شیعوں کی علمی میراث

شیعوں کی علمی میراث

شرع مقدس اسلام میں تالیف وتصنیف کی اہمیت کسی پر مخفی نہیں ہے کیونکہ علم وآگاہی کے منتقل کرنے کے راستوں میں ایک راستہ لکھنا ہے، عرب کے معاشر ے میں اسلام سے پہلے اس نعمت سے بہت کم لوگ بہرہ مند تھے اور صرف چند افراد لکھنے اور پڑھنے کی توانائی رکھتے تھے۔( ١)

لیکن بعثت پیغمبر ۖاور نزول وحی کے بعدتعلیمات اسلامی سے واقفیت کے لئے قرآنی آیات کے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ،جیسا کہ ابن ہشام نے نقل کیا ہے کہ عمر بن الخطاب کے مسلمان ہونے سے پہلے ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور ا ن کے شوہر سعید بن زید مسلمان ہوئے،خباب ابن ارث نے ایک نوشتہ کے ذریعہ کہ جسے صحیفہ کہتے ، عمر کی نظروں سے مخفی ہوکر انہیںسورہ طہ کی تعلیم دی۔ (٢)

مدینہ میں بھی رسول خدا ۖنے مسلمانوںمیں سے بعض افراد کو کہ جو لکھنے پر قادتھے وحی لکھنے کے لئے انتخاب کیا اس کے علاوہ پیغمبرۖ امیرالمومنین  کو کہ جو دائمی وحی لکھنے والے تھے

(١)ابن خلدون،عبد الرحمن بن محمد،(مقدمہ)دار احیاء التراث، بیروت، ١٤٠٨ھ ص ٤١٧

(٢)ابن ہشام ،سیرة النبوة،دار المعرفة ،بیروت،(بی تا) ج١ ،ص٣٣٤

مسلسل آیات محکمات ومتشابہات اور ناسخ ومنسوخ آیات کے بارے میںوضاحت پیش کرتے تھے جس کی بنا پر صحیفۂ جامعہ کے نام سے ایک کتاب رسول خدا ۖنے املا کرایا جو حلال و حرام ، احکام و سنن اور وہ احکام جن کی دنیا و آخرت میں لوگوں کو ضرورت ہے ان سب کو شامل تھی۔(١)

دوسری دو کتابیں جن میں سے ایک دیات کے بارے میں تھی جس کا نام صحیفہ تھا اور دوسری کتاب جس کا نام فریضہ تھا اس کی نسبت بھی حضرت کی طرف دی گئی ہے۔(٢)

بعض دوسرے صحابہ نے بھی رسولۖ خداکی تقاریر اور احادیث کو جمع کیا تھا اس کو بھی صحیفہ کہتے تھے جیسا کہ بخاری نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے:   اصحاب پیغمبر میں سے سب سے زیادہ میں احادیث رسول  ۖکو نقل کرتا ہوں سوائے عبد اللہ بن عمر کے کیونکہ وہ جوچیز بھی پیغمبرۖ سے سنتے تھے اس کو لکھ لیتے تھے لیکن میں نہیں لکھتا تھا۔(٣)

لیکن وفات پیغمبرۖ کے بعد دوسرے خلیفہ ،عمر نے احادیث رسول  ۖ کو

(١)نجاشی احمد بن علی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ ، موسسة النشر الاسلامی التابع لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ص ٣٦٠، اور طبرسی ، اعلام الوری باعلام الھدی ، موسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم طبع اول ، ١٤١٧ھ ج١ ص ٥٣٦

(٢) شیخ طوسی ، محمد بن حسن،تہذیب الاحکام،مکتبة الصدوق،طبع اول،٣٧٦ ھ ق ١٤١٨ھ ج١ ، ص٣٣٨۔٣٤٢

(٣) صحیح بخاری،دارالفکر،للطباعة والنشر والتوزیع،بیروت،ج١،ص٣٦

لکھنے سے منع کر دیا۔(١)

عمر بن عبدالعزیز نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں اس ممانعت کو ختم کر دیا اور ابو بکر بن حزم کو احادیث لکھنے کے لئے خط لکھا۔(٢)

لیکن دوسری صدی ہجری کے شروع تک یہ کام عملی طور پر نہیں ہو سکا کیونکہ غزالی کے نقل کی بنا پر جن لوگوں نے اہل سنت کے درمیان حدیث کی کتاب کو سب سے پہلے تالیف کیا ہے وہ یہ ہیں : ابن جریح ،معمر بن راشد ،مالک بن انس اور سفیان ثوری،(٣)یہ لوگ دوسری صدی ہجری کے نصف دوم میں تھے، ان کی وفات کے سال ان کے نام کی ترتیب  کے ساتھ اس طرح ہیں١٥٠ھ، ١٥٢ھ،١٧٩ھ،١٦١ھ لیکن خلیفہ دوم کی طرف سے کتابت احادیث پر پابندی اور روک ٹوک شیعوں کے درمیان مؤثر نہ ہوئی اور شیعوں کے بزرگ اصحاب جیسے سلمان فارسی ،ابو ذر غفاری،ابو رافع قبطی نے تالیف و تصنیف کی راہ میں پہلے قدم بڑھائے، ابن شہر آشوب کا بیان ہے ،غزالی معتقد ہے کہ سب سے پہلی کتاب جو جہان اسلام میں لکھی گئی وہ ابن جریح کی کتاب ہے جو تفاسیر کے حروف اور آثار کے بارے میں ہے کہ جس کو مجاہد اور عطا نے مکہ میں نقل کیا ہے، اس کی کتاب کے بعد یمن میںمعمر بن راشد صنعانی کی کتاب ہے اس کے بعد مدینہ میں موطا مالک بن انس کی کتا ب ہے نیز اس کتا ب کے بعدسفیان ثور ی کی کتاب جامع ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عالم اسلام میں سب سے پہلی کتاب

(١)حیدر،اسد ، امام صادق و مذاہب اربعہ، دارالکتاب عربی، بیروت،١٤٠٣ھ،ج١ ص٥٤٤

(٢) صحیح بخاری ،دار الفکر ،للطباعة والنشر والتوزیع،بیروت،ج١،ص٢

(٣) ابن شہر آشوب ،معالم العلمائ،منشورات المطبعة الحیدریہ،نجف ١٣٨٠ھ،ص٢

امیرالمومنین  نے لکھی ہے کہ جس میں قرآن کو  جمع کیا ہے حضرت کے بعد سلمان فارسی ، ابو ذر غفاری اصبغ بن نباتہ عبیداللہ بن ابی رافع نے تصنیف و تالیف کی راہ میں قدم اٹھایا اور ان کے بعد امام زین العابدین  نے صحیفۂ کاملہ تالیف کی۔(١)

ابن ندیم نے بھی شیعی تالیفات کو پہلی صدی سے مربوط جانتا ہے۔(٢)

شیعو ں کی تالیف و تصنیف اور آثار نبوی کی جمع آوری میںمقدم ہونے کی وجہ سے ذہبی نے ابان بن تغلب کی سوانح حیات میں کہاہے: اگر ابان جیسے شخص کی وثاقت تشیع کی طرف جھکائو اور میلان کی وجہ سے ختم ہو جائے تو نبی اکرم  ۖ کی بہت سی حدیثیں اور آثار ہمارے درمیان سے ختم ہو جائیں گے۔(٣)

اہل سنت کے گذشتہ فقہا اور محدثین خصوصاً ائمہ اربعہ نے امام صادق سے بلا واسطہ یا با لواسطہ استفا دہ کیا ہے نیز اس کے علاوہ مستقل طور پر شیعہ محدثین کی شاگردی بھی کی ہے اور ان سے احادیث دریافت کی ہیں۔(٤)

لیکن ان کتا بوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے جو شیعوں کے درمیان  تیسری صدی ہجری تک لکھی گئی ہیں، صاحب وسائل نے کہا ہے : ائمہ اطہار  کے ہم عصر دانشمندوں اور محدثوں نے امام امیر المومنین کے زمانہ سے لے کر امام حسن عسکری

(١)ابن شہر آشوب ،معالم العلمائ، ص ٢

(٢)الفہرست،دار المعرفة،للطباعة والنشر،بیروت، ص٣٠٧

(٣)ذہبی ، میزان الاعتدال، دار الفکر للطباعة والنشرو التوزیع، بیروت ، ج١ ص ٤

(٤)ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغة،دار الاحیاء التراث العربی،بیروت ،ج١، ص١٨

کے زمانہ تک چھ ہزار چھ سو کتابیں تحریر فر مائی ہیں۔(١)

شیعوں نے اس دور میں روز مرّہ کے مختلف علوم جیسے ادبیات، لغت ،شعر ،علوم قرآن ،تفسیر ،حدیث، اصول فقہ ،کلام ،تاریخ، سیرت،رجال ، اخلاق کے بارے میں بے حد کوششیں کی ہیں اور کثیر تعداد میں اپنی تالیفات چھوڑی ہیں نیز بیشترعلوم میں وہ سبقت رکھتے ہیں ۔

ابوالاسود دوئلی نے علم نحو کی بنیاد رکھی ،(٢)انہوں نے ہی سب سے پہلی مرتبہ قرآن پر نقطہ گذاری کی۔(٣)

مسلمانوں کی سب سے پہلی لغت کی کتاب، کتاب العین ہے جس کو خلیل بن احمد نے مرتب کیا ہے(٤) ان کا شمار شیعہ دانشوروں میں ہوتا ہے ۔(٥)

پیغمبر  ۖ کی جنگوں اور سیرت کے بارے میں سب سے پہلی کتاب ابن اسحاق نے لکھی اور ابن حجر نے اس کے شیعہ ہونے کی گواہی دی ہے۔(٦)

(١)شیخ حرعاملی،محمد بن حسن،وسائل الشیعہ،مکتبةالاسلامیہ ، تہران، طبع ششم ج ٢٠، ص ٤٩

(٢)ابن ندیم،وہی کتاب ص٦١

(٣)بستانی،دائرةالمعارف،دار المعرفة،بیروت،ج١،ص٧٨٨

(٤)ابن ندیم،وہی کتاب،ص٦٣

(٥)اردبیلی الغربی الحائری ،محمد بن علی ،جامع الرواة،منشورات مکتبة آیةاللہ مرعشی نجفی،قم، ١٤٠٣ھ قمری،ج١،ص٢٩٨

(٦)ابن حجر عسقلانی، تحریر تقریب التہذیب ،موسسة الرسالة ،بیروت ،طبع اول ،١٤١٧ھ ١٩٩٧ئ، ج٣،ص٢١١۔٢١٢

اس مختصر سی روشنی ڈالنے کے بعد ہم یہاں علم فقہ و حدیث اور کلام کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہیں جن کو مکتب تشیع نے اپنے مبانی اور اصول کی بنیاد پر اپنے سے مخصوص کیا ہے

علم حدیث:

حدیث یا سنت:قرآن کے بعد اسلامی  فقہ کا دوسرا منبع و ماخذہے یعنی معصوم  کا قول،فعل اور تقریر،(تقریر یعنی معصوم کے سامنے کوئی کام انجام دیا جائے اور معصوم خاموش رہیں اس کی رد میں کچھ نہ کہیں) اہل سنت حضرات سنّت یاحدیث کوپیغمبرۖ کے قول و فعل و تقریر میں منحصرجانتے ہیں لیکن شیعہ اما م معصوم کے قول،فعل اور تقریر کو بھی حجت قراردیتے ہیں اور حدیث کا حصہ شمار کرتے ہیں(١)اب ہم ائمہ کے زما نے میں حدیثوں کی تحقیق کے چار طبقہ جو چار مرحلوں کو شامل ہے انجام دیںگے :

پہلا طبقہ : نجاشی کے مطابق پہلے حدیث لکھنے والے حسب ذیل ہیں :

ابو رافع قطبی ، علی ابن ابی رافع ، ربیعہ بن سمیع ، سلیم بن قیس ہلالی، اصبغ بن نباتہ مجا شعی ، عبید اللہ بن حر جعفی یہ افراد امیرالمومنین علیہ السّلام اور امام حسن و امام حسین کے اصحاب میں سے ہیں۔(٢)

(١)شہید ثانی،شیخ زین الدین،ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ،طبع سنگی،ص٤،اور الرعایة فی علم الدرایة،شہید ثانی،مکتبة آیةاللہ مرعشی نجفی،طبع اول ١٤٠٨،ص٥٠۔٥٢

(١)رجال نجاشی،موسسہ نشر اسلامی التابعہ لجامعة المدرسین ، قم ، ١٤٠٧ھ ، قم ، ١٤٠٧ھ ق ص ٤۔ ٩

دوسراطبقہ : بعض محققین کے مطابق امام سجّاد  اور امام باقر کے اصحاب کے درمیان بارہ افرادصاحب تالیف ا ورصاحب کتاب تھے۔(١) ان میںابان بن تغلب کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جن کو ائمہ  کے نزدیک ایک خاص مقام و مرتبہ تھا امام باقر نے ان سے فرمایا : مسجد نبی ۖ میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوی  دوکیونکہ میںتم جیسے افرد کو اپنے شیعوں کے درمیان دیکھنا چاہتا ہوں۔(٢)

نجاشی کا بیان ہے :ابان بن تغلب مختلف فنون و علوم میں ماہر تھے ، ابان نے ان فنون کے بارے میں کتابیں تحریر کی ہیں ،ان میں سے تفسیر غریب القرآن اور کتاب الفضائل  وغیرہ ہیں ۔(٣)

اسی طرح ابو حمزہ ثمالی جن کے بارے میں امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا: ابوحمزہ اپنے زمانے میں سلمان کی طرح تھے،(٤) ان کی تالیف کردہ کتابیں درج ذیل ہیں کتاب نوادر ، کتاب زھد اور تفسیر قرآن ۔(٥)

(١)ان بارہ افراد کے نام یہ ہیں ، برد الاسکاف ، ثابت بن ابی صفیہ ابو حمزہ ثمالی ، ثابت بن ہرمز ، بسام بن عبد اللہ صیرفی ، محمد بن قیس بجلی ، حجر بن زائد حضرمی ، زکریا بن عبد اللہ فیاض، ابو جہم کوفی ، حسین بن ثویر ، عبد المومن بن قاسم انصاری ، عبد الغفار بن قاسم انصاری ،اور ابان بن تغلب ،رجوع کریں مقدمۂ وسائل الشیعہ، مکتبة الاسلامیہ ، طبع تہران ،ج ٦ ،١٤٠٣ھ ق ص

(٢) نجاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص ١٠

(٣) نجاشی ،احمد بن علی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة،موسسہ النشر الاسلامی لجماعة المدرسین،قم، ص ١١

(٤)احمد بن علی ، نجّاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص١٥

(٥)ابن شہر آشوب ،معالم العلماء ،منشورات مطبعة الحیدریہ، نجف ،١٣٨٠ھ ص ٣٠

تیسرا طبقہ :امام صادق کا زمانہ اسلامی معاشرہ میں علوم کی پیشرفت اور رشد کا زمانہ تھا اور شیعہ بھی نسبتاً آزاد تھے ،شیخ مفید کے مطابق امام صادق کے موثق اورمعتبر شاگردوں کی تعداد چار ہزارسے زائد ہے ۔(١)

امام رضا کے صحابی حسن بن علی وشاکا بیان ہے میں نے مسجد کوفہ میں نو سو افراد کو دیکھا جو امام صادق سے حدیث نقل کر رہے تھے ،(٢) اس وجہ سے حضرت سے کئے گئے سوالات کے جوابات میں چارسو کتابیں تالیف کی گئیں،(٣)کہ جن کو اصل کہتے ہیں ان کتابوں کے علاوہ بھی دوسری کتابیں مختلف علوم و فنون میں امام صادق کے اصحاب اور شاگردوں کے ذریعہ تحریر میں آئی ہیں ۔

چوتھا طبقہ :یہ دور امام صادق کے بعد کا دور ہے اس دور میںبہت سی حدیثوں کی کتابیں لکھی گئیں مثلاً امام رضا کے صحابی حسین بن سعید کوفی نے تیس کتابیں حدیث میں لکھی ہیں۔(٤)

امام رضا کے دوسرے صحابی محمدبن ابی عمیر نے چورانوے( ٩٤)کتابیںلکھی ہیں اور امام رضا و امام جواد  کے صحابی صفوان بن بجلی نے تیس٣٠ کتابیں تالیف کی

(١)شیخ مفید،الارشاد،ترجمہ ، محمد باقر ساعدی ، خراسانی ، کتاب فروشی اسلامی ، تہران ، ١٣٧٦ھ ش، ص ٥٢٥

(٢) نجاشی ، فہرست اسماء مصنفی الشیعة، ص ٣٩۔٤٠

(٣) اعلام الوریٰ با علام الہدیٰ ،موسسة آل البیت الاحیاء التراث ، قم طبع اول ج١ ص ٥٣٥

(٤)معالم العلماء ، ص ٤٠

ہیںان کتابوں میں اکثر پرجامع کا عنوا ن منطبق ہوتا ہے محدّ ثین جیسے ثقة الاسلام کلینی شیخ صدوق، شیخ طوسی نے اپنی کتابوں کی تالیف میں ان لوگوں کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ۔

علم فقہ :

مجموعی طور پر انسان کے اعمال کا رابطہ خُدا اور اس کی مخلوق سے ہے کہ جس کے لئے کچھ اصول اورقوانین کی ضرورت ہے اسی اصول اورقوانین کا نام علم فقہ ہے اسلامی قوانین خُدا کی جانب سے ہیں اور خُدا کے ارادے سے ظاہر ہوتے ہیں، البتہ ارادئہ خُدا کہیں بھی فقط قرار دادی اور اعتباری نہیں ہیں بلکہ مصالح و مفاسد تکوینی کی بنیاد پر استوارہوتے ہیں رسول اکرم ۖخُدا کے بھیجے ہوئے نبی ہیں ان کا حکم خُدا کا حکم ہے :

( ما ینطق عن الھویٰ اِن ھواِلّا وحی یوحی)(١)

اور آیۂ( اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرّسول و اولی الأمر منکم )(٢)

کی بنیاد پر خُدا نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے، ائمہ معصومین علیہم السلام کی باتیں وحی کے سوا کچھ نہیں ہیں اور پیغمبر  ۖکی طرح ان کی بھی اطاعت واجب ہے۔

(١)سورہ نجم ،٥٣، آیت  ٣۔٤

(٢)سورہ نسائ، آیت ٥٩

عصر صحابہ و تابعین میں فقہ کی موقعیت و وضعیت

رسول ۖاکرم کی وفات کے بعدحقیقی اسلام کا راستہ متغیرو منحرف ہو گیا اور لوگ بر حق جانشین پیغمبرۖ سے دور ہو گئے، مسائل شرعی میں اصحاب پیغمبر ۖ کی طرف رجوع کرنے لگے البتہ چنداصحاب ان میں سے پیش قدم تھے، جیسا کہ ابن سعد کا بیان ہے کہ ابوبکر، عمر، عثمان کے دور خلافت میں حضرت علی علیہ السلام، عبد الرّحمن بن عوف ،معاذ بن جبل  ابی بن کعب اور زید بن ثابت فتویٰ دیتے تھے ۔(١)

اگر چہ ائمہ اطہار اور کچھ بزرگان شیعہ  جیسے ابن عبّاس، ابو سعید خدری بھی فقیہ اور قانون شریعت سے واقف ہونے کی وجہ سے  عامہ اور اہل سنّت کے لئے مورد توجہ قرار پائے اور ان کی طرف لوگ رجوع بھی کرتے تھے ۔(٢)

البتہ اس دور میں شیعہ افراد فقہی مسائل اور اسلامی معارف کے بارے میں اپنے معصوم امام نیز اہل بیت رسول ۖکی جانب مراجعہ کرتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں فقہی اصول آج کی طرح بیان نہیںہوئے تھے لیکن صحابہ کا دور ختم ہونے کے بعد تابعین کی کچھ تعداد نے جدیدفقہی مسائل کے لئے فقہ میں کاوش کی اور فقیہ کا عنوان ان پرمنطبق ہوا منجملہ ا  نہیں میں سے وہ سات فقہائے مدینہ ہیں ۔ (٣)

(١)ابن سعد، طبقات الکبری، دار احیاء التراث ، العربی ، بیروت ، طبع اول ،ج ٢ ص ٢٦٧

(٢)ابن سعد،طبقات الکبری، ج ٢ ص ٢٧٩۔٢٨٥

(٣) ابن سعد کہتا ہے : مدینہ میں جو لوگوں کے فقہی مسائل کا جواب دیتے تھے اور ان کا قول قابل اعتماد تھا وہ یہ ہیں: سعید بن مسیّب، ابو بکر بن عبد الرحمن ، عروة بن زبیر ، عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبة، قاسم بن محمد، خارجة بن زید اور سلیمان بن سیّار ،طبقات الکبری، ج ٢ ص ٢٩٣

شیعو ں کے درمیان  فقہ کی وضعیت وحیثیت

فقہ کی وضعیت شیعوں کے درمیان حضور ِمعصوم کے سبب فرق کر تی ہے اور اس طرح کا اجتہاد جو اہل سنّت کے درمیان رائج تھا وہ شیعوں کے درمیان معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ کلّی طور پرکہا جا سکتا ہے کہ فقہ شیعہ اماموں کے حضور کے دوران غیبت صغریٰ کے ختم ہونے تک ایک فرعی چیز تھی جو اجتہاد کے لئے راستہ ہموار کر رہی تھی۔(١)

(١)آیة اللہ ابراہیم جنّاتی معتقد ہیں کہ ابتدائے اسلام سے اب تک فقہ شیعہ آٹھ دور گذار چکی ہے :

(١) اجتہاد کی ابتدا رسول اکرم  ۖ کی ہجرت سے  ١١ھ   تک ہوتی ہے ۔

(٢)تمہیدی دور یا اجتہادی مقدمات کا دور رسول اکرم ۖکی رحلت سے غیبت صغریٰ تک ہے

(٣) اصول قوانین کی تدوین یا مشترک عناصر اجتہادی کی تدوین کا دور جو ابن ابی عقیل ٣٢٩ھ سے شروع ہوتا ہے اور شیخ طوسی ٤٦٠ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٤) اجتہاد کے مشترک عناصر کے یاد کرنے کا دور جو شیخ طوسی سے شروع ہوتا ہے اور ان کے پوتے ابن ادریس ٥٩٨ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٥) اجتہادی مسائل کے استدلال کے پھیلنے کا دور جو ابن ادریس سے شروع ہو کر وحید بہبہائی ١٢٠٥ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٦) اجتہاد کے تکامل وارتقا کا دور جو وحید بہبہائی سے شروع ہوتا ہے اور شیخ انصاری  ١٢٨١ھ پر ختم ہوتا ہے ۔

(٧) اجتہادی مباحث میں عمیق غور و فکر کا دور جو شیخ انصاری سے شروع ہوتا ہے اور آقای خمینی پر ختم ہوتا ہے ۔

(٨) جدید طرزو روش سے اجتہاد سے فائدہ اٹھانے کا دور جس کے موجد آقای خمینی  ہیں ۔

(ادوار اجتہاد ، سازمان انتشارات کیہان ، طبع اول ، ١٣٧٢ھ ش،فصل دوم کے بعد سے)

معصوم کے ہوتے ہوئے اور علم کا دروازہ کھلا رہنے کے ساتھ نیز نص تک دسترسی کی بنا پر اجتہادجو اکثر دلائلی ظنّی سے وابستہ ہے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ،فقہ شیعہ میں اجتہاد کی بنیاد سب سے پہلے ابن ابی عقیل عمانی کے ذریعہ قرن چہارم کے اوائل میں رکھی گئی ،جو شیخ کلینی کے ہم عصر تھے، ان کے بعد محمد بن جنید اس کافی نے ان کے مقصد کوجاری رکھااور اجتہاد و فقہ کی بنیادوں کو مستحکم کیا یہ لوگ قد یمین سے معروف ہیں ،شیخ مفید متوفی  ٤١٣ ھ ، اورسید مرتضیٰ علم الھدیٰ متوفی ٤٣٦ھ ان لوگوں نے بھی اجتہاد کے راستہ کو ہموار کیا پھر نوبت شیخ طوسی ٤٦٠ھتک پہنچی ، شیعہ فقہ کو اس فقیہ بزرگ کے ذریعہ رونق اورترقی ملی انہوں نے حدیث کی دو معتبر کتا ب، تہذیب و استبصار کے علاوہ فقہی کتابیں بھی تالیف کی ہیںاور نہایہ، مبسوط اور خلاف جیسی کتا بیںانہیں کی قلم سے معرض وجود میں آئی ہیں ۔

البتہ ایسا نہیں ہے کہ اجتہاد، فقہ و اصول حضورائمہ  میں اصلاًرائج ہی نہیںہوئے تھے بلکہ بُعد مکانی کی وجہ سے ائمہ تک لوگوں کی رسائی نہیں تھی اس وجہ سے ائمہ معصومین ان موارد میں ان افراد کے ساتھ تعاون کر تے تھے اور فقہا کی شناسائی اورمعیار کو جن کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکے ان کی نشاندہی کر تے تھے اور وہ اجتہاد کے ذریعہ لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے ۔

جیسا کہ مقبو لہ عمر بن حنظلہ میں ہے کہ امام صادق سے سوال کیا گیا اگر شیعوں میں سے دو افراد کے درمیان کسی مسئلہ شرعی سلسلہسے متعلق مثلاً قرض او رمیراث میں اختلاف ہوجائے توکیا کہا جائے،امام  نے فرمایا: اس کی طرف رجوع کرو جو ہماری احادیث کو نقل کر تا ہے اور ہمارے حلال و حرام پر نظر رکھتا ہے اور ہمارے احکام سے واقف ہے کہ میں نے ایسے شخص کو تمہارے لئے قاضی اور حاکم قرار دیا ہے۔(١)

ائمہ طاہرین  بھی کبھی کبھی بعض اشخاص کو شیعو ں کے مسائل شرعی کا جواب دینے کے لئے منتخب کرتے تھے جیسا کہ شیخ طوسی نے کہا: علی بن مسیب نے امام رضا سے عرض کی راستہ بہت دور ہے اور میں جب چاہوںا پ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتا ایسی حالت میں میں احکام دین خُدا کے بارے میں کس سے سوال کروں؟ امام نے فرمایا: زکریا بن آدم قمی سے کیونکہ وہ دین و دنیا میں امین ہیں ۔(٢)

اسی طرح امام محمد باقر نے ابان بن تغلب کو حکم دیا کہ مسجد نبی ۖ میںبیٹھ کر لوگوں کو فتویٰ دیں ۔(٣)

آغاز اجتہاد:

اس دور میں أئمہ طاہر ین علیہم السلام اصول فقہ اور استنباط کے قواعد اپنے شاگردوں کو سکھاتے تھے، اسی وجہ سے وہ کتابیں جو شیعہ دانشمندوں کے ذریعہ لکھی گئی ہیں ،ان کی نسبت اماموں کی جانب دی جاتی ہے ، مثلاً کتاب آل الرسول  ہاشم خوانساری کی تالیف ہے اصول اصلیہ، سیّدعبداللہ بن محمد رضا حسین کی تالیف ہے، کتاب فصول المہمہ در اصول ائمہ محمد بن حسن حر عاملی کی تالیف ہے۔(٤)

(١)حر عاملی ، وسائل الشیعہ، ج ١٨، ص ٩٩، کتاب القضا ابواب صفات قاضی ، باب ١١، حدیث ١

(٢) شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، قم ج٢ ،ص ٨٥٧

(٣)احمد بن علی ، رجال نجاشی ،النشر الاسلامی، الطابعة جامعة المدرسین، قم ، ١٤٠٧،ص١٠

(٤)صدر سید حسین، تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام،منشورات، الاعلمی ، تہران، ٣١٠

رجال کی کتابوں میںائمہ طاہرین  کے بعض بزرگ اصحاب، فقہا میں شمار کئے گئے ہیں جیسا کہ فضل بن شاذان کے بارے میں نجاشی کا بیان ہے، ''کا ن ثقة احد اصحابنا الفقھا والمتکلمین ''۔(١)

فقہاء اصحاب ائمہ

شیخ طوسی نے امام باقر   ـ،امام صادق   ـ، امام کاظم  ـاور امام رضا   ـکے اصحاب میں سے اٹھارہ اصحاب کو فقیہ بزرگ کے عنوان سے پہچنوایاہے اورانہیں فقہائے اصحاب ابی جعفر  فقہائے اصحاب ابی عبداللہ  اور فقہائے اصحاب ابی ابراہیم اور ابی الحسن الرضا سے تعبیر کیا ہے،پھر مزیدفرماتے ہیں کہ شیعہ ان حضرات کی روایات کی صحت پر اجماع رکھتے ہیں اور اصحاب أئمہ  کے درمیان ان کے افقہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں، شیخ نے ان کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے:

پہلاطبقہ :فقہائے اصحاب امام باقر،جیسے زرارہ ،معروف بن خربود ،بریدہ ابوبصیر اسدی ، فضیل بن یسارا ور محمد بن مسلم طائفی کہ زرارہ ان سب میں افقہ تھے یعنی سب سے بڑے فقیہ تھے ان لوگوں کا اصحاب امام صادق علیہ السلام میں بھی شمار ہو تا ہے

دوسرا طبقہ: فقہائے امام صادق علیہ السلام ،جمیل بن درّاج ،عبداللہ بن مسکان، عبداللہ بن بکیر ، حماد بن عیسیٰ ا و رحماد بن عثمان ۔

(١)رجال نجاشی،ص ٣٠٧۔

تیسرا طبقہ: فقہائے امام کاظم  اور امام رضا علیہما السلام ،یو نس بن عبدالرحمن، صفوان بن یحٰ ، بیاع السابری، محمد بن ابی عمیر ، عبداللہ بن مغیرہ ،حسن بن محبوب، احمد بن محمد بن ابی نصر۔(١)

ابن ندیم نے بھی چند شیعہ فقہا اور ان کی تالیف کردہ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ وہ بزرگان ہیںکہ جنہوں نے فقہ کو امامو ں سے نقل کیا ہے کہ اس کے بعدابن ندیم نے ان کے نامو ں کا تذکرہ کیا ہے جو حسب ذیل ہیں :

صالح بن ابی الاسود ،علی بن غرّاب ، ابی یحییٰ لیث مرادی ، زریق بن زبیر، ابی سلمہ بصری ،اسماعیل بن زیاد ، ابی احمد عمربن الرّضیع ،دائود بن فرقد ، علی بن رئاب ، علی بن ابراھیم معلی،ہشام بن سالم ، محمد بن حسن عطار، عبدالمومن بن قاسم انصاری سیف بن عمیرہ نخعی ، ابراھیم بن عمر صنعانی ، عبداللہ بن میمون قداح، ربیع بن ا بی مدرک، عمر بن ابی زیاد ابزاری، زیکار بن یحیی واسطی، ابی خالد بن عمرو بن خالد واسطی ، حریزبن عبدللہ ازدی سجستانی ، عبداللہ حلبی، زکریا ی مومن ثابت ضرری ، مثنیٰ بن اسد خیاط، عمر بن اذینہ، عمّار بن معاویہ دہنی عبدی کوفی ، معاویہ بن عمّار دہنی، حسن بن محبوب سراد، ان بزرگوں میں سے ہر ایک نے فقہ میںکتاب تحریر کی ہے۔(٢)

(١)شیخ طوسی، رجال کشی،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، قم، ج ٢ ص ٥٠٧۔ ٣٧٦۔٨٣٠

(٢) طوسی، ابی جعفر محمد بن حسن ، بن علی،الفہرست ،دار المعرفة للجماعة والنشر ، بیروت، ص ٣٠٨

علم کلام

ان اعتقاد کے مجموعہ کا نام علم کلام ہے جن پر ہر مسلمان کو یقین رکھناضروری ہے،دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ علم کلام ایک ایسا علم ہے جو اصول دین میں تحقیق و گفتگو کا متکفل ہوتا ہے اصول دین میں پہلا اختلاف مسئلہ امامت میں پیغمبر  ۖکی وفات کے فوراً بعد وجود میں آیا ، شہر ستانی کاکہناہے: اسلام میں اہم ترین اختلاف امامت کے سلسلہ میں ہے امامت کی طرح کسی دوسرے دینی مسئلہ میں تلواریں نہیں کھینچی گئی۔(١)

نوبختی کا بھی بیان ہے:رسول ۖخُداربیع الاوّل  ١٠  ھ (١)میں دنیا سے گئے آپ کی عمر ترسٹھ سال تھی ا ور مدّت نبوت تیئس سال تھی ، اس وقت امّت اسلام تین فرقوں میں تقسیم ہو گئی ، ایک فرقہ کا نام شیعہ یعنی شیعان علی ابن ابی طالب تھا،شیعوں کی تمام قسمیں ان سے وجود میں آئی ہیں ،دوسرا فرقہ جس نے حکومت وامارت کا دعویٰ کیا وہ انصار تھے ، تیسرا فرقہ ابو بکر بن ابی قحافہ کی طرف مائل ہو گیا اور کہا: پیغمبرۖ نے کسی کو اپنا جانشین نہیں بنایا ہے اور اس کا اختیار امت کو دے دیا ہے۔(٣)

اس بناپراس وقت سے مسلسل شیعوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان امر امامت کے سلسلہ میںاحتجاج بحث و مباحث نیز گفتگو کا سلسلہ جاری ہے لیکن دوسرے اصول اور مبانی میں اختلاف پہلی صدی کے آخر اور دوسری صدی کے اوائل

(١) ملل ونحل، شہرستانی ، منشورات الشریف الرضی قم ، طبع دوم ١٣٦٤ھ ج ١ ص ٣٠

(٢) مشہور یہ ہے کہ رسول خدا نے اٹھائیس صفر کو رحلت فرمائی

(٣)نو بختی ابن ابی محمد حسن بن موسیٰ، فرق الشیعہ، مطبع حیدریہ نجف ١٣٥٥  ، ١٩٣٦ ص ٢۔ ٣

میں وجود میں آیا ہے ، جیسا کہ شہرستانی کا بیان ہے: اصول میں اختلاف صحابہ کے آخری ایّام میں ہوا ،معبد جہنی، غیلان دمشقی اور یونس اسواری نے خیر و شر کے سلسلہ میں قدر جیسے قول کی بدعت جاری کی ہے اورو اصل بن عطا جوحسن بصری کا شاگرد ہے اور عمر بن عبید نے قدر میں کچھ چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔ (١)

وہ کلامی فرقے جو اس دور میں تھے حسب ذیل ہیں:

وعیدیہ ، خوارج،مرجئہ اور جبریہ، البتہ کلامی بحث اس وقت عروج پر پہنچی جب واصل بن عطا، حسن بصری سے علیحدہ ہوگیااور مذہب معتزلہ کی بنیاد رکھی ، (٢) مکتب معتزلہ کہ جو زیادہ تر عقلی استدلال پر مبنی تھا اہل حدیث کے مقابلہ میں قرار پایا کہ جسے حشویہ کہا جاتا ہے ابوالحسن اشعری تیسری صدی ہجری کے آخر میں مکتب معتزلہ سے جدا ہو گیا اور مذہب اہل حدیث کا عقلی بنیادوں پردفاع کیا اور اس کا مذہب ،مذہب اشعری کے نام سے موسوم ہو گا ۔(٣)

اس کے بعد معتزلی مذہب نے پیشرفت نہیں کی اور اہل حدیث کے مقابلے میں عقب نشینی اختیار کی اس حد تک کہ اس وقت اہل سنّت کے درمیا ن رائج کلام اشعری کاکلام ہے، کلام شیعہ مسلمانوں کے درمیان سابق ترین کلامی مکتب ہے، شیعوں کے پہلے امام معصوم حضرت علی  نے اعتقادی مسائل جیسے توحید قضاو قدر ، جبرو اختیار کے بارے میں گفتگو کی اور اس طریقے کے مطالب حضرت کی زبان سے نہج البلا غہ میں جمع ہوئے

(١) شہرستانی، ملل و نحل ، منشورات الشریف الرضی ، قم طبع دوم ١٣٦٤ ھ ج ١ ص ٣٥

(٢)ملل ونحل، شہرستانی ، ص ٥٠٠

(٣)شہرستانی، ملل و نحل ، ص ٨٥۔٨٦

ہیں، لیکن شیعوں کے درمیان امامت کے سلسلہ میں کلامی گفتگو پیغمبر  ۖ کی وفات کے فوراًبعد حضرت علی کی حقانیت کے دفاع میںشروع ہو گئی تھی ،شیخ صدوق کے مطابق جنہوںنے سب سے پہلے سقیفہ کے مقابلہ میں حضرت علی کے حق سے دفاع کیا وہ پیغمبرۖ کے بزرگ اصحاب میں سے بارہ افراد ہیںکہ جنہوںنے سقیفہ کے چند روز بعد مسجد نبیۖ میں ابو بکر کے خلاف احتجا ج کیا اور ابو بکر ان کے جواب میںعاجز و نا تواں نظرآئے۔(١)

ان کے بعد بھی ابوذر غفّاری جیسے شخص، امیرالمومنین  کے حق کے غاصبوں کے مقابلہ میں خاموش نہیں بیٹھے، عثمان نے خوف کی وجہ سے ان کو شام اور ربذہ شہر بدر کردیا ، پیغمبرۖ کے ابن عم حضرت علی  کے شاگرد ابن عباس (مفسر قرآن، عظیم دانشور اوربر جستہ ہاشمی سیاست مدار)مکتب تشیع کے مدافعین میںسے تھے اور مستقل حقانیت علی  کی جانبداری کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے ان پر اشکال واعتراض کیا کیوں آپ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارا حق غصب ہوا ہے ؟وہ آخر عُمر میں نا بینا ہوگئے تھے، ایک روز سنا کہ کچھ لوگ کہیں پر علی  کو برا کہہ رہے ہیں اپنے بیٹے علی سے کہا میر ا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے چلو ،جس وقت وہاں پہنچے ان کو مخاطب کر کے کہا تم میں سے کون خُدا کو بُرا کہہ رہا تھا: سب نے کہا: کوئی نہیں، پھر سوال کیا تم میںسے کون رسول خدا ۖکو برا کہہ رہا تھا ؟سب نے کہا:کوئی نہیں پھر کہا :تم میں سے کون علی  کو بُرا کہہ رہا تھا؟اس بار ان لوگوں نے کہا : ہم کہہ رہے تھے، ابن عباس نے کہا گواہ رہنا میں نے رسولۖ خُدا سے سنا ہے کہ جس نے

(١)شیخ صدوق، الخصال، منشورات جماعة المدرسین ، فی الحوزہ العلمیہ قم ١٤٠٣ ص ٤٦١، ٤٦٥

علی  کو برا کہا اس نے مجھ کو برا کہا اور جس نے مجھ کو برا کہا اس نے خُدا کو برا کہا اور خُدا کو برا کہنے والا جہنّم میں جائے گا، وہاں سے پلٹتے وقت راستے میں بیٹے سے کہا ان کو کس حال میں دیکھ رہے ہو،بیٹے نے یہ شعر پڑھا :

نظروا الیکٔ بأ عین محمرہ

نظرا  لیتو س الیٰ شفار الجارز

آپ کو سُرخ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جیسے قربانی کے جانورکی نگاہ قصّا ب کی چھری پر ہو تی ہے، ابن عبّاس نے کہا :آگے پڑھو ، کہا:

خزر الحواجب نا کسی اذقا نھم

نظرالذلیل الیٰ العزیز  القادر

ان ابرواوران کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں منہ پچکا ہوا تھا، اس طرح آپ کو دیکھ رہے تھے جیسے ذلیل قدرتمند کودیکھتا ہے ۔

ابن عبّاس نے کہا: مزید کہو،بیٹے نے جواب دیا: دوسری چیزیں بیان نہیں کرسکتا، ابن عبّاس نے خود یہ شعر پڑھے:

احیا ؤ ھم خزی علیٰ امواتھم

والمیّتون فضیحة للغابر (١)

ان کے زندہ ان کے مرنے والوں کے لئے ذلت کا باعث ہیں اور ان کے مرنے والے گزشتہ لوگوں کے لئے توہینکا سبب ہیں ۔

١)شیرازی سید علی خان ، الدرجات الرفیعہ، منشورات مکتبہ بصیرتی ،قم ، (بی تا)ص ١٢٧

اصحاب امیر المو منین  میں سے بعض بزرگان جیسے صعصعة بن صوحان، میثم تمّار،کمیل بن زیاد ، اویس قرنی ، سلیم بن قیس ،حارث حمدانی اور اصبغ بن نباتہ نے بھی امیرالمومنین  کے حق کا دفاع کیا اور اس بارے میں حضرت کے دشمنوں سے احتجاج کیا ، لیکن شیعوں میں سب سے پہلے علم کلام میں کس نے کتاب لکھی یہ تحقیقی موضوع ہے، ابن ندیم و ابن شہر آشوب کے مطابق علی بن اسماعیل بن میثم تمّار کلام شیعہ کے پہلے مصنف ہیں،انہوں نے اس بارے میں کتاب امامت اور کتاب استحقاق لکھی ہے۔ (١)

لیکن مرحوم سیّد حسن صدر علم کلام میں پہلے مصنف عیسیٰ بن روضہ کو جانتے ہیں۔(٢)

البتہ کلام شیعہ کی قدیم ترین کتاب جوآج بھی دسترس میں ہے، کتاب ''الایضاح '' ہے جس کے مصنف فضل بن شاذان متوفی ٢٦٠ھ ہیں جو امام ہادی  اور امام حسن عسکری  کے صحابی تھے ،امام صادق کے دور میں علم کلام نے بھی دوسرے تمام علوم کی طرح ترقی پائی اور حضرت  کے چند شاگرد جیسے ہشام بن حکم ،ہشام بن سالم، مومن طاق ، فضال بن حسن ، جابر بن یزید جعفی وغیرہ اس موضوع میںسب زیادہ برجستہ اورنمایاں تھے اور اس سلسلہ انہوں نے میں اپنی کتابیں چھوڑی ہیں ان کا دوسرے مکاتب کے دانشمندوں سے مناظرہ ہوتا تھا ، فضل بن شاذان نیشاپوری متوفی ٢٦٠ھ ممتاز ترین شیعہ متکلم تھے، انہوں نے امام رضا امام جواد اور امام ہادی کے زمانے کو درک کیا ہے اور کلام و عقائد اور منحرف مذاہب

(١) ابن ندیم گزشتہ حوالہ ، ص ٢٤٩، اور ابن شہر آشوب ، معالم العلماء ، منشورات مکتبة الحیدریہ ، نجف ١٣٨٠ھ   ١٩٦١م ص ٦٢

(٢)تاسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، منشورات الاعلمی ، تہران ص ٣٥٠

کے خلاف کافی کتابیں لکھی ہیں۔ (١)

حسن بن نو بختی متوفی  ٣١٠  ھ شیعہ متکلمین میں سے تھے ان کی جملہ کتابوں میں سے ایک فرق الشیعہ ہے ۔ (٢)

(١)نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، نجاشی موسسة الاسلامی تابعة لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ، ص٣٠٦

(٢) فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، نجاشی موسسة الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین ، قم ١٤٠٧ھ ص ٦٣

/www.shianet.in