مرثیہ نگاری اور میر انیس

مرثیہ نگاری اور میر انیس

مرثیہ نگاری اور میر انیس

Publish location :

لاہور پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

مرثیہ نگاری اور میر انیس

میر ببر علی انیس اردو مرثیہ نگاری کا وہ سورج ہیں جن کے ارد گرد مختلف سیارے گردش کرتے ہیں۔ ان کا نام آتے ہی مرثیہ ذہن میں رقص کرنے لگتا ہے۔ مرثیہ اور میر انیس ہم معنی الفاظ ہیں۔ انھیں شاعری ورثے میں ملی تھی، جس کا اظہار انھوں نے کچھ اس طرح کیا ہے :

’’عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاہی میں

پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں‘‘

میر انیس مرثیہ نگاری میں درخشندہ ستارہ ہیں

میر انیس کا شمار اردو زبان و ادب کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔ان کا اصل کار نامہ یہ ہے کہ انہوں نے صنف مرثیہ کو اوج ثریا تک پہنچایا اور اسے ایسا فروغ دیا کہ ترقی کے سارے امکانات مسدود ہو گئے۔ اردو شعر و ادب میں جس طرح سودا قصیدہ گوئی میں، میر غزل گوئی میں اور میر حسن مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں اسی طرح میر انیس مرثیہ نگاری میں درخشندہ ستارہ ہیں۔

میر انیس نے مرثیوں میں بہت سے نت نئے موضوعات کو شامل کیا

میر انیس نے اول تو اپنے مرثیوں میں بہت سے نت نئے موضوعات کو شامل کرکے اس کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ دوسرا،انہوں نے شاعری کو مذہب سے وابستہ کر کے اس کو اعلی بنا دیا ہے۔ اس طرح اردو شاعری مادیت کے سنگ ریزوں سے نکل کر روحانیت کے ستاروں میں محو خرام ہو گئی ہے۔ ایسا نہیں کہ ان کے بعد مرثیہ گو شاعر نہیں ہوۓ لیکن ان میں سے کوئی بھی اس صنف سخن میں کوئی خاص اضافہ نہیں کر سکا۔ اس لیے انھیں اردو کا ہو مر کہا جاتا ہے۔ میر انیس نے ایک مرثیے میں دعا کی تھی کہ "اے خدا مجھے ایسی مہارت عطافرما کہ خون برستا نظر آۓ جو دکھاؤں صف جنگ " دعا قبول ہوئی اور انھوں نے جو واقعہ بیان کیا اس کی مکمل تصویر کھینچ دی۔انھوں نے جس وقت مرثیے کی دنیا میں قدم رکھا لکھنؤ میں لفظی بازی گری اور تصنع پر زیادہ زور تھا۔ انھوں نے اس ماحول میں مرثیہ گوئی کی اس کہاوت کو غلط ثابت کر دکھایا کہ “ بگڑا شاعر مرثیہ گو ہوتا ہے "۔ مراثی انیس کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انھوں نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی " حیرت انگیز جلووں کی کثرت ہے جن میں زبان پر فتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی مہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہما ہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اتا ر چڑھاؤ اور فطرت کا منقش نظر آتا ہے ان کا یہ دعوی کسی طرح بے جا نہیں "

’’تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں

قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں‘‘

’’ ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں

کانٹوں کو نزاکت میں گل تر سے ملا دوں‘‘

’’گلدسته معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

اک پھول کا مضموں ہو تو سو ڈھنگ سے باندھوں‘‘

میر بر علی انیس نے فن مرثیہ کو آفاقیت عطا کی

میر بر علی انیس نے فن مرثیہ کو آفاقیت عطا کی۔ اس کے معیار و میزان مقرر کیے۔انھوں نے انسانی جذبات و احساسات، محبت و نفرت، حیات و موت، بقاو فنا، جنگ و صلح، فتح و شکست، فکر و عمل، پیام و فلسفه، زبان و خیال اور حکایت و تمثیل وغیرہ میں تنوع و وسعت بخشی۔ وہ انسانی نفسیات کے نباض تھے اور اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ کس صورتحال میں کیا واقعہ پیش آسکتا ہے یا کس موقع پر کون سا کردار کیا قدم اٹھاۓ گا یا اس کی زبان سے کیا کلمات ادا ہوں گے، انھوں نے تمام کرداروں کو اقتضائے حال کے مطابق شعری پیکر میں ڈھالا ہے اور بڑی فن کاری اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ واقعات کربلا کی المناک ترجمانی میر انیس کے فن کو معراج عطا کرتی ہے۔ مراثی انیس کا انفراد و اختصاص یہ بھی ہے کہ ان کے مراثی میں اخلاقیات کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ ان کے مرثیے نیکی، بلند کرداری، ایثار اور حق گوئی کی تعلیم دیتے ہیں۔انھوں نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات و احساسات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کر کے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلی ترین شاعری کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس کے توسط سے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلی ترین نمونے پیش کیے۔

میر انیس نے مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کو فنی استعداد و چابک دستی اور فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا

میر انیس نے مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے ایک ایک جزو کو جس فنی استعداد و چابک دستی اور فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ پیش کیا ہے اس باب میں ان کا ثانی و ہم سر نہیں۔ انھوں نے اپنے مرثیے کا آغاز دعا سے کیا ہے اور خدا سے دعا کی ہے کہ ان میں شعر گوئی کی صلاحیت پیدا کر دے۔ مرثیہ کا ایک جزو چہرہ ہوتا ہے اس میں انھوں نے کہیں کہیں اخلاقی قدروں کو بھی پیش کیا ہے۔ ان اخلاقی قدروں کی وجہ سے مرثیے کی عظمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔انھوں نے کرداروں کے جسم، قد و قامت اور خط و خال کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔ اور جا بجا مختلف کرداروں کا سراپا پیش کر کے اپنے کمال فن کا ثبوت پیش کیا ہے۔ جنگ کی روانگی کا نقشہ بھی خوب صورت انداز میں کھینچا ہے۔

میر انیس کے مرثیہ میں کردار نگاری

میر انیس نے کرداروں کی آمد کو پیش کرتے ہوئے اس کی شان و شوکت پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے اپنے مرثیوں میں مختلف کرداروں کی آمد دکھائی ہے اور ان کی آمد کو دلکش پیراۓ میں بیان کیا ہے۔جب کردار میدان جنگ میں آتا ہے تو وہ اپنے آ با واجداد کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ اپنی بہادری کا قصہ بیان کرتا ہے اس باب میں میر انیس نے اپنی فن کاری دکھائی ہے۔ انھوں نے مختلف کرداروں کے رجز کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے آباء و اجداد کی شجاعت و دلیری کا قصہ بیان کرتے ہوئے رجز خوانی کی خصوصیات کو زبان و بیان کی سادگی، سلاست اور تسلسل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ شہادت اور بین کے حصے بھی شاہ کار کا درجہ رکھتے ہیں۔انھوں نے اس ضمن میں ہندوستان اور عرب کے زمانہ جاہلیت کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

میر انیس کی منظر نگاری

میر انیس جنگ کی حقیقی و سچی تصویر کشی میں ید طولی رکھتے ہیں۔ واقعہ نگاری میں بھی انھیں دسترس ہے۔ وہ اس میدان کے اول شہسوار ہیں۔ بقول شبلی نعمانی " میرانیس نے واقعہ نگاری کو جس کمال کے درجہ تک پہنچایا اردو کیا فارسی میں بھی اس کی نظیر مشکل سے ملتی ہیں۔

میر انیس کے مرثیہ کی منظر نگاری

انیس جنگ کا نقشہ خوب کھینچتے ہیں، پہلوانوں کی ہیت ان کی آمد کی دھوم دھام، رجز کا زور و شور، اور حریفوں کے داؤ پیچ خوب دکھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیراندازی، اور شہواری کی اصطلاحوں سے اکثر کام لیتے ہیں۔ حرب و ضرب کے ہنگاموں کی ایسی تصویر یں کھنچتے ہیں کہ میدان جنگ کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ جنگ کے علاوہ دو حریفوں کا مقابلہ اور ان کی گھاتیں اور چوٹیں اس تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ لڑائی کا سماں سامنے آ جاتا ہے۔ میر انیس جذبات نگاری کی پیش کش میں دسترس رکھتے ہیں۔انھوں نے اس باب میں فنی پختگی اور قدرت کاملہ کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ان کے کلام میں جذبات نگاری کے ایسے ایسے نادر نمونے ملتے ہیں جن کی مثال اردو میں تو کیا دوسری زبانوں میں بھی ملنا دشوار ہے۔ منظر کشی یا محاکات نگاری کے بادشاہ ہیں۔ وہ انو کھے الفاظ کے توسط سے کسی جذبہ، واقعہ یا منظر کا ایسا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ وہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں۔

’’کھا کھاکے اوس اور بھی سبرہ ہرا ہوا

تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا‘‘

میر انیس کے مرثیے کے کردار مثالی، زندہ اور متحرک ہوتے ہیں

میر انیس کے مرثیے کے کردار مثالی، زندہ اور متحرک ہوتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مرثیہ کا کردار سامع کا قریبی رشتے دار ہے۔ وہ کرداروں کی پیش کش میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور اس کیفیت کی کشمکش بہت زور دار ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کرداروں کی سیرت، عمر اور مرتبے کا بطور خاص خیال رکھا ہے۔ میر انیس کے کلام کی ایک بڑی خصوصیت ان کی فصاحت و بلاعزت ہے۔انھوں نے اردو شعرامیں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مگر ان کے ہاں غیر فصیح الفاظ کا ملنا مشکل ہے اور یہی وہ خصوصیت ہے جو ان کو تمام دوسرے مرثیہ گو شعرا سے منفرد کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بیان کا حسن اور طرزادا کی خوبی بھی موجود ہے۔

میر انیس کے مرثیہ میں تشبیہات اور استعارات

میر انیس نے تشبیہات اور استعارات کے نہایت دلکش نقش و نگار بنائے ہیں اور عجب خوشنما رنگ بھرے ہیں۔ بقول شبلی "اگر تکلف و تصنع سے کام نہ لیا جاۓ تو تشبیہات و استعارات حسن کلام کا زیور بن جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں صنائع بدائع بھی کثرت سے پاۓ جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی فطری خصوصیت یعنی حسن مذاق، اطافت تخیل، موزونیت طبع اور معیار کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جدت و ندرت کے ساتھ بے تکلفی اور آمد پائی جاتی ہے۔

’’یوں برچھیاں تھیں چاروں طرف اس جناب کے

جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتاب کے‘‘

’’پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی

ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی‘‘

’’یوں روح کے طائر تن و سر چھوڑ کے بھاگے

جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے‘‘

میر انیس کے مرثیہ میں صنعت، روز مرہ اور محاورہ کا استعمال

میر انیس کے مرثیوں میں صنعت، روز مرہ اور محاورہ کا استعمال بھی خوب ہے۔ ان کو خود اپنے روز مرہ و محاورہ پر ناز تھا۔ انھوں نے اردو کو موقع و محل کے مطابق عوامی بنانے کی کوشش کی ہے۔ان کے مرثیوں میں بعض اوقات مقامی الفاظ اس خوبصورتی سے سماجاتے ہیں کہ قاری ان کی مرصع سازی اور نگینہ سازی پر متحیر و ششدر ہو جاتا ہے۔

میر انیس کے مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت

میر انیس کے مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت، غزل کا تغزل، مثنوی کا تسلسل، واقعہ نگاری و منظر نگاری اور رباعی کی بلاعت سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے مرثیوں میں جس طرح فنی مہارت، بلندی تخیل اور مضمون آفرینی کی مثالیں ملتی ہیں کسی دیگر مرثیہ گو کے یہاں یہ مشکل سے ملے گی۔ ان کے مرثیوں میں مبالغہ بھی ہے اور تکلف و تصنع بھی، لیکن اعتدال و توازن کا دامن کہیں نہیں چھوڑا ہے اور دوسری بات یہ کہ ان کی شعری خوبیوں نے ان سب پر ایسا پر دو والا ہے کہ یہ عیب کی جگہ حسن بن گئی ہیں۔ان کی شاعری جذ بات حقیقی کا آئینہ دار اور نیچرل شاعری کا کامل نمونہ ہے۔

میر انیس کے مرثیوں نے اردو زبان کا دامن وسیع کیا

میر انیس کے مرثیوں نے اردو زبان کا دامن وسیع کیا ہے۔ اردو شاعری میں ابھی تک کسی نے اتنے الفاظ و محاورات استعمال نہیں کیے جتنے انھوں نے کیے ہیں۔انیس نے مرثیہ میں رزمیہ کی شان پیدا کی اور اس صنف کو ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ ابھی تک اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکا۔

احسن فاروقی کی پیدائش 24نومبر 1913ء میں لکھؤ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد حسن خاں تھا انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1929ء میں لکھنؤ ہی سے میٹرک پاس کیا۔ کرشچن کالج سے ایف اے ہوئے اور بی اے 1933ء میں جامعہ لکھنؤ سے کیا۔ 1935ء میں انگریزی میں ایم اے ہوئے۔ اس کے بعد فلسفے میں بھی ایم اے پاس کیا۔ 1964ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری انگریزی میں حاصل کی۔ ڈاکٹر احسن فاروقی اردو فارسی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں کے واقف کار سمجھے جاتے تھے۔ عربی میں بھی اچھی استعداد رکھتے تھے۔

احسن فاروقی 1956ء میں کراچی آگئے اور مختلف جامعات سے وابستہ رہے خصوصاً کراچی اور سندھ میں سکھر اسلامیہ کالج کے شعبہ انگریزی کے صدر بھی رہے اور یہی پوزیشن بلوچستان کی یونیورسٹی میں رہی۔ فاروقی کی کئی حیثیتیں ہیں۔ انہوں نے ناول بھی لکھے ہیں، ناول کی تاریخی تنقید بھی نیز بعض شعروادب اور اصناف پر بھی نگاہ ڈالی۔ ان کے اکثر مضامین ’’سیپ‘‘ کراچی میں شائع ہوتے رہے۔

فاروقی یوں تو ساری زندگی تعلیم و تعلم سے وابستہ رہے لیکن ہمیشہ تصنیف وتالیف میں گہری دلچسپی لیتے رہے اس لئے ان کی کتابوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن یہ بات میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ واقعتاً تعداد کیا ہے لیکن اتنا اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ احسن فاروقی تخلیقی اور تنقیدی کام سے کبھی غافل نہیں رہے انہیں صحافت سے بھی تعلق رہا تھا اور سبھی جانتے ہیں کہ ایک زمانے تک وہ ’’نیادور‘‘ کراچی کے ادارتی شعبہ سے منسلک رہے۔ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ موصوف نے 1938ء میں میر انیس کی مرثیہ نگاری پر ایک گراں قدر مقالہ سپردقلم کیا تھا۔ شاید یہی مقالہ ادبی حلقوں میں ابتدا میں ان کی شناخت کا باعث بنا۔ اس سال ان کا ناول ’’شام اودھ‘‘ شائع ہوا جس کی بیحد پذیرائی ہوئی۔ ’’شام اودھ‘‘ میں ایک نواب صاحب مرکزی حیثیت رکھتے ہیں لیکن عام طور سے جس طرح نواب ہوا کرتے ہیں وہ کردار یہاں نہیں ملتا بلکہ جو پس منظر اور واقعات پیش کئے گئے ہیں وہ نواب صاحب کی شخصیت کو مثبت ہی بناتے ہیں۔ یہ ناول تو مشہور ہوا ہی ان کی دوسری کتاب ’’اردو ناول کی تنقیدی تاریخ‘‘ آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔ اپنے وقت میں اس کی اور بھی اہمیت رہی ہوگی لیکن تب سے اب تک ناول اور خصوصاً اردو ناول نے معیار کی اچھی خاصی مسافت طے کی ہے اس لئے اس کے بعض مباحث ترمیم چاہتے ہیں۔ پھر بھی اس کتاب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ’’فانی اور ان کی شاعری‘‘ بھی ان کی ایک اچھی کتاب ہے جو اتنی مشہور تو نہیں ہوئی لیکن فانی کی تفہیم میں یہ کتاب آج بھی معاون ہے۔ انہوں نے تاریخ ادب انگریزی بھی قلمبند کی، یہ مختصر ہے۔ اس کے باوجود اس کے محتویات قابل مطالعہ ہیں۔ خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو براہ راست انگریزی ادب کا مطالعہ نہیں کرسکتے ان کے لئے یہ کتاب تحفے سے کم نہیں ہے۔

احسن فاروقی نے قرۃ العین حیدر پر خصوصی توجہ کی۔ یوں تو انہوں نے کوئی مستقل کتاب اس باب میں نہیں لکھی لیکن ’’آگ کا دریا‘‘ پر ان کا مضمون بیحد اہم ہے اور اس کے کئی گوشے پر اچھی روشنی ڈالتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ احسن فاروقی کی ادبی کاوشیں ایسی ہیں کہ انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ان کی بعض کتابیں ایک عرصے کے بعد بھی زندہ ہیں اور آج بھی خاص طور پر طالب علموں کی رہنمائی کررہی ہیں۔ خواص بھی انہیں اپنے مطالعے میں رکھتے ہیں۔احسن فاروقی کی وفات 28 فروری 1978ء کو ہوئی۔