نمونہ طِبِّ روحی امام جعفر صادق

ہم نہایت اختصار سے یہاں چند نمونہ امام عالیمقام کے طبِ روحانی پیش کررہے ہیں۔ تاکہ قارئین و ناظرین امام کے سخنہائے روح پرور اور شفا بخش سے بھی مستفید ہو سکیں۔ تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں ہے۔ غضب:۔ غضب ایک وہ حالت ہے جو متوقع اور غیرمتوقع حالات کے پیش آنے پر بر انگیختہ ہوتی ہے۔ اور جب و ہ طبیعت پر مسلط ہوجاتی ہے تو انسان کی عقل زائل کر دیتی ہے۔ انسان راہِ صواب سے منحرف ہو کر ہر بے ضابطگی کا مُرتکب ہو جاتا ہے۔ غصہ کے وقت خون جوش مارتا ہے اور تیزی سے قلب کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہاں سے رگوں میں منتقل ہو کر جسم پر ظاہر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔چہرہ سُرخ اور گردن کی رگیں اُبھر جاتی ہیں ۔ سینے میں پانی کیطرح جوش زَن ہوتا ہے۔ چہرہ کو بگاڑ دیتاہے۔ اِنسان اپنے ہونٹ دانتوں کے نِیچے دبا لیتا ہے۔ اور جسم کے تمام اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ غضب، ۔ عقل کا سب سے بڑا اور سخت دشمن ہے۔ غضب،۔کے اہم ترین اسباب دو ہیں (۱)وراثت (۲) بیماریاں خاندانی تربیت کے طریقے اور اساتذہ کی تعلیم کو بھی غضب کی آگ کو بھڑکانے میں بڑا دخل ہے۔ تکبر۔خودبینی۔مسرتِ بیجا۔کثرتِ مزاح۔مکروحرصِ زَر و مال و جاہ بھی وہ اَخلاقِ کثیفہ ہیں، جو غضب کو اَپنے ساتھ لاتے ہیں۔ اور خود غضب ، متعدد بیماریوں کی تولید کا سبب ہے۔ غضبناک آدمی میں پاگل کُتے کے خواص پیدا ہو جاتے ہیں اگر وہ حالتِ غضب میں کسی کو کاٹ لے تو اَثرات سَگِ گذیدہ کے جیسے ہوتے ہیں۔ غضب وہ روحانی خطرناک بیماری ہے جو اوّل صاحبِ غضب کو اور پھر دوسروں کو سخت نقصان پہونچاتی ہے۔ صاحبِ غضب نادانستہ جُرمہائے بزرگ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دُنیا کے اَطباء اِس غضب کے مہلک مرض کے علاج سے عاجز رہے ہیں۔ لیکن خدا کا مقرر کردہ طبیب پیغمبرِ اسلام نے اسکا علاج یوں ارشاد فرمایا ہے۔ ” اگر کوئی شخص اپنے اندر آثارِ غضب دیکھے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ اگر پھر بھی اَثر رہے تو ٹھنڈے پانی سے وضو اور غُسل کر لے، کیونکہ پانی آگ کو بُجھا دیتا ہے“۔ ارشادِ امام ہے کہ ہر شَر اور بَلا کی کُنجی (چابی) غضب ہے اور اگر کوئی بُردبار نہیں، پھر بھی بُردباری اور تحمل کی کوشش کی جائے ۔غضب مردِ دانا کے دل کو ہلاک کر دیتا ہے۔ بُردباری اِسکا بہترین علاج ہے۔ دروغ(جھوٹ):۔ سب سے بڑی رکاوٹ فرائضِ انسانی کی ادائیگی میں دروغ ہے۔ یہ اِنفرادی اور اِجتماعی ہر دو لحاظ سے خطرناک ہے۔ دروغ، دروغگو کے اندر ہر اخلاق رذیلہ پیدا کردیتا ہے۔ (۱) معاملات میں آمیزش (۲) مکاری اور دھوکہ بازی (۳) خیانت اور ریاکاری (۴) وعدہ خلافی (۵) عہد شکنی، یہ سب دروغ کے آوُردہ ہیں۔ دروغ بذاتِ خود ایک قبیح صفت ہے۔ دروغ گو معاشرہ میں ایک عضوِ فاسد ہے جو خود کو بھی ہلاک کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی بیماری دروغ سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے۔ جو زیادہ جھوٹ بولتا ہے اُس کی لوگوں کی نظر میں کوئی قیمت نہیں رہتی، عزت و آبرو برباد ہو جاتی ہے۔ اِس کے بِالمقابل جس کی زبان راست گو ہوتی ہے اُسکا عمل بھی پاکیزہ ہوتا ہے۔ خداوندعالم نے بارہ بلاوٴں پر تالا (قفل) لگا دیا ہے۔ جسکی کُنجی(چابی ) شراب ہے لیکن دروغگوئی، شراب خوری سے بھی بدتر ہے۔ دروغگو کی صحبت سے بچو یہ تمہیں جب فائدہ پہونچانا چاہے گا تو صرف نقصان ہی پہونچائے گا، فائدہ کا محض نام ہو گا۔ دروغگو غیروں کو تمہارے نزدیک اور نزدیکیوں کو غیر بنا دیتا ہے۔ رشک و حَسد:۔ رَشک ، دوسروں کی دولت دیکھ کر رنجیدہ اور اُنکی دولت کے زوال کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ حاسد ، ہمیشہ دوسروں کی دولت بہ حسرت دیکھتا اور دیکھ کر خود بہ خود جلتا ہے۔ حَسد ، ایک وہ روحانی بیماری ہے جو بخل سے زیادہ شدید ہے۔ اِسلئے کہ بخیل اپنی دَولت دوسروں کو دینے میں بخل کرتا ہے۔ لیکن حاسد، دوسرے جب کسی اور دوسرے کو دیتے ہیں تو بھی ملول ہوتا ہے۔ اِرشادِ رسول:۔ خدا کی نعمتوں کے بھی بہت سے دشمن ہیں ۔ لوگوں نے عرض کیا وہ کون ہیں۔ فرمایا، جو حسد کرتے ہیں ان لوگوں پر جنکو خدا نے نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ یہ بیماری خباثت ِ روح کی وجہ سے عارض ہوتی ہے، جب آدمی اِس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسکے اِخلاقِ فاسد ہر جُرم و گناہ کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے۔ ارشاد اِمام ہے کہ حاسد ایک طرفة العین کے لئے بھی راحت نہیں دیکھتا۔ حاسد، عذابِ دائمی۔ ہمیشہ کی پریشانی ۔ حسرت و نااُمیدی لَغزش و گنہگاری میں مبتلا اور ہمیشہ ناخوش رہتا ہے۔ اگرچہ بہ ظاہر صحت مند نظر آتا ہے۔ حسد ایمان کو اسطرح کھا جاتا ہے جسطرح آگ اِیندھن کو۔ تَکبُّر یا بُزرگ نمآئی:۔ غرور ایک وہ بیماری ہے جسکی وجہ سے آدمی اپنے کو بزرگ اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ تکبر ایک وہ جاں فرسا بیماری ہے جس سے روح کمزور تر ہو جاتی ہے۔ اِس بیماری کا مریض اَپنی ناسمجھی کیوجہ سے خود کو قابل و فاضل، اور دوسروں کو جاہل سمجھنے لگتاہے۔ اَپنے عیوب اور دوسروں کے کمالات پر نظر نہیں کرتا۔ اِس خطرناک بیماری کے اَثرات یہ ہیں کہ آدمی کو رذائلِ اخلاقی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ کینہ و دشمنی، بَد خواہی و سرکشی۔ پندونصیحت سے اِنحراف، غرضکہ ہر اخلاقِ حمیدہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اِمام فرماتے ہیں، تکبر وہ کرتا ہے جو اَپنے اندر ذِلت دیکھتا ہے۔ مُتکبر ہر وقت مدح و ثناء کا محتاج رہتا ہے۔ کوئی بے وقوفی اور جہالت تکبر سے زیادہ نقصان دہ نہیں ہے۔ عاجزی اور اِنکساری اِس کا علاج ہے۔ تین چیزیں دُشمنی پیدا کرتی ہیں۔ خود پسندی ۔ دُورُوئی اور سِتم۔ حِرص:۔ کسی چیز کے حاصل کرنے اور طلب میں اِنتہائی کوشش کرنا حرص ہے۔ جب عقلِ انسانی پر قوتِ حیوانی غالب آجاتی ہے تو یہ بیماری پیدا ہوتی ہے۔ حریص! گرفتارِ حرص کبھی فقیری سے رہائی اور نجات نہیں پاتا۔ جتنی حِرص زیادہ ہوتی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ فقیر ہوتا جاتا ہے۔ اِسلئے کہ فقیری احتیاج کا نام ہے۔ اور حریص سے زیادہ کوئی صاحبِ اِحتیاج نہیں۔ حریص! خدا کی عطا کردہ روزی پر قناعت نہیں کرتا اور اُسکی تمام تر کوشش زیادہ مال و دولت میں صَرف ہوتی ہے لہذا یہ صحیح ہے کہ حریص ہمیشہ فقیر ہے۔ اِرشاد امام ہے کہ سب سے بڑا دولتمند اور غنی وہ ہے جس میں حرص نہ ہو۔۔۔۔ ۔ وہ شخص بے نیاز ہے جو خدا نے دیا ہے ۔ اُس پرقناعت کرتا ہے۔ حِرص، رنج و غم۔ مصائب و آلام کی کُنجی (چابی) ہے۔ حرص، ۔ اِنسان کو گناہ کی مشکلات میں پھنسا دیتی ہے۔ حریص! چار چیزوں سے ہمیشہ محروم رہتا ہے قناعت۔ رضابَر تقدیر۔ یقین۔ سکون۔ وعدہ خلافی:۔ وعدہ خلافی روح کو ضعیف، انسان کو ذلیل کر دیتی ہے۔ جِس مین یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے ، وہ سب کی نظر میں ساقِطُ الاعتبار ہو جاتا ہے۔ جو مُمالک اِس بُری خصلت سے مشہور و معروف ہو جاتے ہیں اُنکی تمام تر ترقی کی راہیں مسدود اور دیگر ممالک سے تعلقات و روابط منقطع ہو جاتے ہیں۔ باہمی تجارت درآمد بَرآمد کو سخت نقصان پہونچاتا ہے اور اِعتبار باہمی جو ایک قیمتی صفت ہر رائل ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری اکثر ذلیل النفس اور کمینوں کو ہو جاتی ہے جسکی دَوا سوائے اَطباء روحانی کی پندونصائح کے کسی طبیب کے پاس نہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ وعدہ وفا ہوتا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سے ایک بھی اگر کسی آدمی میں پائی جائے، سمجھ لو کہ وہ منافق ہے اگرچہ روزہ، نماز کا کیوں نہ پابند ہو۔ ۱۔ دروغگوئی ۲۔ وعدہ خلافی ۳۔ بددیانتی جنگ و جدال:۔بحث و مباحثہ۔ حجت و تکرار، مہلک ترین صفات میں سے ہیں۔ جب خواہش نفسانی غالب آجاتی ہے تو وہ دوسروں کے اَفعال و اقوال پر اعتراضات کیا کرتا ہے اور ہر ایک بات کو حقیر اور کمتر خیال کرتا ہے۔ یہ ایک وہ بڑی خطرناک بیماری ہے جسکا ادنٰی ترین ضرر یہ کہ دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے۔ ارشاد امام کہ مومن وہ ہے جو دشمنوں سے بھی تواضع و مدارات سے پیش آئے ۔ کسی سے مخالفت پیدا نہ کرے۔ ٴ تین چیزیں داخلِ جہالت ہیں۔ ۱۔ جدال ۲۔ تکبر ۳۔جہل سات آدمی وہ ہیں جو اپنے اعمال کو تباہ کرلیتے ہیں۔ اور ساتواں شخص وہ ہے جو اپنے برادرِ دینی سے جنگ کرکے اسکو اپنا دُشمن بنا لیتا ہے۔ جنگ و مُباحثہ اگر صرف خود نمائی کیلئے ہو تو بدترین صفت ہے مگر اَثباتِ حق کے واسطے صفتِ محمود ہے۔ اگر اَثباتِ حق کیلئے مخالفت سے بہ طریق اَحسن بحث و مباحثہ کیا جائے کہ باہم دُشمنی پیدا نہ ہو تو خود خدائے عظیم اَپنے رسول کریم سے قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ جَا دِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔(سورہ النحل آیت نمبر ۱۲۵) ترجمہ دشمن سے بہ طریق اَحسن مُجادلہ کرو۔ اَصل کتاب (طِب الصادق) میں موٴلف کتاب نے اپنی جانب سے بعض گیاہ، برگ و بار کے خواص اور طریق ِ علاج کا اِضافہ کیا ہے۔ ہم بہ نظرِ اِختصار اِس تفصیل سے صرف ِ نظر کر کے صرف طِبِ جسمانی اور طبِ روحانی ۔ فرمودہ امام عالیمقام علیہ السلام پر اِکتفا کر کے اس مقدس کتاب کو ختم کر رہے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہِ الْعَظِیْمِ دُعا گو منبع:shiaarticles.com/