حکومت مہدي عج اور اسلامي تہذيب کا عروج
حکومت مہدي عج اور اسلامي تہذيب کا عروج
0 Vote
247 View
امام زمانہ عج کي حکومت صحيح معنوں ميں اسلام کي حکومت ہو گي جس ميں اسلامي تہذيب و تمدن اپنے عروج پر پہنچ جائے گا. حضرت مہدي عج کي حکومت ميں لوگ بے سابقہ طور پر اسلام کي طرف مائل ہوں گے، نيز اضطراب، گھٹن، دينداروں کے کچلے جانے اور مظاہر اسلامي پر پابندي لگانے کا دور ختم ہو چکا ہو گا? ہر جگہ اسلام کا بول بالا ہو گا اور ديني آثار جلوہ فگن ہوں گے? بعض روايات کي تعبير کے مطابق اسلام ہر گھر، خيمے اور محلے ميں پہنچ چکا ہو گا جس طرح سردي اور گرمي نفوذ کرتي ہے، اس لئے کہ سردي و گرمي کا نفوذ اختياري نہيں ہے اگرچہ اس سے بچاؤ کے باوجود نفوذ کر کے اپنا اثر دکھا ہي ديتي ہے? اسلام اس زمانے ميں بعض لوگوں کي مخالفت کے باوجود شہر، ديہات، دشت و صحرا بلکہ دنيا کے چپہ چپہ ميں نفوذ کر کے سب کو اپنے زير اثر لے لے گا. ايسے ماحول ميں فطري طور پر شعائر ديني اور مظاہر اسلامي سے لوگوں کي دلچسپي انتہائي زيادہ ہو گي. لوگوں کا قرآني تعليمات، نماز جماعت اور نماز جمعہ ميں شريک ہونا قابل ديد ہو گا، نيز موجودہ مساجد يا جو بعد ميں بنائي جائيں گي، لوگوں کي ضرورتيں برطرف نہيں کر پائيں گي? جو روايت ہے وہ يہ کہ ايک مسجد ميں بارہ 12 دفعہ نماز جماعت ہو گي? يہ خود ہي مظاہر اسلامي کے حد درجہ قبول کرنے کي واضح و آشکار دليل ہے. ان حالات ميں ديني اور مذہبي ذمہ داري کے حامل اداروں کا بہت بڑا کردار ہے اور آبادي کے لحاظ سے مسجديں بنائي جائيں گي? روايات ميں ہے کہ اُس زمانے ميں سب سے چھوٹي مسجد آج کي مسجد کوفہ جتني ہو گي جبکہ يہ مسجد آج دنيا کي سب سے بڑي مسجد ہے يہاں پر ہم روايت کي روشني ميں امام مہدي عج کے دوران حکومت ميں قرآن کي تعليم، معارف ديني، مساجد، روحاني ترقي اور کريمانہ اخلاق پر روشني ڈاليں گے. 1: قرآن اور ديني معارف کي تعليم: امير المومنين علي عليہ السلام فرماتے ہيں: "گويا ہم اپنے شيعوں کو مسجد کوفہ ميں اکٹھا ديکھ رہے ہيں کہ وہ (چادريں بچھا کر) چادروں پر لوگوں کو قرآن کي تنزيل کے اعتبار سے تعليم دے رہے ہيں"(1) امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: "گويا ميں علي کے شيعوں کو ديکھ رہا ہوں کہ قرآن ہاتھ ميں لئے لوگوں کو تعليم دے رہے ہيں"(2) اصبغ بن نباتہ روايت کرتے ہيں: ميں نے حضرت علي عليہ السلام کو کہتے ہوئے سنا: "گويا غير عرب (عجم) کو ديکھ رہا ہوں کہ مسجد کوفہ ميں اپني چادريں بچھائے تنزيل کے اعتبار سے لوگوں کو تعليم دے رہے ہيں"(3) يہ روايت تعليم دينے والوں کا نقشہ کھينچ رہي ہے کہ وہ سب عجم (غير عرب) ہوں گے? لغت دان حضرات کے مطابق يہاں عجم سے مراد اہل فارس و ايراني ہيں? امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: "حضرت مہدي عج کے زمانے ميں تمہيں اتني حکمت و فراست عطا ہو گي کہ ايک عورت اپنے گھر ميں کتاب خدا و سنت پيغمبر ص کے مطابق فيصلہ کرے گي"(4) 2: مساجد کي تعمير حبہ عربي کہتے ہيں کہ جب امير المومنين علي عليہ السلام سرزمين "حيرہ" (5) کي طرف روانہ ہوئے تو کہا: "يقينا حيرہ شہر ميں ايک مسجد بنائي جائے گي جس کے 500 دروازے ہوں گے اور بارہ عادل امام جماعت اس ميں نماز پڑھائيں گے"? ميں نے کہا: يا امير المومنين، جس طرح آپ بيان فرما رہے ہيں کيا مسجد کوفہ ميں لوگوں کي اتني گنجائش ہو گي؟ تو آپ نے فرمايا: "وہاں چار مسجديں بنائي جائيں گي? موجودہ مسجد کوفہ ان سب سے چھوٹي ہو گي اور يہ مسجد (مسجد حيرہ جو پانچ سو دروازوں والي ہے) اور دو ايسي مسجديں جو شہر کوفہ کے دو طرف ميں واقع ہوں گي بنائي جائيں گي"? اس وقت حضرت ع نے بصرہ اور مغرب والوں کے دريا کي طرف اشارہ کيا(6) نيز آپ ع فرماتے ہيں: ''حضرت مہدي عج اپني تحريک جاري رکھيں گے تاکہ قسطنطنيہ يا اس سے نزديک مسجديں بنا دي جائيں"(7) مفضل کہتے ہيں کہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا: "حضرت قائم عج قيام کے وقت شہر کوفہ سے باہر ايک ہزار دروازوں والي مسجد بنائيں گے"(8) شايد روايت ميں "ظہر الکوفہ" سے مراد نجف اشرف ہو، چونکہ دانشمندوں نے نجف اشرف کو "ظہر الکوفہ" سے تعبير کيا ہے? جناب طوسي رح کي روايت جو امام محمد باقر عليہ السلام سے منقول ہے کا ظاہر بھي ايسا ہي ہے(9) 3: اخلاق و معنويت ميں رشد اور ترقي امير المومنين علي عليہ السلام فرماتے ہيں: "لوگ حضرت مہدي عج کے زمانے ميں عبادت اور دين کي طرف مائل ہوں گے اور نماز جماعت سے ادا کريں گے"(10) امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: "کوفہ کے گھر کربلا و حيرہ سے متصل ہو جائيں گے، اس طرح سے کہ ايک نماز گذار جمعہ ميں شرکت کے لئے تيز رفتار سواري پر سوار ہو گا، ليکن وہاں تک نہيں پہنچ سکے گا"(11) يہ کنايہ شايد آبادي کے اضافے اور لوگوں کے ہجوم کي جانب ہو جو نماز جمعہ ميں شرکت کيلئے آئے ہوں اور دوسروں کيلئے شرکت کو مشکل بنا ديں اور جو يہ کہا گيا ہے کہ تمام نماز گذار يکجا ہو جائيں گے اور ايک نماز جمعہ ہو گي شايد اس کي وجہ تين شہروں کا ايک ہو جانا ہو، اس لئے کہ شرعي لحاظ سے ايک شہر ميں ايک ہي نماز جمعہ ہو سکتي ہے? فيض کاشاني نے ابن عربي کي بات نقل کي ہے جس کے بارے ميں احتمال ہے کہ شايد کسي معصوم سے ہو: "حضرت قائم عج کے قيام کے وقت ايک شخص اپني رات ناداني، بزدلي اور کنجوسي ميں گذارے گا ليکن صبح ہوتے ہي سب سے زيادہ عاقل، شجاع اور سخي انسان ہو جائے گا اور کاميابي حضرت کے آگے آگے قدم چومے گي"(12) حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں: "حضرت قائم عج کے قيام کے وقت لوگوں کے دلوں سے کينے ختم ہو جائيں گے"(13) نيز پيغمبر اکرم ص اس سلسلے ميں فرماتے ہيں: "اس زمانے ميں کينے اور دشمني دلوں سے ختم ہو جائے گي"(14) امام حسن عليہ السلام اخلاقي فساد اور انحراف کے بارے ميں فرماتے ہيں: "خداوند عالم آخري زمانے ميں ايک شخص کو مبعوث کرے گا اور کوئي فاسد اور منحرف نہيں رہ جائے گا مگر يہ کہ اس کي اصلاح ہو جائے"(15) امام مہدي عج کے دوران ظہور کي ايک خصوصيت يہ ہے کہ لوگوں ميں حرص اور طمع کا خاتمہ ہو جائے گا اور ان ميں بے نيازي پيدا ہو جائے گي? رسول خدا ص فرماتے ہيں: "جس وقت حضرت قائم قيام کريں گے خداوند عالم لوگوں کے دلوں کو غني اور بے نياز کر دے گا? حتي کہ حضرت اعلان کريں گے جسے مال اور دولت چاہئے وہ ميرے پاس آئے ليکن کوئي آگے نہيں بڑھے گا"?(16) اس روايت ميں قابل توجہ نکتہ يہ ہے کہ اس حديث ميں لفظ ''عباد'' کا استعمال ہوا ہے، يعني روحاني تبديلي کسي گروہ سے مخصوص نہيں ہے بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے? اسي روايت ميں آنحضرت ص فرماتے ہيں: "تم کو مہدي عج کي خوشخبري دے رہا ہوں، جو لوگوں کے درميان مبعوث ہوں گے، جبکہ لوگ آپس کي کشمکش اور اختلاف و تزلزل ميں مبتلا ہوں گے? پھر اس وقت زمين کو عدل و انصاف سے بھرديں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھري ہو گي نيز زمين و آسمان کے رہنے والے اس سے راضي و خوشنود ہوں گے? خداوند عالم امت محمد ص کے دل بے نيازي سے بھر دے گا اس طرح سے کہ منادي ندا دے گا جسے بھي مال کي ضرورت ہے آ جائے (تاکہ اس کي ضرورت برطرف ہو) ليکن ايک شخص کے علاوہ کوئي نہيں آئے گا? اس وقت حضرت مہدي عج کہيں گے: خزانہ دار کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ مہدي نے حکم ديا ہے کہ مجھے مال و ثروت دے دو? خزانہ دار کہے گا: دونوں ہاتھوں سے پيسہ جمع کرو، وہ بھي پيسے اپنے دامن ميں بھرے گا ليکن ابھي وہاں سے باہر نہيں نکلے گا کہ پشيمان ہو گا اور خود سے کہے گا کيا ہوا کہ ميں محمد ص کي امت کا سب سے لالچي انسان ٹھہرا! کيا جو سب کي بے نيازي و غنا کا باعث بنا ہے وہ ہميں بے نياز کرنے سے ناتواں ہے؟? پھر اس وقت واپس آ کر تمام مال لوٹا دے گا، ليکن خزانہ دار قبول نہيں کرے گا اور کہے گا ہم جو چيز دے ديتے ہيں وہ واپس نہيں ليتے"(17) روايت ميں (يملئ قلوب ام? محمد) کا جملہ استعمال ہوا ہے لہذا شايان توجہ ہے، اس لئے کہ غناء و بے نيازي کا ذکر نہيں ہے بلکہ روح کي بے نيازي مذکور ہے? ممکن ہے کہ ايک انسان فقير ہو ليکن اس کي روح بے نياز و مطمئن ہو گي? اس روايت ميں (يملاء قلوب ام? محمد) کے جملے کا استعمال يہ بتاتا ہے کہ ان کے دل بے نياز و مطمئن ہيں? اس کے علاوہ مالي اعتبار سے بھي بہتر حالت ہو گي? حضرت مہدي عج کے زمانے ميں اخلاقي کمال، قوت قلب اور عقلي ترقي کے بارے ميں چند روايت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہيں امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: "جب قائم عج قيام کريں گے تو اپنا ہاتھ بندگان خدا کے سروں پر پھيريں گے، ان کي عقلوں کو جمع کريں گے (رشد عطا کريں گے اور ايک مرکز پر لگا ديں گے) اور ان کے اخلاق کو کامل کريں گے"(18) بحار الانوار ميں "احلامھم" کا لفظ استعمال ہوا ہے يعني ان کي آرزؤں کو پورا کريں گے(19) امام زمانہ عج جب اسلامي قوانين کو بطور کامل اجراء کريں گے تو لوگوں کے رشد فکري ميں اضافہ کا باعث ہوگا نيز رسول خدا ص کا ہدف کہ آپ کہتے تھے: "ميں لوگوں کے اخلاق کامل کرنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں"? (عملي ہوجائے گا) رسول خدا ص حضرت فاطمہ س سے فرماتے ہيں: "خداوند عالم ان دونوں (حسن و حسين علھم السلام) کي نسل سے ايک شخص کو مبعوث کرے گا جو گمراہي کے قلعوں کو فتح اور سياہ دل، کور باطن اور مردہ ضميروں کو تسخير کرے گا"(20) امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: امير المومنين علي عليہ السلام نے فرمايا: "ميري نسل سے ايک شخص ظہور کرے گا اور اپنے ہاتھ بندگان خدا کے سر پر رکھے گا? اس وقت ہر مومن کا دل لوہے سے زيادہ مضبوط اور سندان (جس پر لوہار لوہا کوٹتے ہيں) سے زيادہ مستحکم ہو جائے گا اور ہر شخص چاليس مردوں کي قوت کا مالک ہو گا"(21) رسول خدا ص فرماتے ہيں: "زمين اپنے سينے ميں محفوظ بہتر سے بہتر چيزوں کو باہر نکال دے گي جيسے سونے چاندي کے ٹکڑے، اس وقت قاتل آئے گا اور کہے گا ہم نے ان چيزوں کے لئے قتل کيا ہے، جس نے قطع رحم کيا ہے کہے گا يہ قطع رحم کا باعث ہوا ہے، چور کہے گا اس کے لئے ميرا ہاتھ قطع ہوا ہے پھر سب سونے کو پھينک ديں گے اور کوئي بھي اس سے کچھ نہيں لے گا"(22) زيد زراء کہتے ہيں ميں نے امام صادق عليہ السلام سے عرض کي: مجھے خوف ہے کہ کہيں ميں مومنين ميں نہ رہوں آپ ع نے پوچھا کہ کيوں؟ ميں نے کہا: چونکہ ميں کوئي ايسا شخص نہيں ديکھ رہا جو درہم و دينار پر اپنے بھائي کو مقدم کرے بلکہ ديکھ رہا ہوں کہ درہم و دينار ہمارے نزديک اُن ديني و ايماني بھائيوں پر اہميت رکھتے ہيں جو امير المومنين ع کي ولايت و دوستي کا دم بھرتے ہيں? حضرت ع نے فرمايا: "نہيں، تم ايسے نہيں ہو بلکہ تم مومن ہو، ليکن تمہارا ايمان ہمارے قائم عج کے ظہور سے قبل کامل نہيں ہو گا? اس وقت خداوند عالم تمہيں بردباري و صبر عطا کرے گا، پھر اس وقت کامل مومن بن جاؤ گے"(23) منابع و مآخذ: 1:نعماني، غيب?، ص 319؛ بحار الانوار، ج52، ص 365 2:نعماني، غيب?، ص 318؛ بحار الانوار، ج52، ص 364 3:نعماني، غيب?، ص 318؛ بحار الانوار، ج52، ص 364 4:الارشاد، ص 365؛ کشف الغمہ، ج3، ص 265؛ نور الثقلين، ج5،ص 27؛ روض? الواعظين، ج2، ص 265 5:مجمع البحرين، ج6، ص 111 6:بحار الانوار، ج52، ص 352 7:حيرہ کوفہ سے ايک فرسخ کے فاصلہ پر ايک شہر تھا ساسانيوں کے زمانے ميں ملوک لخمي وہاں حکومت کرتا تھا وہ لوگ ايران کي سرپرستي ميں تھے ليکن خسرو پرويز نے 602 م ميں اس سلسلے کو توڑ ڈالا اور وہاں حاکم معين کيا اور حيرہ مسلمانوں کے ہاتھوں ميں آنے کے بعد بناي کوفہ کي علت سے زوال پذير ہوا اور دسيوں صدي م سے اور چوتھي صدي ہجري سے قبل کلي طور پر نابود ہوگيا? معين، ج5، ص 470 8:التہذيب، ج3، ص253، کافي، ج4، ص 427؛ من لايحضر الفقيہ، ج2، ص 525؛ وسائل الشيعہ، ج9، ص 412؛ مرأ? العقول، ج18، ص58؛ ملا ذالاخيار، ج5، ص 478؛ بحار الانوار، ج52، ص 375 9:غيبت طوسي، ص 429؛ اثبات الھدا?، ص 515؛ بحارالانوار، ج52، ص 330 10:احقاق الحق، ج13، ص 312 11:الارشاد، ص 362؛ طوسي، غيب?، ص 295؛ اثبات الھدا?، ج3، ص 537؛ وافي، ج2، ص 112؛ بحارا لانوار، ج52، ص 330، 337 12:عقد الدرر، ص 159 13:طوسي، غيب?، ص 295:اثبات الھدا?، ج3، ص 537؛ وافي، ج2، ص 112؛ بحارا لانوار، ج52، ص 330، 337 14:وافي، ج2، ص 113، بہ نقل از : فتوحات مکيہ 15:خصال، ج2، ص 254، ح 1051 16:بدالرزاق، مصنف، ج11، ص 402، ابن حماد، فتن، ص 162، ابن طاوؤس، ملاحم، ص 152 17:منن الرحمن، ج2، ص 42؛ اثبات الہدا?، ج3، ص 524،نقل از : امير المومنين - 18:ابن طاؤس، ملاحم، ص 71؛ احقاق الحق، ج13، ص 186؛ الشيعہ والرجعہ، ج1، ص 27 19;احمد ، مسند، ج3، ص 37، 52؛ جامع احاديث الشيعہ، ج2، ص 34؛ احقاق الحق، ج13، ص 146 20:کافي ، ج1، ص 15؛ خرائج، ج2، ص 840؛ کمال الدين، ج2، ص675 21:بحار الانوار، ج52، ص 336 22:عقد الدر، ص 152؛ احقاق الحق، ج13، ص 116؛ اثبات الہدا?، ج3، ص 448، 495 23:کمال الدين ، ج2، ص 653؛ دلائل الامامہ، ص 243؛ کامل الزيارات، ص 119 منبع : http://www.ahlebait.in