احیاء علوم الدین، ج ۴

احیاء علوم الدین، ج ۴

احیاء علوم الدین، ج ۴

Publication year :

2003

Publish location :

لاہور پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

احیاء علوم الدین، ج ۴

امام غزالی کی تصوف پر انتہائی معرکۃ الآراء کتاب ’احیاء علوم الدین ایک ایسا محیر العقول علمی کارنامہ ہے جو کئی صدیاں بیت جانے پر بھی اپنی ندرت و فوقیت کی وجہ سے آج تک زندۂ جاوید،اور ہر طبقۂ عام و خاص میں یکساں مقبولیت کا حامل ہے۔یہ کتاب علم و ہدایت کی راہ کے متلاشی کے لئے تاریکی میں ڈوبی بے نشان منزل کا پتہ دینے والا ایک روشن چراغ ہے جو بالخصوص سالک ِ راہ ِ تصوف اور بالعموم حق کے متلاشی ہر مسلمان کی ایک اہم ضرورت ہے۔امام ِ غزالیؒ کی یہ تصنیف دین اور علم کے احیا ء کی ایسی کوشش ثابت ہوئی جس نے موافق و مخالف سب سے یکساں طور پر اپنا لوہا منوایا،اور علما ہوں یا عوام،سب کے قلوب اس کی جانب کھنچے جانے لگے اور تمام دلوں پر اس کی دھاک بیٹھ گئی۔احیاء علوم الدین مشہور بہ احیاء العلوم امام غزالی کی شہرہ آفاق کتاب ہے اس کی تعریف میں علما اسلام نے کہا ہے کہ اگر دنیا سے تمام علوم مٹ جائیں تو صرف یہ کتاب ہی کافی ہے۔ دراصل سب سے پہلے امام غزالی نے کیمیائے سعادت لکھی تھی پھر بعد میں اسی کو پھیلا کر احیاء العلوم کا نام دیا گیا۔امام محمد غزالی کی شہرہ آفاق تصنیف احیاء العلوم ظاہری وباطنی علوم پرمشتمل اوراصلاحِ نفس کرنے والی ایک مایہ ناز کتاب ہے جس کی تعریف میں بڑے بڑے ائمہ رطبُ اللسان ہیں، زیر نظر کتاب، احیاء العلوم دین کا اردو ترجمہ ہے جو محمد صدیق ہزاروی نے کیا ہے یہ ترجمہ احیاء العلوم کی چوتھی جلد ہے۔

امام غزالیؒ کی مشہور ِ زمانہ تصنیف احیاء العلوم ایک ایسا محیر العقول علمی کارنامہ ہے جو کئی صدیاں بیت جانے پر بھی اپنی ندرت و فوقیت کی وجہ سے آج تک زندۂ جاوید ،اور ہر طبقۂ عام و خاص میں یکساں مقبولیت کا حامل ہے ، علم و ہدایت کی راہ کے متلاشی کے لئے تاریکی میں ڈوبی بے نشان منزل کا پتہ دینے والا ایک روشن چراغ ہے جو بالخصوص سالک ِ راہ ِ تصوف اور بالعموم حق کے متلاشی ہر مسلمان کی ایک اہم ضرورت ہے ،انسانی دنیا پر بے شمار عجائب ِ روز گار یکے بعد دیگرے معرض ِ وجود میں آتے رہے ،روئے زمین پر ابھرنے اور پنپنے والی بے شمار نشانیاں ایسی ہیں جو خالق ِ حقیقی کا پتہ بتاتی ہیں ، پہاڑ ، آبشار، دریا ِ ،صحرا ، ریت ، چٹانیں ، چشمے ، چرند و پرند اور ایسے بے شمار عجائب ِ روزگار ہیں جن کا ہر ذی شعور انسان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتا ہے ، ان تمام مخلوقات میں سب سے عجیب مخلوق انسان اور اس کے کارہائے نمایاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت ِ کاملہ اور اس کے حیران کن تخلیقی کرشمات کی روشن دلیل ہیں ، امام ِ غزالی ؒ کی تصنیف احیاء العلوم بھی ایک ایسا ہی عجوبۂ روزگار کرشمہ ہے جس نے عقلوں کو حیران کردیا ، نگاہوں کو چکا چوند کردیا ، یوں تو دنیا میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جاتی رہیں گی مگر احیاء العلوم اپنی ندرت ،تاثیر اور علوم دینیہ کےاز سر نو احیاء میں اپنی مثال نہیں رکھتی ،امام ِ غزالی ؒ نے جس دور میں آنکھیں کھولیں اس وقت علم کے نام پر جہل کا بول بالا تھا ، علم ِ آخرت کی جگہ ان علوم نے لے رکھی تھی جو بادی النظر میں تو دینی علوم کہلاتے تھے ، لیکن ان کے حصول کا مقصد اصلی خلق ِ خدا کو اپنی جانب مائل کر کے دنیاوی وجاہت و شہرت کا حصول بن گیا تھا ، فقہ کے نام ایسی ایسی موشگافیاں پھیلائی جا رہی تھیں جن کا عملی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو ، فقہی جزئیات پر بے جا اور لغو بحثیں ہوتیں ۔گھنٹوں ان فقہی جزئیات پر بادشاہوں کے دربار میں مناظرے کی مجلس گرم رہتی تاکہ شاہان ِ مملکت کی عنان ِ توجہ اپنی طرف موڑ کر دین کے نام پر دنیا کی حقیر متاع حاصل کی جائے ، امام غزالیؒ نے اپنے عہد سے ہم آہنگ تمام مسائل کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا ، اور علم کے باب میں پھیلائی گئی تمام غلط فہمیوں کا پردہ چاک کردیا ، اور ان تمام غلط فہمیوں کی ایسی زبردست تردید فرمائی کہ افق ِ علم پرچھایا ہوا جہالت کا غبار چھٹنے لگا ، علمائے حق اور علمائے آخرت کے درمیان نمایاں فرق نظر آنے لگا ،انہی عوامل کی بنا پر احیاءالعلوم نے ایسی تاریخی مقبولیت حاصل کی ہے جو صرف اسی کا حصہ ہے ،چنانچہ یہ کتاب جس طرح ماضی میں ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنی رہی ،دور ِ حاضر میں بھی مرور ِ ایام کے علی الرغم اس کی مقبولیت میں چنداں فرق واقع نہیں ہوا ،امام ِ غزالیؒ کی یہ تصنیف دین اور علم کے احیا ء کی ایسی کوشش ثابت ہوئی جس نے موافق و مخالف سب سے یکساں طور پر اپنا لوہا منوایا ،اور علما ہوں یا عوام ، سب کے قلوب اس کی جانب کھنچے جانے لگے اور تمام دلوں پر اس کی دھاک بیٹھ گئی ۔مخالفین کو مخالفت مہنگی پڑ گئی ، اور بالآخر اس کی فضیلت و فوفیت کا سر ِ عام اعتراف کرنا پڑا۔