تاریخ کربلائے معلّی و حائر الحسین علیہ السلام

تاریخ کربلائے معلّی و حائر الحسین علیہ السلام

تاریخ کربلائے معلّی و حائر الحسین علیہ السلام

Publication year :

1975

Publish location :

بہار ہندوستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

تاریخ کربلائے معلّی و حائر الحسین علیہ السلام

حائر حسینى کربلا میں حرم امام حسین کے مخصوص محدودے کو کہا جاتا ہے جہاں مسافر کے لئے چار رکعتی نمازیں کامل پڑھنا جائز یا مستحب ہے۔

پہلی دفعہ اس لفظ کو امام صادقؑ نے ایک حدیث میں حرم امام حسین کے مخصوص محدودے کے لئے استعمال فرمایا ہے۔ حائر حسینی کی کمترین مقدار چاروں طرف 22 میٹر بیان کی گئی ہے۔

امام حسینؑ کی قبر مبارک پر پہلا بقعہ مختار ثقفی نے تعمیر کیا۔ عباسی خلفا میں سے ہارون الرشید اور متوکل نے کئی بار حائر حسینی کو ویران کیا۔ متوکل نے حائر حسینی کی زیارت سے شیعوں کو روکنے اور امام حسینؑ کی قبر کی نشان مٹانے کیلئے اس زمین پر ہل چلانے اور پانی کی بندش کا حکم دیا۔

اس مقام کو حائر کہلانے اور اس لفظ کے رائج ہونے کے بارے میں کئی اقوال ہیں من جملہ یہ کہ:جب متوکل عباسی (حکومت 232ـ247ھ) کے حکم سے حائر حسینی کو منہدم کرنے کے لئے یہاں پانی چھوڑ گیا تو پانی قبر کے قریب چاروں طرف رک گیا اور قبر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا(حارَ الماءُ) تو اسی مناسبت سے اس جگہے کو حائر کہا گیا۔ لیکن بعض اس قول کو قبول نہیں کرتے کیونکہ امام صادقؑ نے متوکل عباسی کی پیدائش سے برسوں قبل اس مقام کو حائر کا نام دیا تھا۔

اس سلسلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں مرقد مطہر کے گرد ایک دیوار تعمیر کی گئی اور ظاہرا یہ دیوار بنو امیہ کے دور حکومت میں بنائی گئی تھی تاکہ زائرین کی تلاشی اور ان کی نگرانی کرنے میں آسانی ہو۔

تیسرا قول یہ ہے کہ یہ لفظ ایک رمز اور کوڈ ورڈ تھا جو بنو امیہ کے دور میں زائرین کی نسبت ان کی حساسیت کو کم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ نام اس زمین کے اصل نام کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔

حائر کا استعمال:پہلی بار یہ لفظ امام صادقؑ کی طرف سے زیارت امام حسین کی فضیلت اور آداب کے سلسلے میں بیان ہونے والی ایک حدیث میں، حرم امام حسین کے مخصوص محدودے کے لئے استعمال ہوا۔ اس کے بعد بتدریج یہ لفظ شیعوں کے درمیان رائج ہوا اور مرقد امام حسین اور اس کا مخصوص محدودہ حائر حسین یا حائر حسینی کے نام سے مشہور ہوا۔

حرم حسینی شیعیان اہل بیتؑ کے نزدیک بہت زیادہ حرمت کا حامل ہے۔ ائمۂ شیعہ دشواریوں اور حکام وقت کے شدید دباؤ اور سخت گیریوں کے باوجود کربلا کی فضیلت اور حائر حسینی کی رفیع منزلت بیان کرکے لوگوں کو اس کی زیارت اور تکریم و تعظیم کی رغبت دلاتے تھے۔ متعدد احادیث میں اخروی اجر و ثواب اور حرم امام حسینؑ کی زیارت کے آثار کے علاوہ،حرم میں حاضری کے آداب اور آنجناب کے مزار کی زيارت کی کیفیت بھی تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔

امام حسینؑ کے مزار اقدس پر عمارت کی تعمیر کا تعلق آپؑ کی شہادت کے فورا بعد کے ایام سے ہے اور روایات میں ہے کہ سنہ 65 ہجری تک قبر مطہر پر صندوق رکھا گیا تھا اور اوپر چھت تعمیر کی گئی تھی؛ تاہم بظاہر حائر حسینی پر سب سے پہلا بقعہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقیفہ (مقتول سنہ 67 ہجری) کے زمانے میں ـ امام حسینؑ کی خونخواہی کے لئے شروع کی جانے والی تحریک میں ان کی کامیابی کے بعد ـ (سنہ 66 ہجری) تعمیر ہوا ہے۔ اینٹوں کی اس عمارت پر ایک گنبد بنا ہوا تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔ دوسرے شہدائے کربلا کا مقبرہ عمارت کے باہر واقع ہوا تھا مرقد امام حسینؑ کی زيارت کے آباب و فضائل کے سلسلے میں امام صادقؑ سے منقولہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت آپؑ کے دور تک موجود تھی۔

بعد کے ادوار میں افراد یا حکومتوں نے حرم و حائر میں متعدد تعمیراتی کام کئے، نئے صحن اور رواق تعمیر کئے مسجد تعمیر کی اور مدفن کے لئے صندوق اور ضریح کا اتنظام کیا نیز اطراف حرم بنے ہوئے حصار کی تعمیر نو، احاطے میں پتھروں کے بنے ہوئے فرش کی تبدیلی، گنبد کی مرمت اور اسے سونے کا پانی دینا، میناروں، دیواروں اور رواقوں کی سونے، کاشی (ٹائل) اور آئینوں کی ٹکڑیوں سے تزئین اور حرم کے لئے قالینوں کے تحائف دینا اور اس کے لئے پانی کا مخزن تعمیر کرنا، ان کے ان اقدامات میں سے ہیں۔

حائر حسینی کی تعمیر یا انہدام کے سلسلے میں حکومتوں کی روشیں یکسان نہ تھیں۔ مثال کے طور پر امویوں کے دور زائرین امام حسینؑ کے خلاف تشدد آمیز رویوں اور سخت گیریوں کے باوجود حائر کو کبھی منہدم نہیں کیا گیا لیکن بعض عباسی خلفاء، منجملہ ہارون الرشید اور متوكل عباسی، نے کئی بار حائر پر تعمیر شدہ عمارت کو منہدم کیا تاکہ امام حسینؑ کی قبر کے آثار مٹ جائیں اور لوگ وہاں زيارت کے لئے نہ آئیں۔ متوکل نے اس غرض سے حکم دیا ہے حائر کی زمین میں ہل چلایا جائے اور مقبرے پر پانی چھوڑ دیا جائے۔ ان کے مقابلے میں آل ‌بویہ، جلائریہ، صفویہ اور قاجاریہ کے ادوار میں حرم حسینی کی توسیع و تزئین کے لئے بنیادی اقدامات عمل میں لائے گئے۔ تخریب و انہدام کا تازہ ترین اقدام اس وقت انجام پایا جب وہابیوں نے سنہ 1216 ہجری میں کربلا پر حملہ کیا۔ اس حملے میں شہر کے باشندوں اور زائرین حسینی کا قتل عام کیا گیا، حائر حسینی کو منہدم کیا گیا اور اموال کو لوٹ لیا گیا۔ محمد سماوى (متوفٰى 1371 ہجری) اپنی کتاب "مجالى اللُطف بأرض الطَّف"، نے حائر حسینی کی تخریب و تعمیر کے مختلف مراحل کو منظوم کیا ہے۔

ائمۂ معصومینؑ کی طرف سے حائر حسینی کی تعظیم و تکریم پر تاکید اور مستنصر عباسى (حکومت: 247 تا 248 ہجری) کے دور میں کسی حد تک زیارت امام حسینؑ کی آزادی، کے باعث علویوں میں سے ایک جماعت نے حائر حسینی کے ارد گرد سکونت اختیار کی جن میں سے پہلے امام کاظمؑ کے پوتے ابراہیم مُجاب، بن محمد عابد تھے۔ ابراہیم مجاب کا مزار حرم کے مغربی رواق میں ہے۔ ان کے بیٹے محمد حائری کربلا کے خاندان سادات آل فائز کے مورث اعلی ہیں اور اس خاندان کے بعض افراد حرم حسینی کے متولی بھی رہے ہیں۔

اس تحقیق کے مختلف ابواب میں جو کچھ تاریخ کربلائے معلّی و حائر الحسین علیہ السلام کے سلسلے سامنےاسے پیش کردیا گیا ہے، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔