مسلمان سائنس دانوں کی انقلاب آفریں دریافتیں اور ایجادات
مسلمان سائنس دانوں کی انقلاب آفریں دریافتیں اور ایجادات
0 Vote
65 View
اس مضمون میں ان پچاس سے زائد انقلاب آفریں دریافتوں، سا ئنسی آئیڈیاز ، ایجادات اور انکشافات کا ذکر کیا گیا ہے جن کا خیال سب سے پہلے مسلمانوں کوآیا تھا ۔ ہر آئیڈیا کسی بھی ایجاد میں بیج کی طرح ہوتا ہے ۔ ہر دریافت ،ہر ایجاد، ہر انقلاب، ہر تحریک کے پیچھے کوئی نہ کوئی آئیڈیا کارفرما ہو تا ہے ۔ آئیڈیا کسی ایٹم میں پنہاں ایٹمی قوت کی طرح ہوتا ہے، آئیڈیا جتنا طاقت ور ہوگا اس سے جنم لینے والی چیز اتنی ہی کوہ شکن ہوگی ۔ آئیڈیاز دوسرے آئیڈیاز سے ہی جنم لیتے ہیں ۔ نئے آئیڈیاز کے لئے دانشوروں سے ملنا، گفتگو کر نا، بحث کرنا، کتابیں پڑہنا، مطالعہ کرنا، تنہائی میں غوروفکر کرنا، دوسروں کے آئیڈیاز پر تنقید کر نا اور تنقید کو حوصلے کے ساتھ قبول کرنا ، آئیڈیاز کو بیان کر نے کے لئے ہمت ہونا، ہر آئیڈیا کو ضروری سمجھنا اور نوٹ کر لینا، آئیڈیاز کو پرکھنا، یہ سب ضروری عوامل ہیں ۔ کہا جا تا ہے کہ خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روزبکریاں چرارہا تھا ۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جا نور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہوگئے تھے ۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کر دنیا کی پہلی کافی تیار کی ۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکر کرنے اور عبادت کر نے کے لئے اس کو پیتے تھے ۔ پندرھویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ ۱۶۴۵ ئ میں وینس (اٹلی) پہنچی ۔ ۱۶۵۰ئ میں یہ انگلینڈ لائی گئی ۔ لانے والا ایک ترک پاسکوا روزی (Pasqua Rosee) تھا جس نے لند ن سٹریٹ پر سب سے پہلی کافی شاپ کھولی ۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا ۔ شطرنج ہندوستان کا کھیل ہے لیکن جیسے یہ آج کل کھیلی جاتی ہے یہ ایران میں ہزاروں سال قبل کھیلی جاتی تھی ۔ ایران سے یہ اندلس پہنچی اور وہاں سے دسویں صدی میں یورپ۔ فارسی میں شاہ مات (بادشاہ ہار گیا)کو انگریزی میں چیک میٹ کہتے ہیں نیز روک (Rookپیادہ )کا لفظ فارسی کے رکھ سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی ہیں رتھ، سپینش میں اس کوroque کہتے ہیں ۔ اردو میں جس کو ہاتھی کہتے، عربی میں وہ الفیل ، سپینش میں elـalfil،انگلش میں بشپ ہے ۔ باغات سب سے پہلے مسلمانوں نے بنانے شروع کئے تھے یعنی ایسی خوبصورت جگہ جہاں بیٹھ کر انسان مراقبہ یا غور و فکر کر سکے ۔ یورپ میں شاہی با غات اسلامی سپین میں گیارہویں صدی میں بننے شروع ہوئے تھے ۔ کا رنیشن اور ٹیولپ کے پھول مسلمانوں کے باغات ہی کی پیداوار ہیں ۔ امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک اسٹرانومر، میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مو?رخ کے مطابق ۸۵۲ئ میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے ۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلا ئیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا ۔۸۷۵ئ میں ا س نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پروازکی کوشش کی ۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیارکی تھی ۔ وہ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگر اترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی ۔ (Dictionary of Scientific Biography, Vol ۱, page ۵) دنیا کا سب سے پہلا پلینی ٹیریم (Planetarium ) اسلامی سپین کے سائنسداں عباس ابن فرناس (۸۸۷ئ )نے قرطبہ میں نو یں صدی میں بنا یا تھا ۔ یہ شیشے کا تھا اس میں آسمان کی پر و جیکشن اس طور سے کی گئی تھی کہ ستاروں، سیاروں، کہکشاو?ں کے علاوہ بجلی اور بادلوں کی کڑک بھی سنائی دیتی تھی ۔ #قدیم یونانی حکمائ کا نظریہ تھا کہ انسان کی آنکھ سے شعاعیں (لیزر کی طرح) خارج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ ہم اشیا کو دیکھتے ہیں ۔ دنیا کا پہلا شخص جس نے اس نظریہ کی تردید کی وہ دسویں صدی کا عظیم مصری ریاضی داں اور ما ہر طبیعات ابن الہیثم تھا ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا پن ہول کیمرہ ایجاد کیا ۔ اس نے کہا کہ روشنی جس سوراخ سے تاریک کمرے کے اند رداخل ہوتی ہے وہ جتنا چھوٹا ہوگا پکچر اتنی ہی عمدہ (شارپ ) بنے گی ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ آبسکیورہ (camera obscura ) تیا رکیا ۔ کیمرا کا لفظ کمرے سے اخذ ہے جس کے معنی ہیں خالی یا تاریک کوٹھڑی ۔ دنیا کی سب سے پہلی پن چکی ایران میں سا تویں صدی میں بنائی گئی تھی ۔ شہرہ آفاق مو?رخ المسعودی نے اپنی کتاب میں ایران کے صوبہ سیستان کو ہوا اور ریت والا علاقہ لکھا ہے ۔اس نے مزید لکھا کہ ہوا کی طاقت سے باغوں کو پانی دینے کے لئے پمپ پن چکی کے ذریعہ چلائے جاتے تھے ۔ خلیفہ ہارون الرشید ایک عالی دماغ انجنئیر تھا۔سو ئیز نہر کھودنے کا خیال سب سے پہلے اس کو آیا تھا تاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملا دیا جائے ۔ اس نے عین اس مقام پر نہر کھودنے کا سوچا تھا جہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے (The empire of the Arabs, Sir John Glubb, page ۲۸۷) یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھیں ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک )تحفہ میں بھیجی تھی ۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی ۱۱۸۵ئ ) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا ۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی ۔ اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا ۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی ۔ جرمنی میں گھڑیاں۱۵۲۵ئ اور برطانیہ میں ۱۵۸۰ئ میں بننا شروع ہوئی تھیں ۔ الجبرا پر دنیا کی پہلی کتاب عراق کے شہر ہ آفاق سائنس داں الخوارزمی (۸۵۰ئ ) نے لکھی تھی ۔ اس نے ۱ـ۹ اور صفر کے اعداد ۸۲۵ئ میں اپنی شا ہکار کتاب الجبر والقابلہ میں پیش کئے تھے ۔اس سے پہلے لوگ حروف استعمال کر تے تھے ۔ اس کتاب کے نام سے الجبرا کا لفظ اخذ ہے ۔ اس کے تین سو سال بعد اطالین ریاضی داں فیبو ناچی (Fibonacci) نے الجبرا یورپ میں متعارف کیا تھا ۔ الخوارزمی کے نام سے الگو رتھم یعنی ایسی سائنس جس میں ۹ ہندسوں اور ۰ صفر سے حساب نکالا جائے(process used for calculation with a computer )کا لفظ بھی اخذ ہوا ہے ۔ الخوارزمی دنیا کا پہلا موجد مقالہ نویسی ہے ۔ ہوا یہ کہ اس نے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور بغداد کی سا ئنس اکیڈیمی کو بھیج دیا ۔ اکیڈیمی کے سائنسدانوں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے اس مقالے کے بارے میں اس سے سوالات کئے ۔ اس کے بعد وہ اکیڈیمی کا رکن بنا دیا گیا ۔ یونیورسٹیوں میں مقالہ لکھنے کا یہ طریق اب تک رائج ہے ۔ مصر کے سائنسداں ابن یو نس (۱۰۰۹ئ )نے پینڈولم دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا ۔ اس ایجاد سے وقت کی پیمائش پینڈولم کی جھولن(oscillation) سے کی جانے لگی ۔ اس کی اس زبردست ایجاد سے مکینکل کلاک دریافت ہوئی تھی ۔ ((Science and civilization is Islam, Dr. S.H. Nasr, page ۱ ایران کا محقق زکریا الرازی (۹۲۵ئ ) دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا جس نے سلفیورک ایسڈ تیار کیاجو ماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ تسلیم کیا جا تا ہے ۔ اس نے ایتھونول بھی ایجاد کیا اور اس کا استعمال میڈیسن میں کیا ۔ اس نے کیمیائی مادوں کی درجہ بندی(نا میاتی اور غیر نا میاتی ) بھی کی ۔ زکریاالرازی پہلا آپٹو میٹر سٹ تھا جس نے بصارت فکر اور تحقیقی انہماک سے نتیجہ اخذ کیا کہ آنکھ کی پتلی روشنی ملنے پر رد عمل ظاہرکر تی ہے ۔ الرازی نے اپنے علمی شاہکار کتاب الحاوی میں گلاو? کوما کی تفصیل بھی بیان کی ہے ۔ اس نے چیچک پر دنیا کی پہلی کتاب ' الجدری والحسبہ لکھی جس میں اس نے چیچک اور خسرہ میں فرق بتلایا تھا ۔اس نے سب سے پہلے طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کا طریقہ جاری کیا تھا ۔ اس نے عمل جراحی میں ایک آلہ نشتر setonبنا یا تھا ۔ اس نے ادویہ کے درست وزن کے لئے میزان طبعی ایجاد کیا ۔ یہ ایسا ترازو ہے جس سے چھوٹے سے چھوٹا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ سا ئنس روم میں یہ اب بھی استعمال ہو تا ہے ۔ الکحل بھی رازی نے ایجاد کی تھی ۔ طبیب اعظم زکریاالرازی پہلا انسان ہے جس نے جراثیم (bacteria) اور تعدیہ (infection) کے مابین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے تجویز کیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ الرازی نے ہی طب میں الکحل کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے حساسیت اور مناعت (allergy & immunology) پر دنیا کا سب سے پہلا رسالہ لکھا ۔ اس نے حساسی ضیق النفس (allergic asthma) دریافت کیا ۔ اس نے ہی ہے فیور(hay fever) دریافت کیا تھا ۔ ابو الحسن طبری دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے خارش کے کیڑوں(itchـmite) کو دریافت کیاتھا ۔ کوپرنیکس سے صدیوں پہلے شام کے سا ئنسداں علائ الدین ابن شاطر نے تیرھویں صدی میں اس سائنسی مشاہدہ کا انکشاف کیا تھا کہ سورج اگرچہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود زمین سورج کے گرد گردش گرتی ہے ۔ علم ہئیت میں ابن شاطر کی متعدد دریافتوں کا سہرامغربی سائنسدانوں کے سر با ندھا جا تا ہے جیسے سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے دعویٰ ابن شاطر نے کیا تھا مگر اس کا کریڈٹ کیپلر کو دیا جا تا ہے ۔ اصطرلاب کا آلہ اگرچہ یونان میں ایجاد ہوا تھا مگر اس کا سب سے زیادہ استعمال اور اس میں اضافے سب سے زیادہ مسلمانوں نے کئے ۔ مسلمانوں نے درجنوں قسم کے اصطرلاب بنائے جو ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک برطانیہ،امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں ۔ لاہورمیں جو اصطرلاب بنائے گئے وہ شکاگو کے ایڈلر میوزیم (Adler) میں راقم الحروف نے خود دیکھے ہیں ۔ اصطرلاب ستاروں کو تلاش کر نے اور ان کا محل وقوع کا تعین کر نے کا آلہ ہے ۔ اس کے ذریعے لوگ صحرا یا سمندر میں راستہ تلاش کر تے تھے نیز اس کے ذریعہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت بھی معلوم کیا جا تا تھا ۔ شہرہ آفاق اسٹرانومرعبد الرحمن الصوفی نے دسویں صدی میں اصطرلاب کے ایک ہزار فوائد گنائے تھے ۔ علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اورشاہکار تصنیف کتاب المناظرابن الہیثم نے لکھی تھی -(Age of Faith, Will Durant)۔کروی اورسلجمی (spherical/parabolic) آئینوں پر اس کی تحقیق بھی اس کا شاندار کارنامہ ہے ۔ اس نے لینس کی میگنی فا ئنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی ۔ اس نے اپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے (curved lenses )بنائے ۔ حدبی عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں ما ئیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے (concave mirror) پر ایک نقطہ معلوم کر نے کا طریقہ ایجادکیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے ۔ ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (Retina)، کیٹاریکٹ (cataract)، کورنیا(Cornea) جو ابھی تک مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصہ (پتلی)کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے ۔ لا طینی میں مسور کو لینٹل (lentil)کہتے جو بعد میںLens بن گیا ۔ ابن الہیثم نے اصول جمود (law of inertia) دریافت کیاجو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لائ آف موشن کا حصہ بنا ۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی جو آسان ہو نے کے ساتھ تیز تر بھی ہو۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسداں فرمیٹ(Fermat )نے دریافت کیا تھا ۔ (ارمان اور حقیقت، عبد السلام صفحہ ۲۸۳)۔ طبیبوں کی رجسٹریشن کا کام سنان ابن ثابت نے (۹۴۳ئ ) بغداد میں شروع کیا تھا ۔ اس نے حکم دیا کہ ملک کی تمام اطبائ کی گنتی کی جائے اور پھر امتحان لیا جائے ۔ کا میاب ہو نے والے ۸۰۰ طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کر لیا اور پر یکٹس کے لئے سرکاری سر ٹیفکیٹ جا ری کئے ۔ مطب چلانے کے لئے لا ئسنس جاری کر نے کا نظام بھی اس نے شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما دینے اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے ۔ مشاہدہ افلاک کے جامع النظر ماہر محمد بن جابرالبتانی (۹۲۹ئ ) نے ایک سال کی مدت معلوم کی جو ۳۶۵دن، ۵گھنٹے، اور ۲۴سیکنڈ تھی ۔ اس نے سورج کا مدار بھی معلوم کیا تھا ۔ عبد الر حمن الصوفی (۹۰۳ـ۹۸۶ ئ ،ایران) پہلا عالمی ماہر افلاک تھا جس نے ۹۶۴ئ میں اینڈرو میڈا گیلکسی(M۳۱ andromeda galaxy )کو دریا فت کیا تھا ۔ ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی اور سٹار سسٹم کے ہونے کا یہ پہلاتحر یری ثبوت تھا جس کا ذکر اس نے اپنی تصنیف کتاب الکواکب الثا بت المصور( Book of Fixed Stars )میں کیا ۔ یہی کہکشاں سا ت سو سال بعد جر من ہئیت دان سا ئمن Simon Marius d۱۶۲۴))نے دسمبر۱۶۱۲ ئ میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریا فت کی تھی ۔ #علم طب کی آبرو شیخ بو علی سینا (۱۰۳۷ئ ) نے سب سے پہلے تپ دق کا متعدی ہو نا دریافت کیا تھا ۔ شیخ الرئیس نے پانی کے ذریعہ بیماری کے پھیلنے کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے شہرہ آفاق تصنیف ''القانون'' میں انکشاف کیا کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے مہین کیڑے (ما ئیکروب) ہوتے جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں ۔ اس نے مریضوں کو بے ہوش کر نے کے لئے افیون دینے کا کہا ۔ اس نے ہی پھیپھڑے کی جھلی کا ورم (Pleurisy) معلوم کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ سل کی بیماری (Phthisis) متعدی ہوتی ہے ۔ اس نے فن طب میں علم نفسیات کو داخل کیااور دواو?ں کے بغیر مریضوں کا نفسیاتی علاج کیا ۔ اس نے بتلایا کہ ذیا بیطس کے مریضوں کا پیشاب میٹھا ہوتا ہے ۔ اس نے سب سے پہلے الکحل کے جراثیم کش (اینٹی سیپٹک) ہونے کا ذکر کیا ۔ اس نے ہرنیا کے آپریشن کا طریقہ بیان کیا ۔ اس نے دماغی گلٹی (برین ٹیومر) اور معدہ کے ناسور (سٹامک السر) کا ذکر کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ نظام ہضم لعاب دہن سے شروع ہوتا ہے ۔ علم طبیعات میں ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا ۔ وہ پہلا طبیعات داں تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتارلا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتارہے ۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا ۔اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی، اناٹومی، اور تھیوری آف ویڑن بیان کی ۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔اس نے بتلایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، پہاڑ کیسے بنتے ہیں ، سمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں ۔ مسلمانوں کے لئے صفائی نصف ایمان ہے ۔صابن مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا جس کے لئے انہوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ میں ملا کر صابن تیار کیا تھا ۔ یورپ کے صلیبی سپاہی جب یروشلم آئے تو مقامی عربوں کو ان سے سخت بد بو آتی تھی کیونکہ آج کے تہذیب یافتہ فرنگی غسل نہ لیتے تھے ۔ برطانیہ میں شیمپو ایک ترک مسلمان نے متعارف کیا جب اس نے ۱۷۵۹ئ میں برائی ٹن (Brighten )کے ساحل پر Mahomed's Indian vapour bath کے نام سے دکان کھولی ۔ بعد میں یہ مسلمان، بادشاہ جارج پنجم اور ولیم پنجم کا شیمپو سرجن مقرر ہوا تھا ۔ ملکہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی اس لئے وہ خوشبو بہت استعمال کرتی تھی ۔ عمل کشید کی دریافت نویں صدی کے عظیم کیمیاداں جا بر ابن حیان نے کوفہ میں کی تھی ۔ جابر نے کیمیا کے بہت سے بنیادی آلات اور عوامل بھی ایجاد کئے جیسے oxidisation, evaporation, filtration, liquefaction, crystallisation & distillation۔ اس نے سلفیورک ایسڈ اور نا ئٹرک ایسڈ ایجاد کیا ۔ اس کو ماڈرن کیمسٹری کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔ مغربی ممالک کے ہسپتالوں میں سرجری کے آلات با لکل وہی ہیں جو دسویں صدی کے جلیل القدر اندلسی سرجن ابو القاسم زہراوی (۱۰۱۳ئ )نے ایجاد کئے تھے ۔ اس نے ۲۰۰سے زیادہ سرجری کے آلات بنائے تھے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: scalpels, bone saws, forceps, fine scissors for eye surgery.۔ وہ پہلا سر جن تھا جس نے کہا کہ گھوڑے کی آنتوں سے بنے ٹانکے قدرتی طور پر جسم میں تحلیل ہو جا تے ہیں ۔ یہ دریافت اس نے اس لمحہ کی جب اس کے عود کی تار (string) بندر ہڑپ کر گیا ۔اس نے دوائیوں کے کیپسول بھی ایسی آنتوں سے بنائے تھے ۔ (مسلمانوں کے سائنسی کارنامے، زکریاورک ۲۰۰۵ئ علی گڑھ،صفحہ ۴۷) مسلمان اطبائ نے افیون اور الکحل کو بطور (anaesthetics ) کے استعمال کیا تھا ۔ مسلمانوں نے موتیا بند کے آپریشن کیلئے hollow needlesایجاد کیں جو اب بھی استعمال ہو تی ہیں ۔ پن چکی جو اس وقت یورپ اور امریکہ میں اس قدر مقبول عام ہے اور جس کے ذریعہ قدرتی طریق سے بجلی پیدا کی جا تی ہے یہ سب سے پہلے ۶۳۴ئ میں ایران میں بنائی گئی تھی ۔ اس کے ذریعہ مکئی کو پیسا جا تا اور آب پاشی کے لئے پانی نکا لا جا تا تھا ۔ عرب میں جب ندی نالے خشک ہوجاتے تو ہوا ہی رہ جاتی جو ایک سمت سے کئی مہینوں تک چلتی رہتی تھی ۔ ایرانی پن چکی میں چھ یا بارہ کپڑے کے بنے پنکھے لگے ہوتے تھے ۔ یورپ میں پن چکی اس کے پانچ سو سال بعد دیکھنے میں آئی تھی ۔ دنیا کا پہلا کیمیاداں کوفہ عراق کا جابر ابن حیان (۸۱۳ئ )تھا ۔وہ قرع انبیق کے آلے کا موجد تھا جس سے اس نے شورے کا تیزاب( نٹرک ایسڈ) بنایا ۔ اس نے نوشادر، گندھک کی مدد سے شورے کے علاوہ گندھک کا تیزاب ایجاد کیا ۔ عمل کشید اور فلٹر کا طریقہ اس کی ایجادات ہیں ۔ یگانہ روزگار اسحٰق الکندی (۸۶۶ئ )نے سب سے پہلے Frequency analysisکا آغاز کیا جس سے ماڈرن کر پٹالوجی (cryptology)کی بنیاد پڑی تھی ۔ اس نے باقاعدہ رصد گاہی نظام کی ابتدائ کی تھی ۔ علی ابن نافع (زریاب۸۵۷ئ ) نویں صدی میں عراق سے ہجرت کر کے اسلامی سپین آیا تھا ۔ یہاں آکر اس نے بہت سے نئی چیزوں کورواج دیا جیسے اس نے کھانے میں تین ڈشوں کو رواج دیا یعنی پہلے سوپ، اس کے بعد مچھلی یا گوشت اور آخر پر فروٹ یا خشک پھل۔ اس نے ہی مشروبات کے لئے کر سٹل گلاس کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے کھانے کی میز پر میز پوش کو رواج دیا ۔ اس نے سپین میں شطرنج اور پولو کا کھیل شروع کیا ۔ اس نے چمڑے کے فر نیچر کو رواج دیا ۔ اس نے کھا نے کے آداب کو رواج دیا ۔ اس نے ہی پر فیوم ، کاسمیٹکس، ٹوتھ برش، اور ٹوتھ پیسٹ کو رواج دیا ۔ اس نے چھوٹے بالوں کے فیشن کو رواج دیا ۔ اس نے دنیا کا سب سے پہلا زیبائش حسن کا مرکز (بیوٹی سیلون) قرطبہ میں کھولا تھا۔اس نے گرمیوں میں سفید کپڑے اور سردیوں میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے کا کہااور اس کے لئے تاریخ بھی معین کی ۔ قالین مسلمانوں نے سب سے پہلے بنانے شروع کئے تھے ۔ مسلمانوں کی قالین بنانے کی تکنیک (weaving technique ) بہت اعلیٰ قسم کی تھی ۔ مسلمان یہ قالین فرش پر استعمال کرتے تھے جبکہ یورپ میں لوگوں کے گھر وں میں فرش مٹی گارے کے ہوتے تھے ۔یورپ میں ان قا لینوں کے آنے سے گھر کا ماحول بد ل گیا ۔ چیک (cheque ) کا لفظ عربی لفظ سک سے اخذ ہے ۔ جس کے معنی تحریری وعدہ کے ہیں کہ اشیائ کے ملنے پر رقم ادا کر دی جائیگی ۔ بجائے اس کے کہ تاجر رقم اٹھاتا پھرے ۔ عہد وسطیٰ میں چیک کے ذریعہ کہیں بھی مال خریدا جا سکتا تھا ۔ نویں صدی میں کوئی مسلمان تاجر چین میں چیک کیش کر سکتا تھا جو بغداد کے کسی بینک نے جاری کیا ہوتا تھا ۔ البیرونی نظام شمسی پر یقین رکھتا تھا جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اپنے محور پر بھی ۔ زمین کے گول ہو نے پروہ دیگر سائنسی مشاہدات اور قوانین سے اس قدر مطمئن تھا کہ اس کو کسی مزید دلیل کی ضرورت نہ تھی ۔ (Age of Faith,by Will Durant, page ۲۴۴)۔ اسلامی سپین کے اسٹرانومر ابن حزم نے زمین کے گول ہونے کی جو دلیل دی وہ یہ تھی: Sun is always vertical to a particular spot on Earth. گیلی لیو کو یہ بات پانچ سوسال بعد سمجھ آئی ۔ ابو اسحق الزرقلی اندلس کا مانا ہوا اسٹرونامیکل آبزرور تھا ۔ الزرقلی نے ایک خاص اصطرلاب الصفیحہ کے نام سے بنا یا جس سے سورج کی حرکت کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا ۔ اس نے اصطرلاب پر ایک آپر یٹنگ مینوئیل لکھا جس میں اس نے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کیا کہ آسمانی کرے بیضوی مدار میں گردش کر تے ہیں ۔ یہی انکشاف صدیوں بعد کیپلر نے کیا تھا ۔ مقناطیسی سوئی اگرچہ چین میں دریافت ہوئی تھی مگر اس کا صحیح مصرف مسلمانوں نے نکالا تھا ۔ مسلمانوں نے جہازرانوں کے لئے آلہ قطب نما (Mariner's compass ) ایجاد کیا ۔ اسی طرح سروے کر نے کے لئے جو آلہ تھیوڈو لائٹ استعمال کیا جا تا ہے وہ بھی مسلمانوں نے ایجاد کیا تھا ۔ اندلس کے سائنسداں امیہ ابو صلت نے ۱۱۳۴ئ میں ایک حیرت انگیز مشین ایجاد کی جس کی مدد سے ڈوبے ہوئے بحری جہاز کو سطح آب پر لایا جا سکتا تھا ۔ جب اسلامی دور حکومت دنیا میں اپنے عروج پر تھا تو ایران کے حاتم اسفرازی نے مختلف دھاتوں کا وزن کر نے کے لئے دو اکائیوں کا استعمال شروع کیا یعنی درہم ا ور اوقیہ۔ جب مسلمانوں کے علمی خزانے یورپ منتقل ہوئے تو یہ وزن بھی وہاں پہنچے ۔ رفتہ رفتہ درہم گرام بن گیااور اوقیہ اونس بن گیا ۔ ابو عبد اللہ محمد بن احمد (۹۸۰ئ ) نے دنیا کا سب سے پہلا انسا ئیکلو پیڈیا 'مفا تح العلوم' ترتیب دیا تھا ۔ اس نے مضامین کی ترتیب کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا اور اپنی ضخیم کتاب کوحروف ابجد کے اصول پر مرتب کیا ۔ یہی اصول آج بھی جد ید انسا ئیکلو پیڈیاز میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ مو تیا بند کا سب سے پہلا آپریشن طبیب حاذق اور امراض چشم کے ماہرابو القاسم عمار موصلی (۱۰۰۵ئ ) نے کیا تھا ۔ امراض چشم پر اس کی کتاب علاج العین کا جرمن ترجمہ ۱۹۰۵ئ میں شائع ہوا تھا ۔ اس نے آپریشن کے لئے خاص قسم کا نازک آلہ ایجاد کیا، آپر یشن کے اصول اور قواعد مرتب کئے اور علاج کا طریقہ بتا یا ۔ زمین کا محور(axis) دیکھنے میں تو بظاہر قطب تارے کی طرح ساکن نظر آتا ہے مگر حقیقت میں یہ ساکن نہیں بلکہ آہستہ آہستہ مدھم رفتار سے دائرے کی صورت میں گردش کر تا ہے ۔ اس حرکت کے بہت خفیف ہونے کے باعث یہ ہمیں محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ یہ دریافت مصر کے سا ئنسداں عبد الرحمن ابن یونس (۱۰۰۹ ئ ) نے کی تھی ۔ یہ پیمائش اتنی چھو ٹی ہے کہ اسے معلوم کر لینا ابن یونس کی ہئیت دانی کا کمال تھا ۔ (مسلمان سا ئنسداں اور ان کی خدمات از ابراہیم عمادی ندوی صفحہ ۹۲) دنیا کا سب سے پہلا فا و?نٹین پین مصر کے سلطان کے لئے ۹۵۳ئ میں بنایا گیا تھا ۔ ایسا پین جو سلطان کے ہاتھ یا کپڑے دستخط کر تے وقت گندے نہ کرے ۔ اس پین کے اندر روشنائی محفوظ رہتی اور کشش ثقل سے نب تک پہنچتی تھی ۔ مشہور ہئیت داں ابو الوفا بوزجانی (۱۰۱۱ئ ) نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہے اور چاند گردش کرتا ہے ۔ اس نظریے کے تحت اس نے یہ دریافت کیا کہ زمین کے گرد چاند کی گردش میں سورج کی کشش کے اثر سے خلل پڑتا ہے اور اس وجہ سے دونوں اطراف میں زیادہ سے زیادہ ایک ڈگری پندرہ منٹ کا فرق ہو جا تا ہے ۔ اس کو علم ہئیت کی اصطلاح میں ایوکشن (Evection) یعنی چاند کا گھٹنا بڑھنا کہتے ہیں ۔ اس نظریے کی تصد یق سولہویں صدی کے یورپ کے ہئیت داں ٹا ئیکو براہی نے کی تھی ۔ ابو الحسن علی احمد نسوی (۱۰۳۰ ئ ) کی اہم دریافت وقت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک نئے طریقے کی ایجاد ہے جسے حساب ستین کہتے ہیں ۔ اس نے وقت کی ایک ساعت یا زاویہ (گھنٹہ) کو ۶۰ پر تقسیم کیا، اس ساٹھویں حصے کو اس نے دقیقہ کہا جس کے لفظی معنی ہیں خفیف۔ اس دقیقہ کو اس نے دوبارہ تقسیم کیا جسے اس نے ثانیہ کہا یوں ساعت کی تقسیم دقیقہ اور ثانیہ میں ہوگئی ۔ دقیقہ کے لئے انگریزی میں لفظ منٹ وضع ہو گیا جس کے معنی خفیف یا باریک کے ہیں ۔ ثانیہ کے لئے انگریزی میں سیکنڈ کا لفظ بن گیا ۔ گھڑی کے ڈائیل پر جو ہندسے کندہ ہوتے ہیں اور جو منٹ (دقیقہ) اور سیکنڈ (ثانیہ)میں تقسیم ہیں وہ ابو الحسن کی ذہانت کا کرشمہ اوراس کی یاد دلاتے ہیں ۔ البیرونی (۱۰۴۸ئ ) نے زمین کا محیط سب سے پہلے ۱۰۱۸ئ میں جہلم (پنجاب) سے ۴۲میل دور ایک مو ضعہ دھریالہ جلوپ کے ۱۷۹۵فٹ اونچے پہاڑ پر سے سائنسی تجربے کے ذریعہ دریافت کیا تھا جو اس کی تحقیق کے مطابق ۲۴۷۷۹میل تھا ۔ آج کی تحقیق کے مطابق یہ ۲۴۸۵۸ میل ہے یعنی صرف ۷۸میل کا فرق۔ یگانہ زمانہ عمر بن خیام (۱۱۲۳ئ )نہ صرف نکتہ آفر یں شاعر بلکہ علم ہئیت اور ریاضی کا بھی ما ہر کامل تھا ۔اس نے ایران میں ایک نیا جلالی کیلنڈر شروع کیا جو جولی این اور گر یگورین کیلنڈروں سے ہزاردرجہ بہتر ہے ۔ اس کیلنڈر کے مطابق ۳۷۷۰ سالوں میں ایک دن کا فرق پڑتا ہے ۔ لیپ ائیر کا تصور سب سے پہلے اس نے ہی پیش کیا تھا ۔ اہل ایران ان کو دزدیدہ (چرائے ہوئے دن) کہتے ہیں ۔ عمر خیام کا یہ شمسی کیلنڈر آج بھی پوری دنیا میں رائج ہے اس نے ایک سال کی مدت ۳۶۵.۲۴۲۱۹۸۵۸۱۵۶ نکالی جبکہ کمپیوٹر نہیں ہوتے تھے ۔ عبد اللہ الادریسی (۱۱۶۶ئ )سسلی کے بادشاہ راجردوم (۱۱۵۴ئ )کا سا ئنسی مشیر تھا ۔ علم جغرافیہ پر اس کی شہرہ آفاق تصنیف کا نام ''نزہتہ المشتاق فی احتراق الآفاق ''ہے ۔ الادریسی نے دنیا کا ایک چاندی کا ماڈل تیار کیا جواس نے قیاس اور تجربے کی بنائ پر گو ل بنا یا ۔ یہ دنیا کا سب سے پہلا ماڈل تھا ۔ اپنی کتاب میں اس نے دنیا کے ممالک کے ستر سے زیادہ نقشے بھی دیے جو یورپ میں تین سو سال تک رائج رہے ۔کتاب مسلمانوں کے سا ئنسی کارنامے میں اس ماڈل کی ڈایاگرام صفحہ ۱۴۵ پر موجود ہے ۔ شام کے ملک میں پیدا ہو نے والا با کمال طبیب علائ الدین ابن النفیس القرشی (۱۲۸۹ئ ) پہلا انسان ہے جس نے کہا کہ انسانی جسم میں خون گردش کرتا ہے ۔ یہ دریافت اس نے ولیم ہاروے (۱۶۸۷ئ )سے چار سوسال قبل کی تھی ۔ اس نے کہا کہ خون وریدی شریان (veinous artery) سے ہو کر گزرتا ہے اور پھر پھیپھڑوں میں پہنچ کر تازہ ہوا سے ملتا ، اس کے بعد صاف ہوکر پورے جسم میں دورہ کرتا ہے ۔ اس طرح خون جسم کے ہر حصے میں پہنچتا رہتا ہے ۔اس نظرے کو Pulmonary circulation of blood کہا جا تا ہے ۔ لسان الدین ابن الخطیب (۱۳۷۴ئ ) دنیا کا پہلا مایہ ناز طبیب اور محقق تھا جس نے طاعون کا جراثیم کے ذریعہ پھیلنے کا نظریہ پیش کیا ۔ اس نے کہا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں : متعدی اور غیر متعدی امراض۔ متعدی امراض کے پھیلنے کی وجہ وہ نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر وہ مرض کے کیڑ ے ہو تے ہیں ۔ چودھویں صدی میں یورپ میں چرچ کی حکومت تھی ۔ یورپ میں اس وقت طاعون کا دور دورہ تھا ۔ عیسائیت کے اثر کے تحت عوام الناس طا عون کو خدا کا عذاب سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کاکوئی علاج نہیں ہے ۔ مگر طبیب اعظم ابن الخطیب نے اس مرض پر تحقیق کی اور لوگوں کو کہا کہ وہ مریض کے کپڑے، برتن یا کان کی بالیاں ہرگز استعمال نہ کریں ۔ جو مریض سے نہیں ملتے وہ بیمار نہیں ہوتے اس سے ثابت ہوتا کہ یہ خدا کا عذاب نہیں بلکہ متعدی بیماری ہے ۔ قلزم انسانیت کا مینارہ ضوبار ابو القاسم الزاہراوی (۱۰۱۳ئ قرطبہ) قرون وسطیٰ کا سب سے عظیم سرجن تھا ۔ سرجری کے موضوع پر اس کی کتاب''التصریف لمن عجز عن التالیف ''ہے ۔ اس میں جراحی کے ۲۰۰ آلات کی ڈایاگرام دی گئیں ہیں جن میں کئی ایک ابھی تک آپریشن روم میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کتاب میں اس نے کیٹاریکٹ (موتیا بند) کے آپریشن کا تفصیل سے ذکر کیا ۔ زخموں کو سینے کے لئے اس نے ریشم کا دھاگہ استعمال کیا ۔ اس نے نقلی دانت گائے کی ہڈی سے بنائے ۔ اس کے سات سو سال بعد امریکہ کا صدر جارج واشنگٹن لکڑی کے ڈینچر لگا یا کرتا تھا ۔ یوں اس نے آرتھو ڈینسٹری کی بنیاد رکھی ۔ اس نے کاسمیٹکس میں کئی چیزوں کو شروع کیا جیسے ڈیوڈرنٹ، بال نکالنے کے لئے مو چنا ، ہینڈ لوشن، بالوں کے لئے خضاب، سن ٹین لوشن، بد بودار سانس کے لئے اس نے الائچی اور دھنیے کے پتے چبانے کو کہا ۔ زکام سے نجات پا نے کے لئے اس نے کافور، مشک اور شہد کا ایک مکسچر تیار کیا (امریکہ میں اس کو vapor rub) کہتے ہیں ۔ اسلامی سپین کا جلیل القدر طبیب اور فلاسفر ابن رشد (۱۱۹۸ئ ) دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے آنکھ کے اس پردہ جس میں بصارت کی حس ہوتی یعنی ریٹینا(retina) کا صحیح سائنسی عمل بیان کیاتھا ۔(The retina and not the lens in the eye is the photoـreceptor)۔ ایک اورتہلکہ خیز طبی انکشاف اس نے یہ کیا کہ جس شخص کو ایک بار چیچک ہوجائے پھر وہ اس کو دوبارہ لاحق نہیں ہوتی ہے ۔ سورج میں سن سپاٹس سب سے پہلے ابن رشد نے دریافت کئے تھے ۔ (سوانح ابن رشد از زکریا ورک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ۲۰۰۶ئ ) یورپ کی سب سے پہلی رصدگاہ اشبیلیہ (اسلامی سپین) کی جامع مسجد کا تین سو فٹ اونچا مینارہ ، گیرالڈا ٹاور(Geralda Tower) تھا جہاں جا بر ابن افلاح (۱۲۴۰ئ ) نے اجرام فلکی کے مشاہدات کئے تھے ۔ اندلس کے شہر اشبیلیہ کا مکین ابو مروان ابن زہر (۱۱۶۲ئ ) دنیا کا سب سے پہلا پیرا سائٹالوجسٹ (Parasitologist ) تھا ۔ اس نے خارش کے کیڑوں (scabies) کو بیان کیا ۔ علاوہ ازیں طب میں اس کی پانچ دریافتیں قابل ذکر ہیں: رسولی(tumors)، درمیانی کان کا التہاب (inflammation of middle ear) التہاب غلاف قلب (pericarditis)، فالج حلقوم (paralysis of pharynx)، قصبة الریہ کی عمل جراحی( Tracheotomy)۔ مایہ ناز مسلمان انجنئیر بدیع الزماں الجزاری نے ۱۲۰۶ئ میں ایک ایسی مشین بنائی جس کے ذریعہ پانی بلندی تک لے جایا جاتا تھا ۔ ماڈرن مشینوں میں کر ینک شافٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس نے پانی کو اوپر لے جا نے کیلئے (یعنی آب پاشی کیلئے) کرینک کنیکٹنگ راڈ سسٹم (Crank connecting rod system) بنایا ۔ اس ایجاد نے ٹیکنالوجی پر دیرپا اثر چھوڑا اور انجنئیرنگ کی فیلڈ میں انقلاب آگیا ۔ یہ سسٹم با ئیسکل میں بھی استعمال ہو تا ہے ۔ اس نے پانی سے چلنے والے پسٹن پمپ کا بھی ذکر کیا جس میں دو سیلنڈر اور ایک سکشن پائپ تھا ۔ الجزاری نے ۱۲۰۶ ئ علم الحیال یعنی انجنئیرنگ پر جو قاموسی تصنیف (الجامع بین العلم و العمل النافع فی صنعت الحیال ) سپرد قلم کی اس میں والوز اور پسٹن کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے ایک میکنکل کلاک بنائی جو وزن سے چلتی تھی ۔ اس کو فادر آف روباٹکس بھی کہا جا تا ہے ۔ وہ ۵۰ سے زیادہ مشینوں کا موجد تھا ۔کمبی نیشن لاک بھی اس کی ایجاد ہے سا ئنس میوزیم لندن میں ورلڈ آف اسلام کا جو ۱۹۷۶ئ میں فیسٹول منعقد ہوا تھا اس میں الجزاری کی بنائی ہوئی واٹر کلاک کو دوبارہ اس کی ڈایاگرام کے مطابق بنا یا گیا تھا ۔ الجزاری کی کتاب کا انگلش ترجمہ ڈینیل ہل ( Daniel Hill ۱۹۷۴) نے کیا ہے ۔ شام کے محقق اور مو جد حسن الرماہ نے ملٹری ٹیکنالوجی پر ایک شاندار کتاب ۱۲۸۰ ئ میں قلم بند کی جس میں راکٹ کا ڈایا گرام پیش کیا گیا تھا ۔ اس کا ماڈل امریکہ کے نیشنل ائیر اینڈ سپیس میوزیم، واشنگٹن میں موجود ہے ۔ کتاب میں گن پاو?ڈر بنانے کے اجزائے ترکیبی دیے گئے ہیں ۔ یا د رہے کہ بارود میر فتح اللہ نے ایجاد کیا تھا۔ پندرھویں صدی میں مسلمانوں نے تارپیڈو بھی بنا یا تھا جس کے آگے نیزہ اور بارود ہو تا تھا ۔ یہ دشمن کے بحری جہاز وں کے پرخچے اڑا دیتا تھا ۔ نابیناو?ں کے لئے پڑھنے کا سسٹم ( بریلBraille) ۱۸۲۴ ئ میں فرانس میں لو ئیس بریل (Braille ) نے ایجاد کیا تھا ۔ اس کے حروف ابجد میں ۶۳ حروف ہوتے ہیں ۔ نا بینا لوگ اپنی انگلیاں ان حروف پر رکھ کر الفاظ بنا لیتے اور کتابیں پڑھ لیتے ہیں ۔ لیکن اس سسٹم سے چھ سو سال قبل شام کا علی ابن احمد العمیدی (وفات ۱۳۱۴ ئ ) کتابیں پڑھ لیا کر تا تھا حالانکہ وہ بھی نابینا تھا ۔ العمیدی کی انگلیاں super sensitive تھیں ۔ وہ شیلف پر پڑی کتابوں کو ہاتھ لگاکر ان کا نام بتا دیتا تھا، بلکہ کتاب کے کل صفحات بھی بتا دیتا تھا ۔ لائنوں کے درمیان خالی جگہ سے وہ اس کی قیمت فروخت بتا دیتا تھا ۔ حقیقت میں بریل سسٹم کا موجد العمیدی تھا ۔ کولمبس سے پہلے امریکہ کو چین کا مسلمان بحری سیاح زینگ ہی (Zheng He ۱۳۷۱ـ۱۴۳۳ ) دریافت کر چکا تھا ۔ زینگ ہی چین کا سب سے عظیم ایڈمرل تھا ۔ ۱۴۰۵ئ میں وہ اس نیول ایکس پیڈیشن کا سربراہ مقرر ہوا جس نے اگلے ۲۸سالوں (۱۴۰۵ـ۳۳ئ ) میں جہازوں کے سات بیڑوں سے ۳۷ ممالک کا دورہ کیا ۔ اس زمانے میں چین کے پاس سب سے بڑے بحری جہاز ہو تے تھے ۔ زینگ ہی کے بحری بیڑے میں ۲۷۰۰۰ سپاہی اور ۳۱۷ بحری جہاز تھے ۔ کو لمبس کا جہاز ۸۵فٹ لمبا جبکہ زینگ ہی کا جہاز ۴۰۰فٹ لمبا تھا ۔ چین میں اس کے مقبرے کے اوپر اللہ اکبر کندہ ہے ۔ یورپ میں بہت سارے آلات موسیقی فی الحقیقت عرب اور ایرانی آلات کی نقل ہیں ۔ جیسے عود سے Guitar بنا، قانون سے ہارپ Harp بنا، رباب سے فڈلFiddle بنا، نے َسے فلوٹFlute بنی ۔ بکری کی کھال سے بنے ہوئے غا ئیتہ سے بیگ پائپ bagpipe بنا ۔ علم بشریات (انتھروپالوجی) کی سائنس کا آغاز امام المو?رخین عبدالرحمٰن ابن خلدون(۱۴۰۶ئ ) نے کیا تھا ۔ کسی بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے اسی بیماری کے جراثیم کا ٹیکہ لگانے کا رواج (innoculate) اسلامی دنیا میں سب سے پہلے ترکی میں شروع ہوا تھا ۔ ترکی میں انگلینڈ کی سفیر کی شریک حیات یہ طریقہ ۱۷۲۴ئ میں استنبول سے لندن لے کرآئی تھی ۔ ترکی میں بچوں کوگائے کی وائرس( cowpox)کے ٹیکے لگائے جاتے تھے تا چیچک سے محفوظ رہ سکیں ۔ منبع :taghribnews.com