أللُّهوف عَلى قَتْلَى الطُّفوف یا ألمَلْهوف عَلی قَتْلَی الطُّفوف (مقتل لہوف)

أللُّهوف عَلى قَتْلَى الطُّفوف یا ألمَلْهوف عَلی قَتْلَی الطُّفوف (مقتل لہوف)

أللُّهوف عَلى قَتْلَى الطُّفوف یا ألمَلْهوف عَلی قَتْلَی الطُّفوف (مقتل لہوف)

Publish number :

3

Publication year :

2008

Publish location :

راولپنڈی پاکستان

Number of volumes :

1

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

أللُّهوف عَلى قَتْلَى الطُّفوف یا ألمَلْهوف عَلی قَتْلَی الطُّفوف (مقتل لہوف)

لُهوف کے نام سے مشہور اس کتاب کا موضوع واقعہ کربلا کے مصائب اور امام حسینؑ کی شہادت ہے۔ اس کتاب کے مؤلف سید بن طاؤس حلی (متوفی 664 ھ) ہیں۔ یہ اہل تشیع کے نزدیک مقتل کی مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب مسافروں اور سید الشہداؑ کے زائرین کے لئے لکھی گئی تھی اسی لیے اختصار کے پیش نظر اس کی روایات کے سلسلہ اسناد کو حذف کرکے صرف آخری راوی یا روایت کے ماخذ کو ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کی غیر معمولی اہمیت اور مؤلف کے مقام و منزلت کی وجہ سے اس کتاب کا مختلف زبانوں میں بارہا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

سید رضی الدین، علی بن موسی بن جعفر بن طاؤس، والد کی طرف سے امام حسن مجتبیؑ اور والدہ کی طرف سے امام سجادؑ کی ذریت سے ہیں۔ آپ 15 محرم 589 ہجری میں عراق کے شہر حِلّہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور جدّ ورام بن ابی فراس سے حاصل کی۔

سید ابن طاؤس حلہ کے اساتذہ سے ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیگر شہروں کے علماء سے کسب فیض کرنے کی غرض سے سفر پر نکل پڑے۔

اپنے زمانے کے علماء، اکابرین اور بزرگوں سے باقاعدگی کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے آپ علم و ادب اور معنویت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے۔ ایک مسلمہ استاد کے طور پر آپ نے بڑی تعداد میں شاگردوں کی تربیت کی۔ سید ابن طاؤس نے اپنے بعد 50 تالیفات بطور یادگار چھوڑی ہیں کہ جن میں سے زيادہ تر کا تعلق دعا اور زيارت سے ہے۔

سید ابن طاؤس نے 75 سال کی عمر میں سنہ 664 ہجری کو بغداد میں وفات پائی۔ آپ کا جسد خاکی نجف اشرف لے جایا گیا اور حرم امیرالمؤمنینؑ میں دفن ہوئے۔

اس کتاب کے کئی نام منقول ہیں۔ نام کے اختلاف کا تعلق نسخوں کے اختلاف اور خود مؤلف سے ہے کیونکہ انہوں نے اس کتاب کو مختلف ناموں سے موسوم کیا تھا یا ایک ہی نام میں مختلف تبدیلیاں کی ہیں۔ کتاب کے قلمی نسخوں کے حوالے سے اس کے نام حسب ذیل ہیں:

اللھوف علی قتلی الطفوف،الملھوف علی قتلی الطفوف،الملھوف علی قتل الطفوف،اللھوف فی قتلی الطفوف،الملھوف علی أھل الطفوف،. المسالک فی مقتل الحسین علیہ السّلام: اس نام کی وجہ، مؤلف کا کتاب کے مقدمے میں یہ جملہ ہے کہ "میں نے اس کو تین مسالک کی بنیاد پر وضع کیا ہے"۔

آقا بزرگ طہرانی نے الذریعہ میں اللھوف علی قتلی الطفوف کو دوسرے ناموں سے مشہور تر گردانا ہے۔

تألیف کا اسلوب

مؤلف نے اختصار کے ساتھ واقعۂ عاشورا بیان کرنے کی غرض سے احادیث کو اس طرح مرتّب کیا ہے کہ ایک منظم روداد کی تصویر کشی ہو۔ انہوں نے تکراری اور متفرق روایات سے اجتناب کیا ہے تاکہ قاری ایک تاریخی روداد اور واقعے سے آگاہ ہو نہ کہ منقول روایات سے۔

کتاب کے مندرجات

لھوف ذیل کے عناوین پر مشتمل ہے:

مقدمے یا دیباچے میں واقعۂ عاشورا کی عظمت، امام حسینؑ کی منزلت، آپؑ پر گریہ و عزاداری کے آثار و برکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

مسلک اول: کتاب کے اس حصے میں واقعۂ عاشورا سے پہلے کے واقعات ’’ولادت امامؑ سے وقائع عاشورا تک‘‘ بیان کئے گئے ہیں۔

مسلک دوئم: یہ حصہ روز عاشورا کے وقائع ـ صبح سے امامؑ کی شہادت تک ـ پر مشتمل ہے۔

مسلک سوئم: اس حصے میں شہادت امامؑ کے بعد کے واقعات موضوع بنائے گئے ہیں جن کا آغاز شہداء کے سروں اور اسیران اہل بیتؑ کی کوفہ روانگی سے، اور اختتام ان کی مدینہ واپسی پر ہوتا ہے۔

کتاب کی خصوصیات

اس کے باوجود کے کتاب لھوف کو اسناد کے حذف کئے جانے اور داستانی شکل دیئے جانے کی وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے لیکن اس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا گیا ہے جبکہ اس موضوع پر لکھی گئی بعض کتابوں میں مبالغہ آرائیاں کی گئی ہیں۔

اس کتاب میں بہت اہم اور منفرد مسائل بیان کئے گئے ہیں جو سابقہ مقاتل میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔ منجملہ:

بنو ہاشم کے نام امام حسینؑ کے خط میں، امامؑ کا یہ جملہ کہنا کہ ان اللہ شاء ان یرانی قتیلاً (خدا نے مجھے مقتول دیکھنا چاہا ہے)، اور بہت سی دیگر روایات اور علاوہ ازیں شیعہ اعتقادات جیسے "امام کا علم غیب"، اس بات کا سبب بنے ہیں کہ سید نے ان روایات کو تاریخی قرار دیا اور انہیں اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔

اللھوف کے بارے میں مشاہیر کے اقوال

شیخ جعفر شوشتری:

جان لو کہ مرثیوں کے نقل کے حوالے سے اس سے زیادہ معتبر کوئی کتاب نہیں ہے؛ جلالت قدر کے لحاظ سے اس کے مؤلف سید ابن طاؤس جیسی شخصیات کم ہیں۔

شہيد محراب آیت اللہ محمد علی قاضی طباطبائی:

سید ابن طاؤس کی منقولہ روایات بہت زيادہ قابل اعتماد ہیں؛ کتب مقاتل میں کوئی بھی کتاب اعتبار و اطمینان کے لحاظ سے ان کی کتاب [اللہوف] کے پائے تک نہیں پہنچتی۔

رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای:

یہ بہت معتبر مقتل ہے، اس کے مؤلف فقیہ، عارف، بزرگ، بہت سچے، موثق اور سب کے نزدیک قابل احترام ہیں ... خود ادیب اور شاعر ہیں؛ اللھوف سے پہلے بھی مقاتل تھے؛ ان کے استاد شیخ نجم الدین جعفر بن نما، المعروف بہ ابن نما کا بھی مقتل ہے، شیخ طوسی نے بھی مقتل لکھا ہے دوسروں نے بھی مقتل لکھے ہیں لیکن اللھوف کے آنے کے بعد دوسرے مقاتل متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے؛ یہ بہت اچھا مقتل ہے۔ اس کی عبارات بہت اچھی، دقیق اور مختصر ہیں۔

استاد علی دوانی:

لھوف، یا ملھوف فی قتلی الطفوف ایک مختصر سی کتاب ہے جس کے مؤلف سید رضي الدین علی بن طاؤس حلی ہیں۔ گویا انہوں نے یہ کتاب ایام شباب میں لکھی ہے؛ اس کے باوجود یہ بہت اہم مآخذ اور معتبر مقاتل میں سے ایک ہے۔