان خطبے کے ذریعے یزید اور ان جیسے ظالموں کے ایوانوں کی بنیاد یں قلع قمع کرکے نکلیں ۔ جب آپ کو اسیر بناکر شام لائی گئی تو اس وقت شام والے شراب نوشی میں مصروف اور جشن منارہے تھے ؛ لیکن جب آپ شام سے نکلنے لگیں تو اس وقت شام کو ، شام غریبان میں بدل کرنکلیں ۔ بحار الانوار میں بیان ہوا ہے کہ جب ہندہ یزید کی بیوی نے اپنا خواب اسے سنایا تو وہ بہت زیادہ مغموم ہوا ۔ اور صبح کو اہل بیت اطھار (ع)کو دربار میں بلایا اور کہا : میں پشیمان ہوں ۔ ابھی آپ لوگوں کو اختیار ہے کہ اگر شام میں رہنا چاہیں تو رہائش کا بندوبست کروں گا اور اگر مدینہ جانا چاہیں تو سفر کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام کروں گا ۔ اس وقت زینب کبری ٰ (س)نے یزید سے مطالبہ کیا کہ ان کو اپنے شہیدوں پر رونے کا موقع نہیں ملا ہے ، ان پر رونے کیلئے کسی مکان کا بندوبست کیا جائے ، اس طرح تین دن شام میں مجلس عزا برپا ہوئی اور اہل شام کے تمام خواتین اس مجلس میں شریک ہوگئیں ، یہا ں تک کہ ابوسفیان کے خاندان میں سے ایک عورت بھی باقی نہیں تھی جو امام حسین (ع) پر رونے اور اہلبیت(ع)کی استقبال کیلئے نہ آئی ہو۔ -18- جب فاتح شام کی روانگی کا وقت آیا تو زرین محمل کا انتظام کیا گیا تو شریکۃ الحسین(س) نے بشیر بن نعمان سےکہا : اجعلوھا سوداء حتی یعلم الناس انا فی مصیبۃ و عزاء لقتل اولادالزہرا(س) ۔ ان محملوں کو سیاہ پوش بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم اولاد زہرا (س)کے سوگ اور مصیبت میں ہیں ۔ جب اہلبیت (ع)عراق پہنچے اور زمین کربلا میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ جابر بن عبداللہ انصاری (ره)اور بنی ہاشم کے کچھ افراد سید الشہدا (ع)کے قبر مبارک پر زیارت کرتے ہوئے رورہے ہیں ۔ لہوف کے مطابق ۲۰ صفر کو شہدا کے سروں کو ان کے مبارک جسموں سے ملائے گئے۔ -19- زینب کبری (س) اپنے بھائی کی قبر سے لپٹ کر فریاد کرنے لگی: ہای میرا بھیا ہای میرا بھیا ! اے میری ماں کا نور نظر ! میری آنکھوں کا نور ! میں کس زبان سے وہ مصائب اور آلام تجھے بیان کروں جو کوفہ اور شام میں ہم پر گذری ؟ اور پست فطرت قوم نے کس قدر آزار پہنچائی؟ناسزا باتیں سنائی ؟ بھائی کی قبر سے وداع نوحہ سرائی کے بعد اپنے بھائی کی قبر سے وداع کرتے ہوئے جب بہت مضطرب ہوگئیں تو جناب زین العابدین (ع) نے فرمایا : انت عارفۃ کاملۃ و الصراخ من عادۃ الجاھلین اصبری واستقری ؛ پھوپھی جان !آپ تو عارفہ کاملہ ہیں آہ وزاری کرنا دور جاہلیت کی عادات میں سے ہے ، آپ صبر سے کام لیں ۔ اس وقت زینب کبری(س) نے فرمایا : یا علی و یا قرۃ عینی ! دعنی اقیم عند اخی حتی جاء یوم وعدی لانی کیف الق اہل المدینۃ و اری الدور الخالیۃ؟! -20- اے علی !اے میرے نور نظر ! مجھے یہیں رہنے دیجئے میرے بھائی کے پاس ، یہاں تک کہ موت آجائے ۔کس طرح میں مدینہ کو جاؤں اور اہل مدینہ سے ملاقات کروں اور کس طرح خالی مکانوں کا نظارہ کروں؟! پھر فریاد کرنے لگیں : وا اخاہ ! واحسیناہ! امام (ع) نے فرمایا : اے پھوپھی جان ! آپ سچ فرمارہی ہیں ،کہ بغیر بابا کے ، بھائی اور چچا عباس کے اور بھائی قاسم کے گھروں کا دیکھنا سخت ہے ، لیکن رضای الہی اور ہمارے نانا رسول خدا (ص) کا حکم بھی تو ہمیں بجا لانا ہے ۔ آج اگر کوئی اسلام بچا ہے تو حسین کی قربانی اور زینب کی لٹی ہوئی چادر اور سید سجاد کی اسیری کی مرہون منت ہے ۔ ورنہ تو یزید ، رسول خدا (ص) کا خلیفہ بن کر دین اور آئین رسول خد(ص)کا انکار کرچکا تھا ۔لیکن اہل بیت (ع) کی قربانی نے دین اسلام کی تا قیامت حفاظت کا انتظام کیا ۔ دنیا سے تو نے آخر یہ رسم ہی مٹادی اب مانگتا نہیں ہے بیعت کوئی کسی سے بی بی تیرا کرم ہے ہر ماں پہ ہر بہن پر اب چھینتا نہیں ہے چادر کوئی کسی سے -21- تمت بالخیر --------- 1 ۔ بحار ج۴۵ص ۱۷۷،ح۲۷۔ 2 ۔ پیا م اعظمی، والقلم 3 ۔ بحار، ج۴۵، ص ۱۰۸، ۱۱۰۔ 4 ۔ بحار ، ج۴۵ ، ص ۱۰۸، ۱۶۲۔۱۶۵۔ 5 ۔ احتجاج،ترجمه جعفرى، ج2، ص: 111-108 6 ۔ اللهوف على قتلى الطفوف، ص 181۔ 7 ۔ غم نامه كربلا، ص: 198۔ 8 ۔ اللهوف على قتلى الطفوف، ص: 180۔ 9 ۔ آلعمران ۲۶۔ 10 ۔ سید ظفر حسن، امرہوی؛ روایات عزا، ص۵۷۶۔ 11 ۔ ہماں ، ج ۴۵، ص ۱۳۳۔ 12 ۔ اللهوف على قتلى الطفوف، ص: 185۔ 13 ۔ روم ۱۰۔ 14 ۔ آلعمران ۱۷۸۔ 15 ۔ آل عمران/ 169۔ 16 ۔ هود/ 18۔ 17 ۔ سیرہ واندیشہ حضرت زینب، ص۳۱۳۔ 18 ۔ تاریخ طبری ، ج۳ ، ص۳۳۹۔ 19 ۔ ناسخ التواریخ حضرت زینب کبریٰ۔ 20 ۔ نائبۃ الزہرا ، ص۲۰۶۔ 21 ۔ پیام اعظمی؛ والقلم ۔ مبع:http://www.alhassanain.org