شیعہ محد ثین اور اُنکی کتب حدیث
شیعہ محد ثین اور اُنکی کتب حدیث
0 Vote
81 View
شیعہ محد ثین اور اُ نکی کتب حد یث
ثقة الاسلام کلینی بحیثیت محدث
مشہور شیعہ محدث ثقة الاسلام محمدبن یعقوب کلینی (متوفی ٣٢٩ھ) کی کتاب ''الکافی'' کتب اربعہ میں پہلی کتاب شمار ہوتی ہے ۔کتاب کافی کے مفصل تعارف سے پہلے خود کلینی کا تعارف ضروری ہے ۔
ثقة الاسلام کلینی کے حالات زندگی
ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی تیسری صدی ہجری میں ''قدیم رے ''کے ایک گائوں ''کُلین '' میں پیدا ہوئے ۔اُن کا گھرانہ اپنے علاقے میں علم وفضل کے لحاظ سے ایک معروف خاندان تھا ۔محمد بن یعقوب بعد میں اپنے اسی علم فضل کی بنا پر ثقة الاسلام ،رئیس المحدثین اور بغدادی کے القاب سے مشہور ہوئے ۔اُن کی صحیح تاریخ پیدائش مشخص نہیں لیکن بعض تاریخی قرائن سے پتا چلتا ہے کہ وہ امام زمانہ (عج) کی ولادت کے زمانے سے انتہائی قریبی زمانے میں پیدا ہو ئے ہیں ۔لہذا ہم اُن کی تاریخ پیدائش کو تقریباً ٢٥٥ہجری کے قریب قرار دے سکتے ہیں ۔١
علامہ بحرالعلوم کے مطابق : کلینی نے اما م حسن عسکری ـ کی حیات مبارکہ کا کچھ حصہ دیکھا ہے ۔٢
لیکن آیت اللہ خوئی کے نزدیک کلینی کی پیدائش امام حسن عسکری ـ کی شہادت کے بعد ہو ئی ہے۔
کلینی نے ایک علمی خاندان میں آنکھ کھولی ہے اُن کے والد یعقوب ،ماموں ابوالحسن علی بن محمد المعروف علان اور محمد بن عقیل کلینی کہ جو عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانے میں بزرگ شیعہ علماء میں شمار ہوتے تھے ۔
شیخ کلینی کی علمی شخصیت
شیخ کلینی کی علمی فضیلت کا اعتراف تمام شیعہ وسنی علماء نے کیا ہے اور حدیث میں اُن کے مقام ومرتبے کو تسلیم کیا ہے ۔شیخ کلینی کی علمی شخیصت جاننے کے لیے ہم جیدشیعہ وسنی علماء کی کتب وبیانات سے استفادہ کرتے ہوئے چند آراء پیش کرتے ہیں ۔
شیعہ علماء کی آرائ
شیعہ فقہاء کے رئیس شیخ الطائفہ محمد بن حسن طوسی(م٤٦٠ھ)اپنی گراں قدر کتاب الرجال کے باب "وہ لوگ جنھوں نے ائمہ (ع) سے (براہ راست)روایت نہیں کی ہے" میں لکھتے ہیں:
ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی بڑے جلیل القدر دانشمند اور احادیث و روایات کے بڑے عالم تھے، آپ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں کہ جو کتاب الکافی میں مرقوم ہیں ماہ شعبان٣٢٩ھ میں وفات ہوئی اور محلہ "باب الکوفہ" میں دفن ہوئے۔ہم نے ان کی کتابوں کو "الفہرست"میں تحریر کیا ہے۔٣
اور"الفہرست"میں الکافی کی ساری کتابوں اور کلینی کی دوسری تالیفات کاتذکرہ کیا ہے کہ جنھیں ہم بعد میں ذکر کریں گے۔٤
علم رجال کے گرانقدرعالم جناب ابوالعباس احمد بن علی بن عباس المعروف "نجاشی" (م٤٥٠ھ)اپنی نفیس اور مشہور کتاب الرجال کہ جنھیں علم رجال کا مشہور شیعہ عالم بتلایا گیا ہے اور انھوں نے اپنی کتاب الرجال کو شیخ طوسی کی کتاب الفہرست اور الرجال کے بعد تحریر کیا ہے ،وہ جناب کلینی کو اس طرح یاد کرتے ہیں:ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی، (علان کلینی جن کے ماموں تھے) اپنے زمانہ کے شیعہ علماء کے پیشوا اور شہر رے کے تابندہ و درخشان محدث اور ثبت و ضبط میں موثق ترین شیعہ عالم تھے۔ انھوں نے اپنی عظیم کتاب "الکافی"کو بیس سال میں مرتب فرمایا ہے۔پھر اس کے بعد الکافی کی کتابوں اور کلینی کی دیگر تالیفات ذکر کرتے ہیں۔٥
شیخ طوسی اور شیخ نجاشی کے بعد آنے والے علماء نے جہاں کہیں بھی شیخ کلینی کا نام آیا ہے یا ان کی عظیم و نامور کتاب "الکافی" کا نام لیا ہے انھیں شیعوں کے موثق ترین شخص کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
ابن شہر آشوب مازندرانی، علامہ حلی ، ابن داؤد نے، معمول کے مطابق شیخ طوسی اور شیخ نجاشی کے الفاظ کو کلینی کی مدح میں نقل کیا ہے۔
سید ابن طاؤس (م٤٦٦ھ)لکھتے ہیں:نقل حدیث میں شیخ کلینی کی وثاقت و امانت داری تمام دانشمندوں کے نزدیک متفق علیہ ہے۔٦
شیخ حسین بن عبد الصمد عاملی(شیخ بہائی کے پدر بزرگوار) فرماتے ہیں:محمد بن یعقوب کلینی اپنے دور کے تمام علماء کے استاد و رئیس تھے اور نقل احادیث میں موثق ترین عالم تھے آپ حدیث کی چھان بین میں سب سے زیادہ آگاہ اور سب پر فوقیت رکھتے تھے۔٧
ملا خلیل قزوینی مشہور فقیہ و محدث اصول الکافی کی فارسی شرح میں لکھتے ہیں:دوست و دشمن سب آپ کی فضیلت کے معترف تھے۔٨
علامہ مجلسی نے مرآةالعقول شرح اصول الکافی میں لکھا ہے:شیخ کلینی تمام فرقوں میں مورد قبول اور ممدوح خاص و عام تھے۔٩
مرزا عبد اللہ اصفہانی معروف بہ "آفندی" علامہ مجلسی کے نامی گرامی شاگرد لکھتے ہیں:رجال کی کتابوں میں اکثر جگہ "ثقة الاسلام " سے مراد جناب ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی صاحب الکافی ہیں یعنی شیخ کلینی ممتاز بزرگوار، عامہ و خاصہ کے نزدیک مسلم، اور دونوں فرقے کے مفتی ہیں۔١٠
محدث اخباری مرزا محمد نیشاپوری ،لکھتے ہیں:ثقةلاسلام ، قدوةالاعلام۔ بدر التمام، سفراء امام زمان کی موجودگی میں سنن و آثار معصومین کے جامع، تیسری صدی ہجری میں سیرت وکردار اہل بیت کے زندہ کرنے والے۔١١
اہل سنت علماء کی آرائ
شیخ کلینی کے بعد آنے والے تما م سنی علماء اور مورخین نے اُن کو بڑی عظمت سے یاد کیا ہے اور سب نے آپ کی عظمت و تکریم کی ہے ۔ابن اثیر جزری اپنی مشہور کتاب "جامع الاصول "میں لکھتے ہیں:ابو جعفر محمد بن یعقوب رازی۔۔ مذہب اہل بیت کے پیشواؤں میں سے ایک۔۔ بڑے پایہ کے عالم اور نامور فاضل ہیں۔
پھر کتاب نبوت کے حرف نون میں انھیں تیسری صدی ہجری میں مذہب شیعہ کو تجدید حیات بخشنے والا جانا ہے ابن اثیر،، پیغمبر خدا ۖ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں:خداوند متعال ہر صدی کے آغاز پر ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو اس کے دین و آئین کو زندہ اور تجدید حیات عطا کرے گا۔
اس کے بعد اس حدیث پر تبصرہ کیا ہے پھر لکھا ہے کہ:مذہب شیعہ کے مجدد پہلی صدی ہجری کے آغاز میں محمد بن علی باقر(امام پنجم) اور دوسری صدی ہجری کے آغاز میں علی بن موسیٰ الرضا (ع) اور تیسری صدی ہجری کے آغاز میں ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی رازی تھے۔١٢
ابن اثیر کے چھوٹے بھائی (عزالدین علی ابن اثیر جزری)بھی٣٢٨ھ کے حوادث کے بیان میں اپنی مشہور تاریخ۔۔ الکامل فی التاریخ۔۔ میں شیخ کلینی کو اس سال میں رحلت کرنے والا پہلا عالم جانا ہے وہ لکھتے ہیں:محمد بن یعقوب ابوجعفر کلینی نے۔۔ جو شیعوں کے پیشوا و عالم تھے۔۔ اسی سال وفات پائی۔
بزرگ عالم و مشہور لغت شناس جناب فیروزآبادی نے القاموس المحیط کے مادہ"کلین"میں شیخ کلینی کانام لیاہے اورانھیں شیعہ فقہاء میں سے قرار دیا ہے۔
ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور کتاب لسان المیزان۔۔ جو کہ علماء عامہ اور کبھی کبھی علماء خاصہ کے حالات پر کہیں اجمالی تفصیلی تذکرہ ہے۔ کلینی کے بارے میں لکھتے ہیں:محمد بن یعقوب بن اسحاق ابو جعفر کلینی رازی بغداد میں قیام فرماتھے اور وہاں انھوں نے محمد بن احمد جبار ، علی بن ابراہیم بن عاصم اور دیگر لوگوں سے روایت نقل کی ہے ۔کلینی شیعہ فقیہ تھے اور انھوں نے اس مذہب کی موافقت میں بہت زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔
ابن اثیر نے اپنی دوسری کتاب التبصیر میں لکھا ہے:ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی بزرگ شیعہ علماء میں سے تھے جو مقتدر(عباسی خلیفہ) کے دور میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ تمام سنی علماء جہاں کہیں بھی"کلینی"نام پر پہنچے ہیں انھیں بڑا عالم، نامور فقیہ اور شیعوں کے متقدم پیشوا کے عنوان سے یاد کیا ہے۔١٣
شیخ کلینی کے اساتذہ
ثقة الاسلام کلینی نے شہر رے، قم، بغداد ، کوفہ اور دور ونزدیک بہت سے علاقوں کے بزرگ علماء ، فقہاء اور محدثین سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کی معلومات و محفوظات کے خرمن سے خوشہ چینی کی ہے نیز ان سے اجازات حاصل کئے ہیں، ان بزرگ علماء سے اجازہ بڑی قدر و قیمت کا حامل ہے، کتب تراجم و رجال میں چالیس سے زیادہ فقہاء و محدثین کا نام لیا جاتا ہے کہ جو کلینی کے اساتید اور مشائخ شمار ہوتے ہیں اور کلینی نے ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ہے۔
شیخ کلینی کے شاگرد
چوتھی صدی ہجری کے مشہور علماء جوچوتھی صدی کے اواخر میں بہت سے علماء کے استاد تھے تقریباً سبھی جناب شیخ کلینی کے شاگرد تھے ،احمد بن ابراہیم معروف بہ ابن ابی رافع صیمری ، احمد بن کاتب کوفی، احمد بن علی بن سعید کوفی، احمد بن محمد بن علی کوفی، ابو غالب احمد بن محمد زراری ،جعفر بن محمد بن قولویہ قمی۔ عبد الکریم بن عبد اللہ بن نصر بزاز تنیسی،علی بن احمد بن موسیٰ دقان ، محمد بن ابراہیم نعمانی، معروف بہ ابن ابی زینب جو کہ شیخ کلینی کے مخصوص شاگرد اور آپ سے بہت قرب رکھتے تھے اور انھوں نے پوری کتاب الکافی اپنے قلم سے اتاری تھی اور انھوں نے شیخ کلینی سے علم و ادب سیکھنے کے بعد اجازہ روایت بھی دریافت کرلیا تھا، محمد بن احمد سنانی زہری مقیم رے،ابو الفضل محمد بن عبد اللہ بن مطلب شیبانی ، محمد بن علی ماجیلویہ ، محمد بن محمد بن عصام کلینی ، ہارون بن موسیٰ تلعکبری شیبانی مجموعاً ٥١ افراد اور ان کے علاوہ دوسرے بزرگ بھی شیخ کلینی کے شاگرد تھے۔
تالیفات
شیخ کلینی کی ''الکافی'' کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی ہیں ۔شیخ طوسی اور نجاشی نے ذیل کی کتابوں کو شیخ کلینی کی تالیفات میں سے شمار کیا ہے :
١۔ کتاب الرجال ٢۔ الرد علی القرامطہ ٣۔ رسائل الائمہ علیہم السلام ٤۔ تعبیر الرئویہ
٥۔ما قیل فی الائمہ فی ا لشعر( مجموعہ شعرجو فضائل ومناقب اہل بیت میں شعراء کے مختلف قصائد کا مجموعہ ہے)
٦۔الزی والتجمل ٧۔الدواجن والرواجن ١٤
٨۔ کتاب الکافی(کہ جس کو ہم مفصل طور پر بیان کریں گے)
وفات
ثقة الاسلام کلینی آخر کار ٣٢٨ ھ یا٣٢٩ ھ میں کہ جو امام زمانہ (ع) کی غیبت کبریٰ کے آغاز کا زمانہ ہے ،شہر بغداد میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا ہے۔شیخ طوسی نے اپنی کتاب الفہرست میں کلینی کی وفات ٣٢٨ ھ ثبت کی ہے لیکن نجاشی نے الرجال میں اور خود شیخ طوسی نے اپنی دوسری کتاب الرجال میں، دونوں کتابیں الفہرست کے بعد لکھی گئی ہیںصراحت سے بیان کیا ہے کہ کلینی نے ٣٢٩ہجری میں وفات پائی ہے۔ آپ کی ابدی آرام گاہ آج بغداد میں دریائے دجلہ کے قدیمی پل کے کنارے ہے اور مسلمانوں کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔
الکافی
علم حدیث میںشیخ کلینی علیہ الرحمہ کی کتاب ''الکافی''دنیائے اسلام کی اہم ترین کتاب ہے ۔یہ شیعوں کی معروف کتب حدیث میں پہلی کتاب ہے جو شیخ کلینی کی ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب سمجھی جاتی ہے ۔یہ کتاب تین جدا حصوں پر مشتمل ہے :
١۔اصول ٢۔فروع ٣۔روضہ
شیخ کلینی نے کتاب کے پہلے حصے میں آٹھ فصلوں میں شیعہ عقائد کے اصول واعتقادات کی تشریح اوران کے اعتقادی مسائل سے مربوط مطالب کا تذکرہ کیا ہے۔
مولف نے ہر عنوان کی مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے اورہر باب میں متعدد روایات نقل کی ہیں ان میںسے بعض عناوین دوسوسے زیاد ہ ابواب پر مشتمل ہیں البتہ ہر باب میںذکر شدہ روایات کی تعدا دمختلف ہے کبھی تو ایک باب میںصرف ایک ہی روایت ہے جبکہ بعض ابواب میں دسیوں روایات ذکر ہوئی ہیں۔
وجہ تالیف
شیخ کلینی کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ کتاب اپنے ایک دینی بھائی کے خط کے جواب میں لکھی ہے ۔اس شخص کا نام مشخص نہیں لیکن احتمال ہے کہ وہ محمد بن عبد اللہ قضاعہ صفوانی یا محمد بن نعمانی ہیں ۔
الکافی کے عناوین اور ابواب
اصول کافی:اس حصے میں درج ذیل ابواب کے تحت احادیث جمع کی گئی ہیں :
١۔ عنوان العقل والجھل
اس عنوان کے تحت صرف ایک باب ہے جو ٣٦ روایات پر مشتمل ہے حضرت امام موسی ٰ کاظم علیہ السلا م کی ہشام بن حکم کے نام سفارشیں بھی اسی باب میں آئی ہیں۔
٢۔عنوان فضل العلم
اس میں بہت زیادہ ابواب ہیں جن کے بعض مباحث اس طرح ہیں:حصول علم کاواجب ہونا، علم کے ذریعہ روٹی کمانے والے لوگ ،علم کی صفت ،علم اور علما کی فضیلت کتابت اوراس کی فضیلت عالم کی صفت، تقلید عالم اور بغیر علم کے کلام کی ممانعت، تمام انسانوں کوقرآن اورسنت کی ضرورت۔
٣۔ عنوان التوحید
اس میں بھی درج ذیل موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے:کائنات کا حدوث اوراس کاخالق، معرفت خدا کامعمولی درجہ، اس کی ذات کے بارے میںگفتگو سے ممانعت ، نظریہ رویت خدا کا بطلان، خدا کے ذاتی صفات، ارادہ اوراس کے دیگر صفات افعالی، اسمائے الٰہی کے معانی،مشیت اورارادہ، بدبختی اورخوشی بختی، جبروقدر اورامربین الامرین۔
٤۔عنوان الحجہ
کافی کے حصہ اصول کے عنوان ،ایمان وکفر، کے بعدسب سے وسیع وعریض عنوان یہی ہے اس میں بہت زیادہ روایات اور ایک سوسے زیادہ ابواب میں ذکر ہوئی ہیں کہ ہم ان کی سرخیوں کو یہاں پر ذکر کررہے ہیں۔
١۔ حجت خدا کی ضرورت۔
٢۔ انبیاء ومرسلین اورائمہ کے طبقات۔
٣۔ رسول، نبی اورمحدث میںفرق۔
٤۔ معرفت امام اور اس کی اطاعت کالزوم
٥۔ ائمہ کے صفات (صاحبان امر،خزان علم، انوارالٰہی، ارکان زمین وغیرہ)۔
٦۔ ائمہ کے سامنے اعمال کا پیش ہونا۔
٧۔ائمہ کاوارث علوم انبیاء ہونا۔
٨۔ ائمہ کے پاس چیزیں (قرآن کا مکمل علم، کتب انبیائ، صحیفہ فاطمہ، جفر وجامعہ وغیرہ)۔
٩۔ علم ائمہ اوراس میں اضافے کی مختلف جہتیں۔
١٠۔ ائمہ اثنا عشر میں ہرایک پردلالت کرنے والے نصوص۔
١١۔ تاریخ ائمہ کے چیدہ اوراق۔
٥۔ عنوان الایمان والکفر
الکافی کے حصہ اصول کا سب سے وسیع وگستردہ عنوان بھی ہے جو دوسوسے زیادہ عناوین پر مشتمل ہے۔ اس عنوان کے اصلی مباحث اس طرح ہیں:
خلقت مومن وکافر، اسلام وایمان کا معنی، مومن کے صفات اورایمان کے حقائق، اصول وفروع کفر، گناہ اوراس کے آثار واقسام، کفر کے اقسام۔
٦۔ عنوان الدعائ
یہ عنوان دوحصوں میں ہے:پہلاحصہ: دعا کی فضیلت اورآداب کے باب میں ہے اس حصے میں پہلے آثاردعا ، دعا کے وسیلہ سے قضاوقدرالٰہی کی تبدیلی، تمام بیماریوں کی شفا، اور اس کااستحباب بیان کیا گیا ہے پھر اس کے بعد آداب دعا جیسے دعا میں سبقت، قبلہ رخ بیٹھنا، اوردعا کے قوت یادخدا میں رہنا، پنہانی دعا، دعا کے مناسب اوقات، دعا میں اجتماعی شرکت کا بیان ہے۔
دوسرا حصہ:اس حصہ میں بعض دعائیں اورچھوٹے چھوٹے اذکار یا بعض خاص حالات کی دعائیں جمع کی گئی ہیں جیسے خواب سے بیدار ہونے کے وقت کی دعا، گھر سے باہر نکلتے وقت کی دعا، نماز کی تعقیبات ، بیماریوں کے وقت کی دعا، قرائت قرآن کرتے وقت کی دعاوغیرہ۔
٧۔ عنوان فضل القرآن
اس میں چودہ باب ہیں جیسے حاملین قرآن کی فضیلت، قرائت قرآن، ترتیل وحفظ قرآن وغیرہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے اسی طرح ہر روز کس مقدار میں قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے وغیرہ کا بیان موجود ہے۔
٨۔ عنوان المعیشة
کافی کے حصہ اصول کا آخری عنوان یہی ہے جس میں درج ذیل مضامین ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں:
ہم نشین کالازمی ہونا، اچھی معاشرت، اچھے اوربرے ہم نشین، آداب ووظائف معاشرت، سماجی تعلقات، ایک دوسرے کو سلام کرنا، بڑوں کااحترام ، کریموں کا احترام، بزم کی باتوں کو امانت سمجھنا، پڑوسی کاحق، میاں بیوی کا حق، نامہ نگاری وغیرہ۔
فروع کافی
کتاب کافی کا دوسرا حصہ فروع الکافی، ہے جس میں فقہی مسائل سے متعلق روایات ہیں۔فروع الکافی کے اہم ابواب درج ذیل ہیں:
١۔ کتاب الطہارة۔٢۔ کتاب الحیض۔٣۔ کتاب الجنائز۔٤۔ کتاب الصلوة۔٥۔کتاب الزکاة والصدقہ۔٦۔کتاب الصیام۔٧۔کتاب الحج۔٨۔کتاب الجہاد۔٩۔کتاب المعیشة۔١٠۔کتاب النکاح۔١١۔کتاب العقیقہ۔١٢۔کتاب الطلاق۔١٣۔کتاب العتق والتدبیر والمکانتہ۔١٤۔کتاب الصید۔١٥۔کتاب الذبائح۔١٦۔کتاب الاطمعة۔١٧۔کتاب الاشریہ١٨۔کتاب الری والتجمل۔١٩۔کتاب الدواحی۔٢٠۔کتاب الوصایا۔٢١۔کتاب المواریث۔٢٢۔کتاب الحدود۔٢٣۔کتاب الدیات۔٢٤۔کتاب الشہادات۔٢٥۔کتاب القضاء والاحکام۔٢٦۔کتاب الایمان والنذور والکفارات۔
یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ فروع کافی کے بعض ابواب، فقہی کتابوں میں مستقل طورپرلائے جاتے ہیں جبکہ اجارہ، بیع، رہن، عاریہ، ودیعہ وغیرہ کافی کے عنوان المعیشہ میں اورامربالمعروف عنوان الجہاد میں نیز زیارات باب الحج میں ذکر ہوئے ہیں۔فروع کافی، کتاب کافی کا سب سے بڑا حصہ ہے۔
روضة الکافی
الکافی کا تیسرا حصہ روضة الکافی کے نام سے معروف ہے جس میں مختلف موضوعات سے متعلق روایات بغیر کسی خاص نظم وترتیب کے ذکر کی گئی ہیں۔نمونہ کے طورپر ذیل کے عناوین ملاحظہ کریں:
١۔ بعض آیات قرآن کی تفسیروتاویل۔٢۔ ائمہ معصومین کے وصایا ومواعظ۔٣۔ بیماریاں اور اس کا علاج۔
٤۔ خواب اوراس کی قسمیں۔٥۔ تخلیق کائنات کی کیفیت اوربعض موجودات۔٦۔بعض بزرگ انبیاء کی تاریخ۔٧۔ شیعوں کے فضائل ووظائف۔٨۔ صدراسلام کی تاریخ اورخلافت امیرالمؤمنین سے متعلق بیانات۔٩۔ حضرت مہدی عج اوران کے اصحاب کے صفات اورزمانہ ظہور کے حالات۔١٠۔ بعض اصحاب واشخاص جیسے ابوذر، سلمان، جعفرطیار، زیدبن علی وغیرہ کی تاریخ زندگی۔١٥
الکافی کی روایات کی تعداد
روایات کافی کی تعداد بڑی مختلف بتائی گئی ہے علامہ شیخ یوسف بحرانی نے کتاب لولوء البحرین میں ١٦١٩٩ حدیث، ڈاکٹر حسین علی محفوظ نے مقدمہ کافی میں ١٥١٧٦ حدیث، علامہ مجلسی نے ١٦١٢١ حدیث اورہمارے بعض ہم عصر بزرگوں جیسے عبدالرسول الغفار نے ١٥٥٠٣ حدیث شمار کی ہیں۔١٦
البتہ یہ اختلاف روایات کے شمار کرنے کی نوعیت سے تعلق رکھتا ہے اس طرح سے کہ بعض نے جوروایات دوسند سے ذکر ہوئی ہیں انھیں دوروایت اوربعض نے ایک ہی مانا ہے اسی طرح بعض نے مرسل روایات کو جو ''فی روایة اخری '' کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں انھیں ایک الگ حدیث سمجھا ہے جبکہ بعض نے انھیں علیحدہ حدیث نہیں سمجھا ہے البتہ بعض جگہوں پر روایات کی تعداد کا اختلاف نسخوں میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔١٧
الکافی کی اہمیت کے بارے میں علماء کی آرائ
اس کتاب کی اہمیت کااندازہ لگانے کے لئے ہم پہلے اس میدان کے شہسواروں اورحدیث کے بزرگوں کے کلمات کا تذکرہ کریں گے اس کے بعد اس کتاب کے بعض خصوصیات کو بیان کریںگے۔
شیخ مفید: شیخ مفید، جناب کلینی کے ہم عصر شمار ہوتے ہیں؛وہ کافی کے بارے میں لکھتے ہیں: کتاب کافی شیعوں کی برترین اورپرفائدہ ترین کتاب ہے۔ ١٨
شہید اول: شہید محمد بن مکی، ابن خارب کولکھے گئے اپنے اجارہ میں شیعوں کی کتب حدیث کو شمارکرتے ہوئے لکھتے ہیں: کتاب کافی کے مانند شیعوں میں حدیث کی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ ١٩
شہیدثانی: شیخ ابراہیم مسینی کے نام اپنے اجارہ میں کتاب کافی کوبقیہ تین کتاب الفقیہ، التہذیب، الاستبصار کے ہمراہ اسلام وایمان کا ستون شمار کرتے ہیں۔٢٠
مجلسی اول: کابھی دعویٰ ہے کہ مسلمانوں میں کتاب کافی کے مانند کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ ٢١
مجلسی ثانی: اپنی کتاب مرآة العقول میں کتاب کافی کی مفصل شرح میں لکھتے ہیں: کتاب کافی تمام کتب اصول وجوامع سے جامع تر اورمضبوط کتاب ہے اورفرقہ ناجیہ شیعہ امامیہ کی بزرگترین وبہترین کتاب ہے۔٢٢
علامہ مامقانی: کاکہنا ہے کہ کافی کے ماننداسلام میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے کہاجاتا ہے کہ یہ کتاب امام زمان علیہ السلام کے سامنے پیش کی گئی امام نے اسے پسند کیا اورفرمایا: یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لئے کافی ہے۔٢٣
آقا بزرگ تہرانی: عظیم ترین ماہرکتابیات آقا بزرگ تہرانی کاکہنا ہے کہ کتاب کافی کتب اربعہ میں برترین کتاب ہے اوراس کے مانند روایات اہلبیت پر مشتمل کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ ٢٤
الکافی کی خصوصیات
١۔جامعیت کافی کی سب سے بڑی خصوصیت ہے چونکہ ہماری دوسری کتب حدیث میں وہ جامعیت نہیں پائی جاتی جو الکافی میں ملتی ہے ،جیسا کہ ہم نے من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار کے باب میں واضح کیا ہے کہ اُن میں فقط فقہی عناوین پر احادیث جمع کی گئی ہیں لیکن کافی میں شیخ کلینی نے نہ فقط فقہ کے تمام ابواب کا احاطہ کیا ہے بلکہ عقائد ومعارف کے بارے میں بھی بہت بڑا ذخیرہ فراہم کیا ہے ۔اس لحاظ سے یہ کتاب دوسری کتب حدیث کی نسبت جامعیت کی حامل ہے۔
٢۔ اس کتاب کے مولف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ اورامام زمانہ علیہ السلام کے چار نائبین کازمانہ دیکھا ہے۔
٣۔ مولفین اصول کے زمانہ سے نزدیک ہونے کے باعث مولف نے بہت کم واسطوں سے روایات نقل کی ہیں یہی وجہ ہے کہ کافی کی بہت سی روایات فقط تین واسطوں سے نقل ہوئی ہیں(دیکھے کتاب ثلاثیات الکلینی وقرب الاسناد تالیف امین ترمس العاملی)
٤۔ کتاب کے عناوین بڑے مختصر اورواضح ہیں جوہرباب کی روایات کا پتہ دیتے ہیں۔
٥۔روایات بغیر کسی دخل وتصرف کے نقل ہوئی ہیں اورمصنف کے بیانات احادیث سے مخلوط نہیں ہیں۔
٦۔ مصنف کی کوشش رہی ہے کہ صحیح اورواضح احادیث کو باب کے آغاز میں اور اس کے بعد مبہم ومجمل احادیث کوذکر کریں۔٢٥
٧۔ حدیث کی پوریدسند ذکر ہوئی ہے اسی لئے یہ کتاب تہذیب الاسلام ، الاستبصار اورمن لایحضرة الفقہ سے متفاوت ہے۔
٨۔ مؤلف نے انھیں روایات کو ذکر کیا ہے جوباب کے عنوان سے سازگار ہیں اورمتضاد احادیث کے نقل سے پرہیز کیا ہے۔
٩۔ روایات کوان کے باب کے علاوہ جگہوں پر ذکر نہیں کیا ہے۔
١٠۔ کتاب کے ابواب کو بڑے دقیق اورمنطقی انداز سے تنظیم کیاہے: عقل وجہل پھر علم اس کے بعد توحید کو شروع کرنے سے درحقیقت معرفت شناسی کے بعض مباحث کو پہلے مرحلے میں قرار دیا ہے پھراس کے بعد توحید و امامت تک پہنچنے میں اس کے بعد اخلاقی روایات کو نقل کرکے فروع اوراحکام تک پہنچنے ہیں اورآخر میں مختلف قسم کی روایات کو کشکول کے مانند جمع کیا ہے۔٢٦
الکافی پر کئے گئے اشکالات کی حقیقت
فن حدیث کے ماہر بزرگوں نے کتاب کافی کی بڑی تحلیل وتکریم کے پہلو میں اس پر کچھ اعتراضات بھی کئے ہیں:
الف: علامہ فیض کاشانی نے اپنی کتاب وافی کے مقدمہ میں درج اشکال کئے ہیں:
١۔ کافی میں بہت سے فقہی احکام نہیں بیان کئے گئے ہیں۔
٢۔ کافی میں بعض جگہ قول مخالف کی روایات کو ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
٣۔ کافی میں مشکل اورمبہم الفاظ کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
٤۔ کافی میں بعض عناوین کے ابواب اورروایات میں مدنظر ترتیب کاخیال نہیں رکھا گیا ہے اورکبھی تو غیر جگہ پر ذکر کردیا گیا ہے یا ایک عنوان کو حذف کرکے دوسرا غیر ضروری عنوان ذکر کیا گیا ہے۔
ب: بعض متضاد روایات یا مسلمان مذہب کے خلاف روایات موجود ہیں جو اس کتاب پر اشکال کے طورپر ذکر کی جاتی ہیں بعنوان مثال کافی میں کچھ ایسی روایات پائی جاتی ہیں جو تحریف قرآن پر دلالت کرتی ہیں اور شیعہ عقیدہ کے خلاف ہیں۔
ج: بعض ایسے اسماء ہیں جیسے محمد، احمد، حسین ، محمد بن یحیی، احمد بن محمد وغیرہ جو چند افراد میں مشترک ہیں مصنف نے اس سلسلہ میں کوئی توضیح نہیں دی ہے لہذا واضح نہیں ہوپایا کہ اس سے کون مراد ہے البتہ بعض جگہوں پرقرائن کے ذریعہ مدنظر راوی یا مروی غیر کی تشخیص دی جاسکتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ راہ ہر جگہ راہ گشا نہیں ہے اورمنظور نظر راوی مبہم رہ جاتا ہے۔
د: اگلا اشکال یہ ہے کہ یہ طے ہے کہ شیخ کلینی نے تمام روایات کواپنے استاد سے نہیں سنا ہے بلکہ بعض کو سنا ہے اوربعض کو اجازہ کی شکل میں ان سے دریافت کیا ہے حالانکہ دونوں صورتوں میں سند متصل اورمعتبر ہے لیکن کلینی نے ان دونوں میں فرق قائم نہیں کیا ہے اورسب کو الگ ہی کلمہ عن کے ذریعہ ایک دوسرے سے متصل کردیا ہے درحالیکہ بعض مولفین نے ان دونوں قسموں میں لفظ حدثنا اورلفظ روینا کے ذریعہ فرق قائم رکھا ہے۔
ہ: بعض نے کلینی پر یہ اعتراض کیا ہے کہ کیوں کافی میں انھوں نے بعض راویوں کے قطعاً ضعیف ہونے کے باوجود ان سے روایت نقل کی ہے جیسے :وھب بن وھب(ابوالبختری) احمد بن ھلال، محمد بن ولیدصیرفی، عبداللہ بن قاسم حارثی وغیرہم۔
ان تمام اشکالات و اعتراضات کے سلسلہ میں کتاب الکافی والکلینی اورکتاب الکلینی وکتابہ الکافی میں بحث کی گئی ہے ہم ان اشکالات کے سلسلہ میںفی الحال کوئی فیصلہ نہیں کرتے لیکن اتنا ضروری کہیں گے کہ اگر سارے اعتراضات صحیح مان بھی لیے جائیںتب بھی شیخ کلینی کے کام کی عظمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا نیز ان کی کتاب پر اطمینان واعتبار میں بھی کمی نہیں آئے گی البتہ کوئی کتاب سوائے اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب قرآن کے محفوظ نہیں اورکوئی مولف سوائے ائمہ معصومین علیہم السلام کے کہ جن کو خدا نے عصمت سے نوازا ہے
خطا وغلطی سے محفوظ نہیں ہے۔٢٧
روضة الکافی کے بارے میں ایک شبہہ
بعض لوگ روضة الکافی کو کلینی کے آثار میں نہیں شمار کرتے بلکہ اسے السرائر کے مولف جناب ابن ادریس کی طرف نسبت دیتے ہیں اس لئے اسے کافی کا حصہ تسلیم نہیں کرتے اس کے مقابلے میں بہت سے علماء اسے کافی کا جزء اورکلینی کی تالیف مانتے ہیں۔ اس موضوع پر مفصل بحث کوکتاب الکلینی والکافی میں ص٤٠٨ سے ص ٤١٥ تک اورکتاب الکلینی والکتاب الکافی میں ص١٣٢ سے ص١٤٠ تک ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔
کافی پرانجام شدہ تحقیقات
کتاب کافی ایسی تالیف کے پہلے مرحلے سے ہی علماء اورمحدثین کی توجہ کامرکز بنی رہی ہے اسی لئے اس کتاب پر بڑا کام ہوا ہے۔
شیخ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب االذریعہ میں اصول یا پوری کتاب کی ٢٧ شرح کا تعارف پیش کیا ہے۔ ٢٨ اسی طرح اس کتاب پر دس حاشیہ بھی شمار کیا ہے( الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج٦ ،ص١٨١، المعجم الفہرس لالفاظ بحارالانوار، ج١ ،ص٦٦)
اسی طرح بعض دیگر اہل قلم نے کتاب کافی کے سلسلہ میں بہت سے کام ہونے کا تذکرہ کیا ہے کہ جن میں بہت سے آثار چھپ نہیں سکے ہیں یا بعض دسترس میں ہی نہیں ہیں ۔٢٩
الکافی سے متعلق کتابیں
یہاں پر کتاب کافی سے متعلق نشر شدہ آثار کی طرف چندحصوں میں اشارہ کیاجاتا ہے:
تعلیقات اور شرحیں
١۔ التعلیقة علی کتاب الکافی، محمد باقر حسین معروف بہ میرداماد (متوفی ١٠٤١ھ) تحقیق سید مہدی رجائی
( مطبعہ خیام قم، ١٤٠٣ھ)
یہ تعلیقہ اصول کافی کی کتاب حجت تک ہے تعلیقہ کے ساتھ اصل روایات بھی چھپی ہیں اسی طرح شارح کی ایک اورکتاب بنام الرواشح السماویہ بھی ہے جس میں علم حدیث کے بعض قواعد اورکافی کے مقدمہ کی شرح ہے جو درحقیقت اس تعلیقہ کی جلد اول شمار کی جاسکتی ہیں۔
٢۔شرح اصول الکافی، صدرالدین شیرازی( متوفی ١٠٥٠ھ)
یہ شرح اصول کافی کی کتاب الحجہ کے آخر تک ہے جو محمدخواجوی کی تصحیح کی ساتھ دوجلد میں موسسہ مطالعات وتحقیقات کے توسط سے چھپ چکی ہے اس شرح کومحمد خواجوی نے فارسی میں ترجمہ بھی کیا ہے اوراسی پبلشر کی طرف سے دوجلد میں طبع ہوئی ہے۔
٣۔ الحاشیہ علی اصول الکافی رفیع الدین محمد بن حیدرالنائینی، تحقیق محمد حسین درایتی (دارالحدیثہ قم ١٣٨٣ھ،ش)٦٧٢ ص وزیرک سائز۔
٤۔ الحاشیہ علی اصول الکافی سید بدرالدین بن احمد الحسین العاملی تحقیق علی فاصلی (دارالحدیثہ قم ١٣٨٣ھ،ش)٦٧٢ ص وزیری سائز۔
٥۔الدرالمنظوم من کلام المعصوم علی بن محمد بن حسی نبی زین الدین عاملی( ١١٠٣ تا ١١٠٤ ھ) تحقیق :
محمد حسین درایتی (دارالحدیثہ قم ١٣٨٣ھ،ش)٦٧٢ ص وزیری سائز۔
٦۔ مرآة العقول محمد باقر مجلسی (متوفی ١١١٠ھ) دارالکتب العلمیہ تہران ١٤٠٤ھ ١٣٦٣ھ ش ٣٦ ج۔
٧۔ شرح الکافی، الاصول والروضة محمد صالح مازندرانی تعلیق میرزا ابوالحسن شعرانی (تہرانی المکتبہ الاسلامیة ١٣٤٤٣)١٢ ج۔
٨۔ الشافی فی شرح اصول کافی، ٣ج، عبدالحسین المظفر (مطبعة الغری، نجف اشرف ١٣٨٩ھ ١٩٦٩ع)۔٣٠
ب: تراجم
فارسی ترجمہ
١۔ اصول کافی، ترجمہ وشرح فارسی: سید جواد مصطفوی(تہران،دفتر نشرفرہنگ اہل بیت ٢ج) یہ ترجمہ متن احادیث کے ہمراہ ہے۔
٢۔ الروضة من الکافی، ترجمہ وشرح فارسی: سید ہاشم رسولی محلاتی( تہران ،انتشارات علمیہ اسلامیہ) ٢ج۔
٣،اُصول کافی ،ترجمہ وشرح فارسی ،آیت اللہ شیخ محمد باقر کمرہ ای
(انتشارات اُسوہ ،تہران ،١٣٧٠ش)
ُاُردو ترجمہ :
٣۔الشافی ترجمہ اُصول کافی :سید ظفر حسن نقوی (ظفر شمیم پبلیکیشنزٹرسٹ ،کراچی)
انگریزی ترجمہ
٤۔ الکافی، انگریزی ترجمہ، الموسسہ العالمیة للخدمات الاسلامیة۔(اس ترجمہ کی اب تک ١٣ جلدیں عربی متن کے ہمراہ نشر ہوچکی ہیں)
ج :تلخیصات
١۔ گزیدہ کافی، فارسی ترجمہ وتحقیق: محمد باقر بہبہودی(تہران، شرکت انتشارات علمی وفرہنگی، ١٣٩٦ ش) ٦ جزء تین مجلد میں(حق معارف وآداب ح٣: طہارت ، صلاة،ج٣، زکات روزہ ج٤: حج معیشیت ج٥، ازدواج، مشروبات ٦ج: زینت وگل وگلشن)۔
٢۔ خلاصہ اصول کافی، فارسی ترجمہ ،علی اصغر خسروی سبشتری
(تہران، کتاب فروشی امیری، ١٣٥١ ش) ٢٧٠ص۔
٣۔ الصحیح من الکافی، ٣ج، محمد باقر بہبودی (الدارالاسلامیة ١٤٠١ھ۔ ١٩٨١ع)۔
٤۔ درخشان پرتوی از اصول کافی، سید محمد حسین ہمدانی(قم، مولف ١٤٠٦ ق)۔
د: معاجم و راہنما
١۔ المعجم المفھرس الفاظ اصول اکفی، الیاس کلانتری(تہرانی انتشارات کعبہ)۔
٢۔المعجم الفھرس لالفاظ الاصول من الکافی، علی رضا برازنش
(تہران، منطقہ الاعلام الاسلامی، ١٤٠٨ھ ،١٩٨٨ع اول)
٣۔ الھادی الی الفاظ اصول کافی سید جواد مصطفوی۔
٤۔ فھرس احادی ث اصول کافی ، مجمع البحوث الاسلامیہ۔
٥۔ فھرس احادیث الروضہ من الکافی، مجمع البحوث الا سلامیہ۔
٦۔ فھرس احادیث المفروع من الکافی، مجمع البحوث الاسلامیہ
٧۔ فھرس احادیث الکافی، بنیاد پژوہش ھای اسلامی استان قدس رضوی۔
ہ: اسناد ورجال کافی
١۔ تجرید اساتید الکافی وتنفیحا، حاج میراز مہدی صادقی(قم،١٤٠٩ھ)
٢۔ الموسوعة الرجالیة، حسین طباطبائی بروجردی،٧جلد تنظیم :میرزا حسن النوری
(مجمع البحوث الاسلامیہ ، مشہد ١٤١٣ھ)
اس مجموعہ کی پہلی جلد بعنوان ترتیب اسانید کتاب الکافی ٥٦٧ ص میں اورجودوسری جلد بعنوان رجال اسانید اورطبقات رجال الکافی ،٤٦٨ صفحہ میں کافی سے متعلق ہے۔
و: کافی سے متعلق اہم کتابیں
١۔ دفاع عن الکافی،ثامر ہاشم حبیب المعیدی ،٢جلد ،مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ ،١٤١٥ھ
٢۔ الشیخ الکلینی البغدادی وکتابہ الکافی، ثامر ہاشم حبیب العمیدی ،مکتب الاسلامی ،قم ١٤١٤ھ۔ اس کتاب میں شیخ کلینی کی ذاتی اورعلمی زندگی ، کافی کے سلسلہ میں ان کی علمی کاوشیں فروع کافی میں ان کی کیا روش رہی ہے بیان کیا گیا ہے۔
٣۔ الکلینی وخصومہ د ابوزھرہ ، عبدالرسول الغفار۔اس کتاب میں مصری مئولف ابوزہرہ کے کافی پر اعتراضا ت کا جواب دیا گیاہے۔
٤۔ بحوث حول روایات الکافی، امین ترمس العاملی،موسسة دارالھجرة ،قم ١٤١٥ھ
٥۔ دراسات فی الکافی للکلینی والضحیح للبخاری، ہاشم معروف الحسینی۔ مولف نے اس کتاب میں کافی اوربخاری کے درمیان موازنہ کیا ہے اورکچھ عناوین کا انتخاب کرکے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔
٦۔ ثلاثیات الکلینی وقرب الاسناد، امین ترمس العاملی ۔ اس کتاب کے مقدمہ میں شیخ کلینی کے حالات زندگی اورثلاثیات کی اصطلاحات کی توضیح کے بعد صرف تین واسطوں سے معصومین علیھم السلام تک متصل ہونے والی روایات کو انتخاب کیا ہے جن کی تعداد کل ١٣٥ بنتی ہے۔
٧۔ الکلینی والکافی۔ الدکتور عبدالرسول الغفار،موسسة النشر الاسلامی ،قم (١٤١٦ھ ) ٣١
منابع ومآخذ
اس مقالے کی تیاری میں درج ذیل منابع اور مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے :
١۔آشنائی با تاریخ ومنابع حدیثی ،دکتر علی نصیری ، مرکز جھانی علوم اسلامی ،قم،١٣٨٥ ش
٢۔آشنایی بامتون حدیث ونہج البلاغہ، شیخ مہدی مھریری۔،مرکز جھانی علوم اسلامی ،قم
٣۔بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،تہران ١١٠جلد
٤۔دفاع عن الکافی ،ثامر ہاشم حبیب ،مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ ،قم ،١٤١٥ھ
٥۔دانش حدیث ،محمد باقر نجف زادہ بار فروش ،مئوسسہ انتشارات جہاد دانشگاہی (ماجد) ،تہران ،١٣٧٣ ش
٦۔الکافی ،محمد بن یعقوب الکلینی ،انتشارات علمیہ اسلامیہ ،تہران
٧۔سوفٹ ویئر ،نور ،جامع الاحادیث ،نسخہ ٥/٢،مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی ،قم
٨۔علم الحدیث ودرایة الحدیث ،کاظم مدیر شانہ چی ،دفتر انتشارات اسلامی ،جامعہ مدرسین ،قم ،١٣٧٢ ش
٩۔،الکلینی والکافی،عبد الرسول الغفار،موسسة النشر الاسلامی ،قم ،١٤١٦ھ
١٠۔مفاخر اسلام ،علی دوانی ،مرکز اسناد اسلامی ،تہران ١٣٧٥ ش
١١۔الذریعة الی تصانیف الشیعة ،شیخ آقا بزرگ تہرانی ،المکتبة الاسلامیہ ،تہران
١٢۔الفہرست ،شیخ طوسی ،منشورات الرضی ،قم
١٣۔رجال النجاشی ،ابو العباس النجاشی ،مکتبة الداوری ،قم
...........................
حوالہ جات
١۔ بحر العلوم ،محمد مہدی الطباطبائی ،الفوائد الرجالیہ ،ج ٣،ص٣٣٦
٢۔آیة اللہ خوئی، معجم رجال الحدیث،ج ١٩ ،ص٥٤
٣۔رجال الطوسی، ص٥٩٤
٤۔شیخ طوسی ،الفہرست ، ص٥٣١
٥۔رجال النجاشی، ص٣٧٧
٦۔ الکافی،ج١،ص٢٠(مقدمہ)
٧۔ایضاً
٨۔ایضاً
٩۔مجلسی ،مرآة العقول ج١، ص٣
١٠۔الکافی،ج١،ص٢٠(مقدمہ)
١١۔(ایضاً)
١٢۔علی دوانی ، مفاخر اسلام ج ٣ ص ٤٠
١٣۔ایضاً
١٤۔رجال النجاشی ،ص٣٧٧۔اختیار معرفة الرجال ،ص٤٣٩
١٥۔سوفٹ ویئر ،نور ،جامع الاحادیث ،نسخہ ٥/٢
١٦۔عبد الرسول الغفار،الکلینی والکافی، ص٤٠٢
١٧۔عبد الرسول الغفار،الکلینی والکافی، ص٣٩٩
١٨۔شیخ مفید،تصحیح الاعتقاد، ص٣٠٢
١٩۔علی دوانی ، مفاخر اسلام ج ٣ ص ٤٠
٢٠۔ایضاً
٢١۔مجلسی، بحارالانوار، ج١١٠، ص٧٠
٢٢۔ مجلسی ،مرآة العقول، ج١، ص٣
٢٣۔علی دوانی ، مفاخر اسلام ج ٣ ص ٤٠
٢٤۔ آقا بزرگ تہرانی ،الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج١٧، ص٣٤٥
٢٥۔اصول کافی، ج١ ،ص١٠ مقدمہ مترجم سید جواد مصطفوی،آشنائی باتاریخ ومنابع حدیثی،ص٢٠٨
٢٦۔علی دوانی ، مفاخر اسلام ج ٣ ص ٤٠ ،مہدی مھریزی ،آشنائی با متون حدیث ونہج البلاغہ ،ص٧٨،٨٨
٢٧۔ایضاً
٢٨۔ دیکھئے: الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج١٣ ،ص٩٤ تا ص١٠٠، المعجم الفہرس الالفاظ بحارالانوار، ج١ ،ص٦٦ تا ص٦٧
٢٩۔،مہدی مھریزی ،آشنائی با متون حدیث ونہج البلاغہ ،ص٧٨،٨٨
٣٠۔ایضاً
٣١۔علی دوانی ، مفاخر اسلام ج ٣ ص ٤٠ ،مہدی مھریزی ،آشنائی با متون حدیث ونہج البلاغہ ،ص٩١،٩٢
http://www.shiastudies.net