واقعۂ کربلا:مقتل الحسین علیہ السلام

واقعۂ کربلا:مقتل الحسین علیہ السلام

واقعۂ کربلا:مقتل الحسین علیہ السلام

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

واقعۂ کربلا:مقتل الحسین علیہ السلام

کربلا کی تاریخ وہ انقلاب آفرین تاریخ ہے جو اپنے بعدکے تمام حرّیت پسند انقلابوں کے لئے میر کارواں کا مقام رکھتی ہے۔وہ انقلاب قومی وملی ہوں یا ذ ہنی و فکری، ہر انقلاب کے سنگ میل اور رہنما کا نام کربلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل پرست طاقتوں نے ہمیشہ اس کے انمٹ نقوش مٹانے کی بھر پور کوشش کی؛ کبھی خود کربلا اور اس کے آثار کو مٹانے کی کوشش کی تو کبھی اس حماسہ آفرین واقعہ پر لکھی جانے والی تاریخوں میں  تحریف ایجاد کر کے اس زندگی ساز حسینی انقلاب کے رنگ کو ہلکا کرنا چاہا.

بنی امیہ اور بنی عباس نے اپنی پوری طاقت صرف کردی؛ کبھی حسینی زائروں کو تہہ تیغ کیاتوکبھی کربلا کو ویران کیا لیکن اللہ رے آتش عشق حسین جو مزید شعلہ وری ہوتی گئی اور باطل کی آرزوئوں کے خرمن کو خاکستر کرتی گئی۔حکومتوں کے زر خریدغلاموں اور ان کی چشم و ابرو کی حرکت پر کام کرنے والے کارندوں نے بھی ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حق کو کبھی کوئی مٹا نہیں  سکتا۔

کربلا کی تاریخ پر سب سے پہلے قلم اٹھا نے والے مورخ کا نام ابو مخنف لوط بن یحییٰ ازدی غامدی کوفی ہے ؛ جنہوں نے بلا واسطہ یابالواسطہ (ایک یا دو واسطے سے)  واقعہ کربلا کوزیور تحریر سے آراستہ کیااور اس کا کا نام مقتل الحسین رکھا ، لیکن یہ کتاب حکومت کی نگاہوں میں  کھٹکنے لگی کیوں کہ اس کتاب سے حکومت کی کارستانیاں اور اس کی ظلم وستم کی پالیسیاں کھل کر سامنے آرہی تھیں لہٰذا اس کتاب کا اپنی اصلی حالت پر باقی رہنا ایک مسئلہ ہو گیا تھا۔آخر کار ہوا بھی یہی کہ آج اصل کتاب ہماری دوسری میراثوں کی طرح ہمارے ہاتھوں میں  نہیں  ہے بلکہ ایک تحریف شدہ کتاب لوگوں کے درمیان موجود ہے جس کے بارے میں  وثوق کے ساتھ نہیں  کہا جا سکتا کہ یہ وہی کتاب ہے جس کی تد وین ابو مخنف نے کی تھی۔

اس کتاب کی قدیم ترین سند وہی ہے جسے طبری نے مختلف تاریخی مناسبتوں کے اعتبار سے اپنی تاریخ میں  لکھا ہے ۔

خدا وند عالم، محقق محترم جناب حجة الاسلام والمسلمین محمد ہادی یوسفی غروی زید عزہ پر رحمتوں کی بارش کرے، جنہوں نے طبری کی روایت کے مطابق ابو مخنف کی تاریخ کربلا کو یکجا کیا اور اس پر تحقیق فرماکر اس کتاب کو ایک تحقیقی درجہ عطا کردیا ۔محترم محقق نے اس کتاب کا نام '' وقعة الطف '' رکھا، جس کا تر جمہ '' واقعۂ کربلا '' آپ کے سامنے موجود ہے ۔

واضح رہے کہ طبری شیعہ مورخ نہیں  ہے لہٰذا قاتلان اور دشمنان امام حسین علیہ السلام کے لئے جو الفاظ استعمال کرنے چاہیئے وہ کہیں  نہیں  ملتے۔ اس کے علاوہ مجالس کے صدقہ میں  جو باتیں محبّان اہل بیت کے ذہن میں  موجود ہیں  اس کتاب میں  بہت سارے موارد ایسے ہیں  جو ان افکار کے مخالف ہیں  ۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں  ہے کہ وہ باتیں غلط ہیں  اورجو کچھ اس کتاب میں  ذکر ہواوہی صحیح ہے، بلکہ مصائب کا تذکرہ کرنے والے افراد مثاب ہونے کے لئے مختلف مقاتل کی طرف رجوع کرتے ہیں  اور اس کا نتیجہ عزاداروں کے سامنے پیش کرتے ہیں  ، لہٰذا قارئین سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھیں ، تاکہ واقعۂ کربلا کے تجزیہ میں  انھیں آسانی ہو اور آنسو کے مقولہ سے ہٹ کرکہ جو واقعۂ کربلا کا ایک اساسی اور بنیادی رکن ہے، امام حسین علیہ السلام کی امن دوستی اور باطل ستیزی کا بغور مطالعہ کرکے مدعیان امن وامان کے سامنے پیش کرسکیں ،تاکہ امن و امان کے نعرہ میں  دھشت گردی پھیلا نے والوں کا چہرہ کھل کر سامنے آجائے اور کربلا کی آفا قیت کا آفتاب، امن وامان کی روشنی کے ذریعے دنیا کو خوف و ہراس اور دھشت گردی کی تاریکی سے نجات دے۔

____________________

دشت کربلا میں  وہ غمناک اور جاں سوزواقعہ رونما ہواجسے تاریخ میں  ہمیشہ کے لئے ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔اس سر زمین پرسبط رسول اکرم  صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سید ا لشہداء حضرت ابو عبداللہ امام حسین علیہ الصلوٰة والسلام کے اوپر وہ وہ مظالم ڈھائے گئے جس سے تاریخ کا سینہ آج بھی لہو لہان ہے۔

یہ درد ناک واقعہ جو٦١ھ میں  پیش آیا، داستانوں کی صورت میں  لوگوں کے درمیان سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا اور ایک زبان سے دوسری زبان تک پہنچتارہا ۔یہ واقعات لوگوں نے ایسے افراد کی زبانی سنےجو وہاں موجود تھے اورجو اْن خونچکاں واقعات کے عینی شاہد تھے ،بالکل اسی طرح جس طرح دیگر اسلامی جنگوں کے واقعات سنے جاتے تھے ۔

لیکن کسی نے بھی ان واقعات کو صفحۂ قرطاس پر تحریر نہیں  کیاتھا۔یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا؛یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری کے اوائل میں  ابومخنف لوط بن یحییٰ بن سعید بن مخنف بن سلیم ازدی غامدی کوفی متوفیٰ١٥٨ھ نے اس واقعہ کو معتبر راویوں کی زبان سے یکجا کیا اور اس امانت کو کتابی شکل دیکر اس کا نام ''کتاب مقتل الحسین'' رکھا جیسا کہ آپ کی کتابوں کی فہرست میں  یہی نام مرقوم ہے۔ یہی وہ سب سے پہلی کتاب ہے جو اس عظیم اورجانسوز واقعہ کے تاریخی حقائق کو بیان کرتی ہے ۔

ابو مخنف کی روشن بینی کے زیر سایہ تربیت پانے والے ان کے شاگرد نے تاریخ اسلام اور بالخصو ص کربلا کے جانسوزواقعات کاعلم اپنے استاد سے حاصل کیا۔آپ کانام ہشام بن محمد بن سائب کلبی تھا۔ نسب شناسی میں  آپ کوید طولیٰ حاصل تھا۔ ٢٠٦ ھ میں  آپ نے وفات پائی۔ ہشام بن محمدبن سائب کلبی نے اسی سلسلہ کی دوسری کتاب تحریرفرمائی لیکن اس کی تنظیم و تالیف سے قبل وہ اسے اپنے استاد ابی مخنف کو فی کی خدمت میں  لے گئے اور ان کے سامنے اس کی قرائت کی ؛پھر ان دلسوز واقعات کے تمام نشیب و فرازکواپنے استاد کے ہمراہ تکمیل کی منزلوں تک پہنچایا۔ اس کتاب میں  حدثنی ابو مخنف یا عن ابی مخنف (ابو مخنف نے ہم سے بیان کیا ہے) بہت زیادہ موجود ہے۔ اپنے استاد کی کتابوں میں  سے جس کتاب کو ہشام نے کتابی شکل دی اور ان کے سامنے قرا ئت کی نیز اس سے روایات کو نقل کیا، ابو مخنف کی وہی کتاب ''مقتل الحسین'' ہے جو ان کی کتابوں کی فہرست میں  موجود ہے لیکن ہشام نے جو اہم کام انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے مقتل الحسین میں  فقط اپنے استاد ابو مخنف ہی کی حدیثوں پر اکتفا نہیں  کیا

بلکہ اس میں تاریخ کے اپنے دوسرے استاد عوانةبن حکم متوفیٰ١٥٨ھ کی حدیثیں بھی بیان کیں ۔

صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے وا لوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ تمام اسلامی مورخین انھیں د و عظیم علماء کی عیال شمار ہوتے ہیں اور وہ سب ابی مخنف کے دستر خوان کے نمک خوار ہیں ؛ اسکا سبب یہ ہے کہ وہ زمان واقعہ کے نزدیک ترین مورخوں میں شمار ہوتے ہیں لہٰذاوہ اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ جزئی مسائل کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور واقعہ کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جس طرح وہ واقع ہواہے ۔

اکثر مورخین نے تاریخ کے سلسلہ میں ابو مخنف کی کتابوں کو بطور خلاصہ اپنی تالیفات میں جگہ دی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتابیں اس وقت مورخین کے پاس موجود تھیں ۔

جن مورخین نے ابو مخنف کی تحریر سے اپنی کتابوں میں استفادہ کیا ہے ان میں سے مندرجہ ذیل افراد کے نام قابل ذکر ہے ۔

١۔محمدبن عمر واقدی متو فی ٢٠٧ھ ۔

٢۔طبری،متوفیٰ ٣١٠ھ۔

٣۔ابن قتیبہ ،متو فی ٣٢٢ھالامامة والسیاسةمیں ۔

٤۔ ابن عبدربّہ اندلسی ،متوفیٰ٣٢٨ھ نے اپنی کتاب'' العقدالفرید''میں سقیفہ کی بحث کرتے ہوئے ۔

٥۔علی بن حسین مسعودی، متوفیٰ٣٤٥ھنے عروہ بن زبیر کی عذر خواہی کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عروہ بن زبیر نے بنی ہاشم سے اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کے لئے بیعت کا مطالبہ کیا ۔ بنی ہاشم نے مخالفت کی ؛اس پر عروہ نے ان لوگوں کو دھمکی دی کہ تمہارے گھروں کو جلا دیں گے۔ا س کی اطلاع جب اس کے بھائی عبد اللہ کو ملی تو اس نے عروہ کی سر زنش کی اور عروہ نے اپنے بھائی سے عذرخواہی کی ۔

٦۔شیخ مفید ،متوفیٰ ٤١٣ھ نے'' الارشاد ''میں امام حسین کی شہادت کے ذیل میں اور ''النصر ہ فی حرب البصرہ'' میں ۔

٧۔شہرستانی،متوفیٰ٥٤٨ ھ نے فرقہ نظامیہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب'' ملل و نحل'' میں ۔

٨۔خطیب خوارزمی، متوفیٰ٥٦٨ ھ نے اپنی کتاب'' مقتل الحسین'' میں ۔

٩۔ ابن اثیر جزری،متوفیٰ٦٣٠ ھ نے اپنی کتاب'' الکامل فی التاریخ ''میں ۔

١٠۔سبط بن جوزی،متوفیٰ٦٥٤ ھ نے اپنی کتاب'' تذکرہ خواص الامة''میں ۔

١١۔ آخری شخص جسے میں نے دیکھا ہے کہ کسی واسطہ کے بغیر ابو مخنف سے روایت نقل کرتا ہے ، ابو الفدا ،متوفیٰ٧٣٢ ھ ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

اس وقت ابو مخنف کی کتابیں بالخصوص ''مقتل الحسین ''ہماری معلومات کے مطابق دسترس میں نہیں ہے بلکہ تمام کتابیں ضائع ہو چکی ہیں ،دوسری کتابوں سے جستہ و گریختہ جو معلومات فراہم ہوئی ہیں وہی اس وقت موجود ہیں ۔

قدیم ترین سند

١۔گذشتہ سطروں میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ابو مخنف کی ساری کتابیں ضائع ہوچکی ہیں لہٰذا وہ قدیم نص اورسند جو اس کتاب سے متعلق ہمارے پاس موجود ہے تاریخ طبری ہے؛ جس میں محمدبن جریرطبری ،متوفیٰ٣١٠ ھ نے ہشام کلبی کی حدیثوں کو جو انہوں نے اپنے استاد ابو مخنف سے حاصل کی تھیں ذکر کیا ہے۔واضح رہے کہ طبری نے اس سلسلہ میں بطور مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی ہے اورنہ ہی اپنی تاریخ میں کوئی الگ سے باب قائم کیا ہے بلکہ ٦٠ ھ اور ٦١ھکے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے۔ (١)

قابل ذکر ہے کہ طبری بلا واسطہ ہشام کلبی سے ان احادیث کی روایت نہیں کرتے بلکہ ان کی کتابوں اور تحریروں سے حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے یوں ناقل ہیں :حدثت عن ہشام بن محمد، ہشام بن محمد سے حدیث نقل کی گئی ہے ؛لیکن اس کی وضاحت نہیں کرتے کہ ان احادیث کو خود طبری سے کس نے بیان کیا ہے۔ہمارے اس قول کی دلیل کہ طبری نے ہشام کے زمانے کو درک نہیں کیا ہے اور بلا واسطہ حدیثوں کو ان سے نہیں سنا ہے، طبری کی تاریخ ولادت٢٢٤ھ اور ہشام کی تاریخ وفات٢٠٦ھ ہے ۔

____________________

١۔طبری ،ج٥،ص٣٣٨،٤٦٧ ،مطبوعہ دارالمعارف

طبری نے سینۂ تاریخ کے ناسور،واقعۂ حرہ کا ذکر کرتے ہوئے خود اس بات کی تصریح کی ہے کہ انھوں نے ان مطالب کو ہشام کلبی کی کتابوں سے نقل کیا ہے طبری کا بیان اس طرح ہے:

ھکذاوجدتہ فی کتابی... میں نے اس واقعہ کو اسی طرح ان کی دونوں کتابوں میں دیکھا ہے۔ (١)

٢۔ طبری کی نص و سند کے بعدہمارے پاس ابو مخنف سے منقول کربلا کے واقعات کی قدیم ترین سند شیخ مفید، متو فیٰ٤١٣ ھ کی کتاب ''الارشاد'' ہے جس میں انہوں نے بلا واسطہ ہشام کلبی کی کتاب سے روایتیں نقل کی ہیں کیونکہ شیخ مفید علیہ الرحمہ، اپنی کتاب میں واقعہ کربلا کو ذکر کرنے سے پہلے اس طرح بیان فرماتے ہیں :''فمن مختصرالاخبار...مارواہ ا لکلبی ...''ان خبروں کاخلاصہ ...جس کی روایت کلبی نے کی ہے ..۔(٢)

٣۔ اس کے بعد ''تذکرة الامةبخصائص الائمة'' میں سبط ابن جو زی ،متوفیٰ٦٥٤ھ بھی بہت سارے مقامات پر امام حسین علیہ السلام کی خبروں کے ذیل میں ہشام کلبی ہی سے تصریح کے ساتھ روایتیں نقل کرتے ہیں ۔

جب ہم طبری کی نقل کا شیخ مفیداورسبط ابن جوزی کی نقل سے موازنہ کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان نصوص کے درمیان کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے ،البتہ شاذو نادر اختلافات بھی دکھائی دیتے ہیں ، مثلاًواو کی جگہ پر فاء ہے یا اس کے بر عکس۔اسی قسم کے دوسرے اختلافات بھی آپ کو کتاب کے مطالعہ میں واضح طور پر دکھائی دیں گے ۔

____________________

١۔طبری ،ج٥،ص٤٨٧،اس مقام پرطبری کا بعض اسماء کو مختلف طریقوں سے لکھنا بھی دلیل ہے کہ اس نے روایت سنی نہیں بلکہ دیکھی ہے، مثلاًمسلم بن مسیب کا نام دو جگہ آیاہے ، ایک جگہ صحیح لکھا ہے لیکن دوسری جگہ سلم بن مسیب کردیا ہے جبکہ یہ ایک ہی شخص ہے ،جیسا کہ مختار کے واقعہ میں ایسا ہی ہوا ہے۔

٢۔الاشاد ، ص٢٠٠،طبع نجف

ابو مخنف

تا ریخ نے ہما رے لئے ابو مخنف کی تا ریخ ولادت کو ذکر نہیں کیا ہے۔فقط شیخ طو سی علیہ الرحمہ نے کشّی رحمة اللہ علیہ سے نقل کر تے ہو ئے ان کو اپنی کتاب'' الر جال ''میں راویوں کے اس گروہ میں شامل کیا ہے جو حضرت علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں ،پھر شیخ طوسی فر ما تے ہیں : ''وعندی ھذا غلط لان لو ط بن یحییٰ لم یلق امیر المو منین علیہ السلام بل کا ن ابو ہ یحیٰ من اصحابہ''(١) میر ی نظر میں کشی کی یہ بات غلط ہے کیو نکہ لوط بن یحٰی ابو مخنف نے امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ہاں ان کے والد یحٰ،امام علی علیہ السلام کے اصحاب میں شمار ہو تے تھے ۔لیکن شیخ کے علاوہ کسی اورنے امیر المو منین کے اصحاب میں ابو مخنف کے والد یحییٰ کا تذکرہ نہیں کیا ہے، البتہ انکے دادا مخنف بن سلیم ازدی کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو تے تھے۔اس کے بعد شیخ فرماتے ہیں کہ مخنف بن سلیم ازدی عائشہ کے خالہ زاد بھائی، عر ب نژاداور کو فہ کے رہنے والے تھے۔ (٢)

قابل ذکر ہے کہ شیخ طوسی نے اس بات کو شیخ کشی کی کتاب سے نقل کیا ہے،خود ان سے بلا واسطہ نقل نہیں کیا ہے، کیو نکہ کشی تیسری صدی ہجری میں تھے اور شیخ طو سی ٣٨٥ھکے متولد ہیں ، جیسا کہ ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب ''معالم العلما ئ'' (٣)میں ذکر کیا ہے ۔کشی کی اس کتاب کا نام''معر فہ النا قلین عن الا ئمہ الصادقین''ہے لیکن آج یہ کتاب نایاب ہے۔ ہماری دسترس میں فقط وہی سند ہے جسے سیدا بن طاؤوس نے فرج المہموم(٤)میں ذکر کیا ہے کہ شیخ طوسی نے ٤٦٥ہجری میں اس بات کو کشی کی کتاب سے نقل کیا ہے .خود شیخ طوسی کے مختار نظریہ کے مطا بق بھی کہیں یہ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ انہوں نے ابو مخنف کو اصحاب امیر المو منین علیہ السلام میں شمار کیا ہو۔شیخ طوسی علیہ الرحمہ اپنی کتاب'' رجال'' میں

____________________

١۔رجال، شیخ، ص ٥٧،مطبو عہ نجف

٢۔ گذشتہ حوالہ٥٨

٣۔ معالم العلما ء ،ص ٢٠٢، ط نجف

٤۔فرج المہموم، ص ١٣٠ ،ط نجف

ابو مخنف کو اصحاب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام میں شمار کیا ہے، (١)جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں بھی انکا ذکر کیا ہے، (٢) پھر اسکے بعد امام زین العابدین اور امام محمد با قر علیھماالسلام کے اصحاب میں ذکر نہیں کیا ہے۔

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الفہر ست'' میں بھی کشی کے اس نظریہ کو پیش کرنے کے بعد اظہار نظر کر تے ہوئے فر ماتے ہیں :''والصحیح ان ابا ہ کان من اصحاب امیر المومنین علیہ السلام وہولم یلقہ ''(٣) صحیح تو یہ ہے کہ ابو مخنف کے والد اصحاب امیر المو منین میں شمار ہو تے تھے لیکن خودابو مخنف نے حضرت کو نہیں دیکھا ہے۔اسکے بعد شیخ ابو مخنف تک سند کے طریق میں ہشام بن محمد بن سا ئب کلبی اور نصر بن مزاحم منقری کا ذکر کر تے ہیں ۔

شیخ نجاشی نے بھی اپنی کتاب'' رجال'' میں انکا ذکر کیا ہے۔وہ فر ما تے ہیں : ''لوط بن یحٰبن سعید بن مخنف بن سالم (٤)ازدی غامدی ابو مخنف ،کو فہ میں اصحاب اخبار وا حادیث کے درمیان بزرگ اور جانی پہچانی شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے ۔آپ اس قدر مورد اطمینان تھے کہ آپ کی بیان کی ہوئی باتوں کو لوگ بغیرچون وچرا قبول کر لیا کر تے تھے۔ آپ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایتیں نقل کیا کر تے تھے'' لیکن یہ صحیح نہیں ہے(رجال النجاشی، ص ٢٢٤،طبع حجرہند) اس کے بعد نجاشی نے ابو مخنف کی کتابوں کے تذکرہ میں '' کتاب مقتل الحسین ''کا بھی ذکر کیا ہے۔پھر ان روایتوں کے نقل کے لئے اپنے طریق میں ہشام بن محمد بن سائب کلبی کاذکر کیا ہے جو ابو مخنف کے شاگرد تھے ۔

اب تک ہم نے علم رجال کی چار اہم کتابوں میں سے تین کتابوں سے ابو مخنف کے سلسلہ میں علمائے رجال کے نظریات آپ کی خدمت میں پیش کئے لیکن ان تینوں منابع میں کہیں بھی ابو مخنف کی تاریخ ولادت و وفات کا تذکرہ نہیں ملتا ۔