الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمﷺ ج۱

الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمﷺ ج۱

الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمﷺ ج۱

Publication year :

1999

Publish location :

قم ایران

Number of volumes :

3

(2 پسندیدگی)

QRCode

(2 پسندیدگی)

الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمﷺ ج۱

عالم خلقت میں برترین اور کامل ترین طرز زندگی کا نمونہ بوستان زندگی کے وہ گل ہیں جن کی سیرت پورے عالم کیلئے پیروی کابہترین نمونہ ہے _ اس گلستان میں سیرت کے اعتبار سے سب سے ممتاز اور درخشندہ ہستی پیغمبر اکرم حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات مبارکہ ہے کہ پیروی اور اطاعت کیلئے ان سے زیادہ بہتر ہستی پوری کائنات میں نہیں مل سکتی۔

 یہ کتاب''الصحیح من سیرة النبی الاعظم '' ، علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی (ادام اللہ توفیقاتہ) کی قیمتی اور گراں بہا تالیف ہے جس میں ختمی مرتبت  صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ کو بیان کیا گیاہے_

اس کتاب میں آپ  صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ کے تمام پہلوؤں پر تحقیقی گفتگو کی گئی ہے اور انہیں دقیق و منصفانہ تجزیہ و تحلیل کے ذریعہ خود غرضی، تنگ نظری اور محدود فکری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر تحقیق کے روشن و منور مقام پر لاکر منظر عام میں پیش کیا گیا ہے _ علامہ موصوف کی یہ کتاب اہل تحقیق حضرات کیلئے باعث حیرت و دلچسپی واقع ہوئی ہے اور ان کی جانب سے علامہ کی اس کاوش کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اور یہ کتاب عالم اسلام میں بہت مقبول ہوئی ہے۔

قرآن کریم نے رسول اللہ(ص) کومسلمانوں کے لئے اُسوۂ حسنہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے آنحضرتؐ مسلمانوں کے نزدیک ایک خاص مقام ومنزلت رکھتے ہیں جو کائنات میں اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔اسی مقام ومنزلت کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ ۖ کی حیات طیبہ کا گوشہ گوشہ مسلمانوں کی زندگی کے لئے نمونہ عمل ہے اور ہرسچا مسلمان آپۖ کی سیرت کے معمولی سے معمولی حصے کو بھی خصوصی اہمیت دیتا ہے ۔اسی سبب سے آپۖ کی حیات مبارکہ کے دوران بھی اور آپ ۖ کے اس جہان فانی سے رحلت فرماجانے کے بعدبھی آپ کی زندگانی مبارک کے جزئی ترین واقعات تک کو قلم بند کرنے کی سعی کی گئی ہے اور سیرت النبی ۖ مسلمان محققین اور اہل قلم کے لئے ایک خاص مضمون کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔لہٰذا آپۖ کی حیات مبارکہ کے بارے میں دنیا کی ہر زندہ زبان میں بے شمار کتب تالیف ہو چکی ہیں خصوصاً عربی ،فارسی اور اُردو زبان میں سیرت النبی ۖ سے متعلق ایک خاصا ادب موجود ہے جو ان زبانوں کا قیمتی ترین علمی وادبی سرمایہ شمار ہوتا ہے۔

لیکن سیرت النبی ۖ کے موضوع پر اس کثرت تالیف اور تصنیف کے باوجود ایک تشنگی محسوس ہوتی ہے جسکا بڑا سبب ان کتابوں میں غیر تحقیقی مواد ہے جو نہ تو قرآنی نصوص سے ہم آہنگ ہے اور نہ عقلی استدلال اسے قبولیت کی سند عطا کرتا ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیرت کے بارے میں ہر کتاب ایک خاص مذہبی رجحان کی عکاسی کرتی ہے اور صدر اسلام میںایک خاص زمانے میں وقتی سیاست کے تحت حدیث نگاری کی ممانعت کی وجہ سے بہت سی صحیح روایات ضبط تحریرمیں نہیں آسکی تھیں اور پھرمسلمان حکمرانوں کی ایک خاص سیاست کے تحت حدیث نگاری کا طوفان آجاتا ہے اور سرکاری سرپرستی میں وضع حدیث کا بازار گرم ہو جانے کی وجہ سے جہاں دوسرے اسلامی علوم ومعارف تحریف شدہ روایات کا نشانہ بن جاتے ہیں وہاں سیرت النبی ۖ کا موضوع بھی اس آفت سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔چونکہ سیرت اور تاریخ اسلام کا سب سے بڑ ا منبع یہی روایات اور احادیث ہیں جو منابع اولیہ میں نقل ہوئی ہیں اور اُن میں تحریف شدہ مواد کی فراوانی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لہذا سیرت النبی ۖ پر لکھے جانے والی ہروہ کتاب جو تحقیق وعقلی استدلال اور قرآنی آیات کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر لکھی گئی ہے ،اس آفت سے محفوظ نہیں رہ سکی ۔اس لحاظ سے ''صحیح روایات سے ماخوذ صحیح سیرت نگاری ''کی اہمیت کسی طرح بھی کم نہیں ہے ۔عقل ودرایت اور قرآن وسنت صحیح کے مطابق لکھی جانے والے ہرکتاب ،اُن ہزاروں کتب میں ایک درخشان ستارے کی حیثیت رکھتی ہے جو بغیر کسی تحقیق اور عقل ودرایت کے اصولوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں ۔انہی چند کتابوں میں عصر حاضرکی ایک تحقیقی کتاب'' الصحیح من سیرة النبی الاعظم ''ہے کہ جو ابتدائی چند جلدیں منظر عام پر آنے کے بعد اہل علم اور محققین کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

مئولف کتاب:اس کتاب کے مئولف سید جعفر مرتضیٰ عاملی ہیں جنکا شمار ممتاز شیعہ محققین اور اہل قلم میں ہوتا ہے ۔سید جعفر مرتضی ٰ عاملی ، ٢٥ صفر ١٣٦٤ ھ میں لبنا ن کے علاقے جبل عامل میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے ١٣٨٢ ھ میں نجف اشرف چلے گئے اور وہاں کے علمائے دین اور مراجع تقلید سے چھ سال تک بہرہ مند ہو نے کے بعد ١٣٨٨ ھ میں وہ حوزہ علمیہ قم منتقل ہوجاتے ہیں اور یہاں تقریبا ً بیس سال سے بھی زیادہ عرصے تک تحصیل علم اور تحقیق وتالیف میں مشغول رہتے ہیں ۔ علامہ جعفر مرتضیٰ اُن لبنانی طلاب میں سے ہیں کہ جو سب سے پہلے حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوئے ہیں ۔ اس دوران وہ تحصیل علم اور تدریس وتحقیق کے علاوہ قم میں مقیم لبنانی طلاب کی سرپرستی بھی کرتے رہے ہیں ۔ آخر کار وہ ١٤٣١ ھ میں لبنان واپس چلے جاتے ہیں

علامہ عاملی کا شمار سب سے زیادہ کتب تالیف کرنے والے علماء کی فہرست میں ہوتا ہے،اُنہوں نے زیادہ تر کام تاریخ اسلام میں کیا ہے اُن کی بہت سی تحقیقی تالیفات ہیں جن میں سے چند نمایاں نام یہ ہیں:١۔اکذوبتان حول الشریف الرضی ۔ ٢۔اعرف الکتب المحرفة؛ ٣۔حدیث الافک ٤۔الحیاة السیاسیة للامام الجواد (ع)؛ ٥۔الحیاة السیاسیة للامام الحسن (ع)؛ ٦۔الحیاة السیاسیة للامام الرضا (ع)؛ ٧۔ماساة الزھراء ٨۔دراسات وبحوث فی التاریخ والاسلام؛ ٩۔زواج المتعة؛ ١٠ ۔سنابل المجد؛ ١١۔السوق فی ظل الدولة الاسلامیة ١٢۔کربلا فوق الشبہات۔

جعفرمرتضیٰ عاملی کی ایک کتاب ''ابوذر ؛مسلمان یا سوشلسٹ ''بھی بہت مشہور ہو ئی تھی ۔ان سب کتابوں میں سب سے زیادہ شہرت اُنکی کتاب '' الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۖ '' کو حاصل ہوئی ہے چونکہ یہ کتاب سیرت نگاری میں عقلی اور قرآنی اسلوب اور درایت وتحقیق کے اصولوں کی پابند ی کرنے کی وجہ سے منفرد سمجھی جاتی ہے اور اس کتاب نے علمی دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی ہے ۔

کتاب کی اشاعت:اس کتاب کی ٩جلدیں پہلے شائع ہوئی تھیں اور اب اس کی جدید اشاعت ٣٥ جلدوں ہوئی ہے ،جن کو دارالحدیث قم نے شائع کیا ہے ۔کتاب'' الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۖ ''سیرت نگاری میں مفصل ترین تالیف ہے کہ جسے ایک شیعہ عالم نے لکھا ہے اور اپنی تحقیقات کے ذریعے سیرت نگاری میں ایک اہم اضافہ کیا ہے۔

مطالب کتاب:''الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۖ ''کی پہلی جلد تاریخ اسلام کے بارے میں تمہیدی مباحث پر مشتمل ہے جس میں تدوین کتاب کے اسلوب اور طریقہ تحقیق کی وضاحت کی گئی ہے ۔ مئولف نے جلد اول میں اموی اور عباسی حکمرانوں کی سنت رسول ۖ کی مخالفانہ سیاست کی وضاحت کی ہے اور سنت رسول ۖ کی تحریف کرنے کے سلسلے میں اُن کی بعض کوششوں کو ذکر کیا ہے ۔سید جعفر مرتضیٰ عاملی اس جلد میں صدر اسلام کے حقائق کو چھپانے اور اُن کی تحریف کرنے کی وجہ سے تاریخ نگاری پر جو غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے ہیں،کوخصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں ،اُن کی نظر میں تدوین حدیث کی ممانعت ،یہودیوں اور اہل کتاب کی تعلیمات کا اسلامی تعلیمات کے اندر داخل ہونا ،عدالت صحابہ کے نظریئے کی ترویج ،شیعہ راویوں کی روایات کو نظر انداز کرنا اور بعض اہل سنت بزرگوں کے لئے فضیلت تراشی کرنا ؛وہ علل واسباب ہیں کہ جو صحیح سیرت النبی ۖ کی تدوین کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

''الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۖ ''کی دوسری جلد تاریخ اسلام کے ابتدائی واقعات سے شروع ہوتی ہے جس میں جزیرة العرب کی توصیف ،تاریخ کعبہ ،قریش کا مقام ومنزلت ،رسول اللہ ۖ کا بچپن ،رسول اللہ ۖ کے سینہ چاک کرنے کی داستان کا تحلیل وتجزیہ ،رسول اللہ ۖ کے شام کی طرف پہلے سفر کی روداد ،رسول اللہ ۖ کی بعثت اور بعض صحابہ کے ایمان لانے کے واقعات کاتذکرہ کیا گیا ہے ۔

تیسری جلد معراج ،حبشہ کی طرف ہجرت ،شعب ابی طالب ،طائف کی طرف ہجرت ،انصار کی بیعت اور مدینہ کی طرف آپ ۖ کی ہجرت جیسے موضوعات پر مشتمل ہے ۔اس جلد میں بھی مئولف نے جگہ جگہ اُن روایات پر نقد ونظر کیا ہے کہ جو بعض افراد اور قبائل کے مفاد میں وضع کی گئی ہیں اور یہ وہ چیز ہے جو پہلی صدی ہجری میں حاکم سیاست خصوصاً اُموی دور حکومت کی خصوصیت شمار ہوتی ہے ۔

چوتھی جلد مدینہ کی طرف پیغمبر اکرم ۖ کی ہجرت سے لیکر بدر سے پہلے کے غزوات تک کو شامل ہے ۔اس جلد میں سھوالنبی ۖ جیسے کلامی موضوعات کے بارے میں مئولف کا نظریہ نیز بعض اسلامی احکام کے دفاع کے بارے میں اُن کا خصوصی رجحان بہت واضح ہے ۔اسی طرح اسلام میں فلسفہ جہاد کے بارے میں بحث بھی تفصیل کے ساتھ آئی ہے اور اسی کے ضمن میں پہلی اسلامی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں نبی اکرم ۖ کے اقدامات کا بھی تذکرہ ہوا ہے ۔

پانچویں جلد میں سیرت سے متعلق تاریخی واقعات ، یعنی؛جنگ بدر سے لیکر اُحد تک کے واقعات کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے ۔اس جلد میں جنگ بدر کے تمام واقعات تفصیل کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں ،جن میں سند روایات میں جو تناقضات پائے جاتے ہیں اُن کی تحقیق بہت اہم ہے ۔اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں کسی کتاب نے اس تفصیل کے ساتھ ان مباحث کو ذکر نہیں کیا ہے ۔

چھٹی جلد میں مئولف نے تفصیل کے ساتھ جنگ اُحد اور مدینہ کے یہود یوں سے متعلق بعض واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن میں اُن مشکلات کو بھی ذکر کیا ہے جو اس گروہ نے جدید اسلامی حکومت کے لئے ایجاد کررکھی تھیں ۔

ساتویں جلد میں واقعہ ''رجیع '' اور ''بئر معونہ '' کو خاص طور پر پیش کیا گیا ہے اور اسی کے ضمن میں ہجرت کے چوتھے سال کے بعض جزئی واقعات بھی ذکر ہوئے ہیں ۔

آٹھویں جلد غزوئہ بنی نضیر اور جنگ احزاب (خندق) سے پہلے کے واقعات کے بارے میں ہے ۔

نویں جلد مکمل طور پر جنگ احزاب (خندق ) کے واقعات پر مشتمل ہے ۔

دسویں جلد میں کتاب کی فہرستیں پیش کی گئی ہیں ۔جبکہ گیارہویں جلد غزوئہ بنی قریظہ اور غزوئہ مریسیع کے واقعات پر مشتمل ہے ۔باقی جلدوں کی تالیف کا کام ابھی تک جاری تھا، لیکن حال ہی میں اسکی جدید اشاعت ٣٥ جلدوں میں ہوئی ہے جو فی الحال ہماری دسترس میں نہیں ہے ۔

خصوصیات کتاب:

''الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۖ ''کی خصوصیات میں سے ایک اہم ترین خصوصیت اس کتاب میں نقل ہو نے والی تاریخی روایات کو کلامی اعتقادات کے معیارپر کھنا ہے ۔سید مرتضی ٰ جعفر عاملی نے ہر تاریخی واقعے کو اعتقادی اور کلامی معیار پر پرکھا ہے اور جو چیز قرآن اورعقل کی روشنی میں اسلامی اعتقادات کے خلاف تھی اسے جرح وتعدیل اور نقد ونظر کر کے دلیل وبرہان کے ساتھ رد کیا ہے ۔مئولف جب کلامی عقائد اور تاریخی واقعات کے درمیان تعارض دیکھتے ہیں تو جو چیز قطعی ویقینی نظر آتی ہے اور مستحکم حقائق کی عکاسی کرتی ہے اُسے منقولہ روایت پر ترجیع دیتے ہیں ۔اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں :

''مسلمہ کلامی مسائل اور جو چیزیں ہمارے مسلّمہ یقینی عقائد کی حکایت کرتی ہیں ،وہ صحیح اور غلط کی پہچان میں بنیادی وحتمی کردار ادا کرتی ہیں ،لہٰذا ہم ان یقینی اعتقادات کے ساتھ تعارض کرنے والی روایت کو قبول نہیں کرسکتے اور یہ چیز ہم چاہیں یانہ چاہیں خود بخود پیش آجاتی ہے ''۔

اسی بنیاد پر وہ بعض اُن تاریخی منقولات کو رد کردیتے ہیں جو مسلمہ دینی اعتقادات کے ساتھ تعارض رکھتی ہیں ۔انہی معیارات میں سے ایک معیار کہ جس سے مئولف محترم نے بہت سی تاریخی روایات کی تحقیق میں استفادہ کیا ہے ، عصمت انبیاء کی کسوٹی ہے ۔ مثلا ً پیغمبر اکرم ۖ کے بچپن کے زمانے کے بارے میں بعض روایات اس کسوٹی کی بنا پر مئولف کی جانب سے رد کردی جاتی ہیں کہ ''انہ کان معصوماً عما یستقبح قبل البعثة وبعد ھا '' ۔

اسی طرح بعض مسائل کہ جو اہل سنت کی بعض روایات میں پیغمبر اکرم ۖ کے ساتھ منسوب کئے گئے ہیں ، مئولف کی طرف سے اسی کسوٹی کی بنا پر رد کردیئے جاتے ہیں ،مثلاً: اہل مدینہ کا گانا بجھانا اور پیغمبر اکرم ۖ کا اسے سننا ۔اُن لوگوں پر لعن کرنا کہ جو لعن کے مستحق نہیں تھے ۔،پیغمبر اکرم ۖ کا اپنی زوجہ محترمہ کے ہمراہ ،حبشیوں کے رقص کو دیکھنا ۔

اسلوب تالیف:اپنی اس گرانقدر تالیف کے اسلوب کے بارے میں خود سید جعفر مرتضی ٰ عاملی لکھتے ہیں :''اکثر وبیشتر ،بنیادی طور پر ہم نے اپنی اس کتاب میں قدماء کی تالیفات کو پیش نظر رکھا ہے اور ان کی جانب رجوع کیا ہے ۔ہم عصر مئولفین کی کتابوں کی جانب کم رجوع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کتابیں صرف مطالب وابواب کی ترتیب میں فرق کے ساتھ عموماً اسلاف کے مطالب کا تکرار ہیں او رپھر اسلاف کے مطالب ہی کی توجیہ اور اس پر گفتگو کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنی تمام کوششوں کو اس بات میں صرف کیا ہے کہ حسین عبارتوں اور پُرکشش کلمات کے ذریعے اسلاف کے لکھے ہوئے مطالب کی تائید اور اسی پر تاکید کی جائے اور ان مطالب کے صحیح یا غلط ہو نے کے بارے میں انہوں نے کوئی غور وفکر نہیں کیا اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی تحقیق انجام نہیں دی ۔۔۔چاہے یہ مطالب جتنے بھی آپس میں متضاد ومتناقص ہوں پھر بھی ان سب کو جمع کرنا ضروری سمجھا ہے اور اس کے لئے ایسی توجیہات تراشی ہیں کہ جن کو عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی انسان کا ضمیر اسے قبول کرتا ہے ''۔پھر وہ اپنی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:''اس کتاب میں ہماری کوشش رہی ہے کہ ان تمام مطالب کے صحیح یا غلط ہو نے کے بارے میں تحقیق کریں جن کے تاریخ اسلام اور سیرت نبوی ۖ ہو نے کا دعوی کیا گیا ہے ،لیکن یہ تحقیق ہماری اس مختصر تصنیف کے مطابق کی گئی ہے جس کامقصد یہ ہے کہ بقدر امکان قارئین کو اس تاریخی دور کے حقائق سے تقریباً نزدیک کردیا جائے جو انتہائی نازک وحساس واقعات سے پُر نظر آتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جو بنیادی طور پر ہمیشہ اہل دنیا ،نفس پرست ومنفعت طلب افراد اور متعصب لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے ''۔

روایات کے قبول اور رد کر نے کے معیار کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :''ہم نے اسلام کے بنیادی اصولوں ،قرآن کریم اور پیغمبر اکرم ۖ کے اخلاق حسنہ اور آپ ۖ کی شخصیت سے کچھ ایسے اصولوں کوحاصل کیا ہے جو روایات کے قبول اور رد کرنے کا معیار ہیں اور انہی کے ذریعے نقل کی جانے والی اکثر روایات کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کس قدر ان مسلّم اور بنیادی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے تمام شخصیات کی سیرت ،ان کے اخلاق ،ان کے نظریات اور ان کے مئوقف کو سمجھا جا سکتا ہے ''۔

یہ کتاب اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ایک نقص بھی رکھتی ہے اور وہ یہ کہ مئولف محترم نے عصر پیغمبر ۖ کے واقعات کو یکساں انداز میں پیش نہیں کیا چونکہ اُنہوں نے بعض واقعات کو خصوصی توجہ دی ہے اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض واقعات پر کئی صفحات صرف ہوئے ہیں لیکن بعض واقعات کو سرسری نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

کتاب کے منابع:سید جعفر مرتضیٰ عاملی نے ''الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۖ ''کی تالیف میں مختلف تاریخی ،کلامی ،تفسیری کتابوں سے استفادہ کیا ہے جن میں اہل سنت کی کتابیں بھی شامل ہیں اور اہل تشیع کی بھی ،اگرچہ اُن کے اکثر منابع اہل سنت ہی کی کتابیں ہیں لیکن اعتقادی وتفسیری ابحاث میں اُنہوں نے شیعہ کتب سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے ۔وہ اپنی کتاب کے منابع کے حوالے سے لکھتے ہیں :''ہم نے اپنی کتاب میں جتنے کم سے کم حوالوں ،شواہد ،دلائل اور ان کے منابع کی ضرورت تھی اسی پر اکتفا کیا ہے اگر چہ کتاب کے مطالب وحقائق کی تائید اور ان پر تاکیدکے لئے اور بھی زیادہ حوالوں اور شواہد کا اضافہ کیا جاسکتا تھا ''۔

اُردو اور فارسی ترجمے:اس کتاب کے فارسی او راُردو میں بھی تراجم ہو چکے ہیں ۔فارسی میں اس کے دوترجمے ہوئے ہیں ۔ فارسی میں ایک ترجمہ ڈاکٹر محمد سپھری نے کیا ہے جو ١٠جلدوں میں شائع ہوا ہے ۔اُردو میں اس کتاب کی پہلی دو جلدوں کا ترجمہ قم میں ہوا تھا جسے اب جدید تصحیح کے ساتھ معارف اسلام پبلشرز،قم نے شائع کیا ہے۔