مرزا دبیر کی مرثیہ نگاری
مرزا دبیر کی مرثیہ نگاری
Author :
Publisher :
Publication year :
1980
Publish location :
دہلی ہندوستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
مرزا دبیر کی مرثیہ نگاری
مرزا سلامت علی دیبر اردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نام ہے،مرزا دبیر نے اپنے مرثیہ نگاری کی آبیاری اور استادانہ رہنمائی کی خاطر اس عہد کے ایک شاعر میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی ۔ اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ استاد کا نام امر کیا۔ دبیر کے اُستاد مظفر حسین ضمیر نے مرثیہ نگاری میں نئی جان ڈال دی اور اس سلسلے میں ایک ایسا انداز اختیار کیا جو آگے چل کر بہت مقبول ہوا اور لوگ ان کی تقلید کرنے لگے ،اسی عہد میں لکھنو میں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفل میں مر ثیہ ایک بلند مقام اور تاثیر پیدا کر چکا تھا۔" دبیر کے کلام کا خاص جوہر زورِ بیان ، شوکتِ الفاظ ، بلند تخیل ، ایجاز مضامین اور صنائع کا استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی ، علمی اصطلاحات ، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔"دبیر اپنے مرثیوں میں کوشش کرتے ہیں کہ اپنے قاری کو الفاظ کی شان و شوکت ، علمی قابلیت ، تشبیہات ، استعارات کی جدت و ندرت سے مرعوب کریں ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے مرثیوں ، میں قصید ے کا طمطراق اور شان و شکوہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مرثیے بجائے دل پر اثر کرنے کے دما غ کو متاثر کرتے ہیں۔زیر نظر کتاب میں ایس اے صدیقی نے مرثیہ کی تاریخ ، مرثیہ کی تعریف،دبیر کا عہد، دبیر کے سوانحی احوال،دبیر کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا ہے۔
مرزا سلامت علی دیبر اُردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نام ہے۔ صنف مرثیہ کو بام عروج پر پہنچانے میں میرانیس کے ساتھ ساتھ ان کی کوشش بھی ہر لحاظ سے قابل ِ داد ہیں ۔ مرزا دبیر نے چونکہ عربی اور فارسی علم و ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور دوسرے حساس طبیعت کے باعث وہ سنجیدہ ہوگئے تھے اس لئے انہیں شعر و سخن کی سلطنت میں یک گونہ عافیت کا احساس ہوا، شاعری سے انہیں فطری لگائو پیداہوگیا تھا۔ اور پھر شاید اپنی جنم بھومی دہلی کی تباہی اور دیگر عوامل کے حوالے سے انہوں نے بھی مرثیہ گوئی اختیار کر لی ۔ ویسے بھی اس عہد میں اقلیم غزل میں اس قدر شعراءکی فراوانی اور کثرت تھی کہ محض توانا اور جاندار غزلیہ شاعری پنپ سکتی تھی اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ دور غالب جیسے سورج کا دور تھا۔ جس میں ماہ و انجم ماند پڑ جاتے چھوٹے موٹے چراغ کچھ بھی نہ تھے۔ البتہ مرثیہ نگاری میں ابھی ہر طرح کی وسعت کی پوری پوری گنجائش موجود تھی۔ اس لئے اپنی موزونی طبع اور حالات کے مطابق مرزدبیر نے مرثےہ نگاری کے میدان کو اپنی شاعری کے لئے چنا۔ اور اسی میں اپنے جوہر دکھانے شروع کئے۔ مرزا دبیر نے اپنے مرثیہ نگاری کے اس ذوق کی آبیاری اور اُستادانہ رہنمائی کی خاطر اس عہد کے ایک شاعر میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی ۔ اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ استاد کا نام امر کیا۔ اسی عہد میں لکھنو میں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفل میں مر ثیہ ایک بلند مقام اور تاثیر پیدا کر چکا تھا۔ اور بلا مبالغہ برسو ں تک لکھنوکی مرثیہ کی شاعری مرزا دبیر ہی کے گرد احاطہ کئے ہوئے تھی بعد میں میر انیس نے بھی اس فن میں اپنی اُستادانہ جوہر دکھاکر دبیر کے شانہ بشانہ مرثیہ کی وہ قصر تعمیر کی جس کے قمقموں سے آج اردو ادب جگمگ جگمک کر رہا ہے۔ مرزا دبیرکی شہرت و منزلت عالم ِ شباب ہی میں اتنی عام ہو چکی تھی کہ شاہ اودھ غازی الدین حیدر نے ان کو شاہی امام باڑے میں دعوت دی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف خلیق ، ضمیر ، دلگیر اور فصیح وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا ان کا کہنہ مشق اساتذہ کی موجودگی میں نوجوان دبیر کی شاہی مجلس پڑھنا اس کے فنی کمال کی دلیل ہے۔ جس پر مرزا نو عمری میں فائز ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر سید ناظر حسین زیدی دبیر کے متعلق لکھتے ہیں،
” دبیر کے کلام کا خاص جوہر زورِ بیان ، شوکتِ الفاظ ، بلند تخیل ، ایجاز مضامین اور صنائع کا استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی ، علمی اصطلاحات ، عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔“
دبیر اور اجزئے مرثیہ:۔
دبیر کے اُستاد مظفر حسین ضمیر نے مرثیہ نگاری میں نئی جان ڈال دی اور اس سلسلے میں ایک ایسا انداز اختیار کیا جو آگے چل کر بہت مقبول ہوا اور لوگ ان کی تقلید کرنے لگے ، ضمیر کے عہد تک مرثیہ کے ضروری اجزاءکے طور پر چہرہ ، گریز ، رخصت ، آمد ، سراپا ، شہادت اور بین مرثیہ میں داخل ہو چکے تھے۔ اور دبیر نے بھی ان کو اپنے مراثی میں شامل کیا ۔ اس لئے ان کے مرثیوں کا مطالعہ بھی مجموعی طور پر اپنی خصوصیات کی روشنی میں کرنا چاہیے۔
چہرہ:۔ یہ مرثیے کا پہلا حصہ ہے اس کو قصیدے کی تشبیب کی طرح سمجھنا چاہیے یعنی یہ کہ اس کا تعلق مضامین ِ مرثیہ سے نہیں ہوتا۔ اور اس لئے کسی موضوع کی بھی تخصیص نہیں ہوتی۔ دبیر نے عموماً ، بہار ، طلوع سحر، ہیرو کی تعریف یا مجلس اعز ا کی تعریف کے لئے اس حصے کو مخصوص کیا ہے۔ ان تمام موضوعات میں بالخصوص طلو ع سحر کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ دبیر نے مراثی کے اس حصے پر زور طبیعت بہت صرف کیا ہے۔
جب سرنگوں ہوا علم کہکشاں شب خورشید کے نشان نے مٹایا نشان ِ شب
تیر شباب سے ہوئی خالی کمان شب تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنسان شب
آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے
شب نے زرہ ستاروں کی رکھدی اتار کے
گریز:۔ جس طرح قصیدے میں تشبیب کے بعد گریز آتا ہے بالکل اسی طرح مرثیہ میں چہرہ کے بعد گریز آتا ہے ۔ دبیر نے اپنے مرثیوں میں عام طورپر گریز کا استعما ل کیا ہے۔ اور مجموعی طور پر یہ ان کی مراثی میں خاصا جاندار ہے، اور یہاں پہنچ کر کم از کم قاری اتنا محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاعر بڑی کوشش کے بعد ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف آرہا ہے۔ مثلاً وہ اپنے ایک مرثیے میں حضرت علی اکبر کے حال میں چہرے کو مخصوص رنگ و آہنگ عطا کرتے ہیں ،
محتاجِ کفن لاش ہے کس فخر جہاں کی ہم گورِ غریباں میں ہے دھوم آہ و فغاں کی
پوچھو تو زمانے میں ہے یہ رسم کہاں کی تابوت پہ سہر ا نہیں میت ہے جواں کی
مرنا تو ہے برحق سبھی اک روز مریں گے
لیکن یہ شباب اور یہ اجل یاد کریں گے
رخصت:۔ مرثیے میں رخصت کا مقام اس وقت آتا ہے جب طرفدارین حسین یا اصحاب اہل بیت میں سے کوئی میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اس موضوع کو دبیر نے جس انداز سے باندھا ہے وہ دیبر کے ہاں اس موضوع کو شمشیر بے زنہار کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس کو پیش کرنے میں تاریخی حقیقت سے زیادہ آفاقی اصلیت سے کام لیا ہے۔
اکبر نے جو طلب کی رضا دشتِ وفا کی حالت ہوئی تغیر شہ ارض و سما ءکی
فرمایا میں راضی ہوں جو مرضی ہو خدا کی چھوڑیں گے قدم راہ نہ تسلیم و رضا کی
اکبر کی جدائی کا تو مجھ کو نہیں غم ہے
تصویر نبی مٹتی ہے یہ رنج و الم ہے
آمد:۔ اُردو مرثیوں میں آمد کا موضوع ان مواقع کے لئے اپنا یا جاتا ہے جب جنگجو میدان ِ جنگ میں وارد ہوتے ہیں مرزا دبیر کے مرثیوں میں ا س موقع پر آمد کی تمام خصوصات پائی جاتی ہیں چونکہ اس میں جذبات نگاری اور محاکات کا موقع نہیں ہوتا اس لئے شاعر بغیر کسی ذمہ داری کے اپنے تخیلی قوتوں کا حتی الامکان مظاہر ہ کر سکتا ہے۔ دبیر نے اس موضوع پر جس حد تک طبع آزمائی کی ہے۔ اما م حسین کی میدان میں آمد کو وہ یوں بیان کرتے ہیں ۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے ہر قصرِ سلاطین زمن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حید ر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمٹتے ہوئے پر کو
سراپا:۔ سراپا مرثیے کا وہ جزو ہے جس میں مرثیہ نگار اہل بیت کا سراپا کھینچتے ہیں ان کی حسن و خوبصورتی بیا ن کرتا ہے۔ ان کی توصیف کرتا ہے دبیر نے بھی اس جزو پر زور قلم صرف کیا ہے۔ اور بہت ہی نادر سراپے تخلیق کئے۔ امام حسین کا سراپا یوں کھینچا ہے۔
کیا غلغلہ ابروئے پیوستہ اُٹھے ہیں تعریف کو مداح کمر بستہ اُٹھے ہیں
ہاتھوں میں لئے ظلم کا گلدستہ اُٹھے ہیں میزاں کی طرح مصرعہ برجستہ اُٹھے ہیں
ابرو کا رُ خ صاف میں پرتو نظر آیا
خورشید کاپہلو میں مہ نو نظر آیا
رزم :۔ اردو مرثیہ نگاروں نے میدان کربلا میں لڑائی کے نقشے بڑے اہتمام کے ساتھ رقم کئے ہیں اگر دبیر کے مرثیوں کا مطالعہ کیا جائے وہ ایک اہم رزمیہ شاعر ثابت ہوتے ہیں ۔ اردو مرثیوں میں رزم کی تیاری کا آغاز ”طلوع سحر“ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جس کے بعد فوجوں کی صف بندی ہوتی ہے پھر جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔
فرما کے علی شہ صفدر ہوئے سوار ہٹ کر عقاب پر علی اکبر ہوئے سوار
عباس لے کے رایت ِ حیدر ہوئے سوار بتیس شہ سوار برابر ہوئے سوار
چالیس پیدل آگے جلو میں بہم چلے
لی کر یہ فوج لڑنے کو شاہ الم چلے
شہادت:۔ واقعات کربلا کی مناسبت سے اردو مرثیوں میں شہادت کا موضوع فطری ہے لیکن دبیر نے شہادت سے قبل ہیرو کی مدح سرائی پر اس قدر مضامین حرف کر دئیے ہیں کہ شہادت سے قبل واقعہ کو موڑ دے کر اس کے لئے کوئی نہ کوئی جواز کرنا پڑتا ہے۔ دبیر نے حضرت امام حسین کی شہادت کے لئے بھی اس طرح کا ایک جواز پیش کیا ہے۔ یعنی جب شمشیر ِ امام سے دشمنوں میں کھلبلی مچ گئی اور سر پر سر گرنے لگے ۔ تو اس سے بچنے کی انہوں نے یہ تدبیر سوچی۔
القصہ یہ مکاروں نے کی بچنے کی تدبیر زینب سے کہے کوئی کہ مارے گئے شبیر
سرپیٹتی جو رن میں نکل آئے گی ہمشیر پھر فوج پہ حملہ نہ کریں گے شہ دلگیر
سیدانیوں میں دھوم قیامت کی مچے گی
گریہ نہ کیا جان کسی کی نہ بچے گی
بین:۔ بین دراصل مرثیے کا آخری جزو ہے اُس میں شہدائے کربلا کے لئے بین ہوتا ہے جب کوئی سپاہ اہل بیت شہید ہو جاتا ہے تو اس کی لاش خیمے میں لائی جاتی تو خواتین اس پر بین کرتی ۔ مراثی دبیر کا اہم عنصر بین ہے طبیعت کے لگائو او ر عرصہ دراز کے مشق کے باعث یہ عنصران کے ہاں کافی کامیاب نظر آتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر حضرت زینب بین کرتی ہے۔ دبیر اس کو یوں بیان کرتے ہیں۔
سر کھولے ہر ارماں کے لاشے پہ چلی ہوں کس منہ سے کہوں دختر ِ زہراد علی ہوں
سب جانتے ہیں حوروں کے دامن میں پلی ہوں زینب تھی میں یثرب میں یہاں کوکھ جلی ہوں
دبیرکی مرثیہ گوئی کی خصوصیات:۔
ادبی دنیا کی وہ تنہا ہستی جو مرثیہ کے میدان میں میرانیس جیسی شخصیت کی مدمقابل ٹھہرائی جا سکتی ہے وہ مرزا دبیر کی ہستی ہے۔ ان کے مرثیہ کی خصوصیات مندرجہ زیل ہیں
جذبات نگاری:۔ جذبات نگاری شاعری کی روح ہے اور اسی سے شاعر کی صحیح عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دبیر کے قلم میں جہاں جذبات نگاری کے اعلیٰ مرقعے نکل گئے ہیں وہ کسی طرح بھی میر انیس کے بہترین شاہکاروں سے کم نہیں مثلاً ذیل میں دیا ہوا ایک بند اس کی اعلیٰ مثال ہے۔ حضرت علی اکبر رن میں جانے کے لئے ماں سے رخصت طلب کرتے ہیں مگر پھوپھی سے اجازت نہیں مانگتے اس سے حضرت زینب کو رنج ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ علی اکبر کو انہوں نے پالا تھا۔
اکبر کے سنانے کویہ کہتی تھی زباں سے اب عون و محمد تمہیں لائوں میں کہاں سے
جو کام کیا پوچھ ، کے مجھ سوختہ جاں سے اب قدر ہوئی پیاروں کی جب چھٹ گئے ماں سے
کیا جان کے دم بھرتی تھی ہمشکل ِ نبی کا
سب کہنے کی باتیں ہیں نہیں کوئی کسی کا
منظر کشی:۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مناظرِ قدرت کی منظر کشی میں انیس کا پلہ دبیر پر کافی بھاری ہے مناظر ِ فطرت کی منظر کشی بھاری بھر کم الفاظ کی متحمل نہیں ہو سکتی جو دبیر کا طرہ امتیاز ہے۔ تاہم جہاں انہوں نے سادگی اختیار کی ہے وہاں ان کے ہاں منظر نگاری کے نسبتاً اچھے نمونے پڑھنے کو ملتے ہیں ،مثلاً
وہ روشنی صبح وہ جنگل وہ بیاباں و ہ سرد ہوا اور وہ سحر قتل کا سماں
ہر مرتبہ جنبش میں بہم برگِ درختاں اور شاخوں پہ وہ زمزمہ مرغِ خوش الحاں
خورشید کی وہ جلوہ گری اوج و سما سے
اور خیموں میں بجھنا وہ چراغوں کا ہوا سے
مکالمہ نگاری:۔ دبیر کے ہاں انیس کے مقابلے میں مکالمہ نگاری کا وصف نہایت کمزور ہے تاہم کہیں کہیں خود کلامی کی کیفیت ضرور ملتی ہے ۔ امام حسین اور دیگر ایمہ حرم کی آپس میں گفتگو ، شمر ذوی الجوش اور لشکر اسلام کی گفتگو اس انداز میں رقم کی ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کون کس سے مخاطب ہے ۔ خود کلامی کا انداز دوران ِ جنگ حسین کا چھ ماہ کے معصوم بچے اصغر کو میدان کارزار میں لے کر آنا اور پانی کے لئے التجا کرنے یا نہ کرنے کی گومگو کیفیت اس مثال میں نظر آئے گی۔
ہر اک قدم پہ سوچتے تھے سبطِ مصطفی لے تو چلا ہوں فوجِ عدو سے کہوں گا کیا
نے پانی مانگ آتا ہے نہ مجھ کو التجا منت بھی گر کروں تو وہ دیں گے کیا بھلا
پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو میری
بچے کی جان جائے گی اور آبرو میری
فصاحت بلاغت:۔ بلاغت کی تعریف علامہ شبلی کی الفاظ میں علمائے معانی نے یہ کی ہے۔ ”کلام اقتضائے حال کے موافق ہو اور فصیح ہو“
انیس کو اس معاملے میں دبیر پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن کہیں کہیں اُن کے ہاں بھی فصاحت کی بہترین مثالیں ملتی ہیں ۔ ایک جگہ علی اصغر کے لئے امام محترم پانی مانگنے کے واقعہ انہوں نے بیان کیا ہے۔اور بقول شبلی” حق یہ ہے کہ مرزادبیر نے اس واقعہ کے بیان میں جو بلاغت صرف کی ہے ۔ اور جو درد انگیز سماں دکھایا ہے۔ آج تک کسی سے نہ ہو سکا ۔“
پہنچے قریب فوج تو گھبرا کے رہ گئے چاہا کریں سوال پر شرما کے رہ گئے
غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کی رہ گئے چادر پسر کے چہرے سے سرکا کے رہ گئے
آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو لائے ہیں
اصغر تمہارے پاس غرض لے کے آئے ہیں
مضمون بندی اور خیال آفرینی:۔ مرزا دبیر کا یہی کمال ہے کہ خیال آفرینی دقت پسندی ، جدت ، استعارات ، اختراع، تشبیہات شاعرانہ استدالال میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ وہ اکثر زور طبع کو سنبھال نہیں سکتے اور اس وجہ سے کبھی کبھی تعقید و اغراق پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر جہاں ان کا کلام فصیح و بلیغ ہے نہایت بلند مرتبہ ہوگیا ہے ۔ مثلاً
جب سرنگوں ہوا علم کہکشانِ شب خورشید کے نشاں نے مٹایا نشانِ شب
تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان ِشب
آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے
شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی اتار کے
شوکت الفاظ:۔ الفاظ کی شوکت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو فارسی و عربی الفاظ کے کثرت استعمال سے پیدا ہوتی ہے اور ایک طبیعت کے جوش اور الفاظ کے حسن ِ ترکیب سے ۔ دونوں قسم کی شوکت الفاظ انیس اور دبیر کے یہاں ملتی ہیں ۔ مگر دبیر کا رجحان پہلی قسم اور انیس کا رجحان دوسری قسم کی طرف زیادہ ہے اگر شوکت الفاظ بڑے بڑے لغات سے پیدا کی گئی ہے اور اگر وہ لغت بے محل یابے موقع ہیں تو پھر یہی چیز ایک عیب بن جاتی ہے۔ اور مرزا دبیر کے یہاں اس قسم کے معائب کی مثالیں ملتی ہیں۔
فکر رفو تھی چرخ ہنر مند کے لئے
دن چار ٹکڑے ہو گیا پیوند کے لئے
تشبیہات و استعارات:۔ مرزا دبیر کے یہاں عمدہ تشبیہ ، استعاروں کی بھی مثالیں ملتی ہیں ۔انہوں نے بعض جگہ تشبیہات و استعارات نہایت لطیف و موزوں لکھے ہیں
تھے آس پاس یوں رفقا ءاس جناب کے تار شعاع جیسے ہوں گرد آفتا ب کے
کیا حسن ہے کےا نور ہے کیا جلوہ گری ہے یاں شب کی طرح صبح ستاروں سے بھر ی ہے
مگر ان کے زور طبیعت و تخیل کی بے اعتدالی نے ان تشبیہات و استعارات کو بعید الفہم اور گنجلک بنا دیا ہے ۔ ان میں سادگی و اثر نہیں ان میں مرزا کی علمیت کا تو اندازہ ہوتا ہے مگر شعر میں کوئی حسن پیدا نہیں ہوتا۔ مثلاً
شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف سے تا قاف پریاں ہوئیں مرغابیاں گرداب بنا قاف
کیا جانے کدھر لے کے خزانہ وہ چھپا تھا قاروں کو عذاب ابد ی ڈھونڈ رہا تھا
پر شکوہ زبان:۔ میرانیس کی سادگی و سلاست کے مقابلے میں مرزا دبیر نے نہایت پر شکوہ الفاظ بڑ ے دبدبے سے استعمال کئے ہیں ۔ رزمیہ کے لئے اس قسم کی زبان ہی زیادہ مناسب تھی۔ دبیر سے پہلے مرثیوں کی زبان، آسان ، سادہ اور سلیس ہوا کرتی تھی۔ دبیر نے اس میں شوکتِ الفاظ پیدا کردی ۔ حضرت امام حسین کی میدان ِ جنگ میں آمد کا حا ل یوں بیان کرتے ہیں۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمٹتے ہوئے پر کو
مجموعی جائزہ:۔
پروفیسر شمس الدین صدیقی اور مرتضی اختر جعفری دبیر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
” اُن کی مراثی کا خاص جوہر تشبیہات و استعارات ہیں، ان کا کلام خیال آفرینی ، دقت پسندی ، جدت پسندی ، جدت ِبیان، شاعرانہ استدلال اور شدتِ مبالغہ میں لاجواب ہے۔ مرزا دبیر بیان کی صفائی بندش کی چستی اورمناظر ِ قدرت کی صحیح تصویر کشی میں انیس کے مقابلے میں نہ جم سکے ۔ آیات قرآنی کو نظم کرنے اور ان کے مفہوم کی وضاحت کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ دبیر اپنے مرثیوں میں کوشش کرتے ہیں کہ اپنے قاری کو الفاظ کی شان و شوکت ، علمی قابلیت ، تشبیہات ، استعارات کی جدت و ندرت سے مرعوب کریں ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے مرثیوں ، میں قصید ے کاطمطراق اور شان و شکوہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مرثیے بجائے دل پر اثر کرنے کے دما غ کو متاثر کرتے ہیں۔“