تاریخ تشیّع
تاریخ تشیّع
Author :
Interpreter :
Publisher :
Publication year :
2001
Publish location :
لاہور پاکستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
تاریخ تشیّع
تاریخ تشیع «The Origins and Early Development of Shi'aIslam» نامی کتاب کا اردو ترجمہ ہے اس کتاب میں صدر اسلام سے لے کر حضرت امام جعفر صادقؑ کے دور تک شیعہ مذہب کی ابتدا اور اس کی تشکیل کے مختلف مراحل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف سید حسین محمد جعفری ہیں جن کا تعلق پاکستان کراچی سے ہے۔
اس کتاب میں بیان شدہ مطالب کے مطابق صدر اسلام میں مسلمانوں کے مابین افتراق اور جدائی کا واحد سبب سقیفہ کا واقعہ تھا۔ شیعہ مذہب کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی جنہوں نے حضرت امام علیؑ کی پیروی کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیا۔ مصنف نے سقیفہ کے واقعے (11ھ) اور عثمان بن عفان کی خلافت (24ھ)کے درمیانی وقفے کو تشیع کی تشکیل کا پہلا دور قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تشیع کی تشکیل کا دوسرا مرحلہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد شروع ہوا۔ مصنف کے مطابق جناب عثمان کی خلافت سے لے کر حضرت علیؑ کی شہادت تک کا زمانہ شیعیت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ نیز صلح امام حسنؑ بھی مکتب تشیع کے نشو و نما میں طویل المیعاد نتائج برآمد ہونے میں مددگار ثابت ہوئی۔
مصنف کے مطابق شیعہ فقہ کا آغاز حضرت امام محمد باقرؑ اور حضرت امام جعفر صادقؑ کے دور میں ہوا۔ اس سے پہلے شیعہ اور اہل سنت کے فقہی مسائل کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔
تألیف کا محرک دستیاب دستاویزات خاص کر تاریخی منابع کی روشنی میں شیعہ مذہب کی پیدائش اور تکامل کے علل و اسباب کا جائزہ لینا اس کتاب کی بینادی محرکات میں سے ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ دین اسلام کے ظہور کے بارے میں کافی حد تک تحقیق اور مختلف پہلؤوں سے اس کا جائزہ لیا گیا ہے لیکن شیعہ مذہب کی پیدائش اور تکامل کے علل و ا سباب پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سید حسین محمدی کہتے ہیں کہ شیعہ مذہب کی ابتداء اور اس کے مختلف مراحل کے بارے میں اب تک جو قلمی آثار منظر عام پر آچکے ہیں وہ سارے عبد القاہر بغدادی، ابن حزم اندلیسی اور عبد الکریم شہرستانی کی ادیان و مذاہب کے سلسلے میں لکھی گئی کتابوں کے زیر اثر رہے ہیں۔ جبکہ ان کتابوں میں شیعوں کے ساتھ غیر حقیقت پسندانہ اور معاندانہ رویہ کئے گئے ہیں۔
پیدائش تشیع کے بارے میں مصنف کا نظریہ کتاب کے مصنف کے مطابق مسلمانوں کے مابین افتراق اور جدائی کا اصلی سبب سقیقہ کا واقعہ ہے۔ ان کے خیال میں تاریخ تشیع کے سلسلے میں تحقیق کے دوران اس واقعے سے چشم پوشی کے برے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مصنف کے مطابق تشیع کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی جنہوں نے حضرت علیؑ سے پہلے خلیفہ اول کی بیعت سے انکار کیا۔ کتاب کے مصنف کے مطابق سقیفہ کے واقعے سے لیکر حضرت عمر کے دور میں خلیفہ منتخب کرنے کے لئے بنائی گئی چھے رکنی کمیٹی کی تشکیل تک کا دورانیہ تاریخی لحاظ سے تشیع کی پیدائش کا زمانہ ہے۔ یاد رہے کہ اسی چھے رکنی کمیٹی ہی کی بدولت حضرت عثمان خلیفہ منتخب ہوا تھا۔ اسی وجہ سے مصنف حضرت علیؑ اور شیخین کے مابین خلافت کے بارے میں اختلاف کو تشیع کی پیدائش کا نسبتا غیر اعلانیہ اور پوشیدہ دور سمجھتے ہیں۔
سید جعفری عثمان کی خلافت سے امام علیؑ کی شہادت تک کو مختلف جہتوں سے شیعیت کی پیدائش اور ترقی کا ایک اہم موڑ سمجھتے ہیں۔ [14] ان کے مطابق صلح امام حسنؑ بھی اس سلسلے میں دیرپا نتائج کا حامل ہے۔ [15] ان کی نظر میں تاریخ تشیع کا دوسرا مرحلہ امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد شروع ہوا اور ساتھ ہی تشیع کے کچھ فرقے بھی اسی زمانے میں وجود میں آئے۔
حسین محمد جعفری کا عقیدہ ہے کہ عصر امام باقرؑ تک اہل تشیع اور اہل سنت کے فقہی مسائل کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے اور امام محمد باقرؑ کے زمانے میں شیعہ فقہ کا آغاز ہوا۔ اگرچہ مصنف کی رائے میں عبدالرحمن بن عوف کی طرف سے حضرت علیؑ کو خلافت کے لئے شیخین کی سنت پر چلنے کی شرط اور امام علیؑ کی جانب سے اسے مسترد کرنا دو فقہی مکاتب کی پیدائش کا سبب بنا تھا۔
کتاب کے مندرجات کتاب ہذا گیارہ فصلوں پر مشتمل ہے:
بنیادی مفاہیم و تصورات: مصنف نے اس فصل میں اسلامی معاشرے کی شیعہ و سنی تقسیم کی بنیادوں پر بحث کی ہے۔ سقیفہ اور سازشوں کی شروعات: اس فصل میں شیعہ اور سنی منابع و مآخذ کی روشنی میں سقیفہ کے واقعے کی تفصیلی داستان بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے مہاجرین کے درمیان قبائلی دشمنی، تصادم کی صورت میں انصار کی فتح کا خوف، اوس اور خزرج کے درمیان قبائلی دشمنی اور ابوبکر کی ریش سفیدی اور پیغمبرؐ کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کو منصب خلافت پر انہیں ترجیح دینے کی بنیادی وجوہات میں سے قرار دیا ہے۔ امام علیؑ اور شیخین کا تقابل: مصنف نے اس فصل میں خلافت کے سلسلے میں امام علیؑ اور شیخین (ابوبکر و عمر) کے ایک دوسرے کے خلاف سخت موقف کو شیعہ تاریخ کی تشکیل کا خاموش آغاز قرار دیا ہے۔ مصنف نے اس فصل میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی شہادت اور ابوبکر کے خلاف قبائلی بغاوتیں حضرت علیؑ کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کا سبب ہے۔ اسی طرح مصنف کی نظر میں غصب فدک اور ابوبکر کا عمر بن خطاب کو خلیفہ منتخب کرنا شیخین کے ایسے اقدامات ہیں جن سے امام علیؑ کے فضائل و کمالات کو مضمحل کرنے کوشش کی گئی۔
تحریک تشیع کی تجدید حیات: مصنف نے اس فصل میں تحریک تشیع کی رونق میں اضافہ اور اس کے مزید نمایاں ہونے کے عوامل و اسباب بیان کیے ہیں۔ اس فصل میں عثمان کا مسند خلافت پر پہنچنے کا طریقہ، قتل عثمان کے سلسلے میں امام علیؑ کا موقف، قتل عثمان کے بعد لوگوں کا جوق در جوق امام علیؑ کی طرف آمد اور آپؑ کو خلیفہ بننے کی پیشکش، ابتدا میں امام علیؑ کا خلافت قبول کرنے سے انکار اور اس کی وجوہات اور حضرت علیؑ کے خلاف جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان چھڑ جانے کی وجوہات تفصیل سے بیان کی ہیں۔
کوفہ شیعہ سرگرمیوں کا مرکز: مصنف نے اس فصل میں کوفہ کی تاریخی حیثیت، یہاں کی آبادی اور لوگوں کے فکری رجحانات بیان کیے ہیں۔ انہوں نے امام علیؑ کے زمانے میں کوفہ کے حالات کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کوفیوں کا شیعہ مذہب کی طرف مائل ہونے میں یمنیوں اور اہل فارس کا کردار ہے جن کی یہاں اکثریتی آبادی تھی۔ مصنف کی نظر میں اہل کوفہ وہ پہلے لوگ ہیں جنہوں نے مالک اشتر کی رہنمائی میں امام علیؑ کی بیعت کی۔ ان تمام باتوں کے تناظر میں انہوں نے اہل کوفہ کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا گروہ ان لوگوں کا تھا جو امام علیؑ کے فرمان پر پورے ایمان کے ساتھ سر تسلیم خم تھے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو معاویہ کی طرف میلان رکھتے تھے۔ تیسرا گروہ ان عام لوگوں پر مشتمل تھا جو حضرت علیؑ کی طرف میلان تو رکھتے تھے لیکن خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ صلح امام حسنؑ: کتاب کے اس حصے میں مصنف نے امام حسن ؑ کی شخصیت کا تعارف پیش کیا ہے۔ امام حسنؑ کو صلح مجبور کرنے کے لیے معاویہ کی جانب سے انجام دئے جانے والے اقدامات کی وضاحت بیان کی ہے۔ مصنف کی نظر میں اس دور میں شیعوں کے سکوت کی وجہ وہ سخت گھٹن ماحول تھا جسے معاویہ نے پیدا کررکھا تھا۔ مصنف کا خیال ہے کہ امام حسنؑ کا معاویہ کے ساتھ مبارزہ اور جہاد، اسلامی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے اس بنا پر انہوں نے اس واقعے کے منابع کی معرفی کے ساتھ ان کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ شہادت امام حسینؑ: اس فصل میں یزید کی خلافت پر براجمان ہونے سے لے کر امام حسینؑ کی شہادت تک کے واقعات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ واقعہ کربلا کا رد عمل: اس فصل میں تاریخ تشیع پر واقعہ کربلا کے اثرات، توابین کے قیام کی بنیاد اور مختار ثقفی کے قیام کی وضاحت بیان ہوئی ہے۔ حق کے راستے میں جد و جہد: امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقرؑ کے زمانے میں شیعوں کے داخلی مسائل اور بعض شیعہ فرقوں کے وجود میں آنے کے بارے میں تفصیلی مطالب اس فصل میں بیان ہوئے ہیں۔ امام جعفر صادقؑ: اس فصل میں امام جعفر صادقؑ کے حالات زندگی اور آپؑ کے زمانے کے مختلف تقاضوں کو بیان کیا ہے۔ مصنف کی نظر میں عصر امام صادقؑ کے شیعوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک گروہ نے اپنے عقیدے کی بنیادوں کو کیسانیہ سے اخذ کر رکھا تھا، دوسرا گروہ زید بن علی کا پیروکار تھا جبکہ ایک گروہ امام صادقؑ کی تبعیت میں تھا۔ مکتب امامت اس فصل میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے امامت کے سلسلے میں دو نکات کو بطور تاکید بیان فرمایا ہے، پہلا نکتہ امام کا منصوص من اللہ ہونا اور دسرا نکتہ اماموں کا علم لدنی سے لبریز ہونا ہے۔ امام صادقؑ نے شیعہ فقہ کی تدوین کی۔
کتاب کا فارسی ترجمہ ترجمہ اور اشاعت کتاب ھذا (The Origins and Early Development of Shi'a Islam) سنہ 1976ء میں تالیف ہوئی۔ اس کتاب کو(Longman Group Ltd)پبلشرز نیویارک نے سنہ 1979ء میں اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے (Oxford University Press) (Longman Group United Kingdom) لندن سے شائع کیا۔
سید مسلم عباس زیدی نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا جو «تاریخ تشیع» کے نام سے امامیہ پبلیکیشنز پاکستان لاہور سے چھپ کر منظر عام پر آگئی سنہ 2001 میں ایک دوسری مرتبہ طبع ہوگئی۔ سید محمد تقی آیت اللہی نے سنہ 1980ء میں اس کتاب کا فارسی ترجمہ "تشیع در مسیر تاریخ" کے نام سے کیا۔ 292 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو نشر فرہنگ اسلامی نے وزیری سائز میں نشر کیا۔ سنہ 1985ء میں اس کتاب کی نظرثانی کی گئی اور تقریبا 100 صفحات کے اضافے کے ساتھ تیسری اشاعت منظر عام پر آگئی۔ اور سنہ 2013ء میں اس کا اٹھارواں ایڈیشن شائع ہوا۔