فلسفہ تقیّہ

فلسفہ تقیّہ

فلسفہ تقیّہ

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

فلسفہ تقیّہ

شیعوں اور اہلسنت حضرات کے درمیان تقیّہ سے زیادہ کوئی مسئلہ سوء تفاہم کا باعث نہیں اور اہل سنت حضرات کی نظروں میں تقیّہ سے زیادہ کوئی دوسرا مسئلہ خفا میں نہیں، ہمارے سنّی بھائی ہمیشہ شیعوں سے یہی کہتے ہیں کہ آپ جس قدر چاہیں اپنے عقیدے کی وضاحت کریں اور جتنا چاہیں کہیں کہ ہم قرآن میں کسی تحریف کے قائل نہیں اور ہمارے تمام گھروں اور شہروں میں قرآن موجود ہے اور وہی قرآن ہے جو دوسرے مسلمانوں کے پاس ہے لیکن ہم آپ کی اس بات پر یقین نہیں کرسکتے  اس لیے کہ ممکن ہے کہ آپ اس میں تقیہ سے کام لے رہے ہوں چونکہ تقیہ آپ کے نزدیک اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔

یہ صورت حال اس امر کی غمّازی کرتی ہے کہ اہل سنت حضرات کماحقّہ تقیہ کے معنی اور مفہوم سے آگاہ نہیں اور یہ کہ تقیہ کا ان کے نزدیک کوئی اور مفہوم ہے، نیز یہ کہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ تقیہ کی بنیاد قرآن و سنت ہے، کلام خدا میں صریح آیتیں اس پر دلالت کرتی ہیں اور سنت پیغمبرﷺ میں بھی تقیہ مشہور ہے اور آنحضرت کے برجستہ صحابیوں نے اس قانون پر عمل کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تقیہ کا انکار قرآن و سنت کا انکار ہے، تقیہ کا وجود یہ صرف قرآن و سنت میں ہے بلکہ دنیا بھر کے عقلمندوں کے نزدیک تقیہ ایک جانی پہچانی عقلی اصل(روش) ہے اور انسانیت کے ہر سماج میں اس کا وجود شاہد ہے۔

اس کتاب کا مقصد انہی مسائل کو واضح کرنا ہے، مقصد یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون یعنی تقیّہ اپنے صحیح روپ میں دنیا کے سامنے روشن ہوجائے تاکہ صحیح اور تحریف شدہ تقیہ کے نفہوم میں تمیز کی جاسکے اور اہل سنت حضرات جو شیعوں کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہیں اس کا ازالہ ہوسکے۔ گویا یہ کتاب اتمامِ حجت ہے اسکے مطالعے کے بعد کسی کے پاس خداوندعالم کی بارگاہ میں کوئی عذر نہیں رہ جاتا کہ وہ اہلبیت علیہم السلام کے ماننے والوں پر اعتراض کرے اور بلا وجہ کیچڑ اچھالے اس لیے کہ اس کتاب میں تقیہ کے صحیح معنی قرآن مجید اور تاریخ و احادیث میں اس پر دلالت کرنے والی آیتوں اور روایتوں پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

زیر نظر کتاب میں تقیہ کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اصل کتاب میں اگرچہ تقیہ کو ایک فقہی قاعدے کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود تقیّہ کے علل و اسباب کو بھی بیان کیا گیا ہے اور بے موقع و محل کی جانے والی الزام تراشیوں کا دفاع بھی ہے۔ تاریخ و حدیث سے تقیّہ کے متعدد نمونے پیش کیے گئے ہیں اور قرآن کی کئی آیات سے استدلال و استنباط کیا گیا ہے۔

دین اور دیانت کے پابند روشن فکر مسلمانوں سے ہ توقع ہے کہ اتنے حوالے اہل سنت کی تفاسیر میں ملاحظہ فرمانے کے بعد تقیّہ کا بہانہ بناکر خالص اسلام کے مخلص ماننے والوں کو برابھلا نہیں کہیں گے بلکہ ان کی روشن دلیلوں کے ذریعہ راہ حق اور صراط مستقیم پر چلنے کی کوشش کریں گے۔ ممکن ہے کہ بعض ذہنوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے کہ اس کتاب کا مقصد اہل سنت حضرات کو ان کے مذہب سے بدّدل کرنا ہے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے عرض ہے کہ کتاب کا مقصد کسی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہرگز نہیں بلکہ اس کا مقصد حق کو واضح کرنا ہے وگرنہ جب یہ کتاب نہیں لکھی گئی تھی تب بھی لوگ شیعہ مذہب اختیار کرتے رہے ہیں اور آئیندہ بھی کرتے رہیں گے، اس کتاب سے اصل غرض یہ ہے کہ علمائے اسلام اپنی فکری صلاحیتوں کو ان فرعی مسائل میں الجھاکر بباد نہ کریں بلکہ انھیں اپنے مشترکہ دشمن کے ظاہری اور باطنی ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے استعمال کریں اسی طرح جو لوگ اہل تحقیق اور حق جو ہیں ان کو کھلی آزادی دیں تاکہ وہ فتوؤں کے خوف سے بے خطر ہوکر وادئ تحقیق میں قدم رکھیں اور قست کا فیصلہ خود کریں۔

خداوند متعال ہم سب کو اسلامی قوانین اور سنّتِ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، خداوند متعال ہم سب کو دین اسلام اور مستضعفین و بےچارے مسلمانوں کی حمایت میں اپنی فکری اور عملی توانائیوں کو صرف کرنے کی توفیق عطافرمائے۔