کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی تھے
کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی تھے
0 Vote
43 View
کیا آنحضور کے ناخواندہ ہونے کے اعتقاد کی بنیاد لفظ ”اُمی“ کی تفسیر تھی؟اس دانشمند کا دعویٰ کہ آنحضور کے ناخواندہ ہونے کے اعتقاد کی بنیاد صرف لفظ ”اُمی“ کی تفسیر تھی‘ اس لئے بے بنیاد ہے کیونکہ۱۔ مکہ اور عرب کی تاریخ ظہور اسلام کے وقت اس بات کی قطعی گواہ ہے کہ آپ ناخواندہ تھے۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ظہور اسلام کے وقت حجاز کے ماحول میں پڑھنے‘ لکھنے کا رواج اس قدر محدود تھا کہ اس صنعت سے واقف ایک ایک شخص کا نام اس زمانے میں شہرت کے باعث تواریخ میں ثبت ہے‘ جبکہ کسی نے بھی آنحضور کے نام نامی کو ان کے ناموں کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔ فرض کریں اگر قرآن میں اس موضوع کے بارے میں اشارہ یا صراحت نہ ہوتی تو لامحالہ مسلمانوں کو تاریخ کے فیصلے کے مطابق مجبوراً یہ قبول کرنا پڑتا کہ ان کے پیغمبر ناخواندہ تھے۔۲۔ قرآن مجید میں سورئہ اعراف کی ایک اور آیت میں لفظ ”اُمی“ استعمال ہوا ہے جو اپنی جگہ واضح و آشکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی مفسرین لفظ ”اُمی“ کے مفہوم کے حوالے جو سورئہ اعراف میں آیا ہے کسی نہ کسی حد تک اختلاف رائے رکھتے ہیں‘ لیکن آپ کے ناخواندہ ہونے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل آیت کے مفہوم کے بارے میں ان میں کسی قسم کا اختلاف رائے نہیں پایا جاتا۔ وہ آیت یہ ہے:وما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذا لارتاب المبطلون(عنکبوت‘ ۴۸)”اور اے رسول! قرآن سے پہلے نہ تو تم کوئی کتاب پڑھتے اور نہ اپنے ہاتھ سے تم لکھا کرتے تھے‘ ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے ضرور تمہاری نبوت میں شک کرتے۔“اس آیت میں واشگاف طور سے بیان کیا گیا ہے کہ آنحضور عہد رسالت سے قبل نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ لکھنا۔ اسلامی مفسرین نے عام طور سے اس آیت کی اسی طرح تفسیر بیان کی ہے‘ لیکن موصوف کا دعویٰ ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں بھی غلطی ہوئی ہے۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں لفظ ”کتاب“ دیگر آسمانی کتابوں یعنی تورات و انجیل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس آیت میں یہ بات بیان کی جا رہی ہے کہ آپ نزول قرآن سے پہلے کسی آسمانی (مقدس) کتاب سے واقف نہ تھے‘ کیونکہ یہ آسمانی کتابیں عربی زبان میں نہیں تھیں اور اگر آپ ان کتابوں کو جو کہ عربی زبان میں نہ تھیں‘ پڑھ چکے ہوتے تو آپ جھوٹوں اور شک کرنے والے افراد کے الزامات کے ہدف قرار پاتے۔یہ دعویٰ درست نہیں ہے‘ کیونکہ عربی لغت میں ”کتاب“ کا مطلب وہ نہیں ہے جو فارسی زبان میں عام طور سے مستعمل ہے‘ بلکہ اس لفظ کا اطلاق کسی بھی لکھی ہوئی چیز خواہ وہ خط ہو یا روزنامچہ‘ مقدس و آسمانی ہو یا غیر مقدس اور غیر آسمانی ہو‘ پر ہوتا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ کبھی تو دو افراد کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کے لئے استعمال ہوا ہے‘ جیسے ملکہ ’سبا‘ کے بارے میں آیا ہے:یا ایھا الملا انی القی الی کتاب کریم انہ من سلیمان(نمل‘ ۲۹)”اے میرے دربار کے سردارو! یہ ایک واجب الاحترام خط میرے پاس ڈال دیا گیا ہے‘ یہ سلیمان(ع)کی طرف سے ہے۔“اور کبھی دو اشخاص کے درمیان ایک معاہدہ کے بارے میں استعمال ہوا ہے‘ مثال کے طور پر:والذین یبتعون الکتاب مما ملکت ایمانکم فکابتوھم(نور‘ ۳۲)”وہ بردہ ”غلام“ جو کسی عہد یا شرط نامہ کے تحت خود کو آزاد کرانا چاہیں تو ان کی درخواست قبول کرو اور ان کے ساتھ شرط نامے کا مبادلہ کرو۔“اور کبھی لوح محفوظ اور ملکوتی حقائق کے بارے میں جو کائنات کے واقعات سے مربوط ہے‘ استعمال ہوا ہے:ولا رطب ولا یا بس الا فی کتاب مبین(انعام‘ ۵۹)”کوئی خشک و تر نہیں‘ مگر یہ کہ لوح محفوظ میں موجود ہے۔“دراصل قرآن میں صرف جہاں لفظ ”اہل“ اس لفظ کے ساتھ آیا اور ”اہل الکتاب“ کے پیرائے میں آیا ہے تو اس کا مطلب وہ ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اہل کتاب یعنی کسی بھی آسمانی کتاب کے ماننے والے پیروکار۔سورئہ نساء کی آیت ۱۵۳ میں ارشاد ہوتا ہے:یسئلک اہل الکتاب ان تنزل علیہم کتابا من السماء”(اے رسول!) آسمانی کتاب کے پیروکار تم سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کے لئے آسمان سے کوئی خط نازل کراؤ۔“اس آیت میں یہ لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا‘ ایک بار لفظ ”اہل“ کے ہمراہ اور دوسری مرتبہ بغیر ”اہل“ کہ جہان پر لفظ ”اہل“ کتاب کے ساتھ آیا ہے وہاں اس کا مطلب آسمانی کتاب اور جہاں لفظ ”کتاب“ مجرد طور پر استعمال ہوا ہے‘ وہاں اس کا مفہوم ایک عام خط ہے۔اس کے علاوہ عبارت ”ولا تخطہ بیمینک“ بذات خود یہ مقصود بیان کرتی ہے کہ آپ نہ پڑھنا جانتے تھے‘ نہ لھکنا اور اگر پڑھنا‘ لکھنا جانتے تو آپ پر یہ الزام لگاتے کہ دوسری جگہ سے لے کر لکھا ہے‘ لیکن کیونکہ آپ نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ لکھنا تو ایسا الزام لگانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔جی ہاں! یہاں پر ایک غور طلب نکتہ ہے جو شاید ڈاکٹر عبداللطیف کی رائے کی تائید کرتا ہو‘ گو کہ ان کی خود بھی اس کی جانب توجہ مبذول نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی کسی بھی مفسر نے اس کی جانب توجہ کی ہے۔سورئہ عنکبوت کی آیت ۴۸ میں لفظ ”تتلوا“ کا استعمال ہوا ہے‘ جس کا مصدر ”تلاوت“ ہے۔ تلاوت کا مطلب جیسا کہ مفردات میں راغب نے بیان کیا ہے‘ آیات مقدسہ کی قرات ہے اور یہ لفظ ”قرائت“ کے لفظ سے مختلف ہے‘ کیونکہ ”قرائت“ عمومی مفہوم کا حامل ہے‘ لہٰذا گو کہ لفظ ”کتاب“ کا مقدس اور غیر مقدس کتاب پر اطلاق ہوتا ہے‘ تاہم لفظ ”تتلوا“ صرف مقدس آیات کی قرات کے لئے مخصوص ہے۔ اب چونکہ یہاں پر لفظ ”تتلوا“ استعمال میں لایا گیا ہے تو بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ قرآن مجید سے مربوط ہے‘ تاہمد وسری تمام پڑھنے والی چیزوں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہا گیا ہو‘ تم ابھی قرآن کی تلاوت کر رہے ہو‘ لیکن اس سے قبل کسی لکھی ہوئی چیز کو نہیں پڑھتے تھے۔ایک اور آیت جس سے آپ کے ناخواندہ ہونے کے بارے اشارہ ملتا وہ سورئہ شوریٰ کی آیت ۵۲ ہے:وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان”ہم نے قرآن کو جو روح و حیات ہے‘ اپنے امر سے آپ پر وحی کے ذریعے نازل کیا ہے اور اس سے قبل تمہیں (آپ) کو معلوم نہ تھا لکھی ہوئی چیز کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔“یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ وحی کے نازل ہونے سے پہلے پڑھائی لکھائی کے بارے میں آپ کو کوئی علم نہ تھا۔ڈاکٹر سید عبداللطیف نے اپنی تقریر میں اس آیت کا حوالہ نہیں دیا۔ ممکن ہے وہ یہ کہیں کہ اس آیت میں لفظ ”کتاب“ کا مطلب وہ مقدس متون ہیں جو عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں نازل ہوئے۔ اس کا جواب وہی ہے جو ہم نے گزشتہ آیت میں بیان کیا۔اسلامی مفسرین اس دلیل کی بناء پر جو کہ ہم پر آشکار نہیں ہے‘ بیان کرتے ہیں کہ لفظ ”کتاب“ کا صرف قرآن مجید پر اطلاق ہوتا ہے‘ لہٰذا اس آیت کی تفسیر سے کوئی استدلال پیش نہیں کیا جا سکتا۔۳۔ اسلامی مفسرین لفظ ”اُمی“ کے مفہوم کے سلسلے میں ہرگز ایک رائے کے حامل نہیں رہے‘ جبکہ آپ کے ناخواندہ ہونے اور عہد رسالت سے پہلے آپ کی پڑھنے‘ لکھنے کے سلسلے میں لاعلمی کے بارے میں نہ صرف تمام مفسرین بلکہ سارے علمائے اسلام میں اشتراک رائے پایا جاتا ہے اور یہ بات بذات خود اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آنحضور کے ناخواندہ ہونے کے بارے میں مسلمانوں کے اعتقاد کی بنیاد لفظ ”اُمی“ کی تفسیر نہ تھی۔ اب ہم لفظ ”اُمی“ کے مفہوم کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں- منبع:shiaarticles.com