کردار زینب علیہا السلام
کردار زینب علیہا السلام
0 Vote
96 View
جس طرح قیامت تک آنیوالی تمام نسلوں پر چاہے وہ مرد ہوں یا عورت یہ حق بنتا ہے کہ امام حسین کو نہ بھلائیں اور انہیں ہر لمحہ یاد رکھیں ( چونکہ اگر امام حسین نے کربلا میں قربانی نہ دی ہوتی تو نہ آج اسلام ہوتا اور نہ ایمان ، نہ آج نماز ہوتی اور نہ ہی روزہ و حج ، غرضکہ شعائر الٰہی کے نام سے کوئی چیز باقی نہ ہوتی ) اسی طرح عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ کو بھی کسی لمحہ نہ بھلائیں کیونکہ شہادت امام حسین اور مقصد حسینی کی تکمیل حضرت زینب کبریٰ کی اسیری سے ہوئی ، اگر زینب کبریٰ کی اسیری نہ ہوتی تو کربلا تاریخ کے کسی دور افتادہ اوراق میں گم سم ہو کر محو ہو جاتی ، یا پھر دشمن اسے ایک سیاسی رخ دے کر حقیقت کا گلا گھونٹ دینے میں کامیاب ہو جاتے لیکن یہ جناب زینب کے وجود کا کمال ہے کہ تاریخ کربلا کو ہر تاریخ پر مقدم اور حیات جاودانی بخشی ، جبھی تو فارسی کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا : ترویج دین اگرچہ بقتل حسین شد تکمیل آن بموی پریشان زینب است دین اسلام کی تاریخ اگرچہ حسین کی شہادت سے ہوئی لیکن اس کی تکمیل زینب کی اسیری اور برہنہ سر سے ہوئی امام حسین کے اہداف کو مختلف مقام پر خاص طور سے دربار یزید میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کے درمیان ضمیر کو جگا دینے والے بے نظیر خطبہ کے ذریعہ بیان کرنا ، اور بنی امیہ کی حکومت اور اس کے افکار کو رسوائے زمانہ کر دینا دلیری اور شجاعت فقط اور فقط جناب زینب کی ہے ۔ ولادت : تاریخ ولادت کے حوالے سے علماء اور محدثین کے درمیان اختلاف ہے بعض کہتے ہیں۔ ٥ ھ ، تو بعض ٦ ھ ، اور بعض نے ٥ جمادی الاولیٰ ٧ ھ ، اور بعض نے اوائل شعبان لکھا ( لیکن مشہور نظر یہ اوائل شعبان ٦ ھ کاہے ۔ ولادت کے موقع پر پیغمبرۖ مدینہ میں موجود نہیں تھے ، لہذا سفر سے واپسی پر پیغمبر ۖ نے وحی الٰہی کے ذریعہ آپ کا نام زینب رکھا ۔ علم : جس طرح معصومین کا علم لدنی تھا ( یعنی بغیر کسی دینوی درسگاہ میں تعلیم حاصل کئے ) اور انھیں بچپن سے ہی حقائق عالم وغیرہ کا علم ہوتا تھا اسی طرح حضرت زینب کا بھی علم تھا جیسا کہ چوتھے امام نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا انت بحمد اللہ عالمة غیر معلمة فھمة غیر مفھمة ،، رسول خدا ۖ کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چار سے پانچ سال کے درمیان تھی ، آپ اپنی والدہ گرامی کے ساتھ مسجد آئیں اور حافظہ اتنا قوی تھا کہ ماں کے فدک سے متعلق بلیغ و طویل خطبہ کو ( جس کے ہر جملہ سے آج تک دنیا مستفید ہوتی رہی ہے اور اس کے نشیب و فراز کو بیان کرنے کے لئے متعدد شرحیں لکھی جا چکی ہیں لفظ بلفظ ذہن میں محفوظ کر لیا ، صرف یہی نہیں بلکہ اس خطبہ کے راویوں میں حضرت زینب بھی ایک ہیں ۔ ( آیة اللہ دستغیب ، زندگانی فاطمہ زہرا ۖ اور زینب کبریٰ ، ص ١٦ ) علم و تقویٰ : کرامات اور خارق العادات جیسی صفتوں سے بھر پور تھیں ۔ بچپن ہی سے امام حسین سے اتنی محبت رکھتی تھیں کہ ایک رات بھی بغیر بھیا حسین کے سکون نہیں ملتا تھا جس کی دلیل حضرت علی کا عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی پیش کش پر دو شرطوں کا رکھنا ہے ۔ (١) میری بیٹی ( زینب کبریٰ ) حسین سے بے حد محبت رکھتی ہے لہذا میں اس شرط پر تمہارے عقد میں دوں گا کہ تم اسے ٢٤ گھنٹے میں ایک بار ضرور حسین سے ملاقات کی اجازت دو گے چونکہ زینب حسین کو دیکھے بنا ایک دن بھی نہیں رہ سکتی ۔ (٢)جب بھی حسین سفر کریں اور زینب کو ساتھ لے جانا چاہیں تم زینب کو نہیں روکو گے اور حسین کے ساتھ جانے کی اجازت دو گے ۔ (ذبیح اللہ محلاتی ، ریاحین الشریعہ ، ج٣ ص ٤١) جس طرح رسول خدا ۖ حضرت فاطمہ ۖ کا احترام کرتے تھے بعینہ ویسے ہی حضرت علی جناب زینب کبریٰ کا احترام کرتے تھے ، جو کمالات و امتیازات ماں میں جلوہ گر تھے وہ حضرت زینب میں بھی موجود تھے جبھی آپ کو ثانی زہرا کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ علمی امتیاز : (١) حضرت علی کے دور حکومت میں کوفہ کی خواتین کے اصرار پر تفسیر قرآن کا درس دیتی تھیں ۔ ( آیة اللہ جزائری ۔ خصائص زینبیہ ) (٢) حضرت زینب کے خطبے : ( اختصار کے پیش نظر خطبے تبرک کے طور پر کچھ جملے ) تاریخ بشر یت میں ایسی خاتون کہاں ملے گی جس کے چھ یا سات بھائی قتل کر دیئے گئے ہوں ، بیٹے شہید کر دیئے گئے ہوں ، دس بھتیجے اور چچا زاد بھائی تہ تیغ کر دیئے گئے ہوں پھر اسے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اسیر کیا گیا ہو ایسی حالت میں اپنے اور شہیدوں کے حق کا دفاع کرے ۔ اور ایسے شہر میں جہاں کی شہزادی رہ چکی ہو اس کے بعد بھی زبان پر نہ گلہ اور نہ ہی شکوہ بلکہ صراحت کے ساتھ یہ کہے : ہم نے تو اپنی خواہش کے خلاف کچھ نہیں پایا ، ہمارے مرد اگر شہید ہو گئے تو تعجب کیا ہے ہم تو اسی لئے ہیں ، ہمارے لئے یہ فخر کا مقام ہے ، ہم تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ توفیق اور سعادت عطا کی ۔ ( مہدی پیشوایان ، سیرہ پیشوایان ، ص ١٩٧) الف : خطبہ حضرت زینب عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں دربار ابن زیاد میں ابن زیاد کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اپنی دلیری کا یوں مظاہرہ کیا : خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول ۖکے ذریعہ ہمیں عزت بخشی اور گناہ سے دور رکھا ، رسوا تو صرف فاسق ہوتے ہیں ، جھوٹ تو صرف ( تجھ جیسے ) بد کار بولتے ہیں ۔ الحمد للہ کہ ہم بدکار نہیں ہیں ۔ (شیخ مفید الارشاد ، ص ٢٤٤) ب : خطبہ حضرت زینب بازار کوفہ میں ( کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے ) اے مکار ، غدار ، خائن کوفیوں ! خدا کبھی تمہارے آنسووں کو خشک نہ کرے ، تمہاری قسمت میں سوائے خدا کی ناراضگی اور عذاب دوزخ کے سوا کچھ نہیں ، رئوو اور خوب رئوو چونکہ تمہارے نصیب میں صرف رونا ہی لکھا ہے ، ذلت و خواری تمہارا مقدر بن چکی ہے ، تم نے کام ہی ایسا کیا ہے کہ قریب ہے آسمان زمین پر آجائے ، زمین پھٹ جائے ، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اگر خدا کا عذاب ابھی تم پر نہیں آیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم محفوظ ہو ، خدا عذاب کو ( ہمیشہ ) فوراً نہیں بھیجتا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ،مظلوموں کو انصاف نہ دلائے ۔ ( مہدی پیشوایان ، سیرہ پیشوایان ص ٢٠٠ ١٩٩) فصاحت و بلاغت اور لہجہ حضرت زینب کا حال یہ تھا کہ ہر کوفی حیران تھا کہ کیا علی پھر دوبارہ آگئے ہیں ۔ باپ اور بیٹی کے درمیان ایسی فکری اور لسانی شباہت تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ خطبہ حضرت زینب یزید کے دربار میں : خدا نے سچ فرمایا : کہ جن لوگوں نے برے اور گھنونے کام کئے ان کی سزا ان لوگوں جیسی ہے جنھوں نے الٰہی آیات کی تکذیب کی ، اور اس کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید کیا تو الٰہی فرمان کو بھول گیا ( کہ خدا نے فرمایا ) کافر خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں ، اگر ہم نے مہلت دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان کی بھلائی چاہتے ہیں ؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ ہم نے اس لئے انھیں مہلت دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کر سکیں ( اور آخر کار ) سخت ترین عذاب میں گرفتار ہوں ( اور ان کی بخشش کا کوئی راستہ نہ رہ جائے ) اے اس آدمی کے بیٹے جسے میرے جد پیغمبر ۖ نے اسیر کرنے کے بعد آزاد کر دیا ، کیا یہی عدل و انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو پس پردہ بٹھائے اور رسول کی بیٹیوں کو اسیر کر کے دیار بدیار پھرائے ۔ اے یزید تونے ابھی اپنے آباء و اجداد کو یاد کیا ہے ( چونکہ ہمارے جوانوں کو شہید کر دیا ہے ) گھبرائو نہیں تم بھی جلد انھیں کے پاس پہنچنے والے ہو اور پھر تمنا کرو گے ، اے کاش تمہاری زبان گونگی ہو گئی ہوتی ( اور اہل بیت کو برا بھلا نہ کہتے ) اے کاش تمہارا ہاتھ شل ہو گیا ہوتا ( چونکہ تم نے بھیا حسین کے دندان مبارک کی چھڑی سے بے حرمتی کی ) جو لوگ راہ خدا میں قتل کر دئے گئے ہیں انھیں ہر گز مردہ نہ سمجھنا ( بلکہ ) وہ زندہ ہیں ، اور اللہ کی طرف سے رزق پاتے ہیں ۔ ( ہمارے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ خدا حاکم ہے اور محمد ( تمہارے ) دشمن ، اور جبرئیل مددگار ۔یزید تیری حیثیت میری نگاہ میں نہایت پست و حقیر ہے اور میں بے پناہ تیری ملامت کرتی ہوں اور تجھے بہت ذلیل اور خوار سمجھتی ہوں ۔ یزید تمہیں ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ تمہاری حشمت و جلالت اور حکومت سے میں مرعوب ہو جائوں گی ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لشکر خدا طلقائ ( آزاد کردہ غلام اور غلام زادوں ) اور لشکر شیطان کے ہاتھوں تہ تیغ کر دیا جائے ، اور ہمارے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر لے ۔ خدا اپنے بندوں پر ظلم روا نہیں کرتا ، ہم تو بس اسی سے شکوہ کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں ۔ لہذا جو فریب و حیلہ چاہے کر لے اور جتنی طاقت ہے آزمالے اور کوشش کر کے دیکھ لے خدا کی قسم ہمیں اور ہماری یادوں کو ( مومنین کے دل سے ) نہ مٹا سکے گا ، اور ہمارے ( گھر میں) نزول وحی کو کبھی جھٹلا نہ سکے گا ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمارے بزرگوں کو سعادت و مغفرت کے ساتھ اس دنیا سے اٹھایا اور ان کے بعد والوں کو مقام شہادت اور حجت پر فائز کیا ۔ ( شیخ عباس قمی ، نفس المہموم (ترجمہ آیة اللہ طرای ) ، ص ٢١٢ ٢١٣ ۔ ابن ابی طیفور ، بلاغات النسا ء ص ٢٣ ١٢ ) پورا شام جو کہ یزید کی کامیابی کا جشن منا رہا تھا ، یزید نے اپنی کامیابی کا سکہ جمانے کے لئے مختلف اسلامی ریاستوں سے سفیر بلائے تھے لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ جو ذلت و رسوائی کا قلادہ دوسروں کے گلے ڈالنا ہے وہ میرے گلے پڑ جائے گا ، جو کانٹا دوسروں کے لئے بچھایا ہے وہ میرے ہی پیر میں چبھ جائیگا ، جو کھائی دوسروں کے لئے بنائی ہے خود ہم ہی اس میں گر جائیں گے ، وتعز من تشاء وتذل من تشاء بغیر حساب آخر کار وہی ہوا جس کا یزید کو تصور بھی نہ تھا ، چاہا تھا مذاق اہل حرم کا اڑائیں گے خود مضحکہ بن گیا ، اہل حرم کے دربار آتے وقت جتنا مسکرا رہا تھا حضرت زینب کے مذکورہ فصیح و بلیغ خطبہ کے بعد مسکراہٹ ہونٹوں سے چھن گئی ، یزید کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا ، جبھی تو کھسیائے ہوئے انداز میں درباریوں اور مہمانوں سے مخاطب ہو کر بولا : خدا پسر مر جانہ کو تباہ و برباد کر دے میں حسین کے قتل پر راضی نہیں تھا ۔ مروّت و غیرت ، جود وسخاوت ، صبر و زہد کی بے نظیر خاتون ،١٤ رجب ( یا بروایت ٥ رجب ) ٦٢ ھ ، ٥٦ سال کی عمر میں شام کی طرف شوہر کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے اپنے پروردگار سے جا ملیں ، اور شام ہی میں شوہر سے متعلق زمین میں دفن کر دی گئیں ۔ جیسا کہ بعض کتب تاریخ میں ملتا ہے کہ آپ مدینہ یا مصر میں دفن کی گئیں قطعاً اشتباہ ہے جیسا کہ آیة اللہ دست غیب نے بھی اپنی کتاب زندگانی فاطمہ زہرا اور زینب کبریٰ ، ص ١٣ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا : حضرت علی کی ایک اور بیٹی تھیں جن کا نام زینب صغریٰ تھا انھیں مصر یا مدینہ میں دفن کیا گیا۔ ( شاید لفظ زینب کی بنا پر مورخین کو اشتباہ ہو گیا ہے ۔ ) منبع:http://www.alhassanain.org