نبوت کی معرفت

خداوند عالم کے لئے ضروری ھے کہ لوگوں کی ھدایت کے لئے احکام کے ساتھ انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کرے اس مطلب پر تین دلائل پیش کررھے ھیں ۔ پھلی دلیل : اس لئے کہ انسان کی پیدائش کا ھدف یہ نھیں ھے کہ ایک مدت تک اس دنیا میں رھے، اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرے اور ھر طرح کی عیش و عشرت یا دنیاوی ہزاروں دکھ درد اور پریشانیوں کے داغ کو اپنے سینہ پر برداشت کرکے رخت سفر باندھ کر فنا کے گھاٹ اتر جائے، اگر ایسا ھے تو انسان کی خلقت عبث و بے فائدہ ھوگی ![1] جب کہ خدائے تبارک و تعالیٰ کی ذات ایسے کاموں سے پاک اور مبرا ھے۔ انسان ، خداوند عالم کی بھترین و افضل ترین مخلوق ھے اور اس کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ھے کہ انسان اپنے اعمال کے ذریعہ کمالات و فضائل کے اعلیٰ مرتبہ پر پھونچ جائے تاکہ قیامت کے دن بھترین ثواب و جزا کا مستحق قرار پائے۔ لہٰذا پروردگار عالم کی ذات نے انسان کو نظم و قانون کا محتاج پایا تو ان کے لئے انبیاء (ع) کے دستور العمل بھی بھیجا تاکہ انسان کو تعلیم دیں اور انسان کو ضلالت و گمراھی کی تاریکی سے نکالیں ، یہ وھی احکام ھیں جو ساتھ قوانین اور انسان کی زندگی اور آخرت دونوں کو سدھارتے ھیں، لوگوں کو زیادتی اور زور و زبردستی سے روکتے ھیں اور انسان کی آزادی کے حقوق کے محافظ ھیں نیز انسان کو کمال و صراط مستقیم اور اللہ تک پھونچاتے ھیں ۔ کیا انسان کی ناقص عقل ایسا جامع دستور العمل اور منظم پروگرام لوگوں کے حوالے کر سکتی ھے ؟ ھر گز ممکن نھیں ، اس لئے کہ انسان کی عقل اور اس کی معلومات ناقص و محدود ھے،لوگوں کی عقل اچھے، برے جلوت و خلوت انفرادیت و اجتماعیت کے حالات پر کافی اور کامل معلومات نھیں رکھتی ھے ۔ اس لئے ھم دیکھتے ھیں کہ انسان نے ابتدائے خلقت سے لیکر آج تک ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور بے حد دولتوں کا سیلاب بہاد یا کہ محکم و کامل اور جامع انسانیت کے لئے قانون بنائے لیکن ابھی تک نہ بنا سکا ، قانون تو بے شمار بنتے رھتے ھیں، لیکن کچھ ھی دنوں میں اس کی خامیاں اور غلطیاں کھل کر سامنے آجاتی ھیں لہذا یا تو لوگ اس کو پورے طور پر ختم کر دیتے ھیں یا اس میں تبدیلی اور نظر ثانی کے در پے ھو جاتے ھیں ۔ دوسری دلیل : خود انسان کی طبیعت میں خود خواھی اور خود غرضی کے میلان پائے جاتے ھیں لہذا وہ ھر طرح کے فوائد کو اپنے اور اپنے اقارب کے لئے سب سے زیادہ پسند کرنے لگتا ھے لہذا نتیجتاً یہ عادت و فطرت مساوات کا قانون بنانے سے مانع ھوتی ھے ۔ جب بھی انسان ارادہ کرتا ھے کہ کوئی ایسا قانون بنائے جس میں ھوائے نفس اور خود خواھی نیز خود پسندی کا کوئی دخل نہ ھو، اپنے اور پرائے ایک صف میں کھڑے ھوں اور ھر ایک کو ایک نگاہ سے دیکھا جا رھاھو لیکن کھیں نہ کھیں طبیعت اور خواھش نفسانی تو غلبہ کر ھی لیتی ھے لہذا عدل و انصاف پر مبنی قانون کا سد باب ھو جاتا ھے ۔ تیسری دلیل : قانون بنانے والے حضرات انسان کے فضائل اور روحانی کمالات کا علم نھیں رکھتے اور اس کی معنوی زندگی سے بے خبر ھیں وہ انسان کی فلاح اور بھبود، مادیات کے زرق و برق اور دنیا کی رنگینیوں میں تلاش کرتے ھیں جب کی انسان کی روحانی اور دنیاوی زندگی کے درمیان ایک خاص اور محکم رابطہ پایا جاتا ھے فقط خداوند عالم کی ذات والا صفات ھے جو اس دنیا و ما فیھاکا پیدا کرنے والا ھے اور انسان کی اچھائی و برائی سے خوب واقف اور با خبر ھے،نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ھوئے ھے کوئی بھی چیز اس کے دست قدرت سے باھر نھیں، وھی ھے جو بلندی کی راہ اور ھلاکت کے اجتناب سے بخوبی واقف ھے لہذا اپنے قانون و احکام بلکہ انسانیت کی باگ ڈور ایسے حضرات کے حوالے کرتا ھے جو لوگوں کے لئے نمونہ اور اس کی زندگی آنے والوں کے لئے مشعل راہ ھوتی ھے ۔ اسی بنیاد پر ھم کھتے ھیں خداوند عالم حکیم ھے کبھی بھی انسان کو حیرانی اور جہالت و گمراھی کے اتھاہ سمندر میں نھیں چھوڑ سکتا بلکہ اس کی مصلحت و لطف کا تقاضا یہ ھے کہ انبیاء کو قواعد و قانون کے ساتھ لوگوں کی ھدایت کے لئے مبعوث کرے ۔ انبیا ،اللہ کے خاص بندے اور بساط بشر کی ممتاز فرد ھوتے ھیں جو خدا سے جس وقت چاھیں رابطہ پیدا کر سکتے ھیں اور جس چیز کی حقیقت معلوم کرنا چاھیں اسے معلوم کر کے لوگوں تک پھنچا سکتے ھیں اس طرح کے رابطے کو ”وحی“ کھتے ھیں وحی یعنی اللہ اور اس کے خاص بندے کے درمیان رابطے کو کھتے ھیں ، انبیاء اپنی باطنی بصیرت سے دنیا کی حقیقت کا مشاھدہ کرتے ھیں اور دل کے کانوں سے غیبی باتیں سنتے اور لوگوں تک پھنچاتے ھیں ۔ نبی کے شرائط ۱۔عصمت:نبی کا معصوم ھونا ضروری ھے یعنی نبی کے پاس ایسی قدرت و طاقت موجود ھوتی ھے کہ جس کی وجہ سے گناہ کے ارتکاب اور ھر طرح کی خطا و غلطی اور نسیان سے محفوظ رہ سکیں تاکہ خداوند عالم کے احکام جو انسان کی ھدایت کے لئے بنائے گئے ھیں بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں تک پھونچا سکیں ۔ اگرنبی خود گناہ کا مرتکب ھو جائے اور اپنے قول کے برخلاف عمل کرنے لگے تو اس کی بات اپنے اعتبار و اعتماد سے گر جائے گی یعنی وہ اپنے اس فعل سے اپنی ھی باتوں کا قلع قمع اور اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو برائی اور خدا کی نافرمانی کی طرف راھنمائی کر نے لگے گا ، جب کہ اس میں کوئی شبہ نھیں کہ عملی تبلیغ زبان سے زیادہ موٴثر ھے اگر نبی غلطی و نسیان کا پلندا ھوجائے تو لوگوں کے دلوں سے محبوبیت اور اس کا بھروسہ ختم ھوجائے گا اور اس کی باتوں کی معاشرے کے سامنے کوئی اھمیت و عزت نہ ھوگی ۔ ۲۔علم :نبی کے لئے ضروری ھے کہ ھر وہ قوانین جو انسان کی سعادت اور نیک بختی کے لئے لازم و ضروری ھیں اس سے خوب واقف ھو ، اور ھر وہ مطالب و موضوع جو راھنمائی و تبلیغ کے لئے کارساز ھیں اس کا کماحقہ علم رکھتا ھو تاکہ انسان کی فلاح اور بلندی کے حصول کے لئے خاص پروگرام لوگوں کے اختیار میں دے سکے اور راہ مستقیم (سیدھا راستہ) جو فقط ایک راستہ ھے اس کے سوا کوئی راستہ نھیں، اس راہ کے عظیم اجزا کو باھم اور دقیق ملاکر لوگوں کے سامنے پیش کرے ۔ ۳۔ معجزہ: خارق عادت کام کو کھتے ھیں یعنی نبی کا اپنے دعویٰ نبوت کے اثبات میں ایسے کام کا انجام دینا جس سے تمام لوگ عاجز ھوں چونکہ نبی عادت کے خلاف کسی چیز کا دعویٰ کرتا ھے اور نظروں سے اوجھل دنیا اور اللہ کی ذات سے رابطہ رکھتا ھے اور معارف و علوم کو اسی سے حاصل کرتا ھے اور تمام احکام کو اسی کی طرف نسبت دیتا ھے تو ضروری ھے کہ نبی ایسے کام کو اپنے مدعیٰ کے لئے انجام دے جس سے اس زمانے کے تمام افراد عاجز و حیران ھوں اور دعویٰ چونکہ غیبی ھے لہذا معجزہ بھی عادت کے بر خلاف ھونا چاھیے تاکہ اس امر غیبی کو ثابت کر سکے ایسے کام کو معجزہ کھتے ھیں۔ خلاصہ چونکہ نبی خدا سے رابطے کا دعویٰ کرتا ھے تو ضروری ھے کہ خدا کے ھم مثل کام کو انجام دے تاکہ لوگ اس کی بات پر یقین کریں مخفی نہ رھے کہ انبیاء کے تمام پروگرام اسباب و علل کے دائرے ھی میں انجام پاتے ھیں، مگر بعض مقامات پر جہاں وہ اس کی ضرورت سمجھتے ھیں ، معجزہ سے کام لیتے ھیں ۔ نبی کو پہچاننے کا طریقہ یہ مسلم ھے کہ نبی ایک عظیم مقام و رتبے پر فائز ھوتا ھے جب چاھے خدا سے رابطہ پیدا کر سکتا ھے اور وحی کے ذریعہ حقائق کو حاصل کر سکتا ھے پیغمبر اور نبی میںما فوق العادت عصمت جیسی طاقت بھی موجود ھوتی ھے، (کہ جسکی وجہ سے گناہ اور نسیان وغیرہ سے محفوظ رھتے ھیں) اور یہ بھی معلوم ھے کہ ایسا مقام اور راز پنہانی ھر کسی کے بس کا نھیں ھے لہذا انسان ان دو راستوں کے ذریعہ نبی کی حقانیت و صداقت کو بخوبی معلوم کر سکتا ھے اور تشخیص دے سکتا ھے ۔ پھلا راستہ : ایک نبی دوسرے (آنے والے) نبی کی خبر دے یا اس کی تصدیق کرے یا اس کے علائم اور قرائن کو بیان کرے ۔ دوسرا راستہ : وہ اپنے دعوے کی صداقت اور حق گوئی کے لئے معجزہ پیش کرے ، یعنی ایسے کام کو انجام دے کہ انسان اس جیسے کام انجام دینے سے عاجز ھو جب انسان دیکھے کہ کوئی پیغمبری کا دعویٰ کرتا ھے اور کھتا ھے کہ میں خد اکی طرف سے تمھاری ھدایت کے لئے مامور کیا گیا ھوں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایسے کام کو انجام دے رھاھو جو انسان کے اختیار سے باھر ھے، پس یقین ھو جائیگا کہ یہ شخص سچا ھے اس لئے کہ اگر یہ جھوٹا ھوتا تو خدا اس کی معجزہ کے ذریعہ تائید نہ کرتا چونکہ جھوٹے کی تائید کرنا لوگوں کو جہالت میں ڈالنا ھے ایک امر قبیح ھے اور خدا کوئی قبیح امر انجام نھیں دیتا ھے مقام عصمت و نبوت کو پہچاننے کے لئے ان دو عمومی قاعدے کے علاوہ کوئی اور راستہ نھیں پایا جاتا ھے ۔ لیکن جاننا چاھیے کہ عقلمندوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے دوسرا راستہ بھی کھلا ھوا ھے کہ لوگ قانونِ شریعت اور احکام اسلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں،اور قانون اسلام کو دنیا کے اور دوسرے قوانین سے تقابل کریں اور اس کے امتیازات اور مصلحتوں کو خوب درک کریں، اس وقت نبی کی سیرت اور طور طریقہ نیز رفتار و گفتار کو اس کے آئینے میں تلاش کریں اور اس طریقے سے ان کے دعوے کی سچائی کی تائید اور تصدیق کر کے اپنے ایمان کو مضبوط کرسکتے ھیں ، لیکن اس راہ سے آنا ھر شخص کے بس کی بات نھیں ھے یا یہ کہ خدا کا لطف خاص شامل حال ھو اور انسان ایمان کی قوت سے مالامال ھو ، قرآن مجید نے انبیاء کے لئے معجزات کو بیان کیا ھے جو شخص قرآن کے آسمانی اور خدا کی کتاب ھونے کا اعتقاد رکھتا ھے اس کو لامحالہ انبیاء کے معجزات پر بھی اعتقاد رکھنا پڑے گا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدھاھونااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردے کو زندہ کرنا وغیرہ کسی کے لئے قابل انکار نھیں ھے، جناب عیسیٰ علیہ السلام کا گھوارے میں باتیں کرنا قرآن کی نص ھے ۔ انبیاء کی تعداد حدیثوں سے استفادہ ھوتا ھے کہ انبیاء کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ھے جو لوگوں کی ھدایت کے لئے بھیجے گئے ھیں جس میں سب سے پھلے حضرت آدم (ع) اور آخر میں حضرت محمد مصطفی ابن عبد الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھیں [2] انبیاء کے اقسام :بعض انبیاء اپنے فرائض کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ھیں لیکن تبلیغ پر مامور نھیں ھوتے ۔بعض تبلیغ پر بھی مامور تھے ۔بعض صاحب دین اور شریعت تھے ۔ بعض انبیاء مخصوص شریعت لے کر نھیں آئے تھے ، بلکہ دوسرے نبی کی شریعت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے اور ایسا بھی ھوا ھے کہ متعدد انبیاء مختلف شھروں میں تبلیغ و ھدایت کے لئے مامور کئے گئے ھیں ۔ اولو العزم انبیاء : حضرت نوحعلیہ السلام ، حضرت ابراھیمعلیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھیں ، یہ صاحب شریعت تھے اور تمام انبیاء میں سب سے افضل ھیں، ان کو اولو العزم پیغمبر (ع)بھی کھاجاتا ھے۔ بعض انبیاء صاحب کتاب تھے : حضرت نوح(ع) ، حضرت ابراھیم (ع) ،حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد (ص)، اور باقی انبیاء صاحب کتاب نھیں تھے بعض انبیاء تمام لوگوں کیلئے مبعو ث کئے گئے تھے اور بعض مخصوص جمعیت و گروہ کیلئے مبعوث کئے گئے تھے ۔   [3] حضرت محمد (ص)آخری نبی ھیں اولو العزم انبیاء میں سے ھمارے نبی حضرت محمد ابن عبد اللہ(ص)ھیں آپ کی امت مسلمان کھلاتی ھے۔ آنحضرت(ص) اس وقت مبعوث برسالت ھوئے جب گذشتہ انبیاء کی کوششیں اور ان کی قربانیاں اور طولانی زحمات اپنا ثمرہ دکھا رھی تھیں، لوگوں کی دینی سوجھ بوجھ اس حد تک پھنچ چکی تھی کہ چاھتے تو بھترین اور کامل ترین قوانین کو اخذ کرتے اور بلند ترین معارف کو سمجھتے نیز گذشتہ انبیاء کے علمی آثار کو ھمیشہ باقی رکھ سکتے تھے، اس وقت حضرت محمد مصطفی(ص)مبعوث ھوئے، اور لوگوں کے اختیار میں ایک جامع اور مکمل دستور العمل قرار دیا ۔ اگر اسلامی قوانین اور اس کے احکام پر پابندی سے عمل کیا جائے تو انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کو اسکے ذریعہ سے تامین کیا جا سکتا ھے اور اسی طریقے سے اس زمانہ اور آنے والی نسلوں کی خیر و صلاح کے لئے کافی ھیں۔ ھر شخص کو حق حاصل ھے کہ قواعد و قوانین اور معارف اسلامی میں تلاش و جستجو کرے اور اسلام کے قوانین کا دنیا کے اور قوانین سے تقابل کرے تو اسلام کے قوانین کی برتری اس کے اوپر روز روشن کی طرح واضح و ظاھر ھوجائے گی یھی علت ھے کہ آنحضرت(ص)آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ھیں اور ان کے بعد کوئی دوسرا نبی نھیں آئے گا قرآن مجید نے آپ کو خاتم النبیین سے تعبیر کیا ھے [4]حضرت محمد کے آخری نبی ھونے کا اعتقاد رکھنا، دین کی ضروریات میں سے ھے اور اس سے انکار کرنے والا مسلمان نھیں ھے ۔ ھمیشہ رھنے والا معجزہ حضرت محمد مصطفی (ص)آپ صاحب معجزہ تھے اور اپنی زندگی کے مختلف ایام میں لوگوں کو معجزہ سے روشناس کرایا ھے اور کثرت سے حدیث اور تاریخی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ ملتا ھے، ان سب کے علاوہ قرآن مجید ھمیشہ رھنے والا معجزہ اور آپ کی نبوت پر قطعی ثبوت ھے قرآن کریم خود اپنے کو معجزہ سے تعبیر کرتا ھے اور خدالوگوں سے کھتا ھے جو ھم نے قرآن مجید اپنے بندے (محمدمصطفی(ص)) پر نازل کیا ھے اس پر شک کرتے ھو تو اس کے مثل ایک سورہ ھی لے آؤ ۔[5] اورقرآن کھتا ھے اگر تمام جن و انس قرآن کا مثل لانے پر اتفاق کرلیں تب بھی نھیں لا سکتے ۔[6] اسلام کے دشمن اسلام سے ھر طریقے سے لڑنے کے لئے آمادہ ھو گئے کسی راہ کو باقی نھیں چھوڑا، اور خطرناک سے خطرناک جنگوں سے سامنا کرنے سے منھ تک نہ موڑا اور جانی و مالی بے انتھانقصان برداشت کئے لیکن قرآن سے جنگ کرنے کے لئے اصلاً آمادہ نہ ھوئے ،ہاں اگر ان کے بس کا ھوتا تو قرآن کے سورہ کی طرح کسی ایک سورہ کا جواب لاکر رکھ دیتے! اگر ان کے اختیار میں ھوتا تو اتنی بڑی بڑی جنگوں کے مقابل سورہ لانے کو زیادہ ترجیح دیتے اور ہزارھازحمت و پریشانی سے سبکدوش ھوجاتے مثلِ سورہ قرآن کوئی سورہ پیش کرنے پر اصلاً قدرت ھی نھیں رکھتے تھے ۔[7] قرآن مجید آنحضرت(ص)کی تیئیس سال کی زندگی میں رفتہ رفتہ نازل ھوا ھے آںحضرت(ص)کے اصحاب ِکرام ان آیات کو حفظ کرتے تھے اس کے بعد جمع آوری ھوئی اور کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے آگیا ، قرآن مجید پھلی آسمانی کتاب ھے جس میں کسی طرح کی کوئی تغییر و تحریف نھیں پائی جاتی ھے ، اور بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں کے سامنے موجود ھے ۔ قرآن کتاب عمل ھے : اگر مسلمان دارین کی سر بلندی چاھتے ھیں اور انکی چھنی ھوئی شان و شوکت ،جاہ و حشم واپس آجائے تو چاھیے کہ قرآن کے بیان کردہ محکم قوانین اور دستور کی پیروی و اتباع کریں ا ور اپنے تمام کاموں نیز تمام لا علاج امراض میں قرآن سے تمسک و توسل کر کے ان اجتماعی و انفرادی مشکلوں کو حل کریں ۔ حضرت رسول خدا (ص)کے حالاتِ زندگی آپ(ص)کے والد عبد اللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا سترہ ربیع الاول سن ایک عام الفیل کو مکہ معظمہ میں آپ کی ولادت با سعادت ھوئی ، ستائیس رجب المرجب کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ھوئے ، تیرہ سال مکہ میں رھکر لوگوں کو پوشیدہ اور ظاھری طور پر اسلام کی دعوت دیتے رھے اسی مدت میں ایک گروہ مسلمان ھوا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ لیکن کفار اور بت پرست افراد ھر طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے موانع اور رکاوٹیں کھڑی کر رھے تھے اور آںحضرت(ص) کو اذیت مسلمانوں پر سختی و عذاب سے کوئی لمحہ فرو گذاشت نھیں کرتے تھے ، یہاں تک کہ آنحضرت(ص) کی جان ایک دن خطرے میںآ گئی لہٰذا مجبور ھو کر مدینہ کی طرف ھجرت فرمائی اور آھستہ آھستہ مسلمان بھی آپ سے آملے اور مدینہ شھر سب سے پھلے اسلامی حکومت کا پائے تخت اور فوجی اڈا بن گیا ۔     آںحضرت(ص)اس مقدس شھر میں دس سال تک احکام کی تبلیغ لوگوں کی راھنمائی اور اجتماعی امور کے سنبھالنے میں مشغول رھے اور اسلامی لشکر ھر وقت حریم اسلام کے دفاع کے لئے آمادہ رھتا ۔ ھمارے نبی(ص)ترسٹھ سال اس دار فانی میں رہ کر اٹھائیس صفر ھجرت کے گیارھویں سال دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے اور اسی شھر مقدس (یثرب) مدینہ میں مدفون ھوئے ۔ آں حضرت(ص)بچپنے سے ھی با ادب سچے اور امانتدار تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کو محمد امین(ص)کھتے تھے ، اخلاقی لحاظ سے نیک، اپنے زمانہ کے لئے نمونہ تھے کبھی آپ(ص)سے جھوٹ اور خیانت دیکھی نھیں گئی کسی پر ظلم و ستم نھیں کرتے اور برے کاموں سے دوری، لوگوں کا احترام، خوش اخلاق و متواضع و بردبار تھے مجبور و بے سہاروں کے ساتھ احسان و مھربانی سے پیش آتے آپ جو کھتے اس پر عمل کرتے تھے اسی پسندیدہ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ لوگ ھر طرف سے اسلام کے گرویدہ ھونے لگے اور آزادی و اختیار کے ساتھ اسلام قبول کرتے تھے ، امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں : ایک فقیر نے آنحضرت(ص)کے قریب آکر آپ(ص) سے سوال کیا حضرت نے ایک انصاری سے کھجور قرض لے کرسائل کو عطا کیا کافی دن گذر گئے مگر آپ اس کا قرض نہ چکا سکے پھر ایک دن طلبگار آیا اور اس نے اپنی کھجور کا مطالبہ کیا حضرت نے فرمایا : ابھی میرے پاس نھیں ھے جب ھو جائے گا تو میں انشاء الله دے دونگا ، دوسری دفعہ آیا اور پھر وھی جواب سنا، تیسری مرتبہ جب اس نے اِس جواب کو سنا تو کھنے لگا : یا رسول اللہ ! کب تک یہ کھتے رھیں گے انشاء اللہ دونگا ؟ پھر وہ آں حضرت(ص)کی شان میں گستاخی کرنے لگا حضرت اس کے نا زیبا کلمات سن کر مسکرانے لگے اور اصحاب سے فرمایا :کیا تم میں کوئی ھے جو مجھے کھجور قرض کے طور پر دے ؟ ایک شخص نے کھا: یا رسول اللہ ! میں آپ کو دونگا فرمایا : اس مقدار میں (خرما) کھجور اس شخص کو دے دو ، طلبگار نے کھامیں تو اس کے نصف کا طلبگار ھوں حضرت (ص)نے فرمایا اس نصف کو میں نے تجھے بخش دیا ۔[8] حوالاجات [1] آیت ۱۱۵< اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثًا وَ اَنکُّم اِلَینَا لَا تُرجَعُونَ > کیا تم یہ گمان کرتے ھو کہ ھم نے تم کو بے کار پیدا کیا ھے اور تم ھمارے حضور میں لوٹا کر نھیں لائے جاؤگے ۔ [2] بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۰ ۔ [3] بحار الانوار، ج۱ ص۶۱ ۔ [4] احزاب (۳۳) آیت ۴۰ ۔ [5] بقرہ (۲) آیت ۲۳ ۔ [6] اسراء (۱۷) آیت ۸۸ ۔ [7] مزید تحقیق کے لئے تفسیر و کلام اور تاریخ و حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کریں اس لئے کہ اس کتاب میں اختضار مد نظر ھے ۔ [8] حیات القلوب ج۲، ص ۱۶۸ ۔ منبع:shiaarticles.com