انسان کامل
انسان کامل
Author :
Interpreter :
Publisher :
Publish number :
7
Publication year :
2008
Publish location :
کراچی پاکستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
انسان کامل
شیخ مرتضیٰ مطہری ۱۹۲۰ء میں مشہد مقدس کے ایک گاؤں فریمان میں شیخ محمد حسین مطہری کے گھر پیدا ہوئے۔ مشہد میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے حوزہ علمیہ قم میں داخلہ لیا۔ وہاں۱۹۴۴ء سے ۱۹۵۲ء تک آپ نے آیت اللہ بروجردی سے فقہ اور اصول ، آیت اللہ خمینی سے ملا صدرا کا فلسفہ ، عرفان اور اخلاق اور علامہ طباطبائی سے فلسفہ ، بو علی سینا کی شفا وغیرہ اور آیت اللہ میرزا علی آقا شیرازی سے اخلاق اور عرفان کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی شخصیت کی تعمیر اور تشکیل میں ان اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔
قم میں تکمیل تعلیم کے بعد آپ ایک عرصے تک تہران یونیورسٹی میں الٰہیات اور معارف اسلامی کے سربراہ رہے۔ استاد شہید امت کی اصلاح میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ سینکڑوں اہم موضوعات پر آپ کی تحریریں اور تقریریں ’’ مجموعہ آثار شہید مطہری ‘‘ کے عنوان سے ۲۰ مجلدات میں شائع ہوچکی ہیں۔ تدریسی امور کے علاوہ آپ اجتماعی ، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ آپ علمی اور تبلیغی مقاصد کے لیے قائم ہونے والے ادارے ’’حسینیہ ارشاد ‘‘ تہران کے بانی اراکین میں سے تھے۔ اس ادارے سے آپ کا بہت سا علمی کام شائع ہوا ہے۔ جب انقلاب اسلامی ایران کی تحریک زور پکڑنے لگی تو شاہ کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں آپ کو جیل بھیج دیا گیا۔
آپ انقلاب اسلامی ایران کے ایک مرکزی رہنما تھے اور آپ نے انقلاب کی کامیابی کے لیے بڑی جدوجہد کی تھی۔ امام خمینی نے آپ کو دستور ساز کونسل کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ اسلام کی ترویج اور اسلامی انقلاب کے لیے کام کرنے کے جرم میں ایک انتہا پسند مذہبی گروپ ’’ فرقان ‘‘ نے یکم مئی ۱۹۷۹ء کو گولی مار کر آپ کو شہید کردیا۔
کتاب کا تعارف:
زیر نظر کتاب ’’ انسانِ کامل ‘‘ کے موضوع پر اُستاد شہید مرتضیٰ مطہری کی تقریروں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ۱۹۷۳ء کے ماہِ رمضان المبارک میں کی تھیں۔ انھوں نے ان تقریروں کا عنوان ’’ انسانِ کامل ‘‘ رکھا ہے۔ انسانِ کامل کا نظریہ سب سے پہلے محی الدین ابن عربی نے پیش کیا تھا۔استاد شہید مطہری نے ان تقاریر میں حضرت علی علیہ السلام کو اسلام کے انسانِ کامل کے طور پر پیش کیا ہے جو ابن عربی کے انسانِ کامل سے مختلف ہے۔
ان تقریروں کا پس منظر یہ ہے کہ اُن دنوں ایران میں سماجی مسائل پر زیادہ بات کی جاتی تھی اور معنوی اسلام کو کم اجاگر کیا جاتا تھاکیونکہ ایران میں مختلف سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں جیسے حزب سوسیالیست ، حزب کمیونیست اور تودہ پارٹی سوشلزم اور کمیونزم کا پرچار کر رہی تھیں۔
چنانچہ اُستاد شہید جو مسلمانوں کا بالخصوص ملت ایران کا ’’ درد رکھتے تھے ‘‘ ایران کے نوجوانوں کو غیر اسلامی نظریات سے بچانا اور اُن کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اسلام میں سماجی پہلو کے ساتھ ساتھ معنوی پہلو بھی اہمیت رکھتا ہے لہٰذا اس دینِ مقدس کے ماننے والوں میں تمام قدریں ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھنی چاہئیں۔ موجودہ ایڈیشن کے آخر میں استاد شہید کی دو تقریروں کا اضافہ کیا گیا ہے نیز پروفیسر توشی ہیکو ازتسو کا مضمون بعنوان ’’ وجودیت : مشرق و مغرب ‘‘ بھی بطور ضمیمہ اس اشاعت میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وضاحتی یا معلوماتی حاشیےبھی لکھے گئے ہیں اور بعض جگہ مطالب کو قوسین میں لکھا ہے جو کتاب کے متن کا حصہ نہیں ہے۔
امید ہے کہ یہ کتاب ہمارے جوانوں کو معنوی اسلام سے قریب تر لے آئے گی اور اُن میں تمام قدریں ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھیں گی اور وہ غیر اسلامی نظریات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔