دحو الارض یعنی زمین کے بچھائے جانے کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
دحو الارض یعنی زمین کے بچھائے جانے کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
0 Vote
246 View
زمین کی تخلیق کا دن:قران مجید کی سورہ نازعات میں اﷲ تعالی نے زمین کی خلقت اور اس کی موجودہ ظاہری شکل میں بنانے کے حوالے سے فرمایا:أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاء بَنَاهَا {النازعات/27} رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا {النازعات/28} وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا {النازعات/29} وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا {النازعات/30} أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءهَا وَمَرْعَاهَا {النازعات/31} وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا {النازعات/32} مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ {النازعات/33}کیا تمہارا خلق کرنا زیادہ مشکل ہے یا اس آسمان کا جسے اس نے بنایا ہے؟ﷲ نے اس کی چھت اونچی کی پھر اسے معتدل بنایا۔اور اس کی رات کو تاریک اور اس کے دن کو روشن کیا۔اور اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا․اس نے زمین سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔ اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے۔تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زندگی کے طور پر۔اسی طرح سورہ شمس میں ارشاد قدرت ہے.وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا {الشمس/6}اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھایا۔
مذکورہ بالا آیات میں موجود ترتیب کے مطابق سب سے پہلے اﷲ تعالی نے آسمان کو خلق کیا اور پھر اسے بلند کر کے برابر کر دیا اور اس کے بعد اﷲ تعالی ین دن اور رات کی خلقت کے ذریعے زمانے اور وقت کو تخلیق کیا اور اس کے بعد زمین کی خلقت کو عمل میں لایا گیا اور زمین کے لیے مقام اور مواد کی تعیین کے بعد زمین کا فرش بچھایا گیا اور اسے مضبوط بنانے کے لئے اس میں پہاڑوں کو گاڑ دیا گیا۔
زمین کی خلقت کے عمل کو عربی میں ’’دحو الارض‘‘ کہا جاتا ہے اورقرآن مجید میں اسی لفظ کو استعمال کیا گیا ہے ۔
ہم ’’دحو الارض ‘‘ کے بارے میں چار ابواب میں گفتگو کریں گے:
پہلا باب: پہلے باب میں ہم زمین کی خلقت یا دوسرے لفظوں میں زمین کے بچھانے کے حوالے سے جو عربی الفاظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ان کے لفظی اور لغوی معانی پر ایک نظر ڈالیں گے۔
سورہ نازعات کی آیت نمبر 30میں زمین کی تخلیق کو ’’دحا‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ’’دحا‘‘ کا مصدر ’’دحو‘‘ ہے اور عربی ڈکشنری کے مطابق ’’دحو‘‘ کا مطلب ہے بچھانا ‘‘ ہے سورہ شمس کی آیت نمبر6میں زمین کی خلقت کے عمل کو ’’دحا‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور عربی ڈکشنری میں ’’طحا‘‘ کا معنی ’’بچھانا اور پھیلانا ‘‘ہے اور اسی طرح بعض عربی ڈکشنریوں میں ’’طحا‘‘ کو معنی کے حوالے سے ’’دحو‘‘ کا مترادف اور ہم معنی قرار دیا گیا ہے ۔
اس مذکورہ معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں اﷲ تعالی نے زمین کے فرش کو بچھا کر پھیلایا اور اسے وسعت دے کر سکونت کے قابل بنایا جبکہ رہائش و سکونت کے قابل بنانے سے پہلے اس زمین کو طویل عرصہ سے ہونے والی موسلادھار بارشوں کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھی ،پھر تدریجی طور پر یہ پانی زمین کے گہرے اور نشیبی حصوں میں جمع ہو گیا اور اس طرح سے سمندر اور جھیلیں وجود میں آئیں اور اس سمندر کے ارد گرد خشکی نمودار ہوئی اور تدریجی طور پر اس میں وسعت آتی گئی اور پھرزمین موجودہ شکل اختیار کر لی اور یہ سارا کچھ آسمان اور زمین کی خلقت کے بعد ہوا۔
دوسرا باب: دوسرے باب میں ہم ان آیات کی تفسیر کا مختصر انداز میں ذکر کریں گے جو زمین کی تخلیق کے بارے میں ہمیں آگاہ کرتی ہیں۔ سورہ نازعات کی آیت نمبر 30میں ارشاد ہوتا ہے ’’ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا {النازعات/30} ‘‘ : اور اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا ۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی ین آسمان کو بنانے اور اسے بلند کرنے کے بعد دن اور رات کو خلق کیا اور پھر اس کے بعد زمین کو بچھا کر پھیلایا ،بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت میں ’’دحا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اﷲ نے زمین کے فرش کو گولائی میں لپیٹا……
سورہ شمس کی آیت نمبر 6میں ارشاد ہوتا ہے :’’ وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا {الشمس/6}‘‘ اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھایا، قسم ہے زمین کی اور اس کے جس نے اسے بچھایامفسرین کہتے ہیں کہ عربی گرائمر کے مطابق ’’ما موصولہ‘‘ کو عام طور پر بہت ہی حٌرت انگیز عظیم اور بڑی چیز کے بارے میں متوجہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اورا س آیت میں بھی ما موصولہ کے ذریعے زمین کے بچھانے والے خالق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لہذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے آیت کا مطلب کچھ یوں ہوگا۔ قسم ہے زمین اور اس کو بنانے والی عظیم و طاقتور ہستی کی۔
تیسرا باب: زمین کی خلقت اوراس کو بچھانے کا عمل 25ذی العقدہ میں ہوا اس دن تاریخ میں بہت سے نہ بھلائے جانے والے واقعات بھی رونما ہوئے ہم 25ذی القعدہ کو ہونے والے چند تاریخی واقعات اور اس دن سے مربوط کچھ مناسبات کو تیسرے باب میں ذکر کرتے ہیں1﴾25ذی القعدہ وہ دن ہے کہ جس میں سب سے پہلے زمین پر خداوند کریم کی رحمت نازل ہوئی اور پہلی مرتبہ زمین خدا کی رحمت کے لیے نزول گاہ قرار پائی۔
رسول خدا حضرت محمد(ص) فرماتے ہیں :اﷲ تعالی ذی القعدہ کا مہینہ ختم ہونے سے پانچ دن پہلے زمین پر رحمت کو نازل کیا۔(کتاب وسائل الشیعہ ،ج10ص451)
حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:سب سے پہلے آسمان سے زمین پر رحمت کا نزول پچیس 25ذی القعدہ کو ہوا۔(کتاب وسائل الشیعہ ج10 ص451)
حضرت امام موسی کاظم (ع) فرماتے ہیں:پچیس 25ذی القعدہ کو خانہ کعبہ بنایا گیا اور یہ وہ پہلی رحمت تھی کہ جو سطح زمین پر رکھی۔(کتاب الکافی ج4ص149)
2﴾پچیس ذی القعدہ کے دن ہی حضرت آدم (ع) کو زمین پر اتارا گیا۔
حضرت امام رضا (ع) 25ذی القعدہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:……اور اسی دن آدم زمین پر اترے۔(کتاب الکافی ج4ص150)
3﴾ حضرت ابراہیم (ع) اور حضرت عیسی (ع) کی ولادت باسعادت بھی 25ذی القعدہ کو ہی ہوئی۔
حسن بن علی وشاء سے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنی چھوٹی عمر میں اپنے والد کے ستھ تھا ،ہم نے پچیس ذی القعدہ کی رات حضرت امام رضا(ع) کے پاس رات کا کھانا کھایا ،امام رضا نے میرے والد سے کہا:پچیس ذی القعدہ کو حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت عیسی بن مریم (ع) پیدا ہوئے……(کتاب وسائل الشیعہ ج10ص449)
خانہ کعبہ اور زمین کی خلقت
جب بھی خانہ کعبہ کے شرف اور منزلت کا ذکر کیا جاتا ہے اس وقت یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے زمین کی خلقت کی ابتداء خانہ کعبہ سے ہوئی ،سب سے پہلے اﷲ تعالی نے زمین کے جس حصہ کو خلق کیا وہ خانہ کعبہ کے نیچے موجود زمین کا ٹکڑا ہے خدا تعالی نے زمین کی ابتداء اسی حصہ سے کی اور پھر اس کے بعد باقی زمین کو تخلیق کیا گیا۔
اس بارے میں بہت سے روایت ہماری کتابوں میں موجود ہیں حضرت امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں:جب اﷲ تعالی نے زمین کی خلقت کا ارادہ کیا تو ہواؤں کو ایک حکم دیا جس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہوائیں پانی کی سطح سے جا ٹکرائیں اور پانی پہلے ایک بلند لہر میں اور پھر جھاگ میں تبدیل ہو گیا اور سب کا سب ایک جھاگ بن گیا ،اس کے بعد اﷲ نے اس جھاگ کو اس جگہ اکٹھا کیا جہاں خانہ کعبہ ہے ،پھر اﷲ نے اسی جھاگ سے پہاڑوں کو بنایا اور پھر خانہ کعبہ والی جگہ کے نیچے زمین کا فرش بچھا دیا اور یہی بات اﷲ تعالی کے اس فرمان میں بھی مذکور ہے ’’ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا‘‘ ترجمہ سب سے پہلے لوگوں کے لیے جو گھر بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے باعث خیر و برکت ہے ۔(کتاب الکافی ج4ص190)
زمین کے بچھائے جانے اور خانہ کعبہ کی خلقت کے درمیان روایات کے مطابق دو ہزار سال کا فاصلہ ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں :اﷲ تعالی نے اس گھر کو اپنی مخلوق کے لیے عبادت گاہ بنایا ہے تا کہ اپنی مخلوق کی اطاعت کا اس کے اقرار و اثبات میں امتحان لے ،لہذا اﷲ نے اس گھر کی تعظیم اور زیارت کی بہت تاکید کی ہے اور اسے انبیاء کا مقام قرار دیا ہے اور نمازیوں کے لیے اسے قبلہ بنایا اور اسے اپنی جنت کا حصہ اور مغفرت تک پہچانے راستہ قرار دیا ہے ،یہ گھر کمال کی سطح اور عظمت و جلالت کی آماجگاہ پہ قائم ہے اس گھر کو اﷲ تعالی نے زمین بچھانے سے دو ہزار سال پہلے خلق کیا تھا ۔(کتاب الکافی ج4ص198)
چوتھا باب :اس باب میں ہم پچیس ذی القعدہ کے اعمال کو ذکر کریں گے:
یہ سال بھر کے ان چار دنوں میں سے ایک ہے کہ جن میں روزہ رکھنے کی خاص فضیلت ہے، ایک روایت میں ہے کہ اس دن کا روزہ ستر سال کے روزے کی مانند ہے اور ایک روایت میں ہے کہ اس دن کا روزہ ستر سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، جو شخص اس دن روزہ رکھے اور اس کی رات میں عبادت کرے تو اس کیلئے سو سال کی عبادت لکھی جائے گی۔آج کے دن روزہ رکھنے والے کے لیے ہر وہ چیز استغفار کرے گی جو زمین و آسمان میں ہے۔ یہ وہ دن ہے، جس میں خدا کی رحمت دنیا میں عام ہوتی ہے، اس دن ذکر و عبادت کیلئے جمع ہونے کا بہت بڑا اجر ہے۔ آج کے دن میں غسل ،روزہ اور ذکر و عبادت کے علاوہ دو عمل ہیں ۔ ان میں سے پہلاعمل وہ نماز ہے جو قمی علماء کی کتب میں مروی ہے اور یہ دو رکعت نماز ہے جو بوقت چاشت(ظہر کے قریب) پڑھی جاتی ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ الحمد کے بعد پانچ مرتبہ سورہ شمس پڑھے اور نماز کا سلام دینے کے بعد یہ دعا پڑھے:
لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاﷲِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ،پھر دعا کرے اور یہ پڑھے:یَا مُقِیلَ الْعَثَراتِ أَقِلْنِی عَثْرَتِی،
نہیں کوئی طاقت و قوت مگر وہ جو بلند و برتر خدا سے ملتی ہے۔ اے لغزشوں کے معاف کرنے والے
یَا مُجِیبَ الدَّعَوَاتِ أَجِبْ دَعْوَتِی، یَا سامِعَ الْاَصْواتِ اِسْمَعْ صَوْتِی وَاِرْحَمْنِی وَتَجاوَزْ عَنْ
میری ہر لغزش معاف فرما اے دعاؤں کے قبول کرنے والے میری دعا قبول کرلے اے آوازوں کے سننے والے میری آواز سن لے مجھ پر رحم
سَیِّئاتِی وَمَا عِنْدِی یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ ۔دوسرا عمل اس دعا کا پڑھنا ہے کہ بقول شیخ اس کا پڑھنا مستحب ہے:
کر میرے گناہوں اور جو کچھ مجھ سے سرزد ہوا ہے اس سے درگذر فرما اے جلالت اور بزرگی کے مالک۔
اَللّٰھُمَّ داحِیَ الکَعْبَۃِ، وَفالِقَ الْحَبَّۃِ، وَصارِفَ اللَّزْبَۃِ، وَکاشِفَ کُلِّ کُرْبَۃٍ أَسْأَلُکَ فِی ھذَا
اے اﷲ! اے زمین کعبہ کے بچھانے والے دانے کو شگافتہ کرنے والے سختی دور کرنے والے اور ہر تنگی سے نکالنے والے
الْیَوْمِ مِنْ أَیَّامِکَ الَّتِی أَعْظَمْتَ حَقَّھا، وَأَقْدَمْتَ سَبْقَھا، وَجَعَلْتَھا عِنْدَ الْمُؤْمِنِینَ وَدِیعَۃً، وَ
میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس دن میں جو تیرے ان دنوں میں سے ہے تو نے جن کا حق عظیم قرار دیا انکے شرف کو بڑھایا اور انہیں
إِلَیْکَ ذَرِیعَۃً، وَبِرَحْمَتِکَ الْوَسِیعَۃِ، أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ الْمُنْتَجَبِ فِی الْمِیثاقِ
مومنوں کے پاس اپنی امانت بنایا اور اپنی جانب ذریعہ قرار دیا اور بواسطہ تیری وسیع رحمت کے سوالی ہوں کہ اپنے بندہ محمدؐ پر رحمت نازل فرما جو برگزیدہ
الْقَرِیبِ یَوْمَ التَّلاقِ فاتِقِ کُلِّ رَتْقٍ،وَداعٍ إِلی کُلِّ حَقٍّ وَعَلَی أَھْلِ بَیْتِہِ الْاَطْہارِ،الْھُداۃِ الْمَنارِ،
ہیں اور میثاق میں تیرے نزدیک تر ہیں قیامت میں ہر گرفتار کو چھڑانے والے اور رہ حق کیطرف بلانے والے ہیں نیز ان کے پاکیزہ اہل بیت
دَعاےِمِ الْجَبَّارِ، وَوُلاۃِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ،وَأَعْطِنا فِی یَوْمِنا ھذَا مِنْ عَطائِکَ الْمَخْزُونِ غَیْرَ مَقْطُوعٍ
پر رحمت فرما جو چراغ ہدایت، خدا کے بنائے ہوئے ستون اور جنت و جہنم کے حاکم ہیں اور یہ کہ آج ہماری عید کے روزہمیں اپنی عطاؤں کے خزانے
وَلاَ مَمْنُوعٍ، تَجْمَعُ لَنا بِہِ التَّوْبَۃَ وَحُسْنَ الْاَوْبَۃِ، یَا خَیْرَ مَدْعُوٍّ، وَأَکْرَمَ مَرْجُوٍّ، یَا کَفِیُّ یَا وَفِیُّ،
سے وہ عطا کر جو کبھی ختم نہ ہو اور نہ اس کو روکا جائے اس کے ساتھ ہمیں توبہ اور اچھی بازگشت بھی دے اے بہترین پکارے گئے اور شریف تر امید کیے گئے
یَا مَنْ لُطْفُہُ خَفِیٌّ، اُلْطُفْ لِی بِلُطْفِکَ، وَأَسْعِدْنِی بِعَفْوِکَ، وَأَیِّدْنِی بِنَصْرِکَ، وَلاَ تُنْسِنِی
اے پورا کرنے والے اے وفا کرنے والے اے وہ جس کا کرم نہاں ہے اپنی کریمی سے مجھ پر کرم فرما اور اپنی پردہ پوشی سے مجھے نیک بختی دے اپنی
کَرِیمَ ذِکْرِکَ،بِوُلاۃِ أَمْرِکَ،وَحَفَظَۃِ سِرِّکَ،وَاحْفَظْنِی مِنْ شَوایِبِ الدَّھْرِ إِلی یَوْمِ الْحَشْرِ
نصرت سے مجھے قوی کر اور بواسطہ اپنے والیان امر اور اپنے رازداروں کے مجھے اپنا ذکر پاک نہ بھلا حشر و نشر کے دن تک مجھے زمانے کی سختیوں سے
وَالنَّشْرِ،وَأَشْھِدْنِی أَوْ لِیائَکَ عِنْدَ خُرُوجِ نَفْسِی،وَحُلُولِ رَمْسِی،وَانْقِطاعِ عَمَلِی،وَانْقِضاءِ
اپنی حفاظت میں رکھ مجھے اپنے اولیاء کی زیارت کا شرف بخش اس وقت جب میری جان نکلے جب مجھے قبر میں اتارا جائے، جب
أَجَلِی۔اَللّٰھُمَّ وَاذْکُرْنِی عَلَی طُولِ الْبِلی إِذا حَلَلْتُ بَیْنَ أَطْباقِ الثَّریٰ، وَنَسِیَنِی النَّاسُونَ مِنَ
میرا عمل بند ہوجائے اور میری عمر تمام ہوجائے اے معبود! مجھے یاد رکھنا جب مجھ پر آزمائش کے لمبا ہونے پر کہ جب میں زمین کی
الْوَری،وَأَحْلِلْنِی دارَ الْمُقامَۃِ، وَبَوِّئْنِی مَنْزِلَ الْکَرامَۃِ وَاجْعَلْنِی مِنْ مُرافِقِی أَوْ لِیائِکَ وَأَھْلِ
تہوں میں پڑا ہوں گا اور لوگوں میں سے بھولنے والے مجھے بھول چکے ہونگے تب مجھے رہنے کی جگہ دے اور باعزت ٹھکانہ عطا فرما مجھے اپنے اولیاء کے
اجْتِبائِکَ وَاصْطِفائِکَ وَبارِکْ لِی فِی لِقائِکَ، وَارْزُقْنِی حُسْنَ الْعَمَلِ قَبْلَ حُلُولِ الْاَجَلِ
رفیقوں میں رکھ اپنے منتخب افراد میں قرار دے اور اپنے پسندیدہ لوگوں میں داخل کر اپنی ملاقات میرے لیے مبارک کر موت سے پہلے اچھے اچھے اعمال
بَرِیْئاً مِنَ الزَّلَلِ وَسُوءِ الْخَطَلِ۔اَللّٰھُمَّ وَأَوْرِدْنِی حَوْضَ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ
بجا لانے کی توفیق دے لغزشوں سے بچائے رکھ اور برے کاموں سے دور کر۔ اے معبود! مجھے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کے حوض کوثر پر وارد فرما اور اس
وَاسْقِنِی مِنْہُ مَشْرَباً رَوِیّاً سائِغاً ھَنِیئاً لاَ أَظْمَأُ بَعْدَہُ، وَلاَ أُحَلَّأُ وِرْدَہُ، وَلاَ عَنْہُ أُذادُ، وَاجْعَلْہُ
میں سے خوش مزہ گواراپانی سے سیراب فرما کہ اس کے بعد نہ مجھے پیاس لگے اور نہ اس سے روکا جاؤں نہ اس سے ہٹایا جاؤں اور اسے میرا بہتر توشہ قرار
لِی خَیْرَزادٍ،وَأَوْفی مِیعادٍ یَوْمَ یَقُومُ الْاَشْھادُ۔اَللّٰھُمَّ وَالْعَنْ جَبابِرَۃَ الْاَوَّلِینَ وَالاَْخِرِینَ وَبِحُقُوقِ
دے اس دن کے لیے جب وعدے کا دن آپہنچے گا اے معبود! اگلے اور پچھلے ستم گار لوگوں پر لعنت کر اور ان پر
أَوْلِیائِکَ الْمُسْتَأْثِرِینَ۔اَللّٰھُمَّ وَاقْصِمْ دَعائِمَھُمْ،وَأَھْلِکْ أَشْیاعَھُمْ وَعامِلَھُمْ،وَعَجِّلْ مَھالِکَھُمْ،
جنہوں نے تیرے اولیاء کے حقوق غصب کیے اے معبود! ان کے سہارے توڑ دے اور ان کے
وَاسْلُبْھُمْ مَمالِکَھُمْ،وَضَیِّقْ عَلَیْھِمْ مَسالِکَھُمْ،وَالْعَنْ مُساھِمَھُمْ وَمُشارِکَھُمْ۔اَللّٰھُمَّ وَعَجِّلْ
پیروکاروں اور کارندوں کو ہلاک کر دے اور انکی تباہی میں اور ان کی حکومتیں چھیننے میں جلدی کر اور ان کے لیے راستے تنگ کردے اور ان کے
فَرَجَ أَوْلِیائِکَ،وَارْدُدْ عَلَیْھِمْ مَظالِمَھُمْ، وَأَظْھِرْ بِالْحَقِّ قائِمَھُمْ، وَاجْعَلْہُ لِدِینِکَ مُنْتَصِراً،
ہمکاروں اور حصہ داروں پر لعنت کر اے معبود! اپنے اولیاء کو جلد کشادگی دے ان کے چھنے ہوئے حقوق واپس دلا قائم آلؑ محمدؐ کا جلد ظہور فرما اور انہیں اپنے
وَبِأَمْرِکَ فِی أَعْدائِکَ مُؤْتَمِراً ۔ اَللّٰھُمَّ احْفُفْہُ بِمَلائِکَۃِ النَّصْرِ، وَبِما أَلْقَیْتَ إِلَیْہِ مِنَ الْاَمْرِ
دین کا مددگار اور اپنے اذن سے اپنے دشمنوں پر مسلط فرما اے معبود! ان کے گرد میں مدد گار فرشتوں کو کھڑ اکردے اور شب قدر میں جو حکم تو نے اان
فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ مُنْتَقِماً لَکَ حَتّی تَرْضی وَیَعُودَ دِینُکَ بِہِ وَعَلَی یَدَیْہِ جَدِیداً غَضّاً، وَیَمْحَضَ
کو دیا اس کے مطابق انہیں اپنی طرف سے بدلہ لینے والا قرار دے یہاں تک کہ تو راضی ہو تیرا دین ان کے ذریعے پلٹ آئے اور انکے ہاتھوں نئی قوت و
الْحَقَّ مَحْضاً، وَیَرْفُضَ الْباطِلَ رَفْضاً۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلَی جَمِیعِ آبائِہِ وَاجْعَلْنا مِنْ صَحْبِہِ
غلبہ پاکر حق نکھر کے سامنے آئے اور باطل پوری طرح مٹ جائے اے معبود! امام العصرؑ پر رحمت فرما اور ان کے تمام بزرگوں پر اور ہمیں ان کے مددگاروں
وَأُسْرَتِہِ، وَابْعَثْنا فِی کَرَّتِہِ، حَتّی نَکُونَ فِی زَمانِہِ مِنْ أَعْوانِہِ اَللّٰھُمَّ أَدْرِکْ بِنا قِیامَہُ، وَأَشْھِدْنا
اور ساتھیوں میں قرار دے ہمیں ان کی آمد ثانی پر مبعوث فرما یہاں تک کہ ہم ان کے عہد میں ان کے حامیوں میں ہوں اے معبود! ہمیں انکے قیام تک پہنچا اور
أَیَّامَہُ وَصَلِّ عَلَیْہِ، وَارْدُدْ إِلَیْنا سَلامَہُ، وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْہِ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکاتُہُ ۔
ان کی حکومت کے دن دکھا اور ان پر رحمت فرما اور ان کی دعا ہم تک پہنچا اور ان پر سلام اور اﷲ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔