غدیر؛قرآن،حدیث اور ادب میں ج۱

غدیر؛قرآن،حدیث اور ادب میں ج۱

غدیر؛قرآن،حدیث اور ادب میں ج۱

Publish number :

1

Publication year :

2012

Publish location :

لاہور پاکستان

Number of volumes :

11

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

غدیر؛قرآن،حدیث اور ادب میں ج۱

الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، جو الغدیر کے نام سے معروف ہے عربی زبان میں لکھی گئی ایک ایسی کتاب ہے جسے واقعہ غدیر خم میں امام علی(ع) کی امامت و خلافت بلافصل کی اثبات کیلئے علامہ عبدالحسین امینی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب 11 جلدوں میں مرتب ہوئی ہے جس کی پہلی جلد میں حدیث غدیر پر تحقیق کی گئی ہے۔ علامہ امینی حدیث غدیر کو پیغمبر(ص) سے منقول احادیث میں سب سے یقینی اور متواترترین حدیث قرار دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ اس حدیث کی سند کو اہل سنت منابع سے صحابہ و تابعین سے لے کر چودویں صدی کے علماء تک ذکر کرتے ہیں۔ اس کتاب کی پہلی جلد میں آپ نے پہلے اس حدیث کو نقل کرنے والے ۱۱۰ صحابی اور ۸۴ تابعی کا نام ذکر کرتے ہیں۔ علامہ امینی نے بعد والے ۶ جلدوں میں غدیر پر شعر لکھنے والے شاعروں کی معرفی کرتے ہوئے ان کے اشعار کو بیان کیا ہے۔ آخری جلدوں میں بھی شاعروں کی معرفی کے علاوہ بعض شیعہ اور سنی اختلافات جیسے خلفائے ثلاثہ کے مقام و منزلت اور شیعوں کا ان پر اعتراضات فدک، ایمان ابوطالب، معاویہ بن ابوسفیان کے رفتار و کردار کی توجیہ وغیرہ کو بھی ذکر کیا ہے۔

علامہ امینی اس کتاب کو لکھنے کی خاطر مختلف ممالک کی لائبریریوں من جملہ ہندوستان، مصر اور شام وغیرہ کا سفر کیا ہے. الغدیر کے مصنف فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لاکھ سے زائد کتابوں کی طرف مراجعہ اور دس ہزار سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کیا ہے. الغدیر کی کتابت پر ۴۰ سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔الغدیر کے بارے میں کئی کتابیں اور تھیزز لکھے گئے ہیں۔ اسی طرح الغدیر میں پیش کیے گئے موضوعات کو 27 جلدوں پر مشتمل مجموعے کی صورت میں بھی منظر عام پر لایا گیا ہے۔

"الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب" سے مراد قرآن، سنت اور ادب کی روشنی میں غدیر کی تحقیق ہے۔ اس کتاب کیلئے اس عنوان کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ جو شخص حدیث غدیر اور اس سے متعلق امور کا منکر ہے حقیقت میں وہ قرآن، سنت،ادب، تاریخ اور عربی اشعار کے مجموعے کا منکر ہے۔ کیونک مؤلف نے مذکورہ تمام منابع سے مدلل اور متقن قرائن و شواہد کے ساتھ اپنے مدعا کو ثابت کیا ہے۔

کتاب "الغدیر" میں مسلمانوں کے تقریبا ۱۵۰ سے زائد اہم‌ ترین کتابوں سے مطالب جمع آوری کئے گئے ہے، جنہوں نے مختلف علمی شعبوں میں افراد کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کے بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کئے ہیں۔ اور خود اہل سنت کے معیار کے مطابق ان مطالب کی چھان بین کی گئی ہے یہاں تک کہ یہ کہنے میں کوئی مضایقہ نیہں ہے کہ الغدیر کے مصنف نے ایک طرح سے علوم کو دوبارہ زندہ کیا ہے اور مسلمانوں کی عمومی لائبریریوں کی تصحیح کی توفیق شامل حال ہوئی ہے۔ کیونکہ قدیم اور معاصر علماء کے 150 سے زائد علمی خزانوں، تاریخ طبری سے لے کر احمد امینی کی کتاب فجر الاسلام تک ہمیں دیگر سینکڑوں اور ہزاروں مسائل کے حل کیلئے معیار اور میزان عطا کرتی ہیں۔

پہلی جلد

مصنف نے اس جلد میں حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد پیغمبر(ص) کے صحابہ میں سے ۱۱۰ نامور صحابہ کے نام لئے ہیں جنہوں نے اس حدث کو نقل کیا ہے. اور ان میں سے ایک ایک کا نام اہل سنت منابع سے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

صحابہ کے نام کے بعد تابعین میں سے بھی ۸۴ افراد کا نام لیتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ اس کے ضمن میں اہل سنت کے ان علماء کا نام بھی لیتے ہیں جنہوں نے اپنی رجال کی کتابوں میں ان کا نام ذکر کیا ہے۔

تابعین کے بعد اس حدیث کو نقل کرنے والے علماء میں دوسرے صدی ہجری قمری سے لے کر چودہویں صدی تک کے ۳۶۰ علماء کا نام ذکر کرتے ہیں۔

کتاب کی دوسری فصل میں ایسے مصنفین کا نام لیتے ہیں جنہوں نے حدیث غدیر پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ کتاب کی تیسری فصل میں حدیث غدیر پر ہونے والے اعتراضات کا ذکر کیا ہے۔ حدیث غدیر کے بارے میں قرآن کی آیات کا تذکرہ اس جلد کے بعد والے مباحث میں شامل ہیں۔ اس کے بعد عید غدیر اور ابوبکر، عمر اور دوسرے صحابہ کا امام علی(ع) کو بعنوان جانشین پیغمبر(ص) مبارک باد پیش کرنے کی داستان اور اہل بیت(ع) کے ہاں اس عید کی شان و منزلت پر بحث کی ہے اس کے بعد عید غدیر کے بارے میں بعض اہل سنت دانشمندوں کے کلمات کو ذکر کرنے کے ساتھ حدیث غدیر کی سند کے بارے میں بحث کی ہے۔

کتاب کے آخری مطالب کو اس حدیث کے معنی اور اس کے مفہوم کے ساتھ مختص کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے مصنف نے بعض اہل سنت دانشمندوں کی طرف سے پیش ہونے والے اعتراضات کو بیان کرکے مختلف قرائن و شواہد کی بنا پر اس حدیث کی دلالت کو شیعوں کی مدعا پر واضح اور آشکار طور پر بیان فرماتے ہیں۔

دوسری جلد

الغدیر کی دوسری جلد غدیر سے مربوط اشعار کے ساتھ مختص ہے۔ مصنف نے سب سے پہلے قرآن و سنت کی رو سے شعر اور شاعری کی شان و منزلت پر بحث کی ہے۔ اس کے بعد پہلی صدی ہجری کے ان شاعروں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے غدیر کے حوالے سے شعر کہے ہیں۔ اس باب میں امیرالمؤمنین(ع)، حسان بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہ، عمرو بن عاص اور محمد بن عبداللہ حمیری وغیرہ کو متقن تاریخی اسناد کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔

اس کے بعد دوسری صدی ہجری کے شاعروں کا نام لیتے ہیں جنہوں نے غدیر کے بارے میں اشعار لکھے یا کہے ہیں ان میں کمیت، سید حمیری، عبدی کوفی وغیرہ کا نام سر فہرست ہیں اس کی بعد تیسری صدی ہجری کے شاعروں میں ابوتمام طائی اور دعبل خزاعی کا نام لیتے ہیں۔

تیسری جلد

الغدیر کی تیسری جلد کے آغاز میں تیسری صدی ہجری کے شاعروں کے نام کے بقیہ حصے کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کے بعد موقع کی مناسبت سے اسلام کی بارے میں بعض مستشرقین کے آثار پر تنقید کرتے ہیں۔  اس کے بعد ابن رومی اور افوہ حمانی کے تذکرے کے ساتھ تیسری صدی ہجری کے شاعروں کے نام کو جاری رکھتے ہیں۔ آگے چل کر بعض اہل سنت علماء کی اعتراضات کو مد نظر رکھتے ہوئے زید شہید کے بارے میں شیعہ نقطہ نظر پر گفتگو کرتے ہیں۔

بحث کو جاری رکھتے ہوئے، مصنف بعض اہل سنت علماء کی طرف سے شیعوں پر لگائے جانے والی بعض تہمتوں کو مستند طور پر بیان کرتے ہوئے اہل بیت(ع) کے فضائل، قرآن، تحریف قرآن اور متعہ جیسے امور پر مفصل بحث کرتے ہیں۔

اس جلد کے دوسرے مباحث میں چوتھی صدی ہجری کے شاعروں کا نام لیتے ہیں جن میں ابن طباطبا اصفہانی، ابن علویہ اصفہانی، مفجّع، ابوالقاسم صنوبری، قاضی تنوخی، ابوالقاسم زاہی، ابوفراس حمدانی کا نام سر فہرست ہیں۔

چوتھی جلد

الغدیر کی چوتھی جلد میں بھی چوتھی صدی ہجری کے شاعروں کے نام کے ساتھ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے شاعروں کا نام بھی بیان فرماتے ہیں۔ ان میں ابوالفتح کشاجم، صاحب بن عباد، شریف رضی، شریف مرتضی، ابوالعلاء معرّیاور خطیب خوارزمی جیسے نامور شعرا کا نام دیکھنے میں آتا ہے۔

پانچویں جلد

پانچویں جلد میں پانچویں صدی ہجری کے بقیہ شاعروں کے نام کے ساتھ دیگر مطالب بھی زیر بحث لاتے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:حدیث رد الشمس،نماز ہزار رکعت،اسلام میں محدّث،شیعہ ائمہ کا علم غیب،جنازوں کا مشاہد مشرفہ میں لے جانا،زیارت،جعل حدیث۔

مصنف نے ان تمام مباحث کو اہل سنت منابع سے مدلل بیان فرماتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ بعض اہل سنت علماء کی طرف سے لگائے جانے والی بعض تہمتوں کا بھی جواب دیتے ہیں۔

چھٹی جلد

الغدیر کی یہ جلد آٹھویں صدی ہجری کے شعراء پر مشتمل ہے جن میں امام شیبانی شافعی، شمس الدین مالکی اور علاء الدین حلی قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اس جلد میں مطرح ہونے والے دوسرے موضوعات میں عمر بن خطاب کا علم اور مختلف قضاوتوں میں اس کے اشتباہات کو خود اہل سنت منابع کی روشنی میں تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہی مطالب کے ضمن میں عمر کا دو متعوں (متعہ حج اور عورت کے ساتھ متعہ) کو حرام قرار دینے کے واقعے کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

ساتویں جلد

الغدیر کی یہ جلد نویں صدی ہجری کے شاعروں کے ناموں سے آغاز ہوتا ہے۔ اس کے بعد ابوبکر کے فضائل کے بارے میں موجود مبالغوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں ابوبکر کے دین کے حوالے سے علم و آگاہی پر بحث کرتے ہوئے فدک کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

اس جلد کے آخری مباحث، ایمان ابوطالب پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اپنے مدعا کے اوپر مختلف مستندات ذکر کئے ہیں جن میں اشعار، دوسروں کی گفتگو، ابوطالب کے کارناموں اور ان کے بارے میں معصومین کی احادیث کو بیان فرمایا ہے۔

آٹھویں جلد

اس جلد کا آغاز ایمان ابوطالب کی بحث کے ادامے سے ہوتا ہے اس حوالے سے بعض شبہات کا قرآن کی روشنی میں جواب دیتے ہیں۔ آگے چل کر ایمان ابوطالب کی بحث کو حدیث ضحضاح کے ساتھ ادامہ دیتے ہیں۔

اس جلد کے بقیہ مباحث میں ابوبکر کے فضائل کے حوالے سے موجود بعض دیگر مبالغوں کو بیان کرنے کے ساتھ عمر کے بارے میں موجود مبالغوں پر بھی بحث کرتے ہیں۔اس کی بعد عثمان کے بارے میں موجود مبالغوں پر بحث کے دوران اس کے علم و دانش اور اس کے زمانے میں بیت المال میں سے اپنے اقرباء اور رشتہ داروں کو دئے جانے والے بذل و بخششوں پر بحث کرتے ہوئے آخر کار ابوذر کی ربذہ کی طرف جلاوطنی پر بحث کرتے ہیں۔

نوبں جلد

اس جلد میں عثمان کے فضائل پر بحث کو جاری رکھتے ہوئے اس کے زمانے میں ابن مسعود اور عمار اور کوفہ کے بعض بزرگوں کی شام کی طرف جلاوطنی پر بحث کرتے ہیں۔ اس کے بعد بعض صحابہ پیغمبر(ص) کا عثمان کے بارے میں نظریات اور آخر کار عثمان کے قتل کی بحث کے ساتھ اس جلد کا اختتام ہوتا ہے.

دسویں جلد

خلفاء ثلاثہ کی فضائل پر مشمتل مباحث، الغدیر کی دسویں جلد کی ابتدائی مباحث کو تشکیل دیتی ہیں۔ آگے چل کر ابن عمر و اور اسکے بعض ناروا سلوک کے ضمن میں اس یزید کی بیعت پر بحث کرتے ہیں۔

معاویہ کے بارے میں موجود مبالغوں او، اس کے اشتباہات، بدعتیں، جنایتیں اور دیگر کارناموں منجملہ امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کی ساتھ جنگ اور حکمیت جیسے مطالب اس جلد کے دوسرے مباحث میں شامل ہیں۔

گیارہویں جلد

اس جلد کا آغاز معاویہ کا امام حسن مجتبی(ع) کے ساتھ سلوک سے ہوتا ہے۔ اسی طرح اس میں معاویہ کا شیعیان امیرالمؤمنین(ع) کے ساتھ برتاؤ اور معاویہ کا حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کے اوپر انجام دینے والی ظلم و ستم کے بارے میں بھی بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد معاویہ کی جھوٹی فضیلتوں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے دوسرے افراد کے بارے میں موجود خود ساختہ غلو آمیز داستانوں کو بھی ذکر کیا ہے۔

غدیر کے بارے میں شعر کہنے والے نوبں صدی سے لے کر بارہویں صدی ہجری تک کے شاعروں کا تذکرہ بھی اسی جلد میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس جلد کے آخر میں مصنف بارہویں جلد کی نوید بھی سناتا ہے جو غدیر کے دوسرے شعراء کے اسامی پر مشتمل ہوگا۔ لیکن آپ کی وفات نے آپ کو اس کام کی مہلت نہیں دی۔

الغدیر کی اہمیت

محققین اور منتقدین، الغدیر کو مختلف اسلامی علوم جیسے تاریخ، کلام، حدیث، درایہ، رجال، تفسیر، تاریخ نزول، تاریخ ادبیات غدیر، نقد، تصحیح، کتابشناسی وغیرہ پر مشتمل ایک انسائکلوپیڈیا قرار دیتے ہیں جو اپنی مخصوص و منظم ترتیب، بہترین اور دیدہ زیب آفسٹ، حکیمانہ منطق، شاعرانہ نثر، بیشبہا مآخذ، محکم اور حماسی بیان، بے پناہ شوق اور جذبہ اور مدلل مطالب پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔

اس کتاب میں ایسے عمدہ مسائل مطرح ہوئی ہیں کہ ایک مورخ اسلام اور اسلام شناس کیلئے ان مسائل سے آگاہی کے بغیر اس کا کام کامل تصور نہیں کیا جاتا۔ مثلا اگر کوئی ماہر "علم الحدیث" اس علم کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہو لیکن الغدیر کی پانچویں جلد میں (سلسلۃ الکذابین والوضاعین) کا مطالعہ نہ کیا ہو یا ملل و نحل کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہو لیکن الغدیر کی تیسری جلد کا مطالعہ نہ کیا ہو یا تشیع کی مبانی اور مبادی سے بحث کرنا چاہتا ہو لیکن الغدیر کی پہلی، دوسری اور ساتویں جلد کا مطالعہ نہ کیا ہو تو بغیر کسی شک کے اس کا کام ادھورہ رہ جائے گا اور کامل نہیں ہوگا۔