کیا پیغمبر اکرم (ص) امّی تھے؟
کیا پیغمبر اکرم (ص) امّی تھے؟
0 Vote
75 View
”اُمّی“ کے معنی میں تین مشہور احتمال پائے جاتے ہیں: پہلا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے سبق نہ پڑھا ہو، دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس کی جائے پیدائش مکہ ہو اور مکہ میںظاہر ہوا ہو، اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے قوم او رامت کے درمیان قیام کیا ہو، لیکن سب سے زیادہ مشہور و معروف پہلے معنی ہیں، جو استعمال کے موارد سے بھی ہم آہنگ ہیں، اور ممکن ہے تینوں معنی باہم مراد ہوں۔ اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کہ”پیغمبر اکرم (ص)کسی مکتب اور مدرسہ میں نہیں گئے “اور قرآن کریم نے بھی بعثت سے پہلے آنحضرت (ص) کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے:< وَمَا کُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتَابٍ وَلاََتخُطُّہُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ>(1) ”اور اے پیغمبر! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہ میں پڑجاتے“۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت پورے حجاز میں پڑھے لکھے لوگ اتنے کم تھے کہ ان کی تعداد انگشت شمار تھی اور سبھی ان کوجا نتے تھے، مکہ میں جو حجاز کا مرکز شمار کیا جاتا تھا لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد ۱۷/ سے زیادہ نہیں تھی اور عورتوں میں صرف ایک عورت پڑھی لکھی تھی۔(2) ایسے ماحول میں اگر پیغمبر اکرم (ص) نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو یقینی طور پریہ بات مشہور ہوجاتی، بالفرض اگر (نعوذ باللہ) آنحضرت (ص)کی نبوت کو قبول نہ کریں، تو پھر آپ اپنی کتاب میں اس موضوع کی نفی کیسے کرسکتے تھے؟ کیا لوگ اعتراض نہ کرتے کہ تم نے تعلیم حاصل کی ہے، لہٰذا یہ بہترین شاہدہے کہ آپ نے کسی کے پاس تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ بہر حال پیغمبر اکرم (ص) میں اس صفت کا ہونا نبوت کے اثبات کے لئے زیادہ بہتر ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس شخص نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو وہ اس طرح کی عمدہ گفتگوکرتا ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آنحضرت (ص) کا خداوندعالم اور عالم ماوراء طبیعت سے واقعاً رابطہ ہے۔ یہ آنحضرت (ص) کی بعثت نبوت سے پہلے، لیکن بعثت کے بعد بھی کسی تاریخ نے نقل نہیں کیا کہ آپ نے کسی کے پاس لکھناپڑھنا سیکھا ہو، لہٰذا معلوم یہ ہو ا کہ آپ اولِ عمر سے آخر ِعمر تک اسی ”اُمّی“ صفت پر باقی رہے۔ لیکن یہاں پر سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے معنی جاہل ہونا نہیں ہے، اور جو لوگ لفظ ”اُمّی“ کے جاہل معنی کرتے ہیں وہ اس فرق کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ اس بات میں کوئی مانع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) تعلیم الٰہی کے ذریعہ ”پڑھنا“ یا ”پڑھنا اور لکھنا“ جانتے ہوں، بغیر اس کے کہ کسی انسان کے پاس تعلیم حاصل کی ہو، بے شک اس طرح کی معلومات انسانی کمالات میں سے ہیں اور مقام نبوت کے لئے ضروری ہیں۔ حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات اس بات پر بہترین شاہد ہیں، جن میں بیان ہوا ہے : پیغمبر اکرم (ص) لکھنے پڑھنے کی قدرت رکھتے تھے۔(3) لیکن ان کی نبوت میں کہیں کوئی شک نہ کرے اس قدرت سے استفادہ نہیں کرتے تھے،اور جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کی طاقت کوئی کمال محسوب نہیں ہوتی، بلکہ یہ دونوں علمی کمالات تک پہنچنے کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ علم واقعی اور کمال حقیقی، تو اس کا جواب بھی اسی میں مخفی ہے کیونکہ کمالات کے وسائل سے آگاہی رکھنا خود ایک واضح کمال ہے۔لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا تصور ہے جس طرح کہ سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے: < یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ>(4) یا اس کے ماننددوسری آیات، اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کے سامنے لکھی ہوئی کتاب (قرآن) سے پڑھتے تھے، یہ بھی ایک غلط فہمی ہے، کیونکہ تلاوت کے معنی لکھی ہوئی کتاب پڑھنا بھی ہیں اور زبانی طور پر پڑھنا بھی، جو لوگ قرآن، اشعار یا دعاؤں کو زبانی پڑھتے ہیں ان پر بھی تلاوت کا اطلاق بہت زیادہ ہو تا ہے۔(5) (1) سورہ عنکبوت ، آیت ۴۸ (2) فتوح البلدان بلاذری ،مطبوعہ مصر، صفحہ ۴۵۹ (3) تفسیر برہان ، جلد ۴، صفحہ ۳۳۲، سورہٴ جمعہ کی پہلی آیت کے ذیل میں (4) سورہ جمعہ ، آیت ۲”(وہ رسول) انھیں کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“۔ (5) تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۰ منبع:islaminurdu.com