علم تجوید کی اہمیت و ضرورت
علم تجوید کی اہمیت و ضرورت
0 Vote
97 View
تجوید کی تعریف: تجوید اس علم کا نام ھے جس سے قرآن کے الفاظ اور حروف کی بھتر سے بھتر ادائیگی اور آیات و کلمات پر وقف کے حالات معلوم ھوتے ھیں ۔ اس علم کی سب سے زیادہ اھمیت یہ ھے کہ دنیا کی ھر زبان اپنی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی رکھتی ھے کہ اس کا طرز و لھجہ دوسری زبانوں سے مختلف ھوتا ھے اور یھی لھجہ اس زبان کی شیرینی ،چاشنی اور اس کی لطافت کا پتا دیتا ھے ۔ جب تک لھجہ و انداز باقی رھتا ھے زبان دلچسپ اور شیریں معلوم ھوتی ھے اور جب لھجہ بدل جاتا ھے تو زبان کا خاصہ ختم ھو جاتا ھے ۔ ضرورت ھے کہ کسی زبان کو سیکھتے وقت اور اس میں تکلم کرتے وقت اس با ت لحاظ رکھا جائے کہ اس کے الفاظ اس انداز سے ادا ھوںکہ جس انداز سے اھل زبان ادا کرتے ھیں اور اس میں حتی الامکان وہ لھجہ باقی رکھا جائے جو اھل زبان کا لھجہ ھے اس لئے بغیر تجوید، زبان تو وھی رھے گی لیکن اھل زبان اسے زبان کی بر بادی ھی کھیں گے ۔ اردو زبان میں بے شمار الفاظ ھیں جن میں ت اور د کا لفظ آتا ھے اور انگریزی زبان میں ایسا کوئی لفظ نھیں ھے ۔ انگیریزی بولنے والا جب اردو کے ایسے لفظ کو استعمال کرتا ھے تو تم کے بجائے ٹم اور دین کے بجائے ڈین کھتا ھے جو کسی طرح بھی اردو کھے جانے کے لائق نھیں ھے ۔ یھی حال عربی زبان کا بھی ھے کہ اس میں بھی الفاظ و حروف کے علاوہ تلفظ و ادا ئیگی کو بھی بے حد دخل ھے اور زبان کی لطافت کا زیادہ حصہ اسی ایک بات سے وابستہ ھے۔ اس کے سیکھنے والے کا فرض ھے کہ ان تمام آداب پر نظر رکھے جو اھل زبان نے اپنی زبان کے لئے مقرر کئے ھیں اور ان کے بغیر تکلم کر کے وہ دوسرے کی زبان کو برباد نہ کرے ایسے اصول و آداب اور اس طرح کے شرائط و قوانین کو پیش نظر رکھنے کے بعد پہلا خیال یہی پیدا ھوتا ھے کہ انسان ایسی زبان کو حاصل ھی کیوں کرے جس میں اس طرح کے قواعد ھوں اورجس کے استعمال کے لئے غیر معمولی اور غیر ضروری زحمت کا سامنا کرنا پڑے لیکن یہ خیال بالکل غلط ھے ۔ ایک غیر مسلم تو یہ بات سوچ بھی سکتا ھے مگر مسلمان کے امکان میں یہ بالکل نھیں ھے ۔مسلمان کی اپنی کتاب اور اس کا دستور زندگی عربی میں ھی نازل ھوا ھے۔ اس کی دنیا و آخرت کا پیغام عربی زبان ھی میں ھے اور وہ دستور ، قانون زندگی ھونے کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ اور اس کی برتری کی دلیل بھی ھے ۔ اب اگر اس کتاب کو نظر انداز کر دیا گیا تو اسلام کا امتیاز ھی کیا رھے گا اور رسالت پیغمبر اسلام (ص) کوثابت کرنے کا وسیلہ کیا ھوگا ۔ قرآن صرف دستور حیات ھوتا تو ممکن تھا کہ انسان کسی طرح بھی تلفظ کرکے مطلب نکال لیتا اور عمل کرنا شروع کر دیتا ۔ دستور زندگی معنی چاھتا ھے اسے الفاظ کے حسن سے زیادہ دلچسپی نھیں ھوتی ۔ لیکن قرآن کریم معجزہ بھی ھے ۔ وہ قدم قدم پر اپنی تلاوت کی دعوت بھی دیتا ھے ۔اپنی فصاحت و بلاغت کا اعلان بھی کرتا ھے اور اپنے سے وابستہ افراد کو متوجہ بھی کراتا ھے کہ اس کے محاسن پر غور کریں اور اس کی خوبیوں کو عالم آشکار کریں ۔ یہ ناممکن ھے کہ کوئی شخص اس کے ماننے والوں میں شمار ھو اور اس کی طرف سے بے توجہ ھو جائے ۔لھذا جب توجہ کرے گا تو تلاوت کرنا ھو گی اور جب تلاوت کی منزل میں آئے گا تو ان تمام اصول و آداب کو سیکھنا پڑے گا جن سے زبان کا حسن و امتیاز ظاھر ھوتا ھے ۔ قرآن مجید تو خود بھی ترتیل وغیرہ کا حکم دیتا ھے جس سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ وہ بھر طور تلاوت کرا کے اپنے حسن کو پامال نھیں کرانا چاھتا اور اس کا منشاء یھی ھے کہ اس کی تلاوت کی جائے تو انھیں شرائط و آداب کے ساتھ جن سے اس کی عظمت اور اس کا حسن وابستہ ھے۔ اس مقام پر یہ بھی ممکن ھے کہ کوئی انسان ان امتیازات کے باوجود تلاوت قرآن نہ کرے اور بھت سے بھت ثواب سے محروم ھو جائے ۔اس پر کوئی ایسا دباؤ نھیں ھوتا کہ وہ تلاوت کی ذمہ داری لیکر ان تمام مشکلات میں گرفتار ھو لیکن اسلام نے نماز میں حمد و سورہ وغیرہ واجب کرکے اس آزادی کو بھی ختم کر دیا اور واضح طور پر بتا دیا کہ تلاوت قرآن ھر مسلمان کا فرض ھے نیز تلاوت عربی زبان کے بغیر نھیں ھو سکتی ۔ زبان کا عربی رہ جانا بھی اس بات پر موقوف ھے کہ اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھا جائے اور اس میں کوئی ترمیم اور تبدیلی نہ کی جائے ۔ جس کے بعد یہ کہنا بھی صحیح ھے کہ علم تجوید اپنی تفصیلات کے ساتھ نہ سھی لیکن ایک مقدار تک واجب ضرور ھے اور اس کے بغیر نماز کی صحت مشکل ھے اور نماز ھی کی قبولیت پر سارے اعمال کی قبولیت کا دارومدار ھے۔ اب اگر کوئی شخص تجوید کے ضروری قواعد کو نظر انداز کر دیتا ھے تو قراٴت قرآن کی طرح نماز کو بھی برباد کرتا ھے اور جو نماز کو برباد کرتا ھے، اس کے سارے اعمال کی قبولیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ھے اور یھی علم تجوید کی عظمت و برتری کی بھترین دلیل ھے- منبع:http://shiaarticles.com