ہزار گوہر (اَلفُ کَلِمَۃٍ)

ہزار گوہر (اَلفُ کَلِمَۃٍ)

ہزار گوہر (اَلفُ کَلِمَۃٍ)

(2 پسندیدگی)

QRCode

(2 پسندیدگی)

ہزار گوہر (اَلفُ کَلِمَۃٍ)

متعلّمِ مصطفیٰؐ علی مرتضیٰؑ فرماتے ہیں: "ہم اقلیمِ سخن کے فرمانروا ہیں"۔ (نہج البلاغہ: خطبہ 230) یعنی اس بیان و کلام کے ہم امیر ہیں۔ اس امیرِ بیان کے بکھرے ہوئے حکمت بھرے کلام کو ہمیشہ صاحبان عقل جمع کرکے اپنی فکروں کو منوّر کرتے رہتے ہیں۔

امیرالمؤمنینؑ کے ان حکمت بھرے کلمات کا قدیمی ترین مجموعہ جو اس وقت الگ کتاب کی صورت میں موجود ہے وہ اہل سنت کے مشہور عالم ”ابو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ متوفی 255ھ" کی کتاب "مأۃ کلمۃٍ" "سو کلمات" ہے۔ جس کی مختلف علماء نے شرح کی ہے۔ جاحظ اکثر کہا کرتے تھے کہ امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا ہر جملہ ہزار جملے کے برابر ہے۔ ان سو کلمات کی ایک شرح اہل سنت کے مشہور عالم "رشید الدین وطواط" نے " مطلوب كل طالب من کلام علی بن ابی طالب" کے نام سے لکھی ہے اور ان سو کلمات کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔

امیر المؤمنینؑ کے کلام کو جمع کرنے والوں اور اس کلام کی عظمت کو بیان کرنے والوں کی ایک طولانی فہرست ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے اختتام پر بغداد کے ایک شیعہ عالم سید ابوالحسن محمد رضی متوفی 406" نے حالات آئمہ پر ایک کتاب ”خصائص الأئمة" کے نام سے لکھنی شروع کی۔ انہوں نے جناب امیر المومنینؑ کے حالات لکھے اور اس کے اختتام پر آپ کے بعض مختصر اقوال درج فرمائے، جن سے متاثر ہو کر ان کے قریبی افراد نے ان سے درخواست کی کہ آپ امیر المومنینؑ کا مزید کلام جمع کریں۔ تو ان کی خواہش پر سید رضی نے آپ کے خطبات، خطوط، وصیتیں اور مختصر اقوال جمع کئے اور اس مجموعہ کا نام "نہج البلاغہ" رکھا۔

"نہج البلاغہ" کو اتنی اہمیت ملی کہ اب تک دو سو کے قریب شیعہ و سنی علماء اس کی مکمل یا بعض حصوں کی شرح لکھ چکے ہیں۔ اہل سنت کے مشہور عالم مفتی مصر ”علامہ شیخ محمد عبده" نے نہج البلاغہ پر بہت کام کیا اور اس کی شرح لکھی جس میں ایک مقام پر لکھتے ہیں: "عربی زبان والوں میں کوئی ایسا نہیں جو اس کا قائل نہ ہو کہ امام علی بن ابی طالب علیہما السلام کا کلام، کلام خدا و کلام رسول کے بعد ہر کلام سے بلندتر، زیادہ پر معانی اور زیادہ فوائد کا حامل ہے۔ عرب عیسائی دانشوروں نے بھی خوبصورت الفاظ میں "نہج البلاغہ" کو سراہا ہے۔ مشہور عیسائی ادیب اور شاعر "پولس سلامہ" اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : ”یہ معارف و علوم کا مرکز اور اسرار و رموز کا کھلا ہوا دروازہ ہے۔ یہ نہج البلائنہ کیا ہے؟ ایک روشن کتاب میں بکھرے ہوئے موتی، یہ چنے ہوئے پھولوں کا ایک باغ ہے۔

"نہج البلاغہ" پر لکھی جانے والی درجنوں شروح میں سب سے زیادہ شہرت پانے والی شرح ایک ابل سنت عالم ”ابوحامد عز الدين عبد الحميد بن هبة اللہ بن ابی الحدید معتزلی کی ہے۔

چار سال آٹھ ماہ کی طویل مدت کلامِ علیؑ کے ساتھ بسر کر کے اور بیس جلدوں پر مشتمل علمی و ادبی و تاریخی شرح لکھ کر ابن ابی الحدید تھکے نہیں، بلکہ ان میں علم کی پیاس مزید بڑھی اور انہوں نے اس شرح کے اختتام پر نو سو اٹھانوے (998) مزید اقوال جمع کئے جن کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

"جناب سید رضی ابو الحسن کے حضرت امیر المومنینؑ کے کلام نہج البلاغہ سے نقل شده یہ آخری سطریں تھیں جن کی ہم نے اللہ تعالی کی مدد سے شرح کر دی ہے۔ اب ہم مولائے کائناتؑ کے ان حکمت آمیز کلمات کا تذکرہ کرتے ہیں جو جناب سید رضی نے ذکر نہیں فرمائے مگر لوگوں نے انہیں آپ سے منسوب کیا ہے۔ ان میں سے بعض کو شہرت حاصل ہے اور بعض اتنے مشہور تو نہیں لیکن آپ سے روایت کیے گئے ہیں اور آپ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ بعض کلمات آپ کے علاوہ دوسرے علماء کے ہیں مگر آپ کے کلام کی مانند ہیں اور آپ کی دانائی کی باتوں کے مشابہ ہیں اور چونکہ مفید حکمت کی باتوں پر مشتمل ہیں اسی لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ یہ کتاب ان سے خالی نہ ہو۔ تاکہ یہ اس کتاب نہج البلاغہ  کی تکمیل اور تتمّہ قرار پائے۔ بعض مقامات پر کچھ تکرار بھی ہوا ہے مگر کتاب کے طویل ہونے یا نظروں سے دوری کے باعث ہم اس کی طرف اشارہ نہیں کر پائے۔ ہم نے ان کلمات کو گنا تو ہزار پایا۔"

ان کلمات کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے 1929ء میں بیروت سے "اَلفُ کَلِمَۃٍ" کے نام سے ان کلمات پر مشتمل الگ کتاب شائع ہوئی۔ اردو زبان افراد تک حکمت سے مالا مال اس خزانے کو اقبال حسین مقصود پوری نے ترجمہ کی کرکے پہنچایا ہے۔