وہابیت کا تنقیدی جائزہ

وہابیت کا تنقیدی جائزہ

وہابیت کا تنقیدی جائزہ

Publish number :

1

Publication year :

2014

Publish location :

لاہور پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

وہابیت کا تنقیدی جائزہ

وہابیت اہل سنت کے ایک فرقے کا نام ہے جو بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب میں محمد بن عبدالوہاب کے ذریعے وجود میں آیا۔ اس فرقے کے پیروکاروں کو وہابی کہا جاتا ہے۔ وہابی فروع دین میں احمد بن حنبل‌‌ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی حصے میں مقیم ہیں۔ اس فرقے کے مشہور مذہبی پیشواؤں میں ابن ‎تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب قابل ذکر ہیں۔

وہابی قرآن اور سنت میں تأویل کی بجائے آیات اور روایات کے ظاہر پر عمل کرنے کے معتقد ہیں۔ اس بنا پر وہ بعض آیات و روایات کے ظاہر پر استناد کرتے ہیں اور خدائے متعال کے اعضا و جوارح کے قائل ہوتے ہوئے ایک طرح سے تشبیہ اور تجسیم کے معتقد ہیں۔

وہابی اعتقادات کے مطابق اہل قبور حتی پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین کی زیارت، ان کے قبور کی تعمیر؛ ان پر مقبرہ یا گنبد بنانا، ان ہستیوں سے متوسل ہونا اور ان قبور سے تبرک حاصل کرنا حرام ہے۔ وہابی مذکورہ تمام اعمال کو بدعت اور موجب شرک سمجھتے ہیں اسی بنا پر سعودی عرب پر مسلط ہونے کے بعد وہابیوں نے تمام اسلامی مقدسات بطور خاص شیعہ مقدس مقامات کو منہدم کرنا شروع کیا، انہدام جنت البقیع اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں ائمہ بقیع کے علاوہ کئی دوسرے بزرگ صحابیوں اور صحابیات کے مزار کو سنہ 1344 ھ میں وہابیوں نے منہدم کر دیا۔

نجد کے ایک قبیلے کا سردار محمد بن سعود جو درعیہ کا حاکم تھا، نے محمد بن عبدالوہاب کے نظریات کو قبول کرتے ہوئے اس کے ساتھ عہد و پیمان باندھا جس کے نتیجے میں انہوں نے سنہ 1157 ھ میں نجد اور اس کے گرد و نواح پر قبضہ کرتے ہوئے ان نظریات کو پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلانا شروع کر دیا۔ ریاض کو فتح کرنے کے بعد اسے دارالخلافہ قرار دیا جو ابھی بھی سعودی شاہی حکومت کا دارالخلافہ ہے۔ موجودہ دور میں سعودی عرب کا سرکاری مذہب وہابیت ہے جہاں اس فرقے کے علماء کے فتووں پر حکومتی سربراہی میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

یہ ایک نیا فرقہ ہے جو ۱۲۰۹ھ؁ میں پیدا ہوا، اِس مذہب کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی تھا، جس نے تمام عرب، خصوصاً حرمین شریفین میں بہت شدید فتنے پھیلائے، علما کو قتل کیا، صحابۂ کرام و ائمہ و علما و شہدا کی قبریں کھود ڈالیں ، روضۂ انور کا نام معاذاﷲ ’’صنمِ اکبر‘‘ رکھا تھا یعنی بڑا بت، اور طرح طرح کے ظلم کیے جیسا کہ صحیح حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ’’ نجد سے فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا گروہ نکلے گا‘ وہ گروہ بارہ سو برس بعدیہ ظاہر ہوا۔ علامہ شامی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اِسے خارجی بتایا۔ اِس عبدالوہاب کے بیٹے نے ایک کتاب لکھی جس کا نام کتاب التوحید‘‘ رکھا ، اُس کا ترجمہ ہندوستان میں ’’اسماعیل دہلوی‘‘ نے کیا، جس کا نام’’تقویۃ الایمان‘‘ رکھا اور ہندوستان میں اسی نے وہابیت پھیلائی۔

اِن وہابیہ کا ایک بہت بڑا عقیدہ یہ ہے کہ جو اِن کے مذہب پر نہ ہو، وہ کافر مشرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بات بات پر محض بلاوجہ مسلمانوں پر حکمِ شرک و کفرلگایا کرتے اور تمام دنیا کو مشرک بتاتے ہیں ۔ چنانچہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ صفحہ ۴۵ میں وہ حدیث لکھ کر کہ ’’آخر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی۔‘‘  اِس کے بعد صاف لکھ دیا: ’’سو پیغمبرِ خدا کے فرمانے کے موافق ہوا‘‘، یعنی وہ ہوا چل گئی اور کوئی مسلمان روئے زمین پر نہ رہا ، مگر یہ نہ سمجھا کہ اس صورت میں خود بھی تو کافر ہوگیا۔

اس کتاب میں اسی وہابی فرقے کے عقائد و نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔