پیغمبر (ص) کے خطوط دنیا کے بادشاہوں کے نام

تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سرزمین حجاز میں اسلام کافى نفوذ کرچکا تو پیغمبراکرم(ص) نے اس زمانے کے بڑے بڑے حکمرانوں کے نام کئی خطوط روانہ کیے _ ان میں بعض خطوط میں کا سہارا لیا گیا ہے ،جس میں آسما نى ادیان کى قدر مشترک کا تذکرہ ہے_ مقوقس(1) کے نام خط مقوقس مصر کا حاکم تھا پیغمبر اسلام (ص) نے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں او رحکام کو خطوط لکھے او رانہیں اسلام کى طرف دعوت دی،حاطب بن ابى بلتعہ کو حاکم مصر مقوقس کى طرف یہ خط دے کرروانہ کیا_ بسم اللّہ الرحمن الرحیم من: محمد بن عبداللّہ الی: المقوقس عظیم القبط سلام على من اتبع الھدى ،اما بعد:''فانى ادعوک بدعایةالاسلام اسلم تسلم،یو تک اللّہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم القبط ، . . . یا اھل الکتب تعالواالى کلمة سواء بیننا و بینکم'' ان لا نعبد الا اللّہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون''_ اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے _ از _ _ _ محمد بن عبد اللہ بطرف_ _ _ قبطیوں کے مقوقس بزرگ _ حق کے پیروکاروں پر سلام ہو_ میں تجھے اسلام کى دعوت دیتا ہوں_ اسلام لے آئو تاکہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ایک خود تمہارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کى وجہ سے جو تمہارى پیروى کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى کى تو قبطیوں کے گناہ تیرے ذمہ ہوں گے __اے اہل کتاب ہم تمہیں ایک مشترک بنیادکى طرف دعوت دیتے ہیں او روہ یہ کہ ہم خدائے یگانہ کے سوا کسى کى پرستش نہ کریں اور کسى کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانى نہ کریں تو ان سے کہو کہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہیں''_ پیغمبر (ص) کا سفیر مصر کى طرف روانہ ہوا، اسے اطلاع ملى کہ حاکم مصر اسکندریہ میں ہے لہذا وہ اس وقت کے ذرائع آمد ورفت کے ذریعے اسکندریہ پہنچا او رمقوقس کے محل میں گیا، حضرت کا خط اسے دیا ، مقوقس نے خط کھول کر پڑھا کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر کہنے لگا:''اگر واقعاً محمد(ص) خدا کا بھیجا ہوا ہے تو اس کے مخالفین اسے اس کى پیدائشے کى جگہ سے باہر نکالنے میں کیوں کامیاب ہوئے او روہ مجبور ہوا کہ مدینہ میں سکونت اختیار کرے؟ ان پر نفرین او ربد دعا کیوں نہیںکى تاکہ وہ نابود ہو جاتے؟'' پیغمبر (ص) کے قاصد نے جواباً کہا: ''حضرت عیسى علیہ السلام خدا کے رسول تھے اور آپ بھى ان کى حقانیت کى گواہى دیتے ہیں، بنى اسرائیل نے جب ان کے قتل کى سازش کى توآپ نے ان پر نفرین اور بد دعا کیوں نہیں کى تاکہ خدا انہیں ہلاک کردیتا؟ یہ منطق سن کر مقو قس تحسین کرنے لگا اور کہنے لگا : ''احسنت انت حکیم من عند حکیم '' ''افرین ہے ،تم سمجھ دار ہو اور ایک صاحب حکمت کى طرف سے ائے ہو '' حاطب نے پھر گفتگو شروع کى اور کہا : ''اپ سے پہلے ایک شخص (یعنى فرعون )اس ملک پر حکومت کرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں میں اپنى خدائی کا سودا بیچتا رہا ،بالاخر اللہ نے اسے نابود کر دیا تاکہ اس کى زندگى اپ کے لئے باعث عبرت ہو لیکن اپ کوشش کریں کہ اپ کى زندگى دوسروں کے لئے نمونہ بن جائے''_ ''پیغمبر (ص) نے ہمیں ایک پاکیزہ دین کى طرف دعوت دى ہے ، قریش نے ان سے بہت سخت جنگ کى او ران کے مقابل صف آراء ہوئے، یہودى بھى کینہ پرورى سے ان کے مقابلے میں آکھڑے ہوئے او راسلام سے زیادہ نزدیک عیسائی ہیں _ '' مجھے اپنى جان کى قسم جیسے حضرت موسى علیہ السلام نے حضرت عیسى علیہ السلام کى نبوت کى بشارت دى تھى اس طرح حضرت عیسى علیہ السلام حضرت محمد کے مبشر تھے ، ہم آپ لوگوں نے تو ریت کے ماننے والوں کو انجیل کى دعوت دى تھى ،جوقوم پیغمبرحق کى دعوت کو سنے اسے چاہئے کہ اس کى پیروى کرے ،میں نے محمد کى دعوت آپ کى سرزمین تک پہنچادى ہے، مناسب یہى ہے کہ آپ او رمصرى قوم یہ دعوت قبول کر لے''_ حاطب کچھ عرصہ اسکندریہ ہى میں ٹھہرا تاکہ رسول اللہ (ص) کے خط کا جواب حاصل کرے ،چند روز گزر گئے، ایک دن مقوقس نے حاطب کو اپنے محل میں بلایا او رخواہش کى کہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ مزید بتایا جائے_ حاطب نے کہا: ''محمد (ص) ہمیں خدانے یکتا ئی پرستش کى دعوت دیتے ہیں او رحکم دیتے ہیں کہ لوگ روزوشب میں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قریبى رابطہ پیدا کریں او رنماز پڑھیں ،پیمان پورے کریں ،خون او رمردار کھانے سے اجتناب کریں''_ علاوہ ازیں حاطب نے پیغمبر اسلام (ص) کى زندگى کى بعض خصوصیات بھى بیان کیں_ مقوقس کہنے لگا: ''یہ تو بڑى اچھى نشانیاں ہیں_ میرا خیال تھا کہ خاتم النبیین سرزمین شام سے ظہور کریں گے جو انبیاء علیہم السلام کى سرزمین ہے،اب مجھ پر واضح ہوا کہ وہ سر زمین حجاز سے مبعوث ہوئے ہیں''_ اس کے بعد اس نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ وہ عربى زبان میں اس مضمون کا خط تحریر کرے: بخدمت : محمد بن عبد اللہ _ منجانب: قبطیوں کے بزرگ مقوقس _ ''آپ پر سلام ہو،میں نے آپ کاخط پڑھا ،آپ کے مقصد سے باخبر ہوااو رآپ کى دعوت کى حقیقت کو سمجھ لیا،میں یہ تو جانتا تھا کہ ایک پیغمبر (ص) ظہور کرے گا لیکن میرا خیال تھا کہ وہ خطہ شام سے مبعوث ہوگا، میں آ پ کے قاصد کا احترام کرتا ہوں''_ پھر خط میں ان ہدیوں اور تحفوں کى طرف اشارہ کیا جواس نے آپ کى خدمت میں بھیجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام کیا_ ''آپ پر سلام ہو'' تاریخ میں ہے کہ مقوقس نے کوئی گیارہ قسم کے ہدیے پیغمبر (ص) کے لئے بھیجے ، تاریخ اسلام میں ان کى تفصیلات موجود ہیں،ان میں سے ایک طبیب تھا تاکہ وہ بیما ر ہونے والے مسلمانوں کا علاج کرے، نبى اکرم (ص) نے دیگر ہدیئے قبول فرمایائے لیکن طبیب کو قبول نہ کیا او رفرمایا:''ہم ایسے لوگ ہیں کہ جب تک بھوک نہ لگے کھانا نہیں کھاتے او رسیر ہونے سے پہلے کھانے سے ہاتھ روک لیتے ہیں، یہى چیز ہمارى صحت و سلامتى کے لئے کافى ہے، شاید صحت کے اس عظیم اصول کے علاوہ پیغمبر اسلام (ص) اس طبیب کى وہاں موجودگى کو درست نہ سمجھتے ہوں کیونکہ وہ ایک متعصب عیسائی تھا لہذا آپ نہیںچاہتے تھے کہ اپنى او رمسلمانوں کى جان کا معاملہ اس کے سپرد کردیں_ مقوقس نے جو سفیر پیغمبر (ص) کا احترام کیا،آپ کے لئے ہدیے بھیجے او رخط میں نام محمد اپنے نام سے مقدم رکھا یہ سب اس بات کى حکایت کرتے ہیں کہ اس نے آپ کى دعوت کو باطن میں قبول کرلیا تھا یا کم از کم اسلام کى طر ف مائل ہوگیا تھا لیکن اس بناء پرکہ اس کى حیثیت او روقعت کو نقصان نہ پہنچے ظاہرى طو رپراس نے اسلام کى طرف اپنى رغبت کا اظہار نہ کیا _ قیصر روم کے نام خط بسم اللّہ الرحمن الرحیم من:محمد بن عبداللّہ الی: ہرقل عظیم الرّوم سلام على من اتبع الھدى اما بعد:فانى ادعوک بدعایةالاسلام_ اسلم تسلم،یو تک اللّہ اجرک مرتین، فان تولیت فانما علیکم اثم القبط،___یا اھل الکتب تعالواالى کلمة سواء بیننا و بینکم'' ان لا نعبد الا اللّہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون''_ اللہ کے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے_ منجانب: محمدبن عبد اللہ _ بطرف: ہرقل بادشاہ روم_ ''اس پر سلام ہے جو ہدایت کى پیروى کرے_میں تجھے اسلام کى دعوت دیتا ہوں_ اسلام لے آئو تاکہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ایک خود تمہارے ایمان لانے پر اوردوسراان لوگوں کى وجہ سے جو تمہارى پیروى کرکے ایمان لائیں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى کى تو اریسوں کا گناہ بھى تیرى گردن پر ہوگا_اے اہل کتاب ہم تمہیں ایک مشترک بنیادکى طرف دعوت دیتے ہیں او روہ یہ کہ ہم خدائے یگانہ کے سوا کسى کى پرستش نہ کریں اور کسى کو اس کا شریک قرار نہ دیں حق سے روگردانى نہ کریں تو ان سے کہو کہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہیں''_ قیصر کے پاس نبى اکرم (ص) کا پیغام پہنچانے کے لئے ''دحیہ کلبی'' مامور ہوا سفیرپیغمبر(ص) عازم روم ہوا_ قیصرکے دارالحکومت قسطنطنیہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا کہ قیصربیت المقدس کى زیارت کے ارادے سے قسطنطنیہ چھوڑ چکا ہے، لہذا اس نے بصرى کے گور نر حادث بن ابى شمر سے رابطہ پیداکیا اور اسے اپنامقصد سفر بتایا ظاہراً پیغمبر اکرم (ص) نے بھى اجازت دے رکھى تھى کہ دحیہ وہ خط حاکم بصرى کو دیدے تاکہ وہ اسے قیصرتک پہنچادے سفیر پیغمبر (ص) نے گورنر سے رابطہ کیا تو اس نے عدى بن حاتم کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ دحیہ کے ساتھ بیت المقدس کى طرف جائے اور خط قیصر تک پہنچا دے مقام حمص میں سفیر کى قیصر سے ملاقات ہوئی لیکن ملاقات سے قبل شاہى دربار کے کارکنوں نے کہا: ''تمہیں قیصر کے سامنے سجدہ کرنا پڑے گا ورنہ وہ تمہارى پرواہ نہیں کرے گا '' دحیہ ایک سمجھدار آدمى تھا کہنے لگا : ''میں ان غیر مناسب بدعتوں کوختم کرنے کے لئے اتنا سفر کر کے آیا ہوں _ میں اس مراسلے کے بھیجنے والے کى طرف سے آیا ہوں تا کہ قیصر کو یہ پیغام دوں کہ بشر پرستى کو ختم ہونا چاہئے او رخدا ئے واحد کے سواکسى کى عبادت نہیں ہونى چاہیے ، اس عقیدے کے باوجود کیسے ممکن ہے کہ میںغیر خدا کے لئے سجدہ کروں''_ پیغمبر (ص) کے قاصد کى قوى منطق سے وہ بہت حیران ہوئے ،درباریوں میں سے ایک نے کہا: ''تمہیں چاہئے کہ خط بادشاہ کى مخصوص میز پر رکھ کر چلے جائو، اس میز پر رکھے ہوئے خط کو قیصر کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا سکتا''_ دحیہ نے اس کا شکریہ اداکیا ،خط میز پر رکھا اورخودواپس چلا گیا،قیصر نے خط کھولا ،خط نے جو''بسم اللہ'' سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ کیا اور کہنے لگا_ ''حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے سوا آج تک میں نے ایسا خط نہیں دیکھا '' اس نے اپنے مترجم کو بلایا تا کہ وہ خط پڑھے او راس کا ترجمہ کرے ،بادشاہ روم کو خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے خط لکھنے والا وہى نبى ہو جس کاوعدہ انجیل او رتوریت میں کیا گیا ہے، وہ اس جستجو میں لگ گیا کہ آپ کى زندگى کى خصوصیات معلوم کرے، اس نے حکم دیا کہ شام کے پورے علاقے میں چھان بین کى جائے،شاید محمد کے رشتہ داروںمیں سے کوئی شخص مل جائے جو ان کے حالات سے واقف ہو ،اتفاق سے ابوسفیان او رقریش کا ایک گروہ تجارت کے لئے شام آیا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم کامشرقى حصہ تھا، قیصر کے آدمیوں نے ان سے رابطہ قائم کیا او رانہیں بیت المقدس لے گئے،قیصر نے ان سے سوال کیا : کیا تم میں سے کوئی محمد کا نزدیکى رشتہ دار ہے ؟ ابو سفیان نے کہا : میں اور محمد ایک ہى خاندان سے ہیں او رہم چوتھى پشت میں ایک درسرے سے مل جاتے ہیں_ پھرقیصر نے اس سے کچھ سوالات کئے دونوں میں یوں گفتگو ہوئی'' قیصر: اس کے بزرگوں میںسے کوئی حکمران ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں _ قیصر: کیا نبوت کے دعوى سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتا تھا؟ ابوسفیان: ہاں محمد راست گو او رسچا انسان ہے_ قیصر: کونسا طبقہ اس کا مخالف ہے اور کونسا موافق؟ ابوسفیان: اشراف اس کے مخالف ہیں، عام او رمتوسط درجے کے لوگ اسے چاہتے ہیں_ قیصر: اس کے پیروکاروں میں سے کوئی اس کے دین سے پھرا بھى ہے؟ ابوسفیان: نہیں_ قیصر: کیا اس کے پیروکار روز بروز بڑھ رہے ہیں ؟ ابوسفیان:ہاں _ اس کے بعد قیصر نے ابوسفیان او راس کے ساتھیوں سے کہا: ''اگر یہ باتیں سچى ہیں تو پھر یقینا وہ پیغمبر موعود ہیں، مجھے معلوم تھا کہ ایسے پیغمبر کا ظہور ہوگا لیکن مجھے یہ پتہ نہ تھا کہ وہ قریش میں سے ہوگا، میں تیار ہوں کہ اس کے لئے خضوع کروں او راحترام کے طور پر اس کے پائوں دھوو ں ،میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اس کا دین او رحکومت سرزمین روم پر غالب آئے گی''_ پھر قیصر نے دحیہ کو بلایا او راس سے احترام سے پیش آیا، پیغمبر اکرم (ص) کے خط کا جواب لکھا او رآپ کے لئے دحیہ کے ذریعے ہدیہ بھیجااورآپ کے نام اپنے خط میں آپ سے اپنى عقیدت او رتعلق کا اظہار کیا_ یہ بات جاذب نظر ہے کہ جس وقت پیغمبرا کرم (ص) کا قاصد آنحضرت(ص) کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پہونچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظہار ایمان کیا یہاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کى دعوت دینا چاہتا تھا، اس نے سوچا کہ پہلے ان کى آزمائشے کى جائے، جب اس کى فوج نے محسوس کیا کہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ہے تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا، قیصر نے ان سے فوراً کہا کہ میں تو تمہیں آزمانا چاہتا تھا اپنى جگہ واپس چلے جائو_ (1)''مقوقس''(بہ ضم میم وبہ فتحہ ہردو ''قاف'')''ہرقل ''بادشاہ روم کى طرف سے مصر کا والى تھا_ منبع:http://www.shiaarticles.com