اسلامی تصورِ جہاد، چند غلط فہمیوں کا ازالہ
اسلامی تصورِ جہاد، چند غلط فہمیوں کا ازالہ
Author :
محمد افضل قادری
0 Vote
231 View
اسلامی فلسفہ جہاد میں جہاد کا مقصد نہ تو مال غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی کشور کشائی ہے۔جس طرح توسیع پسندانہ عزائم اور ہوس ملک گیری کا کوئی تعلق اسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں ہے اسی طرح جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بھی جہاد سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس وقت جہاں ایک طرف غیر مسلم مفکرین اور ذرائع ابلاغ نے اسلامی تصورِ جہاد کو بری طرح مجروح کیا، وہاں دوسری طرف بعض دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں نے بھی لفظِ جہاد کو اپنی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عنوان بنا کر اسلام کو دنیا بھر میں بد نام کرنے اور اسلامی تعلیمات کے پرامن چہرے کو مسخ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ اسلام کے تصور جہاد کو اس کے حقیقی معنی کے مطابق پیش کیا جائے تاکہ جہاد بارے پھیلائی گئی غلط فہمی سے اسلامی تعلیمات کے پرامن چہرے کو داغدار کرنے کی مکروہ سازش و کاوش کا سدِّباب کیا جاسکے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہمیشہ علمی، فکری، دعوتی اور تربیتی محاذوں پر ایسی ہر غلط فہمی کا قلع قمع کیا خصوصاً تصورِ جہاد کے بارے میں انہوں نے پوری دنیا میں ایک معیاری اور معتدل سوچ پیش کی ہے۔ ذیل میں جہاد کے حقیقی معنی کی روشنی میں شیخ الاسلام کے بیان کردہ چیدہ چیدہ نکات قارئین کی نذر کررہے ہیں: شیخ الاسلام مسائل حیات کو مقلدانہ کے بجائے مجتہدانہ اور فقیہانہ انداز میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے جہاد جیسے اہم اور نازک مسئلے کو ایسے حکیمانہ اور عالمانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ اسلام پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات ختم ہوجاتے ہیں۔ شیخ الاسلام تصور جہاد کی مقصدیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اِسلام کی آفاقی اور ہمہ جہت تعلیمات کا دائرہ کار انسانی زندگی کے اِنفرادی اور اِجتماعی، ہر شعبہِ حیات کو محیط ہے۔ اِن تعلیمات کا مقصود ایک متحرک، مربوط اور پُراَمن انسانی معاشرے کا قیام ہے۔ اسلام نے اجتماعی اور ریاستی سطح پر قیام امن(Establishment of peace)، نفاذِ عدل (Enforcement of justice)، حقوقِ انسانی کی بحالی(Restoration of human rights) اور ظلم و عدوان کے خاتمہ کے لیے جہاد کا تصور عطا کیا ہے۔ جہاد دراصل انفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی تک کی اِصلاح کے لیے عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے‘‘۔ مغرب میں جہاد کی غلط تشریح بعض مسلم ممالک اور عالم مغرب میں تصور جہاد کو غلط طریقے سے پیش کرنے کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں کہ ’’بدقسمتی سے دنیا کے مختلف حصوں میں اِسلام اور جہاد کے نام پر ہونے والی انتہاپسندانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمِ اسلام اور عالم مغرب میں آج تصورِ جہاد کو غلط انداز میں سمجھا اور پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کاتصور ذہن میں آتے ہی خون ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے فی زمانہ جہاد کے نظریے کو نظریہ امن اور نظریہ عدم تشدد کا متضاد سمجھا جارہا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب لفظِ جہاد کو قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اَساسی اور بنیادی طورپر جہاد ایک ایسی پراَمن، تعمیری، اخلاقی اور روحانی جدوجہد (Ethical & spiritual striving) ہے جو حق و صداقت اور انسانیت کی فلاح کے لیے بپا کی جاتی ہے۔ ابتداءً اس جدوجہد کا جنگی معرکہ آرائی اور مسلح ٹکرائو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ جدوجہد اُصولی بنیادوں پر صرف ایسے ماحول کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر شخص کا ضمیر، زبان اور قلم اپنا پیغام دلوں تک پہنچانے میں آزاد ہو۔ معاشرے میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ انسانی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوں۔ ظلم و استحصال اور استبداد کی کوئی گنجائش نہ ہو اور دنیا کے تمام ممالک پر امن بقائے باہمی کے رشتے میں منسلک ہوں۔ لیکن جب اَمن دشمن طاقتیں علم و عقل کی رہنمائی سے محروم ہوکر مقابلہ پر آجائیں اور اجتماعی اَمن و سکون اور نظم و نسق کے خلاف تباہ کن سازشیں اور علی الاعلان جنگی تدابیرکرنے لگیں تو ایسے وقت میں جہاد کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ امن وسلامتی کے دشمنوں اور ان کے تمام جنگی مرکزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے تاکہ امن و آشتی کے ماحول کو بحال(restoration of peace) اور خیر و فلاح پر مبنی معاشرہ قائم کیا جا سکے‘‘۔ لفظِ جہاد ایک کثیر المعانی لفظ ہے جس کے لغوی معنی سخت محنت و مشقت(Extreme effort & hard work)،طاقت و استطاعت، کوشش اور جدوجہد کے ہیں۔ امام ا بن فارس(م 395ھ) لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جهد الجيم والهاء والدال اصله المشقة، ثم يُحْمَلُ عليه ما يُقَارِبُه. ’’لفظِ جہد (جیم، ھاء اور دال) کے معنی اصلاً سخت محنت و مشقت کے ہیں پھر اس کا اطلاق اس کے قریب المعنی الفاظ پر بھی کیا جاتاہے۔‘‘ (ابن فارس، معجم مقاييس اللغة: 210) اس تعریف کی روشنی میں جہاد کا مفہوم یہ ہو گا کہ کسی بھی امرِخیر کی جدوجہد جس میں اِنتہائی طاقت اور قوت صرف کی جائے اور حصولِ مقصد کے لئے ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کی جائے، جہاد کہلاتی ہے‘‘۔ اسلام میں جہادی تصور کی وسعت اسلام نے اصلاح احوال اور دفاعی جنگ کے لئے جہاد کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟ اس حوالے سے شیخ الاسلام فرماتے ہیں: ’’عربی لغت کے مطابق سرزمین عرب میں جنگ کے لئے جو سیکڑوں تراکیب محاورے، علامتیں، استعارے اور اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں اِن سب سے بلاشبہ وحشیانہ پن اور دہشت گردی کا تاثر اُبھرتا تھا۔ عسکری لڑیچر کی اصلاح کے لئے اسلام نے ان تمام الفاظ اور محاوروں کو ترک کرکے اصلاحِ احوال کی جدوجہد کی طرح دفاعی جنگ کو بھی ’’جہاد‘‘ کا عنوان دیا۔ یعنی اسلامی نکتہِ نظر سے لفظِ جہاد کا اِطلاق اَعلیٰ و اَرفع مقاصد کے حصول، قیام امن، فتنہ فساد کے خاتمہ اور ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کو مٹانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے پر ہوتا ہے۔ ایک مسلمان ساری زندگی جھوٹ، منافقت، دجل، فریب اور جہالت کے خاتمہ کے لئے اِبلیسی قوتوں سے مصروف جہاد رہتا ہے۔ لفظِ جہاد کے حقیقی معنی سے لوٹ مار، غیظ و غضب، قتل و غار تگری کی بو تک نہیں آتی بلکہ اس کا معنی پاکیزہ، اعلیٰ وارفع مقاصد کے حصول کی کاوشوں پر دلالت کرتاہے۔ ایک مہذب، شائستہ اور بلند عزائم رکھنے والی صلح جو اورامن پسند قوم کی اِنقلابی جدوجہد اور مسلسل کاوشوں کے مفہوم کی تعبیر کے لئے لفظِ جہاد سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہیں ہو سکتا۔ جہاد اپنے وسیع تر معانی میں وقتی یا ہنگامی عمل نہیں بلکہ مہد سے لے کر لحد تک مردِ مومن کی پوری زندگی پر محیط ایک جامع تصور ہے۔ لہذا وہ لمحہ جو احترام آدمیت اور خدمت انسانیت کے اس جذبہ سے خالی ہے، اسلام کے لئے قابل قبول نہیں‘‘۔ ائمہ لغت اور مفسرین کی آراء کی روشنی میں جہاد کی شرعی تعریف کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں: ’’شرعی اِصطلاح میں جہاد کا معنی اپنی تمام تر جسمانی، ذہنی، مالی اور جانی صلاحیتوں کو اللہ کی رضا کی خاطر وقف کر دینا ہے۔ گویا بندے کا اپنی تمام ظاہری و باطنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اَعلی و اَرفع مقاصد کے حصول کے لیے اللہ کی راہ میں صرف کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے۔تصور کی وضاحت کے لیے اس حوالے سے چند ائمہ کی مزید تصریحات ملاحظہ ہوں‘‘۔ 1۔ امام جرجانی(740۔816 )کے نزدیک جہاد کی تعریف درج ذیل ہے: هو الدعاء إلی الدين الحق. (جرجانی، کتاب التعريفات: 112) ’’جہاد دین حق کی طرف دعوت دینے سے عبارت ہے ۔‘‘ 2۔ امام محمود آلوسی البغدادی(1270ھ) تفسیر روح المعانی میں لفظِ جہاد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: إِنَّ الْجِهَادَ بَذْلُ الْجُهْدِ فِی دَفْعِ مَا لَا يُرْضَی. (آلوسی، روح المعانی ، 10: 137) ’’کسی ناپسندیدہ (ضرر رساں) شے کو دور کرنے کے لئے کوشش کرنے کا نام جہاد ہے۔‘‘ جہاد کا ترجمہ جنگ و جدال یا holy war کرنا درست نہیں لفظ جہاد کا ترجمہ جنگ و جدال اور لڑائی وغیرہ کرنا درست نہیں ہے کیونکہ جنگ کے لئے قرآن و حدیث میں لفظ جہاد نہیں بلکہ لفظ ’’حرب‘‘ اور ’’قتال‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے شیخ الاسلام فرماتے ہیں: ’’قرآن و حدیث کی روشنی میں لفظِ جہاد کے معنی ومفہوم اور اس کے اِطلاقات (Applications) کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظِ جہاد کا ترجمہ محض جنگ و جدال اور war یا holy war کرنا درست نہیں ہے۔ لفظِ جہاد کا اطلاق مسیحی اور بعض مسلمان محققین نے کفار کے ساتھ خصومت، لڑائی یا جنگ و جدل کے لئے کیا ہے۔ حالانکہ لڑائی، قتال، خصومت یا جنگ کے یہ معنی نہ تو قدیم عربی زبان میں پائے جاتے ہیں، نہ علمائے ادب کے نزدیک درست ہیں اور نہ ہی قرآن میں کبھی اس مفہوم پر اس کا اطلاق ہوا ہے۔ کیونکہ عربی لغت میں جنگ و جدل کے لئے حرب و قتال کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔جنگ و جدال کے لئے لفظِ ’’حرب‘‘ قرآن مجید میں درج ذیل مقامات پر بیان ہوا: البقرہ، 2: 279 المائدہ، 5: 64 الانفال، 8: 57 محمد، 47:4 اسی طرح لفظِ ’’قتال‘‘ درج ذیل مقامات پر جنگ و جدال کے لئے استعمال ہوا ہے: التوبۃ، 9: 5 البقرۃ، 2: 217 النساء، 4: 77 مغرب میں لفظ جہاد کا غلط انطباق لفظ جہاد کو جنگ اور قتال کے معنی میں عام کرنے میں انگریزی لغات کے کردار بارے شیخ الاسلام فرماتے ہیں: ’’جہاد کے اس غلط مفہوم کو عام کرنے میں انگریزی لغات کا بہت عمل دخل ہے۔ لفظِ جہاد کے لغوی معنی میں، اس کے اصطلاحی مفہوم میں اور قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس کے اندر war یا holy war کا معنی نہیں پایا جاتا۔ تاریخی حقائق البتہ اس امر پر شاہد ہیں کہ خود یورپ کے بادشاہوں نے عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دینے اور چرچ کو جنگ میں شریک کرنے کے لیے holy war کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی اور بعد کے لٹریچر میں یہی معنی بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے جہاد کے ترجمہ کے طور پر مروج ہوگیا۔ اس اصطلاح کو اختراع کرنے کا مقصد مذہبی طبقات کے جذبات کو مہمیز دے کر انہیں جنگ میں شریک کرنا تھا‘‘۔ دہشت گرد اسلامی اصطلاحات کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر غلط معانی میں استعمال کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں: ’’انتہاپسندوں اور دہشت گردوں نے قرآن و حدیث کے بعض الفاظ اور اصطلاحات کو hijack کر رکھا ہے۔ وہ قرآن کریم کی چند آیات اور بعض احادیث مبارکہ کو ان کے شان نزول اور سیاق و سباق سے کاٹ کر انتہاپسندانہ اور دہشت گردانہ تشریح و تعبیر اور غلط انطباق(Application) کرتے ہیں۔ یہ لوگ جہالت اور خود غرضی کے پیش نظر جہاد، شہادت، خلافت، دارالحرب اور دارالاسلام جیسی اصطلاحات کو بے محل استعمال کرکے عام مسلمانوں اور خصوصاً نوجوانوں(muslim youth) کو گمراہ کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرآن و حدیث میں ہے۔ حالانکہ یہ اسلام پر بہت بڑا اِلزام ہے۔ اُن کے اِس خطرناک نظریے کا قرآن، حدیث اور اسلام کی بنیادی تعلیمات اور مستند و معتبر تشریحات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ وہ اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لیے اسلام، دین، جہاد، شہادت اور نفاذ شریعت جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کو متاثر کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ پروگرام نہیں ہوتا لہٰذا وہ قرآن، حدیث، اسلام اور شریعت جیسی اصطلاحات استعمال کرکے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور اپنے خود ساختہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ مکی آیاتِ جہاد سے مفہومِ جہاد کی وضاحت اگر لفظ جہاد کا معنی جنگ اور قتال ہی ہوتا تو پھر مکہ میں نازل ہونے والی آیات جہاد کے نزول کے بعد صحابہ نے مشرکین کے خلاف مسلح جدوجہد کیوں نہیں کی؟ شیخ الاسلام مکہ میں نازل ہونے والی آیات جہاد سے بصیرت افروز استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جہاد کے اس جامع اور وسیع مفہوم کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاد کا حکم سب سے پہلے شہرِ مکہ میں اُس وقت نازل ہوا جب کہ ابھی جہاد بالسیف کی اجازت بھی نہیں ملی تھی۔ صحابہ پر جبر و تشدد کے پہاڑ ڈھائے جاتے مگر انہیں اپنے دفاع اور اپنی جان بچانے کے لیے بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں اس وقت تک صبر کرنے کی تلقین کی گئی جب تک اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے نجات کی سبیل پیدا نہ فرما دی۔ اس ممانعت کے باوجود جہاد کے متعلق پانچ آیات مکہ میں نازل ہوئیں۔ وہ لوگ جنہیں اس بارے میں فکری واضحیت نہیں اور وہ ذہنی الجھن کا شکارہیں، مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مغربی دنیا کے رہنے والے ہوں یا مشرقی ممالک کے، ان سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر جہاد کا معنی قتال اور مسلح تصادم (Armed conflict) ہی ہوتا تو مکہ میں نازل ہونے والی درج ذیل آیات کی کیا توجیہ ہو گی جن میں وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا کَبِيْرًا فرما کر صراحتاً ’’جہاد‘‘ کا حکم دیا گیا ہے۔یہ آیات ہجرت سے پہلے مکی دور میں نازل ہوئیں جب اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کی سختی سے ممانعت تھی اور کسی لڑائی یا مزاحمت کی اجازت نہ تھی اور نہ اس دور میں مسلمانوں نے عملاً کوئی جنگ لڑی۔ اگر جہاد کا معنی لڑنا ہی ہوتا تو صحابہ کرام یقیناً ہتھیار اٹھاتے اور اپنی حفاظت اور دفاع میں کفار و مشرکین مکہ کے خلاف مسلح جنگ لڑتے۔ لیکن ان میں سے کسی کو اس کی اجازت نہ تھی جبکہ جہاد کے لئے پانچ آیات بھی نازل ہو چکی تھیں۔ اس کا درست جواب یہ ہے کہ قرآن کی رو سے جہاد کے لیے مسلح تصادم اور کشمکش کا ہونا ضروری نہیں ہے کیوں کہ اگر ہر حکمِ جہاد کے لیے مسلح تصادم ناگزیر ہوتا تو مکہ میں لفظ جہاد پر مشتمل پانچ آیات کے نزول کے بعد دفاعی مسلح جنگ کی اجازت مل چکی ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظ جہاد کے مسلح لڑائی کے علاوہ کئی اور معانی و مفاہیم بھی ہیں جو کہ مکہ میں نازل ہونے والی درج ذیل آیات سے واضح ہوتے ہیں: فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا کَبِيْرًاo (الفرقان، 25: 52) ’’پس (اے مردِ مومن) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس (قرآن کی دعوت اور دلائل) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کر‘‘ اس آیت میں بڑے جہاد سے مراد علم وشعور کے پھیلاؤ میں جدو جہد (Jihad of spreading knowledge) ہے۔ وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِط اِنَّ اﷲَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِيْنَo (العنکبوت، 29: 6) ’’جو شخص (راہِ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے تگ و دو کرتا ہے، بے شک اللہ تمام جہانوں (کی طاعتوں، کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہےo‘‘ یہاں پر جہاد سے مراد روحانی ترقی (Jihad for spirtual uplift) ہے وَاِنْ جَاهَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَـلَا تُطِعْهُمَا. (العنکبوت، 29: 8) ’’اور اگر وہ تجھ پر(یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر۔‘‘ سورہ عنکبوت کی اس آیت میں جہاد سے مراد کسی بھی قسم کی دانشورانہ اور مدبرانہ جدوجہد (intellectual effort) ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ط وَاِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَo (العنکبوت، 29: 69) ’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہےo‘‘ مکہ میں نازل ہونے والی اس آیت مبارکہ سے مراد اخلاقی و روحانی اقدار کے احیاء اور تحفظ کے لیے جدوجہد (Jihad for spirtual & Ethical values) ہے۔ وَاِنْ جَاهَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌلا فَـلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا. ’’اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔‘‘ (لقمان، 31: 15) اس آیت مقدسہ میں بھی Convincing & intellectual effort کی طرف اشارہ ہے۔ مذکورہ پانچوں آیات ہجرت سے قبل مکہ میں نازل ہوئیں مگر حکم جہاد کے باوجود صحابہ کو اپنے دفاع میں بھی اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر جہاد کا معنی مسلح جنگ یا آہنی اسلحہ کے ساتھ قتال ہی ہوتا تو مذکورہ آیات کے نزول کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد بالسیف کا حکم فرما دیتے اور صحابہ کرام جہاد بالسیف کرتے، حالانکہ اِس اَمر پر سب کا اتفاق ہے کہ جہاد بالقتال کی اِجازت ہجرت کے بعد مدینہ میں جا کر ملی۔ کیوں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جہاد کا ہرگز معنی صرف قتال، جنگ یا لڑائی نہیں ہے۔ ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں کہ یہ تو انتہاپسندوں اور دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قرآن و حدیث کے بعض الفاظ اور اصطلاحات کو hijack کر رکھا ہے اور وہ قتل و غارت گری، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو جہاد کا نام دیتے ہیں۔ مکی دور میں جن پانچ آیات میں جہاد کی تلقین کی گئی ہے، اگر آپ ان کے شان نزول، تاریخی پس منظر اور سیاق و سباق(text,context & historical background) پر غور کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ جہاد کا معنی محض یہ نہیں ہے کہ تلوار پکڑ کر لڑائی اور جنگ شروع کر دی جائے بلکہ جہاد کے کئی دیگر تقاضے بھی ہیں۔ ان تمام آیات میں جہاد کا معنی علم کی ترویج، روحانی ارتقائ، فکری جدوجہد اور اِنفاق و خیرات ہے۔ ہاں البتہ جب جارحیت کی جنگ آپ پر مسلط کر دی جائے تب آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی حفاظت اور دفاع کی جنگ لڑیں۔ دفاعی جنگ وہ لڑائی ہے جس کی UN اور بین الاقوامی قانون بھی اجازت دیتا ہے اور اس کا حق دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کو حاصل ہے‘‘۔ عصر حاضر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی حکمت عملی سے راہنمائی اسلام کا مقصود تکریم انسانی اور امن و آشتی کی بحالی ہے، مسلح تصادم نہیں۔ اسلام حتی الوسع صلح جوئی سے کام لیتا ہے۔ کن حالات اور احوال و ظروف میں مسلح اقدام کرنا ہے اور کن میں نہیں؟ اس حوالے سے شیخ الاسلام فرماتے ہیں: ’’مکہ میں صحابہ ث کو تمام تر جبر و تشدد، وحشت و بربریت اور ظلم و زیادتی کے باوجود بھی اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مسلمانان مکہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ مسلح تصادم (Armed conflict) کے ذریعے اپنا دفاع کر سکتے۔ بلکہ اگر وہ مسلح تصادم کا راستہ اختیار کرتے تو چند لوگوں کو کفار مکہ کے لیے شہادت سے ہمکنار کرنا کیا مشکل تھا مگر اسلام کی وہ عالمگیر دعوت جسے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوتے تھے اور جسے پوری دنیا میں پھیلنا تھا اس کے امکانات خاصی حد تک معدوم ہو جاتے۔ اس لیے کمزور مسلمانوں کو تاکید کے ساتھ طاقتور دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے روک دیا گیا۔ فوجی قوت کے استعمال اور عدمِ استعمال کا شرعی پیمانہ بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ فوجی قوت و طاقت اور عسکری حوالے سے (militarily) ہم کس مقام پر ہیں یعنی ہم اپنا دفاع کرنے میں مکی دور کے زیادہ قریب ہیں یا مدنی دور کے۔ اس حوالے سے یاد رکھیں کہ شرعی قوانین کا اطلاق ہماری موجودہ حالت کی مماثلت کے اعتبار سے ہو گا کہ وہ عہد نبوی کے مکی دور کے زیادہ قریب ہے یا کہ مدنی دور کے۔پس اگر ہماری عسکری قوت مکی دور کی طرح کی ہے تو ہمیں کبھی بھی مدنی دور کی طرح کا اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قتال کی مشروط اجازت مدینہ میں جا کر ملی ہے نہ کہ مکہ میں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مکہ میں جہاد کی اجازت تو تھی مگر قتال کی نہیں، یہی وجہ ہے کہ مکہ میں جہاد کی آیات تو نازل ہوئیں مگر قتال کی نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی دور کی عسکری حکمت عملی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی اسلامی ریاست اپنے کسی دشمن کا بھر پور عسکری مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لڑائی چھیڑ کر اپنا نقصان نہ کرے۔ وہ مکی دور کی حکمت و مصالح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے مقابلہ میں اپنے آپ کو سیاسی، اقتصادی، فوجی اور اسلحہ الغرض ہر حوالے سے مضبوط کرے۔ مکہ میں اگرچہ پانچ آیات جہاد نازل ہو چکی تھیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان آیات کا اطلاق حرب و قتال اور جہاد بالسیف کی بجائے جہد مسلسل، ریاضت و مجاہدہ اور تعلیم و تعلم پر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی افرادی قوتوں اور صلاحیتوں کو مسلح تصادم میں جھونکنے کی بجائے انہیں اور مضبوط کیا اور ایک عظیم مقصد کے لیے محفوظ کیا۔ اس نبوی حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد جب مسلمانوں کا ریاست مکہ کے ساتھ پہلا ٹکرائو ہوا تو مکہ میں محفوظ کی گئی افرادی اور جذباتی صلاحیتوں کو مسلمانوں نے بھر پور استعمال کیا اور شاندار فتح حاصل کی‘‘۔ تصادم سے بچنے اور امن کی تلاش کے لیے ہجرت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد بعثت رشد و ہدایت تھا، گردن زنی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے ظلم و ستم کی انتہا کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی مسلح اقدام کی بجائے اعراض کا راستہ اختیار کیا اور ٹکرائو کی بجائے امن کی تلاش میں پہلے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت فرماگئے۔ شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ: ’’اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکی دورکے سماجی و معاشرتی رویوں پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظلم و جارحیت کے مقابلے میں عفو و درگزر کی پالیسی اختیار کی۔ جب مسلمانانِ مکہ پر وحشت و بربریت اور ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی اقدام کی بجائے مسلمانوں کو حبشہ (Abyssinia) کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ عہد نبوی کے قبائلی اور جنگی کلچر میں جب ہر قبیلہ ہمہ وقت جنگ کرنے کے لیے تیار رہتا تھا، ہجرت مدینہ کے بعد تا دمِ وصال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مجموعی طور پر تقریباً 60 تا 80 چھوٹی بڑی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام جنگوں میں ایک جنگ بھی جارحیت، حملہ آوری اور آگے بڑھ کر دشمن پر حملہ کرنے کی صورت میں نہیں ہوئی۔ یہ تمام کی تمام جنگیں مدافعانہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ایک یا دو preemptive defensive warrs لڑیں، ایک اُس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باوثوق ذرائع سے پختہ یقین ہو گیا کہ خیبر کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہونے والے ہیں اور دوسری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری سال جب آپ کو اطلاع دی گئی کہ شامی افواج مدینہ کی سرحد پر جمع ہو رہی ہیں، ان دو مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش بندی کے طور پر مدافعانہ حکمت عملی اختیار کی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات طیبہ میں ہمیشہ دفاعی حکمت عملی اپنائی اور کبھی کسی پر پہلے حملہ نہیں کیا‘‘۔ جس طرح پہلے ذکر کیا گیا کہ جہاد جیسے اہم ایشو کا تعلق احوال و ظروف، معروضی حالات اور سیاسی و معاشرتی تغیر و تبدلات کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ اسے کوئی دانا و بینا اور مدبر و حکیم شخص ہی سمجھ سکتا ہے۔ شیخ الاسلام کی اجتہادی بصیرت، بلند فکری اور فقہی تدبر ہی سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ اس نازک اور اہم مسئلے پر اپنے افکار و خیالات کا اظہار کریں۔ اس مختصر مضمون میں شیخ الاسلام کے جہاد کے حوالے سے صرف بنیادی تصورات کو بیان کیا گیا ہے۔ جہاد سے متعلق دیگر تفصیلات مثلاً جہاد کی اقسام، اسلامی قانون کے مطابق ممالک کی تقسیم(دار الاسلام، دار الصلح اور دار الحرب وغیرہ)، قتال(defensive war) کی شرائط ، فرضیتِ جہاد کے تدریجی مراحل، مدافعانہ جہاد اور اس کا تاریخی پس منظر ، مقاصد جہاد، شرائط و آدابِ جہاد، جہاد کے نام پر فساد، جہاد کے نام پر فساد برپا کرنے والوں کی علامات وغیرہ کیلئے شیخ الاسلام کی مایہ ناز تصنیف ’’کتاب الجہاد‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔