امام علیہ السلام کی احتیاج

وہ لوگ جو اعتقادی مسائل میں گہری فکر کے مالک نہیں ہیں، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلاف صرف یہ ہے کہ شیعہ حضرات معتقد ہیں کہ آنحضرت  ۖ نے اپنے بعد امام علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا لیکن سنی حضرات معتقد ہیں کہ آنحضرت  ۖ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا، بلکہ پہلے مرحلہ میں خود لوگوں نے جانشین مقرر کیا ،اور دوسرے مرحلہ میں اُسی جانشین نے اپنے لئے دوسرے جانشین کا انتخاب کیا، اور تیسرے مرحلہ میں جانشین کا انتخاب چھ لوگوں پر مشتمل شوری کو سونپ دیا گیا تھا، اور خلیفہ چہارم کو پھر خود لوگوں نے انتخاب کیا، لہٰذا مسلمانوں کے درمیان خلیفہ کی تعیین کے لئے کوئی روش نہیں ہے اسی وجہ سے خلیفہ چھا رم کے بعد جس کے پاس بھی فوجی طاقت تھی وہ خلیفہ بن بیٹھا، جیسا کہ آج غیر مسلمان ممالک میں ہوتا ہے۔

یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق شیعہ حضرات خلیفہ اول کی تعیین کے سلسلہ میں اسی روش کے قائل ہیں جو خلیفہ دوم کو معین کرنے کے لئے اپنائی گئی تھی، صرف فرق اتنا ہے کہ وہاں آنحضرت  ۖ کی بات کو لوگوں نے نہیں مانا ،لیکن خلیفہ دوم کے سلسلہ میں خلیفہ اول کی بات سب نے مان لی۔

لیکن ہم یہاں پر اِن سوالات سے صرف نظر کرتے ہیں کہ۔

١۔ خلیفہ اول کو خلیفہ دوم کی تعیین کا حق کس نے دیا؟ اور کیوں رسول اللہ  ۖ نے ( اہل تسنن کے اعتقاد کے مطابق) خلیفہ کی تعیین میں اسلام کا خیال نہیں رکھا، اور کیوں ایک مسلمان سماج کو سرپرست کے بغیر تنہا چھوڑ دیا، حالانکہ آپ جب بھی مدینہ سے خارج ہوتے تھے اپنے لئے کوئی جانشین مقرر فرمادیتے تھے، اس کے علاوہ خود آنحضرت  ۖ اپنے بعد سر اٹھانے والے فتنوں سے باخبر تھے،  اس طرح کے سوالات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ سنی اور شیعہ حضرات کے درمیان اختلاف ،کیایہ ہے کہ امامت ایک دینی مقام اور ایک الٰہی منصب ہے کہ وہ جسے چاہے منصوب کرئے یا پھر ایک دنیوی سلطنت اور اجتماعی عو امل کے تابع ہے؟

اور شیعوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت  ۖ اپنے جانشین کو معین کرنے میں مستقل نہیں تھے ،بلکہ آپ نے اُسے خدا کے فرمان کے مطابق انجام دیا ہے در اصل ختم نبوت کی حکمت امام معصوم علیہ السلام کو معین کرنے سے مر بوط ہے جس کے ذریعہ آنحضرت  ۖ کے بعد اسلامی سماج کی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔

اس مطلب  سے یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ کیوں شیعوں کے نزدیک فرعی ہونے کے بدلے امامت ایک ''اصل اعتقادی'' ہے اور کیوں وہ لوگ ان شرائط ( علم خدادادی) عصمت (خدا کا منصوب کرنا) کو امام میں ہونا ضروری سمجھتے ہیں؟ اور کیوں شیعہ اعتقاد مفاہیم احکام الہی کی شناخت اور اسلامی سماج پر فرما راوائی جیسے مفاہیم اس طرح سے ملے ہوئے ہیں، کہ گویا اِن تمام مفاہیم پر مفہوم امامت چھایا ہوا ہے لہٰذا ہم یہاں پر مفہوم امامت اور عقائد تشیع کے درمیان اس عقیدہ کی موقعیت اور اس کی حجت  کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں۔

وجودا مام علیہ السلام کی ضرورت۔

بائیسویں درس میں یہ نکتہ روشن ہوگیا تھا کہ خلقتِ انسان کا ہدف اسی وقت کامل ہوسکتا ہے کہ جب وحی کے ذریعہ اُس کی ہدایت کی جائے اور حکمتِ الٰہی کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے پیغمبروں کو مبعوث کرے تا کہ وہ انسانوں کو دنیا و آخرت میں سعادتمندی کا درس دے سکیں، نیز انسانوں کو درجۂ کمال تک تربیت کریں، اور اگر ممکن ہو تو سماج میں احکامِ الٰہی کو جاری کریں۔

اور چونتیسویں اور پینتیسو یں درس میں اس امر کو روشن کردیا گیاہے کہ دین ِاسلام، جاودانی، ابدی اورنسخ نہ ہونے والا دین ہے ،اور آنحضرت  ۖ کے بعد کسی نبی کی بعثت واقع نہیں ہوسکتی، اور ختمِ نبوت بعثت انبیا ء علیہم السلام کی حکمت سے اُسی وقت سازگار ہے کہ جب آخری شریعت تمام انسانوں کی ضروریات کو پورا کرسکے، اور تاقیامت اس کی بقا کی ضمانت ہو۔

یہ ضمانت قرآن میں موجود ہے اور خدا نے اس کتاب کو کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رکھنے کی ضمانت لی ہے، لیکن قرآن کی آیات سے تمام احکامات آشکار نہیں ہیں، نماز کی رکعات کی تعداد اور اُسے انجام دینے کی کیفیت اس طرح اور بھی بہت سے مستحبّات ہیں کہ جن کی کیفیتوں کو قرآن نے بیان نہیں کیا