احتجاج طبرسی ج۳-۴

احتجاج طبرسی ج۳-۴

احتجاج طبرسی ج۳-۴

Interpreter :

اشفاق حسین

Publication year :

2009

Publish location :

لاہور پاکستان

Number of volumes :

2

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

احتجاج طبرسی ج۳-۴

دنیا کے لوگ تین قسموں میں بٹے ہوئے ہیں، پہلی قسم اہل دین اور خدا پرست کی ہے دوسری قسم بے دینوں اور تیسری قسم ان دونوں کے درمیان حیران و پریشان رہنے والوں کی ہے۔ جہاں تک اہل دین کا ذکر ہے تو اب دین پر یقین نہ رکھنے والوں کوبھی اس بات کا باور ہو چکا ہے کہ انسان کو دین پر اعتقاد ہی راحت و سکون پہنچا سکتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ مختلف ادیان میں اسلام بہترین اور پسندیدہ راستہ ہے کیونکہ علم و منطق اور برہان کا راستہ ہے۔

اسلام میں اوائل اور عہد مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی چند نظریے سامنے آئے، اگر چہ اس سے قبل بھی نمائندۂ الٰہی کی مخالفت ہوئی تھی جس کو قرآن نے نقل کیا ہے۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے زمانہ سے کچھ زیادہ ہی اختلافات نے سر اٹھایا خاص طور سے گردہ منافقین جس میں، ابوجہل، حرب، ابو سفیان، اسی طرح خاندان امیہ اور بنی عباس کے عہد اقتدار میں بغض و کینہ، عداوت و بغاوت کو بڑھاوا ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور ان کی اولاد پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے، باقی بچے ہوئے کفار و مشرکین کو اسلام کی مسلسل بڑھتی، پنپتی قدرت کا اندازہ ہوتا گیا اسی وجہ سے وہ منافقین کے ساتھ ہوتے گئے۔ انہی تین گروہوں؛ منافقین، کفار، مشرکین، جو لبادۂ اسلام میں آگئے تھے نے ولایت خدا، رسالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور اطاعت ائمہ ہدیٰ کے مفاہیم اور اعتبار کو ہی بدلنے کی ٹھان لی اور اپنی ناکام کوشش میں مصروف رہے، جس کے نتیجہ میں مخالفت عداوت اور دہشت کا بازار گرم رہا۔ عوام الناس پر حکومت وسلطنت کے لیے منافقت نے کیا کچھ نہیں کیا، خاص طور سے اس مشرکانہ اور ظالمانہ تحر یک کو کامیاب بنانے کیلئے تین ذرائع ابلاغ سے فائدہ اٹھایا: (۱) میڈیا اور غلط تبلیغ  کے ذریعہ عقئد میں شک و شبہات ایجاد کیا گیا، جیسے خدا کے متعلق جبر کا قائل ہوجانا، جس کے نتیجہ میں فرقۂ مجبرہ ظاہر ہوا (۲) مختلف قبائل کا وجود، چونکہ اس وقت لوگ قبائلی زندگی گزار رہے تھے اور قبیلہ کا جداگانہ سردار ہوتا تھا جن کے ذریعہ سے سارے قبیلے اور قریہ کو اپنا حامی بنایا گیا اور انھیں وافر عطیات اور انعامات دیگر ان کا استحصال کیا (۳) بیت المال کا غلط اور بے جا استعمال کیا گیا۔

اہل حق کے لیے تمام راہوں کو مسدود کردیا گیا تاکہ حق اور خدا پرست افراد دین کا دفاع نہ کرسکیں یا ہرطرح سے انکی اپنی رائے کی طاقت کو کمزور بنایا گیا پھر بھی اہل حق، اہل علم و منطق قرآنی اصول کے مطابق ان کا دفاع کرتے رہے لیکن اہل باطل ہمیشہ انھیں جھٹلاتے رہے لہذا خداوند متعال نے احقاق حق اور ابطال باطل کی خاطر ہر زمانہ میں ضرورت کے مطابق اپنے نبیوں کو معجزہ دیا ساتھ ہی انبیاء و آئمہ و اولیاء کو معجزات و کرامات سے نوازنے  کے علاوہ ان کے نمائندوں، ولیوں، دانشوروں کو مناظروں، مباحثوں، تبلیغات و خدمات کے ذریعہ سے اپنا وظیفہ انجام دینے کی توفیق عنایت فرمائی۔

رسول اللہ(ص) کی رحلت کے بعد امام علیؑ اور زھراؑ کو انکے حقِّ مسلّم سے محروم رکھا گیا، امام علیؑ اور بنت رسول سلام اللہ علیہا اور دسیوں صحابۂ کرام کے اثبات حق اور مطالبۂ حق پر ظلم کیا گیا اور اسی طرح کے دیگر اہل حق و انصاف اور پیغمبروں کی حقانت پر کیے گئے استدلال، اثبات، احتجاج اور براہین پر مشتمل مطالب کو علامہ طبریؒ نے اپنی اس گراں قدر کتاب میں قلمبند فرمادیا ہے۔

منجملہ نامور عالم علامہ شیخ طبرسی نے گراں بہا خدمت انجام دی کہ گزشتہ مناظروں کی جمع آوری کے بعد اس کو کتابی شکل دی اور اس کا نام احتجاج رکھ دیا۔ اس کتاب میں علامہ طبرسی نے کفار ومشرکین اور منافقین کے اعتراضات کا مدلل متقن اور مستند جواب نقل فرمایا ہے۔

احتجاج نامی اس کتاب میں انھیں دلائل و براہین کو مرقوم کیا گیا ہے جو ہر زمانے میں مخالفون کا مدلل، متقن اور مسکت جواب بن گیا تھا۔

افادیت کے پیش نظر اردو قارئین کے لیے حجة الاسلام مولانا اشفاق حسین صاحب نے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔

الإحْتِجاجُ عَلی أہْلِ اللّجاج نامی کتاب چھٹی صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم ابو نصر احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی کی عربی زبان کی کلام کے موضوع پر لکھی گئی تالیف ہے۔ یہ کتاب اختصار کے ساتھ الاحتجاج یا احتجاج طبرسی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ و آئمہ طاہرین کے مناظرے اور استدلالات کی جمع آوری کی گئی ہے۔ اسی طرح ان کے بعض پیروکاروں کے مخالفین مذہب سے مناظرے مذکور ہیں۔ بعض شیعہ علما اس کتاب کو غلطی سے فضل بن حسن طبرسی صاحب تفسیر مجمع البیان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس کتاب کے متعدد ترجمے اور شرحیں موجود ہیں۔

اس کتاب کی تالیف کا سبب یہ بنا کہ امامیہ کے ایک طائفہ نے مخالفین کے سامنے استدلال و بحث کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کام ہمارے لئے روا نہیں ہے کیونکہ رسول اور آئمہ نے کبھی کسی سے جدال نہیں کیا نیز وہ شیعوں کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اس بنا پر میں نے ارادہ کیا کہ اصول اور فروع دین میں بزرگان دین کے مختلف موضوعات پر مخالفین سے کئے گئے مناظروں کی جمع آوری کروں۔ طبرسی مزید کہا: حق کے اظہار اور باطل کے رد کیلئے قوی اور توانا اشخاص کی نسبت مجادلے سے منع کا حکم نہیں آیا ہے بلکہ عقائد میں ضعیف افراد کی نسبت مجادلے سے منع کیا گیا ہے ۔

کتاب کا مقدمہ ان ابحاث پر مشتمل ہے: جدل و مناظره سے ممنوعیت اور اسکی توبیخ کی روایات، سبب تالیف کتاب۔

پیغمبر اکرم (ص) اور دیگر ائمہ معصومین کے اصول اور فروع دین کے بارے میں ماثور (مروی) استدلالات اور احتجاجات.

غدیر خم کے واقعے کا ذکر، فدک کا ماجرا اور حضرت علی (ع)، فاطمہ زہرا(س)، دیگر صحابہ اور اہل بیت کے استدلالات.

حضرت علی کے اہل شام، معاویہ، خوارج اور اپنی بیعت کے توڑنے والوں کے متعلق احتجاجات۔

کتاب کے آخری حصے میں حضرت صاحب الزمان (عج) کی غیبت صغری کے زمانے میں نواب اربعہ سے مکاتبات اور احتجاجات نیز زمان غیبت کبری کی توقیعات مذکور ہیں۔

اس جلد کے اجمالی مندرجات:

امام حسن علیہ السلام کا احتجاج، امام حسن علی کے فخرومباہات کا واقعہ،امام حسین علیہ السلام کا احتجاج، کربلا میں اہل کوفہ سے امام حسین علیہ السلام کا احتجاج، اہل کوفہ کے سامنے حضرت زینب بن علی ابن ابی طالب (ع) کا خطبہ، اہل کوفہ سے امام زین العابدین علیہ السلام کا احتجاج، امام زین العابدینعلیہ السلام کا احتجاج، احتجاج امام جعفر صادق علیہ السلام، حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا احتجاج، دوسرے اہل مذاہب سے امام رضا علیہ السلام  کا احتجاج، امام رضا علیہ السلام کا احتجاج......