طب الصادقؑ

طب الصادقؑ

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

طب الصادقؑ

جو طبابت اِس کتابت میں موضوع گفتگو ہے اس سے وہ طبابت مقصود ہے، جس میں جسم و روح دونوں کے عوارض سے بحث ہوتی ہے۔ اِس لئے کہ آدمی دو چیزوں ’روح اور جسم‘ سے مرکب ہے اور ہر ایک کی سلامتی اور بیماری ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا اِنسان صحیح و سالم وہ ہے جو دونوں حیثیت سے سلامتی رکھتا ہو۔۔۔۔! اگر کوئی حقیقی طبیب ہونا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بذریعہ معالجہ اِنسانیت کی خدمت انجام دے تو اُس کو جسم وروح دونوں کا طبیب ہونا چاہئے۔ یعنی رنج و غَم و اَندوہ روحانی کا بھی معالج ہو جس طرح عوارضات جسمانی کا جو طبیب روحانی علاج سے ناواقف ہے اگر وہ روحانی امراض کا مُسہل سے علاج کرے گا تو ظاہر ہے کہ مریض کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یا مثلًا فِکر و خیال وناراحتی روح کی وجہ سے اگر کسی کو نیند نہیں آتی اور پریشان ہے تو اس کو خواب آور گولیاں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتیں بجز قدرے سُلا دینے کے۔اِسی طرح اگر بیخوابی اَمراض جسمانی کی وجہ سے ہے۔ تو روحانی علاج اور پند و نصائح مفید، اسکو کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے۔ لہٰذا طبیب کامل اور حاذِق وہی ہو سکتا ہے۔ جو جسمانی اور روحانی تمام امراض اور انکے علاج سے واقف ہو اور ایسا طبیب سوائے برگزیدگانِ خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اِسلام میں روح وبدن اگرچہ دوجداگانہ چیزیں ہیں لیکن ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کی سلامتی دوسرے کی سلامتی پر موقوف ہے۔ اسلام کے رہبروپیشواوٴں نے آپ کو طبیبِ روحانی کی صورت میں اگرچہ پیش کیا مگر وہ طبیبِ جسمانی بھی تھے۔ ان کے طبیبِ جسمانی ہونے کا ایک یہ نمونہ ہی ثبوت کے لئے کافی ہے کہ انھوں نے پاکیزگی و طہارتِ بدن کے لئے وضو۔غسل اور تیمّم مختلف نجاستوں س پاک ہونے کو لازمی قرار دیا۔ تاکہ اَعضاءِ ظاہری گرد و غبار سے آلودہ ہو کر مُضر صحت نہ بنیں۔ انبیاء جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے رہبر بن کر آئے۔ اُنکا اصلی مقصد صرف یہ تھا کہ انسان کو آموزگار اَخلاق و دِین بَن کر روحانیت کی اِرتقائی منازل طے کرائیں۔ کیونکہ انسان اگرچہ جسم و روح کا مرکب ہے لیکن درحقیقت اِنسانیت روح کا نام ہے اور جسم ایک آلہ رُوح ہے۔ انبیاء نے سلامتیِ بدن کی طرف توجہ صرف اس حد تک دی ہے کہ صحتِ جسم، صحتِ روح کا باعث بن کر روحانی منازل طے کر سکے۔ درحقیقت اَنبیاء اَطباء اَرواح و عقول ہیں کیونکہ عقل و دِل بھی جسم کی طرح ہوتے ہیں۔ پیغمبرِ اِسلام کا قول(ارشاد) ہے ۔ انّ ھٰذا القلوب تمل کم تمل الا بدان۔ یعنی یہ دِل بھی بدن کی طرح بیمار ہوتے ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ اسلام کا اِرشاد ہے۔ بدن کی چھ(۶)حالتیں ہیں۔ صحت، مرض،خواب،بیداری،مَوت اور حیات۔ اور اسی طرح رُوح کے واسطے صحت اسکا یقین ہے۔ مرض شک یا تردید ہے۔ خواب اِسکی غفلت ہے،بیداری توجہ ہے۔ موت نادانی ہے۔ حیات دانش ہے۔

اِمام رَہبر دیں، و رَہنما ءِ اَرواح ہے

اگرچہ اس کتاب میں طبِ جسمانی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بحث کی گئی ہے لیکن مقصودِ امام بھی یہی ہے کہ تن آلہ کا رُوح ہے، رُوح کی کارفرمائی کے لئے جسم کا صحیح ہونا ضروری ہے․ تاکہ روح اور عمل میں اِرتباط قائم رہے ورنہ دین کی طبابت کا مقصد عقل کی سلامتی ہے۔ کیونکہ اِنسان کا مکلف ہونا عقل پر موقوف ہے۔ اور عقل ہی کی وجہ سے اِنسان اشرف المخلوقات ہے۔ اِس لئے وہ معالجات جو عقل کو ضعیف یا فنا کر دیتے ہیں، اِسلام میں وہ مَوت کے مساوی ہیں۔ دین اجازت نہیں دیتا کہ انسان مر جائے اگرچہ ایک لمحہ ہی کی موت ہو یعنی عقل جو حیات ہے اِس کو زائل کر دے۔ اسی لئے اسلام شراب و قمار اور ہوس رانیوں کے خلاف ہے کیونکہ یہ دُشمنِ عقل یعنی دُشمنِ حیات ہیں۔